حدثنا يونس ، حدثنا ليث ، عن يزيد يعني ابن ابي حبيب ، عن ابي بكر بن إسحاق بن يسار ، عن عبد الله بن عروة ، عن عروة ، عن عائشة ، قالت: لما قدم النبي صلى الله عليه وسلم المدينة، اشتكى اصحابه، واشتكى ابو بكر وعامر بن فهيرة مولى ابي بكر، وبلال، فاستاذنت عائشة النبي صلى الله عليه وسلم في عيادتهم، فاذن لها، فقالت لابي بكر: كيف تجدك؟ فقال: كل امرئ مصبح في اهله، والموت ادنى من شراك نعله، وسالت عامرا، فقال: إني وجدت الموت قبل ذوقه، إن الجبان حتفه من فوقه، وسالت بلالا، فقال: يا ليت شعري هل ابيتن ليلة بفخ وحولي إذخر وجليل، فاتت النبي صلى الله عليه وسلم، فاخبرته بقولهم، فنظر إلى السماء، وقال: " اللهم حبب إلينا المدينة، كما حببت إلينا مكة، او اشد، اللهم بارك لنا في صاعها، وفي مدها، وانقل وباءها إلى مهيعة" ، وهي الجحفة كما زعموا.حَدَّثَنَا يُونُسُ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ يَزِيدَ يَعْنِي ابْنَ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: لَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، اشْتَكَى أَصْحَابُهُ، وَاشْتَكَى أَبُو بَكْرٍ وَعَامِرُ بْنُ فُهَيْرَةَ مَوْلَى أَبِي بَكْرٍ، وَبِلَالٌ، فَاسْتَأْذَنَتْ عَائِشَةُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عِيَادَتِهِمْ، فَأَذِنَ لَهَا، فَقَالَتْ لِأَبِي بَكْرٍ: كَيْفَ تَجِدُكَ؟ فَقَالَ: كُلُّ امْرِئٍ مُصَبَّحٌ فِي أَهْلِهِ، وَالْمَوْتُ أَدْنَى مِنْ شِرَاكِ نَعْلِهِ، وَسَأَلَتْ عَامِرًا، فَقَالَ: إِنِّي وَجَدْتُ الْمَوْتَ قَبْلَ ذَوْقِهِ، إِنَّ الْجَبَانَ حَتْفُهُ مِنْ فَوْقِهِ، وَسَأَلَتْ بِلَالًا، فَقَالَ: يَا لَيْتَ شِعْرِي هَلْ أَبِيتَنَّ لَيْلَةً بفَخًًًّ وَحَوْلِي إِذْخِرٌ وَجَلِيلُ، فَأَتَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَتْهُ بِقَوْلِهِمْ، فَنَظَرَ إِلَى السَّمَاءِ، وَقَالَ: " اللَّهُمَّ حَبِّبْ إِلَيْنَا الْمَدِينَةَ، كَمَا حَبَّبْتَ إِلَيْنَا مَكَّةَ، أو َأَشَدَّ، اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي صَاعِهَا، وَفِي مُدِّهَا، وَانْقُلْ وَبَاءَهَا إِلَى مَهْيَعَةَ" ، وَهِيَ الْجُحْفَةُ كَمَا زَعَمُوا.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہ بیمار ہوگئے، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ان کے آزاد کردہ غلام عامر بن فہیرہ اور بلال رضی اللہ عنہ بھی بیمار ہوگئے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان لوگوں کی عیادت کے لئے جانے کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی، انہوں نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ اپنی صحت کیسی محسوس کررہے ہیں؟ انہوں نے یہ شعر پڑھا کہ " شخص اپنے اہل خانہ میں صبح کرتا ہے جبکہ موت اس کی جوتی کے تسمے سے بھی زیادہ اس کے قریب ہوتی ہے۔ " پھر میں نے عامر رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انہوں نے یہ شعر پڑھا کہ " کہ موت کا مزہ چکھنے سے پہلے موت کو محسوس کررہا ہوں اور قبرستان منہ کے قریب آگیا ہے۔ " پھر میں نے بلال رضی اللہ عنہ سے ان کی طبیعت پوچھی تو انہوں نے یہ شعر پڑھا کہ " ہائے! مجھے کیا خبر کہ میں دوبارہ " فخ " میں رات گذار سکوں گا اور میرے آس پاس " اذخر " اور " جلیل " نامی گھاس ہوگی۔ " حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئیں اور ان لوگوں کی باتیں بتائیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کی طرف دیکھ کر فرمایا اے اللہ! مدینہ منورہ کو ہماری نگاہوں میں اسی طرح محبوب بنا جیسے مکہ کو بنایا تھا، بلکہ اس سے بھی زیادہ، اس سے بھی زیادہ، اے اللہ! مدینہ کے صاع اور مد میں برکتیں عطاء فرما اور اس کی وباء کو حجفہ کی طرف منتقل فرما۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف أبى بكر بن إسحاق بن يسار