حدثنا الحكم بن موسى ، حدثنا عبد الرحمن بن ابي الرجال ، قال ابي يذكره عن امه ، عن عائشة ، قالت: دخلت امراة على النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت: اي بابي وامي، إني ابتعت انا وابني من فلان ثمر ماله، فاحصيناه وحشدناه، لا والذي اكرمك بما اكرمك به، ما اصبنا منه شيئا إلا شيئا ناكله في بطوننا، او نطعمه مسكينا رجاء البركة، فنقصنا عليه، فجئنا نستوضعه ما نقصنا، فحلف بالله لا يضع لنا شيئا، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " تالى لا اصنع خيرا!"، ثلاث مرار، قال: فبلغ ذلك صاحب الثمر، فجاءه، فقال: اي بابي وامي، إن شئت وضعت ما نقصوا، وإن شئت من راس المال ما شئت؟ فوضع ما نقصوا . قال ابو عبد الرحمن وسمعته انا من الحكم.حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الرِّجَالِ ، قَالَ أَبِي يَذْكُرُهُ عَنْ أُمِّهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: دَخَلَتْ امْرَأَةٌ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: أَيْ بِأَبِي وَأُمِّي، إِنِّي ابْتَعْتُ أَنَا وَابْنِي مِنْ فُلَانٍ ثَمَرَ مَالِهِ، فَأَحْصَيْنَاهُ وَحَشَدْنَاهُ، لَا وَالَّذِي أَكْرَمَكَ بِمَا أَكْرَمَكَ بِهِ، مَا أَصَبْنَا مِنْهُ شَيْئًا إِلَّا شَيْئًا نَأْكُلُهُ فِي بُطُونِنَا، أَوْ نُطْعِمُهُ مِسْكِينًا رَجَاءَ الْبَرَكَةِ، فَنَقَصْنَا عَلَيْهِ، فَجِئْنَا نَسْتَوْضِعُهُ مَا نَقَصْنَا، فَحَلَفَ بِاللَّهِ لَا يَضَعُ لَنَا شَيْئًا، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تَأَلَّى لَا أَصْنَعُ خَيْرًا!"، ثَلَاثَ مِرَارٍ، قَالَ: فَبَلَغَ ذَلِكَ صَاحِبَ الثَّمْرِ، فَجَاءَهُ، فَقَالَ: أَيْ بِأَبِي وَأُمِّي، إِنْ شِئْتَ وَضَعْتُ مَا نَقَصُوا، وَإِنْ شِئْتَ مِنْ رَأْسِ الْمَالِ مَا شِئْتَ؟ فَوَضَعَ مَا نَقَصُوا . قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ وَسَمِعْتُهُ أَنَا مِنَ الْحَكَمِ.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی کہ میرے باپ، آپ پر قربان ہوں، میں نے اور میرے بیٹے نے فلاں آدمی سے اس کی زمین کے پھل خریدے، ہم نے اس فصل کو کاٹا اور پھلوں کو الگ کیا تو اس ذات کی قسم جس نے آپ کو معزز کیا، ہمیں اس میں سے صرف اتنا ہی حاصل ہوسکا جو ہم خود اپنے پیٹ میں کھا سکے یا برکت کی امید سے کسی مسکین کو کھلا دیں، اس طرح ہمیں نقصان ہوگیا، ہم مالک کے پاس یہ درخواست لے کر گئے کہ ہمارے اس نقصان کی تلافی کردے تو اس نے اللہ کی قسم کھا کر کہا کہ وہ ہمارے نقصان کی کوئی تلافی نہیں کرے گا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کیا اس نے نیکی نہ کرنے کی قسم کھالی؟ اس آدمی کو پتہ چلا تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں، اگر آپ چاہیں تو میں ان کے نقصان کی تلافی کردوں (اور مزید پھل دے دوں) اور اگر آپ چاہیں تو میں انہیں پیسے دے دیتا ہوں، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمائش پر اس نے ان کے نقصان کی تلافی کردی۔
حكم دارالسلام: إسناده حسن لأجل عبدالرحمن بن أبى الرحال