حدثنا حماد بن اسامة ، قال: اخبرنا هشام ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: سحر رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى انه ليخيل له انه يفعل الشيء وما يفعله، حتى إذا كان ذات يوم وهو عندها دعا الله عز وجل ودعاه، ثم قال: " اشعرت ان الله افتاني فيما استفتيته فيه"، قلت: وما ذاك يا رسول الله؟ قال صلى الله عليه وسلم:" جاءني رجلان، فجلس احدهما عند راسي، والآخر عند رجلي، ثم قال احدهما لصاحبه: ما وجع الرجل؟ قال: مطبوب، قال: من طبه؟ قال: لبيد بن الاعصم اليهودي، قال: في ماذا؟ قال: في مشط ومشاطة وجف طلعة ذكر، قال: فاين هو؟ قال: في بئر ذروان"، فذهب النبي صلى الله عليه وسلم إلى البئر، فنظر إليها وعليها نخل، ثم رجع إلى عائشة، فقال:" والله لكان ماءها نقاعة الحناء، ولكان نخلها رؤوس الشياطين"، قلت: يا رسول الله، فاحرقه، قال:" لا، اما انا فقد عافاني الله عز وجل، وخشيت ان اثور على الناس منه شرا" .حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ أُسَامَةَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: سُحِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَنَّهُ لَيُخَيَّلُ لَهُ أَنَّهُ يَفْعَلُ الشَّيْءَ وَمَا يَفْعَلُهُ، حَتَّى إِذَا كَانَ ذَاتَ يَوْمٍ وَهُوَ عِنْدَهَا دَعَا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَدَعَاهُ، ثُمَّ قَالَ: " أَشَعَرْتِ أَنَّ اللَّهَ أَفْتَانِي فِيمَا اسْتَفْتَيْتُهُ فِيهِ"، قُلْتُ: وَمَا ذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" جَاءَنِي رَجُلَانِ، فَجَلَسَ أَحَدُهُمَا عِنْدَ رَأْسِي، وَالْآخَرُ عِنْدَ رِجْلَيَّ، ثُمَّ قَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: مَا وَجَعُ الرَّجُلِ؟ قَالَ: مَطْبُوبٌ، قَالَ: مَنْ طَبَّهُ؟ قَالَ: لَبِيدُ بْنُ الْأَعْصَمِ الْيَهُودِيُّ، قَالَ: فِي مَاذَا؟ قَالَ: فِي مُشْطٍ وَمُشَاطَةٍ وَجُفِّ طَلْعَةِ ذَكَرٍ، قَالَ: فَأَيْنَ هُوَ؟ قَالَ: فِي بِئْرِ ذَرْوَانَ"، فَذَهَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْبِئْرِ، فَنَظَرَ إِلَيْهَا وَعَلَيْهَا نَخْلٌ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى عَائِشَةَ، فَقَالَ:" وَاللَّهِ لَكَأَنَّ مَاءَهَا نُقَاعَةُ الْحِنَّاءِ، وَلَكَأَنَّ نَخْلَهَا رُؤوسُ الشَّيَاطِينِ"، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَحْرِقْهُ، قَالَ:" لَا، أَمَّا أَنَا فَقَدْ عَافَانِي اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَخَشِيتُ أَنْ أُثَوِّرَ عَلَى النَّاسِ مِنْهُ شَرًّا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ بنو زریق کے ایک یہودی " جس کا نام لبید بن اعصم تھا " نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کردیا تھا، جس کے نتیجے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ سمجھتے تھے کہ انہوں نے فلاں کام کرلیا ہے حالانکہ انہوں نے وہ کام نہیں کیا ہوتا تھا، ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کافی دیر تک دعائیں کیں، پھر فرمایا عائشہ! میں نے اللہ سے جو کچھ پوچھا تھا، اس نے مجھے اس کے متعلق بتادیا ہے، میرے پاس دو آدمی آئے، ان میں سے ایک میرے سرہانے کی جانب بیٹھا اور دوسرا پائنتی کی جانب، پھر سرہانے کی جانب بیٹھنے والے نے پائنتی کی جانب بیٹھنے والے سے یا علی العکس کہا کہ اس آدمی کی کیا بیماری ہے؟ دوسرے نے کہا کہ ان پر جادو کیا گیا ہے؟ اس نے پوچھا کہ یہ جادو کس نے کیا ہے؟ دوسرے نے بتایا لبید بن اعصم نے، اس نے پوچھا کہ کن چیزوں میں جادو کیا گیا ہے؟ دوسرے نے بتایا کہ ایک کنگھی میں اور جو بال اس سے گرتے ہیں اور نر کھجور کے خوشہ غلاف میں اس نے پوچھا کہ اس وقت یہ چیزیں کہاں ہیں؟ دوسرے نے بتایا کہ " اروان " نامی کنوئیں میں۔ چنانچہ یہ خواب دیکھنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کچھ صحابہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس کنوئیں پر پہنچے اور واپس آکر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بتایا کہ اے عائشہ! اس کنوئیں کا پانی تو یوں لگ رہا تھا جیسے مہندی کا رنگ ہوتا ہے اور اس کے قریب جو درخت تھے وہ شیطان کے سر معلوم ہو رہے تھے، میں نے عرض کیا یارسول اللہ! آپ نے اسے آگ کیوں نہیں لگا دی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، اللہ نے مجھے عافیت دے دی ہے، اب میں لوگوں میں شر اور فتنہ پھیلانے کو اچھا نہیں سمجھتا، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر ان سب چیزوں کو دفن کردیا گیا۔