مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر

مسند احمد
1170. حَدِيثُ السَّيِّدَةِ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا الفهرس الفرعى
حدیث نمبر: 24269
Save to word اعراب
حدثنا يحيى ، حدثنا سعيد بن ابي عروبة ، عن قتادة ، عن زرارة بن اوفى ، عن سعد بن هشام انه طلق امراته، ثم ارتحل إلى المدينة ليبيع عقارا له بها، ويجعله في السلاح والكراع، ثم يجاهد الروم حتى يموت، فلقي رهطا من قومه، فحدثوه ان رهطا من قومه ستة ارادوا ذلك على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" اليس لكم في اسوة حسنة؟" فنهاهم عن ذلك، فاشهدهم على رجعتها، ثم رجع إلينا، فاخبرنا انه اتى ابن عباس، فساله عن الوتر؟ فقال: الا انبئك باعلم اهل الارض بوتر رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: نعم، قال: ائت عائشة فاسالها، ثم ارجع إلي فاخبرني بردها عليك، قال: فاتيت على حكيم بن افلح، فاستلحقته إليها، فقال: ما انا بقاربها، إني نهيتها ان تقول في هاتين الشيعتين شيئا، فابت فيهما إلا مضيا، فاقسمت عليه، فجاء معي، فدخلنا عليها، فقالت: حكيم؟ وعرفته، قال: نعم، او بلى، قالت: من هذا معك؟ قال: سعد بن هشام، قالت: من هشام؟ قال: ابن عامر، قال: فترحمت عليه، وقالت: نعم المرء كان عامر، قلت: يا ام المؤمنين، انبئيني عن خلق رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قالت: الست تقرا القرآن؟ قلت: بلى، قالت: " فإن خلق رسول الله صلى الله عليه وسلم كان القرآن"، فهممت ان اقوم، ثم بدا لي قيام رسول الله صلى الله عليه وسلم، قلت: يا ام المؤمنين، انبئيني عن قيام رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقالت: الست تقرا هذه السورة يا ايها المزمل، قلت: بلى، قالت:" فإن الله عز وجل افترض قيام الليل في اول هذه السورة، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم واصحابه حولا حتى انتفخت اقدامهم، وامسك الله عز وجل خاتمتها في السماء اثني عشر شهرا، ثم انزل الله عز وجل التخفيف في آخر هذه السورة، فصار قيام رسول الله صلى الله عليه وسلم تطوعا من بعد فريضته"، فهممت ان اقوم، ثم بدا لي وتر رسول الله صلى الله عليه وسلم، قلت: يا ام المؤمنين، انبئيني عن وتر رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قالت:" كنا نعد له سواكه وطهوره، فيبعثه الله عز وجل لما شاء ان يبعثه من الليل، فيتسوك، ثم يتوضا، ثم يصلي ثماني ركعات لا يجلس فيهن إلا عند الثامنة، فيجلس ويذكر ربه عز وجل، ويدعو ويستغفر، ثم ينهض ولا يسلم، ثم يصلي التاسعة، فيقعد، فيحمد ربه ويذكره ويدعو، ثم يسلم تسليما يسمعنا، ثم يصلي ركعتين وهو جالس بعدما يسلم، فتلك إحدى عشرة ركعة، يا بني، فلما اسن رسول الله صلى الله عليه وسلم واخذ اللحم، اوتر بسبع، ثم صلى ركعتين وهو جالس بعدما يسلم، فتلك تسع يا بني، وكان نبي الله صلى الله عليه وسلم، إذا صلى صلاة احب ان يداوم عليها، وكان إذا شغله عن قيام الليل نوم او وجع او مرض صلى من النهار اثنتي عشرة ركعة، ولا اعلم نبي الله صلى الله عليه وسلم قرا القرآن كله في ليلة، ولا قام ليلة حتى اصبح، ولا صام شهرا كاملا غير رمضان" ، فاتيت ابن عباس، فحدثته بحديثها، فقال: صدقت، اما لو كنت ادخل عليها لاتيتها حتى تشافهني مشافهة.حَدَّثَنَا يَحْيَى ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى ، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ، ثُمَّ ارْتَحَلَ إِلَى الْمَدِينَةِ لِيَبِيعَ عَقَارًا لَهُ بِهَا، وَيَجْعَلَهُ فِي السِّلَاحِ وَالْكُرَاعِ، ثُمَّ يُجَاهِدَ الرُّومَ حَتَّى يَمُوتَ، فَلَقِيَ رَهْطًا مِنْ قَوْمِهِ، فَحَدَّثُوهُ أَنَّ رَهْطًا مِنْ قَوْمِهِ سِتَّةً أَرَادُوا ذَلِكَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" أَلَيْسَ لَكُمْ فِيَّ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ؟" فَنَهَاهُمْ عَنْ ذَلِكَ، فَأَشْهَدَهُمْ عَلَى رَجْعَتِهَا، ثُمَّ رَجَعَ إِلَيْنَا، فَأَخْبَرَنَا أَنَّهُ أَتَى ابْنَ عَبَّاسٍ، فَسَأَلَهُ عَنِ الْوَتْر؟ فَقَالَ: أَلَا أُنَبِّئُكَ بِأَعْلَمِ أَهْلِ الْأَرْضِ بِوَتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: ائْتِ عَائِشَةَ فَاسْأَلْهَا، ثُمَّ ارْجِعْ إِلَيَّ فَأَخْبِرْنِي بِرَدِّهَا عَلَيْكَ، قَالَ: فَأَتَيْتُ عَلَى حَكِيمِ بْنِ أَفْلَحَ، فَاسْتَلْحَقْتُهُ إِلَيْهَا، فَقَالَ: مَا أَنَا بِقَارِبِهَا، إِنِّي نَهَيْتُهَا أَنْ تَقُولَ فِي هَاتَيْنِ الشِّيعَتَيْنِ شَيْئًا، فَأَبَتْ فِيهِمَا إِلَّا مُضِيًّا، فَأَقْسَمْتُ عَلَيْه، فَجَاءَ مَعِي، فَدَخَلْنَا عَلَيْهَا، فَقَالَتْ: حَكِيمٌ؟ وَعَرَفَتْهُ، قَالَ: نَعَمْ، أَوْ بَلَى، قَالَتْ: مَنْ هَذَا مَعَكَ؟ قَالَ: سَعْدُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَتْ: مَنْ هِشَامٌ؟ قَالَ: ابْنُ عَامِرٍ، قَالَ: فَتَرَحَّمَتْ عَلَيْهِ، وَقَالَتْ: نِعْمَ الْمَرْءُ كَانَ عَامِرٌ، قُلْتُ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، أَنْبِئِينِي عَنْ خُلُقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: أَلَسْتَ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ؟ قُلْتُ: بَلَى، قَالَتْ: " فَإِنَّ خُلُقَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ الْقُرْآنَ"، فَهَمَمْتُ أَنْ أَقُومَ، ثُمَّ بَدَا لِي قِيَامُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، أَنْبِئِينِي عَنْ قِيَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَتْ: أَلَسْتَ تَقْرَأُ هَذِهِ السُّورَةَ يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ، قُلْتُ: بَلَى، قَالَتْ:" فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ افْتَرَضَ قِيَامَ اللَّيْلِ فِي أَوَّلِ هَذِهِ السُّورَةِ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ حَوْلًا حَتَّى انْتَفَخَتْ أَقْدَامُهُمْ، وَأَمْسَكَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ خَاتِمَتَهَا فِي السَّمَاءِ اثْنَيْ عَشَرَ شَهْرًا، ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ التَّخْفِيفَ فِي آخِرِ هَذِهِ السُّورَةِ، فَصَارَ قِيَامُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَطَوُّعًا مِنْ بَعْدِ فَرِيضَتِهِ"، فَهَمَمْتُ أَنْ أَقُومَ، ثُمَّ بَدَا لِي وَتْرُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، أَنْبِئِينِي عَنْ وَتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ:" كُنَّا نُعِدُّ لَهُ سِوَاكَهُ وَطَهُورَهُ، فَيَبْعَثُهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِمَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَهُ مِنَ اللَّيْلِ، فَيَتَسَوَّكُ، ثُمَّ يَتَوَضَّأُ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَمَانِي رَكَعَاتٍ لَا يَجْلِسُ فِيهِنَّ إِلَّا عِنْدَ الثَّامِنَةِ، فَيَجْلِسُ وَيَذْكُرُ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَيَدْعُو وَيَسْتَغْفِرُ، ثُمَّ يَنْهَضُ وَلَا يُسَلِّمُ، ثُمَّ يُصَلِّي التَّاسِعَةَ، فَيَقْعُدُ، فَيَحْمَدُ رَبَّهُ وَيَذْكُرُهُ وَيَدْعُو، ثُمَّ يُسَلِّمُ تَسْلِيمًا يُسْمِعُنَا، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ بَعْدَمَا يُسَلِّمُ، فَتِلْكَ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يَا بُنَيَّ، فَلَمَّا أَسَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُخِذَ اللَّحْمُ، أَوْتَرَ بِسَبْعٍ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ بَعْدَمَا يُسَلِّمُ، فَتِلْكَ تِسْعٌ يَا بُنَيَّ، وَكَانَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا صَلَّى صَلَاةً أَحَبَّ أَنْ يُدَاوِمَ عَلَيْهَا، وَكَانَ إِذَا شَغَلَهُ عَنْ قِيَامِ اللَّيْلِ نَوْمٌ أَوْ وَجَعٌ أَوْ مَرَضٌ صَلَّى مِنَ النَّهَارِ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً، وَلَا أَعْلَمُ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ الْقُرْآنَ كُلَّهُ فِي لَيْلَةٍ، وَلَا قَامَ لَيْلَةً حَتَّى أَصْبَحَ، وَلَا صَامَ شَهْرًا كَامِلًا غَيْرَ رَمَضَانَ" ، فَأَتَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، فَحَدَّثْتُهُ بِحَدِيثِهَا، فَقَالَ: صَدَقْتَ، أَمَا لَوْ كُنْتُ أَدْخُلُ عَلَيْهَا لَأَتَيْتُهَا حَتَّى تُشَافِهَنِي مُشَافَهَةً.
حضرت زرارہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت سعد بن ہشام بن عامر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی، پھر اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کا ارادہ کیا تو وہ مدینہ منورہ آگئے اور اپنی زمین وغیرہ بیچنے کا ارادہ کیا تاکہ اس کے ذریعہ سے اسلحہ اور گھوڑے وغیرہ خرید سکیں اور مرتے دم تک روم والوں سے جہاد کریں تو جب وہ مدینہ منورہ میں آگئے اور مدینہ والوں میں سے کچھ لوگوں سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو اس طرح کرنے سے منع کیا اور ان کو بتایا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاۃ طیبہ میں چھ آدمیوں نے بھی اسی طرح کا ارادہ کیا تھا تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی اس طرح کرنے سے روک دیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تمہارے لئے میری زندگی میں نمونہ نہیں ہے؟ جب مدینہ والوں نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث بیان کی تو انہوں نے اپنی اس بیوی سے رجوع کیا جس کو وہ طلاق دے چکے تھے اور اپنے اس رجوع کرنے پر لوگوں کو گواہ بنا لیا۔ پھر وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف آئے تو ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے بارے میں پوچھا تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ کیا میں تجھے وہ آدمی نہ بتاؤں جو زمین والوں میں سے سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے بارے میں جانتا ہے؟ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ کون ہے؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تو ان کی طرف جا اور ان سے پو چھ پھر اس کے بعد میرے پاس آ اور وہ جو جواب دیں مجھے بھی اس سے باخبر کرنا۔ (حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کہا) کہ میں پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف چلا (اور پہلے میں) حکیم بن افلح کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ مجھے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف لے کر چلو۔ وہ کہنے لگے کہ میں تجھے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف لے کر نہیں جاسکتا کیونکہ میں نے انہیں اس بات سے روکا تھا کہ وہ ان دو گروہوں (علی رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان کچھ نہ کہیں تو انہوں نے نہ مانا اور چلی گئیں۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ان پر قسم ڈالی تو وہ ہمارے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف آنے کے لئے چل پڑے اور ہم نے اجازت طلب کی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ہمیں اجازت دی اور ہم ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حکیم بن افلح کو پہچان لیا اور فرمایا کیا یہ حکیم ہیں؟ حکیم کہنے لگے کہ جی ہاں! حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: تیرے ساتھ کون ہے؟ حکیم نے کہا کہ سعد بن ہشام ہیں، آپ (عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ہشام کون ہے؟ حکیم نے کہا کہ عامر کا بیٹا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عامر پر رحم کی دعا فرمائی اور اچھے کلمات کہے۔ میں نے عرض کیا اے ام المومنین! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں بتایئے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟ میں نے عرض کیا پڑھتا ہوں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق قرآن ہی تو تھا، حضرت سعد کہتے ہیں کہ میں نے ارادہ کیا کہ میں اٹھ کھڑا ہو کر جاؤں اور مرتے دم تک کسی سے کچھ نہ پوچھوں۔ پھر مجھے خیال آیا تو میں نے عرض کیا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کی نماز) کے قیام کے بارے میں بتائیے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کیا تم نے یا ایھا المزمل نہیں پڑھی؟ میں نے عرض کیا جی ہاں! حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی ابتداء ہی میں رات کا قیام فرض کردیا تھا تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایک سال رات کو قیام فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے آخری حصہ کو بارہ مہینوں تک آسمان میں روک دیا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے آخر میں تخفیف نازل فرمائی تو پھر رات کا قیام (تہجد) فرض ہونے کے بعد نفل ہوگیا۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم آپ کے لئے مسواک اور وضو کا پانی تیار رکھتے تھے تو اللہ تعالیٰ آپ کو رات کو جب چاہتا بیدار کردیتا تو آپ مسواک فرماتے اور وضو فرماتے اور نو رکعات نماز پڑھتے۔ ان رکعتوں میں نہ بیٹھتے سوائے آٹھویں رکعت کے بعد اور اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے اور اس کی حمد کرتے اور اس سے دعا مانگتے پھر آپ اٹھتے اور سلام نہ پھیرتے پھر کھڑے ہو کر نویں رکعت پڑھتے پھر آپ بیٹھتے، اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے اور اس کی حمد بیان فرماتے اور اس سے دعا مانگتے۔ پھر آپ سلام پھیرتے اور سلام پھیرنا ہمیں سنا دیتے۔ پھر آپ سلام پھیرنے کے بعد بیٹھے بیٹھے دو رکعات نماز پڑھتے تو یہ گیارہ رکعتیں ہوگئیں۔ اے میرے بیٹے! پھر جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک زیادہ ہوگئی اور آپ کے جسم مبارک پر گوشت آگیا تو سات رکعتیں وتر پڑھنے لگے اور دو رکعتیں اسی طرح پڑھتے جس طرح پہلے بیان کیا تو یہ نور رکعتی

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 746


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.