حدثنا يعقوب ، وسعد ، قالا: حدثنا ابي ، عن صالح ، عن الزهري ، عن عبيد الله بن عبد الله بن الحارث بن نوفل بن الحارث بن عبد المطلب اخبره، ان عبد المطلب بن ربيعة بن الحارث بن عبد المطلب اخبره، انه اجتمع ربيعة بن الحارث، وعباس بن عبد المطلب , فقالا: والله لو بعثنا هذين الغلامين فقال لي وللفضل بن عباس إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فامرهما على هذه الصدقات، فاديا ما يؤدي الناس، واصابا ما يصيب الناس من المنفعة، فبينما هما في ذلك، جاء علي بن ابي طالب فقال: ماذا تريدان؟ فاخبراه بالذي ارادا، قال: فلا تفعلا , فوالله ما هو بفاعل، فقال: لم تصنع هذا؟ فما هذا منك إلا نفاسة علينا، لقد صحبت رسول الله صلى الله عليه وسلم، ونلت صهره، فما نفسنا ذلك عليك. قال: فقال: انا ابو حسن، ارسلوهما، ثم اضطجع، قال: فلما صلى الظهر، سبقناه إلى الحجرة، فقمنا عندها حتى مر بنا، فاخذ بايدينا، ثم قال:" اخرجا ما تصرران"، ودخل فدخلنا معه، وهو حينئذ في بيت زينب بنت جحش، قال: فكلمناه، فقلنا: يا رسول الله، جئناك لتؤمرنا على هذه الصدقات فنصيب ما يصيب الناس من المنفعة، ونؤدي إليك ما يؤدي الناس. قال: فسكت رسول الله صلى الله عليه وسلم ورفع راسه إلى سقف البيت حتى اردنا ان نكلمه، قال: فاشارت إلينا زينب من وراء حجابها كانها تنهانا عن كلامه، واقبل فقال: " الا إن الصدقة لا تنبغي لمحمد ولا لآل محمد، إنما هي اوساخ الناس. ادعوا لي محمية بن جزء وكان على العشر، وابا سفيان بن الحارث" فاتيا، فقال لمحمية:" اصدق عنهما من الخمس" . حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن محمد بن إسحاق ، قال: حدثنا الزهري ، عن محمد بن عبد الله بن نوفل بن الحارث ، عن عبد المطلب بن ربيعة بن الحارث قال: اجتمع العباس بن عبد المطلب، وابن ربيعة بن الحارث في المسجد، فذكر الحديث.حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، وَسَعْدٌ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبِي ، عن صَالِحٍ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُبَيدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَبْدَ الْمُطَّلِبِ بْنَ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ اجْتَمَعَ رَبِيعَةُ بْنُ الْحَارِثِ، وَعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ , فَقَالَا: وَاللَّهِ لَوْ بَعَثْنَا هَذَيْنِ الْغُلَامَيْنِ فَقَالَ لِي وَلِلْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَّرَهُمَا عَلَى هَذِهِ الصَّدَقَاتِ، فَأَدَّيَا مَا يُؤَدِّي النَّاسُ، وَأَصَابَا مَا يُصِيبُ النَّاسُ مِنَ الْمَنْفَعَةِ، فَبَيْنَمَا هُمَا فِي ذَلِكَ، جَاءَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ فَقَالَ: مَاذَا تُرِيدَانِ؟ فَأَخْبَرَاهُ بِالَّذِي أَرَادَا، قَالَ: فَلَا تَفْعَلَا , فَوَاللَّهِ مَا هُوَ بِفَاعِلٍ، فَقَالَ: لِمَ تَصْنَعُ هَذَا؟ فَمَا هَذَا مِنْكَ إِلَّا نَفَاسَةً عَلَيْنَا، لَقَدْ صَحِبْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَنِلْتَ صِهْرَهُ، فَمَا نَفِسْنَا ذَلِكَ عَلَيْكَ. قَالَ: فَقَالَ: أَنَا أَبُو حَسَنٍ، أَرْسِلُوهُمَا، ثُمَّ اضْطَجَعَ، قَالَ: فَلَمَّا صَلَّى الظُّهْرَ، سَبَقْنَاهُ إِلَى الْحُجْرَةِ، فَقُمْنَا عِنْدَهَا حَتَّى مَرَّ بِنَا، فَأَخَذَ بِأَيْدِينَا، ثُمَّ قَالَ:" أَخْرِجَا مَا تُصَرِّرَانِ"، وَدَخَلَ فَدَخَلْنَا مَعَهُ، وَهُوَ حِينَئِذٍ فِي بَيْتِ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، قَالَ: فَكَلَّمْنَاهُ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، جِئْنَاكَ لِتُؤَمِّرَنَا عَلَى هَذِهِ الصَّدَقَاتِ فَنُصِيبَ مَا يُصِيبُ النَّاسُ مِنَ الْمَنْفَعَةِ، وَنُؤَدِّي إِلَيْكَ مَا يُؤَدِّي النَّاسُ. قَالَ: فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى سَقْفِ الْبَيْتِ حَتَّى أَرَدْنَا أَنْ نُكَلِّمَهُ، قَالَ: فَأَشَارَتْ إِلَيْنَا زَيْنَبُ مِنْ وَرَاءِ حِجَابِهَا كَأَنَّهَا تَنْهَانَا عَنْ كَلَامِهِ، وَأَقْبَلَ فَقَالَ: " أَلَا إِنَّ الصَّدَقَةَ لَا تَنْبَغِي لِمُحَمَّدٍ وَلَا لِآلِ مُحَمَّدٍ، إِنَّمَا هِيَ أَوْسَاخُ النَّاسِ. ادْعُوا لِي مَحْمِيَةَ بْنَ جَزْءٍ وَكَانَ عَلَى الْعُشْرِ، وَأَبَا سُفْيَانَ بْنَ الْحَارِثِ" فَأَتَيَا، فَقَالَ لِمَحْمِيَةَ:" أَصْدِقْ عَنْهُمَا مِنَ الْخُمُسِ" . حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نَوْفَلِ بْنِ الْحَارِثِ ، عن عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ قَالَ: اجْتَمَعَ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، وَابْنُ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ فِي الْمَسْجِدِ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ.
حضرت عبدالمطلب بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا محمیہ جنہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خمس پر مقرر فرما رکھا تھا اور ابو سفیان بن حارث کو بلا کر ان سے فرمایا کہ انہیں خمس سے اتنے پیسے دے دو کہ یہ مہر ادا کرسکیں۔ ایک مرتبہ ربیعہ بن حارث اور عباس بن عبدالمطلب جمع ہوئے اور کہنے لگے کہ ان دونوں لڑکوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجنا چاہئے، چنانچہ انہوں نے مجھے اور فضل کو بلا کر کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلے جاؤ، وہ تمہیں زکوٰۃ کی وصولی پر مقرر کردیں گے، تم لوگوں کی طرح ذمہ داری ادا کردو اور لوگوں کی منفعت حاصل کرو، اسی دوران حضرت علی رضی اللہ عنہ آگئے، انہوں نے پوچھا کہ تمہارا کیا ارادہ ہے؟ انہوں نے اپنا ارادہ بتایا، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ایسا نہ کرو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں کبھی بھی زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے مقرر نہیں فرمائیں گے، وہ کہنے لگے کہ یہ تمہارا حسد ہے، انہوں نے فرمایا کہ میں ابو حسن ہوں، میری رائے مقدم ہوتی ہے، میں اس وقت تک واپس نہیں جاؤں گا جب تک یہ نہ دیکھ لوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں کیا جواب دیتے ہیں؟ چنانچہ جب ان دونوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے اور حضرت زینب رضی اللہ عنہ اپنے کپڑے کو ہلا کر اشارہ کرنے لگیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہارا کام کردیں گے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ صدقات لوگوں کے مال کا میل کچیل ہوتے ہیں، اس لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے حلال نہیں ہیں۔
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔