(حديث قدسي) حدثنا حدثنا يزيد بن هارون ، قال: اخبرنا همام بن يحيى ، عن القاسم بن عبد الواحد المكي ، عن عبد الله بن محمد بن عقيل ، انه سمع جابر بن عبد الله يقول: بلغني حديث عن رجل سمعه من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاشتريت بعيرا، ثم شددت عليه رحلي، فسرت إليه شهرا حتى قدمت عليه الشام، فإذا عبد الله بن انيس ، فقال للبواب: قل له: جابر على الباب، فقال: ابن عبد الله؟ قلت: نعم , فخرج يطا ثوبه، فاعتنقني، واعتنقته , فقلت: حديثا بلغني عنك انك سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم في القصاص، فخشيت ان تموت او اموت قبل ان اسمعه , قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" يحشر الناس يوم القيامة، او قال: العباد، عراة غرلا بهما" , قال: قلنا: وما بهما؟ قال:" ليس معهم شيء، ثم يناديهم بصوت يسمعه من بعد كما يسمعه من قرب، انا الملك، انا الديان، ولا ينبغي لاحد من اهل النار ان يدخل النار، وله عند احد من اهل الجنة حق حتى اقصه منه، ولا ينبغي لاحد من اهل الجنة ان يدخل الجنة ولاحد من اهل النار عنده حق حتى اقصه منه حتى اللطمة" , قال: قلنا: كيف وإنا إنما ناتي الله عز وجل عراة غرلا بهما؟ قال: بالحسنات والسيئات.(حديث قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الْوَاحِدِ الْمَكِّيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ: بَلَغَنِي حَدِيثٌ عَنْ رَجُلٍ سَمِعَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاشْتَرَيْتُ بَعِيرًا، ثُمَّ شَدَدْتُ عَلَيْهِ رَحْلِي، فَسِرْتُ إِلَيْهِ شَهْرًا حَتَّى قَدِمْتُ عَلَيْهِ الشَّامَ، فَإِذَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُنَيْسٍ ، فَقَالَ لِلْبَوَّابِ: قُلْ لَهُ: جَابِرٌ عَلَى الْبَابِ، فَقَالَ: ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ؟ قُلْتُ: نَعَمْ , فَخَرَجَ يَطَأُ ثَوْبَهُ، فَاعْتَنَقَنِي، وَاعْتَنَقْتُهُ , فَقُلْتُ: حَدِيثًا بَلَغَنِي عَنْكَ أَنَّكَ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْقِصَاصِ، فَخَشِيتُ أَنْ تَمُوتَ أَوْ أَمُوتَ قَبْلَ أَنْ أَسْمَعَهُ , قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" يُحْشَرُ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، أَوْ قَالَ: الْعِبَادُ، عُرَاةً غُرْلًا بُهْمًا" , قَالَ: قُلْنَا: وَمَا بُهْمًا؟ قَالَ:" لَيْسَ مَعَهُمْ شَيْءٌ، ثُمَّ يُنَادِيهِمْ بِصَوْتٍ يَسْمَعُهُ مَنْ بَعُدَ كَمَا يَسْمَعُهُ مَنْ قُرْبٍ، أَنَا الْمَلِكُ، أَنَا الدَّيَّانُ، وَلَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ أَهْلِ النَّارِ أَنْ يَدْخُلَ النَّارَ، وَلَهُ عِنْدَ أَحَدٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ حَقٌّ حَتَّى أَقُصَّهُ مِنْهُ، وَلَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ أَنْ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ وَلِأَحَدٍ مِنْ أَهْلِ النَّارِ عِنْدَهُ حَقٌّ حَتَّى أَقُصَّهُ مِنْهُ حَتَّى اللَّطْمَةُ" , قَالَ: قُلْنَا: كَيْفَ وَإِنَّا إِنَّمَا نَأْتِي اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ عُرَاةً غُرْلًا بُهْمًا؟ قَالَ: بِالْحَسنَاتِ وَالسَّيِّئَاتِ.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مجھے ایک حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے معلوم ہوئی جو ایک صاحب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنی تھی میں نے ایک اونٹ خریدا اس پر کجاوہ کسا اور ایک مہینے کا سفر کا طے کر کے پہنچا وہاں مطلوبہ صحابی سیدنا عبداللہ بن انیس سے ملاقات ہوئی میں نے چوکیدار سے کہا ان سے جا کر کہو دروازے پر جابر رضی اللہ عنہ ہے انہوں نے پوچھا: عبداللہ کے بیٹے ہیں میں نے اثبات میں سر ہلادیا تو وہ اپنے کپڑے گھسیٹتے ہوئے نکلے اور مجھ سے چمٹ گئے میں نے بھی ان سے معانقہ کیا اور ان سے کہا کہ قصاص کے متعلق مجھے ایک حدیث کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنی ہے مجھے اندیشہ ہوا کہ اسے سننے سے پہلے آپ یا مجھ میں سے کوئی دنیا سے رخصت نہ ہو جائے۔
انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا قیامت کے دن لوگ برہنہ، غیر مختون اور بہم اٹھائے جائیں گے ہم نے ان سبہم کا معنی پوچھا: تو انہوں نے بتایا کہ جس کے پاس کچھ نہ ہو پھر انہیں اپنے انتہائی قریب سے ایک منادی کی آواز سنائی دے گی کہ میں ہی حقیقی بادشاہ ہوں میں بدلہ لینے والا ہوں اہل جہنم میں سے اگر کسی کو کسی جنتی پر کوئی حق ہو تو اس کا بدلہ لینے سے پہلے وہ جہنم میں داخل نہ ہو گا حتی کہ ایک طمانچے کا بدلہ بھی لوں گا ہم نے پوچھا کہ جب ہم اللہ کے سامنے غیرمختون اور خالی ہاتھ حاضر ہوں گے تو کیسالگے لگا انہوں نے جواب دیا کہ وہاں نیکیوں اور گناہوں کا حساب ہو گا۔
سیدنا عبداللہ بن انیس سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کبیرہ گناہوں میں بھی سب سے بڑا گناہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی قسم کھانا اور اس میں مچھر کے پر کے برابر بھی جھوٹ شامل کر دے اللہ اس کے دل پر قیامت تک کے لئے ایک نقطہ لگا دیتا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح دون قوله: «وما حلف حالف بالله يمينا» وهذا إسناد ضعيف لضعف هشام بن سعد
سیدنا عبداللہ بن انیس سے مروی ہے کہ صحابہ کرام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ماہ رمضان میں شب قدر کسے سمجھیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ٢٣ ویں شب کو۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه ، أبو بكر بن حزم لم يسمع من عبدالله بن أنيس، بينهما عبدالرحمن بن كعب بن مالك
(حديث مرفوع) حدثنا انس بن عياض ابو ضمرة ، قال: حدثني الضحاك بن عثمان ، عن ابي النضر مولى عمر بن عبيد الله، عن بسر بن سعيد ، عن عبد الله بن انيس ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" رايت ليلة القدر، ثم انسيتها، واراني صبيحتها اسجد في ماء وطين"، فمطرنا ليلة ثلاث وعشرين، فصلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم , فانصرف، وإن اثر الماء والطين على جبهته وانفه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ أَبُو ضَمْرَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي الضَّحَّاكُ بْنُ عُثْمَانَ ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُنَيْسٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" رَأَيْتُ لَيْلَةَ الْقَدْرِ، ثُمَّ أُنْسِيتُهَا، وَأُرَانِي صَبِيحَتَهَا أَسْجُدُ فِي مَاءٍ وَطِينٍ"، فَمُطِرْنَا لَيْلَةَ ثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ، فَصَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَانْصَرَفَ، وَإِنَّ أَثَرَ الْمَاءِ وَالطِّينِ عَلَى جَبْهَتِهِ وَأَنْفِهِ.
سیدنا عبداللہ بن انیس سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں نے ایک رات میں شب قدر کو دیکھا تھا لیکن پھر مجھے اس کی تعیین بھلادی گئی البتہ میں نے یہ دیکھا تھا کہ اس کی صبح کو میں نے پانی اور کیچر میں سجدہ کیا ہے چنانچہ ٢٣ ویں شب کو بارش ہوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب صبح کی نماز ہمیں پڑھا کر واپس ہوئے تو آپ کی پیشانی پر مٹی اور پانی کے اثرات نظر آ رہے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، قال: حدثني ابي ، عن ابن إسحاق ، قال: حدثني معاذ بن عبد الله بن خبيب الجهني ، عن اخيه عبد الله بن عبد الله بن خبيب ، قال: كان رجل في زمان عمر بن الخطاب قد ساله فاعطاه، قال: جلس معنا عبد الله بن انيس صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم في مجلسه في مجلس جهينة، قال في رمضان، قال: فقلنا له: يا ابا يحيى، سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم في هذه الليلة المباركة من شيء؟ فقال: نعم، جلسنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في آخر هذا الشهر، فقلنا له: يا رسول الله، متى نلتمس هذه الليلة المباركة؟ قال:" التمسوها هذه الليلة"، وقال: وذلك مساء ليلة ثلاث وعشرين , فقال له رجل من القوم: وهي إذا يا رسول الله اول ثمان , قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنها ليست باول ثمان ولكنها اول السبع، إن الشهر لا يتم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُعَاذُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خُبَيْبٍ الْجُهَنِيُّ ، عَنْ أَخِيهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خُبَيْبٍ ، قَالَ: كَانَ رَجُلٌ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَدْ سَأَلَهُ فَأَعْطَاهُ، قَالَ: جَلَسَ مَعَنَا عَبْدُ اللَّهُ بْنُ أُنَيْسٍ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَجْلِسِهِ فِي مَجْلِسِ جُهَيْنَةَ، قَالَ فِي رَمَضَانَ، قَالَ: فَقُلْنَا لَهُ: يَا أَبَا يَحْيَى، سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ الْمُبَارَكَةِ مِنْ شَيْءٍ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، جَلَسْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي آخِرِ هَذَا الشَّهْرِ، فَقُلْنَا لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَتَى نَلْتَمِسُ هَذِهِ اللَّيْلَةَ الْمُبَارَكَةَ؟ قَالَ:" الْتَمِسُوهَا هَذِهِ اللَّيْلَةَ"، وَقَالَ: وَذَلِكَ مَسَاءَ لَيْلَةِ ثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ , فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: وَهِيَ إِذًا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَوَّلُ ثَمَانٍ , قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّهَا لَيْسَتْ بِأَوَّلِ ثَمَانٍ وَلَكِنَّهَا أَوَّلُ السَّبْعِ، إِنَّ الشَّهْرَ لَا يَتِمُّ".
عبداللہ بن عبداللہ خبیب کہتے ہیں سیدنا عمر فارق کے زمانے میں ایک آدمی نے ان سے تعاون کی درخواست کی انہوں نے اسے کچھ دے دیا اس آدمی کا کہنا تھا کہ ایک مرتبہ ہمارے ساتھ قبیلہ جہینہ کی ایک مجلس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی سیدنا عبداللہ بن انیس بیٹھے ہوئے تھے یہ رمضان کا مہینہ تھا ہم نے ان سے عرض کیا: کہ اے ابویحییٰ اس مبارک رات کے حوالے سے آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سنا ہے انہوں نے فرمایا: ہاں ایک مرتبہ ہم لوگ اس مہینے کے آخر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یا رسول اللہ! ہم اس لیلہ مبارکہ کو کب تلاش کر یں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج ہی کی رات کو تلاش کر و وہ ٢٣ ویں شب تھی ایک آدمی اس پر کہنے لگا یا رسول اللہ! اس طرح تو یہ آٹھ سے پہلی رات ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آٹھ میں سے پہلی نہیں بلکہ سات میں سے پہلی ہے مہینہ بعض اوقات پور انہیں بھی ہوتا۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، عبدالله بن عبدالله بن خبيب مجهول، لكنه تويع
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، قال: عن ابن إسحاق ، قال: حدثني محمد بن جعفر بن الزبير ، عن ابن عبد الله بن انيس ، عن ابيه ، قال: دعاني رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" إنه قد بلغني ان خالد بن سفيان بن نبيح الهذلي، يجمع لي الناس ليغزوني وهو بعرنة، فاته فاقتله" , قال: قلت: يا رسول الله، انعته لي حتى اعرفه , قال:" إذا رايته وجدت له قشعريرة" , قال: فخرجت متوشحا بسيفي حتى وقعت عليه، وهو بعرنة مع ظعن يرتاد لهن منزلا، وحين كان وقت العصر، فلما رايته وجدت ما وصف لي رسول الله صلى الله عليه وسلم من القشعريرة، فاقبلت نحوه، وخشيت ان يكون بيني وبينه محاولة تشغلني عن الصلاة، فصليت وانا امشي نحوه اومئ براسي الركوع والسجود، فلما انتهيت إليه، قال: من الرجل؟ قلت: رجل من العرب سمع بك وبجمعك لهذا الرجل، فجاءك لهذا , قال: اجل انا في ذلك , قال: فمشيت معه شيئا، حتى إذا امكنني حملت عليه السيف حتى قتلته، ثم خرجت، وتركت ظعائنه مكبات عليه، فلما قدمت على رسول الله صلى الله عليه وسلم فرآني، فقال:" افلح الوجه" , قال: قلت: قتلته يا رسول الله , قال:" صدقت" , قال: ثم قام معي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فدخل في بيته، فاعطاني عصا، فقال:" امسك هذه عندك، يا عبد الله بن انيس" , قال: فخرجت بها على الناس، فقالوا: ما هذه العصا؟ قال: قلت: اعطانيها رسول الله صلى الله عليه وسلم، وامرني ان امسكها , قالوا: اولا ترجع إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فتساله عن ذلك؟ قال: فرجعت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، لم اعطيتني هذه العصا؟ قال:" آية بيني وبينك يوم القيامة، إن اقل الناس المتخصرون يومئذ" , قال: فقرنها عبد الله بسيفه، فلم تزل معه حتى إذا مات امر بها فصبت معه في كفنه، ثم دفنا جميعا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، قَالَ: عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنِ ابْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُنَيْسٍ ، عَنِ أَبِيهِ ، قَالَ: دَعَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" إِنَّهُ قَدْ بَلَغَنِي أَنَّ خَالِدَ بْنَ سُفْيَانَ بْنِ نُبَيْحٍ الهُذَلِي، يَجْمَعُ لِي النَّاسَ لِيَغْزُوَنِي وَهُوَ بِعُرَنَةَ، فَأْتِهِ فَاقْتُلْهُ" , قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، انْعَتْهُ لِي حَتَّى أَعْرِفَهُ , قَالَ:" إِذَا رَأَيْتَهُ وَجَدْتَ لَهُ قَشْعَرِيرَةً" , قَالَ: فَخَرَجْتُ مُتَوَشِّحًا بِسَيْفِي حَتَّى وَقَعْتُ عَلَيْهِ، وَهُوَ بِعُرَنَةَ مَعَ ظُعُنٍ يَرْتَادُ لَهُنَّ مَنْزِلًا، وَحِينَ كَانَ وَقْتُ الْعَصْرِ، فَلَمَّا رَأَيْتُهُ وَجَدْتُ مَا وَصَفَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْقَشْعَرِيرَةِ، فَأَقْبَلْتُ نَحْوَهُ، وَخَشِيتُ أَنْ يَكُونَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ مُحَاوَلَةٌ تَشْغَلُنِي عَنِ الصَّلَاةِ، فَصَلَّيْتُ وَأَنَا أَمْشِي نَحْوَهُ أُومِئُ بِرَأْسِي الرُّكُوعَ وَالسُّجُودَ، فَلَمَّا انْتَهَيْتُ إِلَيْهِ، قَالَ: مَنْ الرَّجُلُ؟ قُلْتُ: رَجُلٌ مِنَ الْعَرَبِ سَمِعَ بِكَ وَبِجَمْعِكَ لِهَذَا الرَّجُلِ، فَجَاءَكَ لِهَذَا , قَالَ: أَجَلْ أَنَا فِي ذَلِكَ , قَالَ: فَمَشَيْتُ مَعَهُ شَيْئًا، حَتَّى إِذَا أَمْكَنَنِي حَمَلْتُ عَلَيْهِ السَّيْفَ حَتَّى قَتَلْتُهُ، ثُمَّ خَرَجْتُ، وَتَرَكْتُ ظَعَائِنَهُ مُكِبَّاتٍ عَلَيْهِ، فَلَمَّا قَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَآنِي، فَقَالَ:" أَفْلَحَ الْوَجْهُ" , قَالَ: قُلْتُ: قَتَلْتُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَالَ:" صَدَقْتَ" , قَالَ: ثُمَّ قَامَ مَعِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَخَلَ فِي بَيْتِهِ، فَأَعْطَانِي عَصًا، فَقَالَ:" أَمْسِكْ هَذِهِ عِنْدَكَ، يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُنَيْسٍ" , قَالَ: فَخَرَجْتُ بِهَا عَلَى النَّاسِ، فَقَالُوا: مَا هَذِهِ الْعَصَا؟ قَالَ: قُلْتُ: أَعْطَانِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَمَرَنِي أَنْ أَمْسِكَهَا , قَالُوا: أَوَلَا تَرْجِعُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَسْأَلَهُ عَنْ ذَلِكَ؟ قَالَ: فَرَجَعْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لِمَ أَعْطَيْتَنِي هَذِهِ الْعَصَا؟ قَالَ:" آيَةٌ بَيْنِي وَبَيْنَكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، إِنَّ أَقَلَّ النَّاسِ الْمُتَخَصِّرُونَ يَوْمَئِذٍ" , قَالَ: فَقَرَنَهَا عَبْدُ اللَّهِ بِسَيْفِهِ، فَلَمْ تَزَلْ مَعَهُ حَتَّى إِذَا مَاتَ أَمَرَ بِهَا فَصُبَّتْ مَعَهُ فِي كَفَنِهِ، ثُمَّ دُفِنَا جَمِيعًا.
سیدنا عبداللہ بن انیس سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا اور فرمایا کہ مجھ معلوم ہوا ہے کہ خالد بن سفیان بن نبی صلی اللہ علیہ وسلم ح مجھ سے جنگ کرنے کے لے لوگوں کو جمع کر رہا ہے اس وقت وہ بطحن عرنہ میں ہے اس کے پاس جا کر اسے قتل کر آؤ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے اس کی کوئی علامت بتا دیجیے تاکہ میں اس کو پہچان سکوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم اسے دیکھو گے تو اس کے جسم کے بال کھڑے ہوئے محسوس ہوں گے چنانچہ میں اپنی تلوار لے کر نکل کر کھڑا ہوا اور عصر کے وقت جبکہ وہ ابھی بطن عرنہ میں ہی اپنی عورتوں کے ساتھ جو ان کے لئے سفر کو آسان بناتی تھیں میں نے اسے جالیا۔ میں نے اسے دیکھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان کر دہ وصف اس میں پا لیا میں اس کی طرف چل پڑا پھر میں نے سوچا کہ کہیں میرے اور اس کے درمیان بات چیت شروع نہ ہو جائے تو پھر نماز عصر فوت ہو جائے گی چنانچہ میں چلتے چلتے اشارے سے رکوع سجدہ کر کے نماز پڑھ لی جب میں اس کے پاس پہنچا تو وہ کہنے لگا کہ کون صاحب ہیں میں نے کہا اہل عرب میں سے ایک آدمی جس نے آپ کے بارے میں اور اس شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے لشکر جمع کرنے کے بارے سنا ہے تو آپ کے پاس آگیا اس نے کہا بہت اچھا میں اسی مقصد میں لگا ہوا ہوں میں اس کے ساتھ تھوڑی دور تک چلا جب اس پر قابو پالیا تو اس پر اپنی تلوار اٹھائی یہاں تک کہ اسے قتل کر دیا۔ پھر میں وہاں سے نکلا اور میں نے اس کی عورتوں کو اس پر جھکا ہوا چھوڑ دیا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا تو فرمایا: یہ چہرہ کامیاب ہو گیا میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے سے قتل کر دیا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سچ کہتے ہو پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے ساتھ اٹھے اور اپنے گھر میں داخل ہوئے وہاں سے ایک عصا لآ کر مجھے دیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عبداللہ بن انیس اسے اپنے پاس سنبھال کر رکھو میں وہ لاٹھی لے کر نکلا تو لوگ مجھے روک کر پوچھنے لگے یہ لاٹھی کیسی ہے میں نے بتایا کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو دی ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں وہ لاٹھی سنبھال کر رکھو لوگوں نے کہا تم جا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھو تو سہی چنانچہ میں واپس آ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یا رسول اللہ! آپ نے مجھے یہ لاٹھی کسی نیت سے دی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ قیامت کے دن میرے اور تمہارے درمیان علامت ہو گی اس دن بہت کم لوگوں کے پاس لاٹھی ہو گی۔ چنانچہ سیدنا عبداللہ بن انیس نے اپنی تلوار کے ساتھ لگالیا اور وہ ہمیشہ ان کے پاس رہی جب ان کے انتقال کا وقت ہو گیا تو ان کے حکم پر وہ ان کے ساتھ کفن میں شامل کر دی اور ہم سب نے مل کر انہیں سپرد خاک کر دیا۔ سیدنا عبداللہ بن انیس سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا اور فرمایا کہ مجھ معلوم ہوا ہے کہ خالد بن سفیان بن نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے جنگ کرنے کے لے لوگوں کو جمع کر رہا ہے اس وقت وہ بطحن عرنہ میں ہے اس کے پاس جا کر اسے قتل کر آؤ چنانچہ میں اپنی تلوار لے کر نکل کر کھڑا ہوا اور عصر کے وقت جبکہ وہ ابھی بطن عرنہ میں تھا جالیا۔ پھر میں نے سوچا کہ کہیں میرے اور اس کے درمیان بات چیت شروع نہ ہو جائے تو پھر نماز عصر فوت ہو جائے گی چنانچہ میں چلتے چلتے اشارے سے رکوع سجدہ کر کے نماز پڑھ لی جب میں اس کے پاس پہنچا تو۔۔۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔
حدثنا يحيى بن آدم ، قال: حدثنا ابن إدريس ، عن محمد بن إسحاق ، عن محمد بن جعفر بن الزبير ، عن بعض ولد عبد الله بن انيس، عن آل عبد الله بن انيس ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم بعثه إلى خالد بن سفيان بن نبيح الهذلي ليقتله، وكان يجمع لقتال رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال: فاتيته بعرنة وهو في ظهر له، وقد دخل وقت العصر، فخفت ان يكون بيني وبينه محاولة تشغلني عن الصلاة، قال: فصليت وانا امشي اومئ إيماء، فلما انتهيت إليه، فقلت: كذا وكذا حتى ذكر الحديث، ثم اتى النبي صلى الله عليه وسلم فاخبره بقتله إياه، وذكر الحديث.حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ بَعْضِ وَلَدِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُنَيْسٍ، عَنْ آلِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُنَيْسٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَهُ إِلَى خَالِدِ بْنِ سُفْيَانَ بْنِ نُبَيْحٍ الْهُذَلِيِّ لِيَقْتُلَهُ، وَكَانَ يُجَمِّعُ لِقِتَالِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: فَأَتَيْتُهُ بِعُرَنَةَ وَهُوَ فِي ظَهْرٍ لَهُ، وَقَدْ دَخَلَ وَقْتُ الْعَصْرِ، فَخِفْتُ أَنْ يَكُونَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ مُحَاوَلَةٌ تَشْغَلُنِي عَنِ الصَّلَاةِ، قَالَ: فَصَلَّيْتُ وَأَنَا أَمْشِي أُومِئُ إِيمَاءً، فَلَمَّا انْتَهَيْتُ إِلَيْهِ، فقُلْتُ: كَذَا وَكَذَا حَتَّى ذَكَرَ الْحَدِيثَ، ثُمَّ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ بِقَتْلِهِ إِيَّاهُ، وَذَكَرَ الْحَدِيثَ.