(حديث مرفوع) حدثنا ابو احمد محمد بن عبد الله الزبيري ، حدثنا سعد يعني ابن اوس العبسي ، عن بلال العبسي ، قال: اخبرنا عمران بن حصين الضبي ، انه اتى البصرة وبها عبد الله بن عباس اميرا، فإذا هو برجل قائم في ظل القصر يقول: صدق الله ورسوله، صدق الله ورسوله، لا يزيد على ذلك، فدنوت منه شيئا، فقلت له: لقد اكثرت من قولك صدق الله ورسوله؟ فقال: اما والله لئن شئت لاخبرتك؟ فقلت: اجل، فقال: اجلس إذا، فقال: إني اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو بالمدينة في زمان كذا وكذا، وقد كان شيخان للحي قد انطلق ابن لهما، فلحق به، فقالا: إنك قادم المدينة، وإن ابنا لنا قد لحق بهذا الرجل، فاته فاطلبه منه، فإن ابى إلا الافتداء فافتده , فاتيت المدينة، فدخلت على نبي الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا نبي الله، إن شيخين للحي امراني ان اطلب ابنا لهما عندك , فقال:" تعرفه؟" , فقال: اعرف نسبه , فدعا الغلام، فجاء، فقال:" هو ذا، فات به ابويه" , فقلت: الفداء يا نبي الله , قال:" إنه لا يصلح لنا آل محمد ان ناكل ثمن احد من ولد إسماعيل"، ثم ضرب على كتفي، ثم قال:" لا اخشى على قريش إلا انفسها"، قلت: وما لهم يا نبي الله؟ قال:" إن طال بك العمر رايتهم هاهنا، حتى ترى الناس بينهما كالغنم بين حوضين، مرة إلى هذا، ومرة إلى هذا"، فانا ارى ناسا يستاذنون على ابن عباس، رايتهم العام يستاذنون على معاوية، فذكرت ما قال النبي صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الزُّبَيْرِيُّ ، حَدَّثَنَا سَعْدٌ يَعْنِي ابْنَ أَوْسٍ الْعَبْسِيَّ ، عَنْ بِلَالٍ الْعَبْسِيِّ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ الضَّبِّيُّ ، أَنَّهُ أَتَى الْبَصْرَةَ وَبِهَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ أَمِيرًا، فَإِذَا هُوَ بِرَجُلٍ قَائِمٍ فِي ظِلِّ الْقَصْرِ يَقُولُ: صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ، صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ، لَا يَزِيدُ عَلَى ذَلِكَ، فَدَنَوْتُ مِنْهُ شَيْئًا، فَقُلْتُ لَهُ: لَقَدْ أَكْثَرْتَ مِنْ قَوْلِكَ صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ؟ فَقَالَ: أَمَا وَاللَّهِ لَئِنْ شِئْتَ لَأَخْبَرْتُكَ؟ فَقُلْتُ: أَجَلْ، فَقَالَ: اجْلِسْ إِذًا، فَقَالَ: إِنِّي أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِالْمَدِينَةِ فِي زَمَانِ كَذَا وَكَذَا، وَقَدْ كَانَ شَيْخَانِ لِلْحَيِّ قَدْ انْطَلَقَ ابْنٌ لَهُمَا، فَلَحِقَ بِهِ، فَقَالَا: إِنَّكَ قَادِمٌ الْمَدِينَةَ، وَإِنَّ ابْنًا لَنَا قَدْ لَحِقَ بِهَذَا الرَّجُلِ، فَأْتِهِ فَاطْلُبْهُ مِنْهُ، فَإِنْ أَبَى إِلَّا الِافْتِدَاءَ فَافْتَدِهِ , فَأَتَيْتُ الْمَدِينَةَ، فَدَخَلْتُ عَلَى نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، إِنَّ شَيْخَيْنِ لِلْحَيِّ أَمَرَانِي أَنْ أَطْلُبَ ابْنًا لَهُمَا عِنْدَكَ , فَقَالَ:" تَعْرِفُهُ؟" , فَقَالَ: أَعْرِفُ نَسَبَهُ , فَدَعَا الْغُلَامَ، فَجَاءَ، فَقَالَ:" هُوَ ذَا، فَأْتِ بِهِ أَبَوَيْهِ" , فَقُلْتُ: الْفِدَاءَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ , قَالَ:" إِنَّهُ لَا يَصْلُحُ لَنَا آلُ مُحَمَّدٍ أَنْ نَأْكُلَ ثَمَنَ أَحَدٍ مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ"، ثُمَّ ضَرَبَ عَلَى كَتِفِي، ثُمَّ قَالَ:" لَا أَخْشَى عَلَى قُرَيْشٍ إِلَّا أَنْفُسَهَا"، قُلْتُ: وَمَا لَهُمْ يَا نَبِيَّ اللَّهِ؟ قَالَ:" إِنْ طَالَ بِكَ الْعُمُرُ رَأَيْتَهُمْ هَاهُنَا، حَتَّى تَرَى النَّاسَ بَيْنَهُمَا كَالْغَنَمِ بَيْنَ حَوْضَيْنِ، مَرَّةً إِلَى هَذَا، وَمَرَّةً إِلَى هَذَا"، فَأَنَا أَرَى نَاسًا يَسْتَأْذِنُونَ عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، رَأَيْتُهُمْ الْعَامَ يَسْتَأْذِنُونَ عَلَى مُعَاوِيَةَ، فَذَكَرْتُ مَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عمران بن حصین ضبی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ بصرہ آئے اس وقت وہاں کے گورنر سیدنا عبداللہ بن عباس تھے وہاں ایک آدمی محل کے سائے میں کھڑا ہوا بار بار یہی کہے جارہا تھا کہ اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا: وہ اس سے آگے نہیں بڑھتا تھا میں اس کے قریب گیا اور اس سے پوچھا کہ آپ نے اتنی زیادہ مرتبہ کہا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا: اس نے جواب دیا کہ اگر تم چاہتے ہو تو میں تمہیں بتاسکتا ہوں میں نے کہا ضرور اس نے کہا پھر بیٹھ جاؤ اس نے کہا کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں فلاں فلاں وقت حاضر ہوا جبکہ آپ مدینہ منورہ میں تھے۔ اس وقت ہمارے قبیلے کے دو سراداروں کا ایک بچہ نکل کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گیا وہ دونوں مجھ سے کہنے لگے کہ وہاں ہمارا ایک بچہ بھی اس آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جا کر مل گیا ہے تم اس آدمی کے پاس جا کر اس سے ہمارا بچہ واپس دینے کی درخواست کرنا اگر وہ فدیہ لئے بغیر نہ مانے تو فدیہ بھی دیدینا چنانچہ میں مدینہ منورہ پہنچ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے قبیلے کے دو سردراوں نے یہ کہہ کر بھیجا ہے کہ ان کا جو بچہ آپ کے پاس آگیا ہے اسے اپنے ساتھ لے جانے کی درخواست کر وں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم اس بچے کو جانتے ہو میں نے عرض کیا: کہ میں اس کا نسب نامہ جانتا ہوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکے کو بلایا وہ آیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ یہی بچہ ہے تم اسے اس کے والدین کے پاس لے جا سکتے ہو۔ میں نے بارگاہ نبوت میں عرض کیا: اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کچھ فدیہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم آل محمد کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ اولاد اسماعیل کی قیمت کھاتے پھریں پھر میرے کندھے پر ہاتھ مار کر فرمایا کہ مجھے قریش کے متعلق خود انہی سے خطرہ ہے میں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! کیا مطلب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہاری عمر لمبی ہوئی تو تم انہیں یہاں دیکھو گے اور عام لوگوں کو ان کے درمیان پاؤ گے جیسے دو حوضوں کے درمیان بکریاں ہوں جو کبھی ادھر جاتی ہیں اور کبھی ادھر جاتی ہیں چنانچہ میں دیکھ رہاہوں کہ کچھ لوگ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ملنے کی اجازت چاہتے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جنہیں میں نے اسی سال سیدنا معاویہ سے ملنے کی اجازت مانگتے ہوئے دیکھا تھا اس وقت مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد یاد آگیا۔