(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، قال: سمعت عمرا ، سمع ابن عمر ، قال:" كنا نخابر، ولا نرى بذلك باسا، حتى زعم رافع بن خديج ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عنه، فتركناه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَمْرًا ، سَمِعَ ابْنَ عُمَرَ ، قَالَ:" كُنَّا نُخَابِرُ، وَلَا نَرَى بِذَلِكَ بَأْسًا، حَتَّى زَعَمَ رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْهُ، فَتَرَكْنَاهُ".
سیدنا ابن عمر سے مروی ہے کہ ہم لوگ زمین کو بٹائی پر دے دیا کرتے تھے اور اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے بعد میں سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرما دیا ہے اس لئے ہم نے اسے ترک کر دیا ہے۔
عبدالواحد بن نافع کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں مدینہ منورہ کی کسی مسجد کے قریب گزرا تو دیکھا کہ نماز کے لئے اقامت کہی جاری ہے اور ایک بزرگ مؤذن کو ملامت کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ تمہیں معلوم نہیں ہے کہ میرے والد نے مجھے یہ حدیث بتائی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس نماز کو موخر کرنے کا حکم دیتے تھے میں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ بزرگ کون ہیں انہوں نے بتایا کہ یہ عبداللہ بن رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ ہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف ومتنه منكر، عبدالواحد بن نافع ضعيف، فقد روي عن النبى صلى الله عليه وسلم من وجوه أنه كان يعجل العصر
(حديث مرفوع) (حديث موقوف) قال: واصاب رسول الله صلى الله عليه وسلم نهبا، فند منها بعير، فسعوا له، فلم يستطيعوا، فرماه رجل بسهم، فحبسه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن لهذه الإبل او قال لهذه النعم، اوابد كاوابد الوحش، فما غلبكم فاصنعوا به هكذا".(حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ: وَأَصَابَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهْبًا، فَنَدَّ مِنْهَا بَعِيرٌ، فَسَعَوْا لَهُ، فَلَمْ يَسْتَطِيعُوا، فَرَمَاهُ رَجُلٌ بِسَهْمٍ، فَحَبَسَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ لِهَذِهِ الْإِبِلِ أَوْ قَالَ لِهَذِهِ النَّعَمِ، أَوَابِدَ كَأَوَابِدِ الْوَحْشِ، فَمَا غَلَبَكُمْ فَاصْنَعُوا بِهِ هَكَذَا".
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! کل ہمارا دشمن جانوروں سے آمنا سامنا ہو گیا جبکہ ہمارے پاس تو کوئی چھری نہیں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دانت اور ناخن کے علاوہ جو چیز جانور کا خون بہادے اور اس پر اللہ کا نام بھی لیا گیا ہو تما سے کھا سکتے ہواور اس کی وجہ بھی بتادوں کہ دانت تو ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھری ہے۔ اسی دوران نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مال غنیمت کے طوپر کچھ اونٹ ملے جن میں سے ایک اونٹ بدک گیا لوگوں نے اسے قابو کرنے کی بہت کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے تنگ آ کر ایک آدمی نے اسے تاک کر تیر مارا اسے قابو میں کر لیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ جانور بھی بعض اوقات وحشی ہو جاتے ہیں جیسے وحشی جانور بپھر جاتے ہیں جب تم کسی جانور کو مغلوب ہو جاؤ تو اس کے ساتھ اسی طرح کیا کر و۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، قال: حدثنا ابي ، عن محمد بن إسحاق ، قال: حدثني محمد بن عمرو بن عطاء ، ان رجلا من بني حارثة حدثه، ان رافع بن خديج حدثهم: انهم خرجوا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر , قال: فلما نزل رسول الله صلى الله عليه وسلم للغداء، قال: علق كل رجل بخطام ناقته، ثم ارسلها تهز في الشجر , قال: ثم جلسنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال: ورحالنا على اباعرنا , قال: فرفع رسول الله صلى الله عليه وسلم راسه، فراى اكسية لنا فيها خيوط من عهن احمر , قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الا ارى هذه الحمرة قد علتكم"، قال: فقمنا سراعا لقول رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى نفر بعض إبلنا فاخذنا الاكسية، فنزعناها منها.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ بَنِي حَارِثَةَ حَدَّثَهُ، أَنَّ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ حَدَّثَهُمْ: أَنَّهُمْ خَرَجُوا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ , قَالَ: فَلَمَّا نَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْغَدَاءِ، قَالَ: عَلَّقَ كُلُّ رَجُلٍ بِخِطَامِ نَاقَتِهِ، ثُمَّ أَرْسَلَهَا تَهُزُّ فِي الشَّجَرِ , قَالَ: ثُمَّ جَلَسْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: وَرِحَالُنَا عَلَى أَبَاعِرِنَا , قَالَ: فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْسَهُ، فَرَأَى أَكْسِيَةً لَنَا فِيهَا خُيُوطٌ مِنْ عِهْنٍ أَحْمَرَ , قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَلَا أَرَى هَذِهِ الْحُمْرَةَ قَدْ عَلَتْكُمْ"، قَالَ: فَقُمْنَا سِرَاعًا لِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى نَفَرَ بَعْضُ إِبِلِنَا فَأَخَذْنَا الْأَكْسِيَةَ، فَنَزَعْنَاهَا مِنْهَا.
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر پر تھے کھانے کے لئے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑاؤ کیا تو ہر آدمی نے اپنے اونٹ کی مہار درخت سے باندھ دی اور انہیں درختوں میں چرنے کے لئے چھوڑ دیا پھر ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر بیٹھ گئے ہمارے اونٹوں پر کجاوے کسے ہوئے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ سر اٹھایا تو دیکھا کہ ہمارے اونٹوں پر سرخ اون کی دھاری دار زین پوشیں پڑی ہوئی ہیں یہ دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں دیکھ رہاہوں کہ یہ سرخ رنگ تمہاری کمزوری بن گیا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات سن کر ہم لوگ اس تیزی سے اٹھے کہ کچھ اونٹ بھاگنے لگے ہم نے ان کی زین پوش پکڑ کر ان پر سے اتار لی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لابهام راويه عن رافع بن خديج
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا عبد الواحد بن زياد ، قال: حدثنا سعيد ، حدثنا مجاهد ، قال: حدثني اسيد ابن اخي رافع بن خديج، قال: قال رافع بن خديج : نهانا رسول الله صلى الله عليه وسلم عن امر كان لنا نافعا، وطاعة الله وطاعة رسوله انفع لنا، قال:" من كانت له ارض فليزرعها، فإن عجز عنها، فليزرعها اخاه". قال ابو عبد الرحمن: قال ابي: هذا سعيد بن عبد الرحمن الزبيدي، حدث عنه سفيان الثوري، وحكام.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، حَدَّثَنَا مُجَاهِدٌ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أُسَيْدُ ابْنُ أَخِي رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: قَالَ رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ : نَهَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَمْرٍ كَانَ لَنَا نَافِعًا، وَطَاعَةُ اللَّهِ وَطَاعَةُ رَسُولِهِ أَنْفَعُ لَنَا، قَالَ:" مَنْ كَانَتْ لَهُ أَرْضٌ فَلْيَزْرَعْهَا، فَإِنْ عَجَزَ عَنْهَا، فَلْيُزْرِعْهَا أَخَاهُ". قَالَ أَبُو عَبْد الرحْمَن: قَالَ أَبِي: هَذَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الزُّبَيْدِيُّ، حَدَّثَ عَنْهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وحَكَّامٌ.
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک ایسی چیز سے منع فرمایا ہے جو ہمارے لئے نفع بخش ہو سکی تھی لیکن اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہمارے لئے اس سے بھی زیادہ نفع بخش ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ جس شخص کے پاس کوئی زمین ہو وہ خود اس میں کھیتی باڑی کر ے اگر خود نہیں کر سکتا تو اپنے کسی بھائی کو اجازت دیدے۔
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں لوگ قابل کاشت زمین سبزیوں پانی کی نالیوں اور کچھ بھوسی کے عوض بھی کرایہ پر دیدیتے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چیزوں کے عوض اسے اچھا نہیں سمجھا اس لئے اس سے منع فرما دیا البتہ درہم یا دینار کے عوض اسے کرائے پر دینے میں کوئی حرج نہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 2332، م: 1547، وهذا إسناد حسن
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بخار جہنم کی تپش کا اثر ہوتا ہے اسے پانی سے ٹھنڈا کیا کر و۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، قال: حدثنا شعبة ، قال: الحكم اخبرني، عن مجاهد ، عن رافع بن خديج ، قال:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الحقل" , قال: قلت: وما الحقل؟ قال: الثلث والربع , فلما سمع ذلك إبراهيم كره الثلث والربع، ولم ير باسا بالارض البيضاء ياخذها بالدراهم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: الْحَكَمُ أَخْبَرَنِي، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ ، قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْحَقْل" , قَالَ: قُلْتُ: وَمَا الْحَقْلُ؟ قَالَ: الثُّلُثُ وَالرُّبُعُ , فَلَمَّا سَمِعَ ذَلِكَ إِبْرَاهِيمُ كَرِهَ الثُّلُثَ وَالرُّبُعَ، وَلَمْ يَرَ بَأْسًا بِالْأَرْضِ الْبَيْضَاءِ يَأْخُذُهَا بِالدَّرَاهِمِ.
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حقل سے منع فرمایا ہے راوی نے پوچھا کہ حقل سے کیا مراد ہے انہوں نے جواب دیا کہ تہائی اور چوتھائی کے عوض زمین کو بٹائی پر دینا یہ حدیث سن کر ابراہیم نے بھی اس کے مکر وہ ہو نے کا فتوی دے دیا اور دراہم کے عوض زمین لینے پر کوئی حرج نہیں سمجھا۔
حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، مجاهد لم يسمع من رافع بن خديج
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سینگی لگانے والے کی کمائی گندی ہے اور فاحشہ عورت کی کمائی گندی ہے اور کتے کی قیمت گندی ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، قال: حدثنا شعبة ، عن سعيد بن مسروق ، عن عباية بن رفاعة بن رافع ، عن رافع بن خديج جده، انه قال: يا رسول الله، إنا لاقو العدو غدا وليس معنا مدى؟ قال:" ما انهر الدم وذكر اسم الله عليه فكل، ليس السن والظفر، وساحدثك: اما السن فعظم، واما الظفر فمدى الحبشة". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) واصاب رسول الله صلى الله عليه وسلم نهبا، فند بعير منها، فسعوا، فلم يستطيعوه فرماه رجل من القوم بسهم، فحبسه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن لهذه الإبل او النعم، اوابد كاوابد الوحش، فإذا غلبكم شيء منها فاصنعوا به هكذا". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قال: وكان النبي صلى الله عليه وسلم" يجعل في قسم الغنائم عشرا من الشاء ببعير". قال شعبة: واكثر علمي اني قد سمعت من سعيد هذا الحرف: وجعل عشرا من الشاء ببعير، وقد حدثني سفيان عنه. قال محمد: وقد سمعت من سفيان هذا الحرف.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ جَدِّهِ، أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا لَاقُو الْعَدُوِّ غَدًا وَلَيْسَ مَعَنَا مُدًى؟ قَالَ:" مَا أَنْهَرَ الدَّمَ وَذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ فَكُلْ، لَيْسَ السِّنَّ وَالظُّفُرَ، وَسَأُحَدِّثُكَ: أَمَّا السِّنُّ فَعَظْمٌ، وَأَمَّا الظُّفُرُ فَمُدَى الْحَبَشَةِ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وَأَصَابَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهْبًا، فَنَدَّ بَعِيرٌ مِنْهَا، فَسَعَوْا، فَلَمْ يَسْتَطِيعُوهُ فَرَمَاهُ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ بِسَهْمٍ، فَحَبَسَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ لِهَذِهِ الْإِبِلِ أَوْ النَّعَمِ، أَوَابِدَ كَأَوَابِدِ الْوَحْشِ، فَإِذَا غَلَبَكُمْ شَيْءٌ مِنْهَا فَاصْنَعُوا بِهِ هَكَذَا". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ: وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَجْعَلُ فِي قَسْمِ الْغَنَائِمِ عَشْرًا مِنَ الشَّاءِ بِبَعِيرٍ". قَالَ شُعْبَةُ: وَأَكْثَرُ عِلْمِي أَنِّي قَدْ سَمِعْتُ مِنْ سَعِيدٍ هَذَا الْحَرْفَ: وَجَعَلَ عَشْرًا مِنَ الشَّاءِ بِبَعِيرٍ، وَقَدْ حَدَّثَنِي سُفْيَانُ عَنْهُ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَقَدْ سَمِعْتُ مِنْ سُفْيَانَ هَذَا الْحَرْفَ.
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! کل ہمارا دشمن جانوروں سے آمنا سامنا ہو گیا جبکہ ہمارے پاس تو کوئی چھری نہیں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دانت اور ناخن کے علاوہ جو چیز جانور کا خون بہادے اور اس پر اللہ کا نام بھی لیا گیا ہو تم اسے کھا سکتے ہواور اس کی وجہ بھی بتادوں کہ دانت تو ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھری ہے۔ اسی دوران نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مال غنیمت کے طوپر کچھ اونٹ ملے جن میں سے ایک اونٹ بدک گیا لوگوں نے اسے قابو کرنے کی بہت کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے تنگ آ کر ایک آدمی نے اسے تاک کر تیر مارا اسے قابو میں کر لیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ جانور بھی بعض اوقات وحشی ہو جاتے ہیں جیسے وحشی جانور بپھر جاتے ہیں جب تم کسی جانور سے مغلوب ہو جاؤ تو اس کے ساتھ اسی طرح کیا کر و۔ اور مال غنیمت تقسیم کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم دس بکریوں کو ایک اونٹ کے مقابلے میں رکھتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن يحيى بن سعيد ، عن محمد بن يحيى بن حبان ، قال: سرق غلام لنعمان الانصاري نخلا صغارا، فرفع إلى مروان، فاراد ان يقطعه، فقال رافع بن خديج : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا يقطع في الثمر ولا في الكثر". قال: قلت: ليحيى ما الكثر؟ قال: الجمار.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ ، قَالَ: سَرَقَ غُلَامٌ لِنُعْمَانَ الْأَنْصَارِيِّ نَخْلًا صِغَارًا، فَرُفِعَ إِلَى مَرْوَانَ، فَأَرَادَ أَنْ يَقْطَعَهُ، فَقَالَ رافع بن خديج : قال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يُقْطَعُ فِي الثَّمَرِ وَلَا فِي الْكَثَرِ". قَالَ: قُلْتُ: لِيَحْيَى مَا الْكَثَرُ؟ قَالَ: الْجُمَّارُ.
محمد بن یحییٰ کہتے ہیں کہ نعمان انصاری کے ایک غلام نے کسی باغ میں تھوڑی کھجوریں چوری کر لیں یہ مقدمہ مروان کے سامنے پیش ہوا تو اس نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا ارادہ کیا اس پر سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھل یا شگوفے چوری کرنے پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد منقطع، بين محمد بن يحيى وبين رافع انقطاع
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، قال: اخبرنا سفيان ، عن منصور ، عن مجاهد ، عن اسيد بن ظهير ابن اخي رافع بن خديج، عن رافع بن خديج، قال: كان احدنا إذا استغنى عن ارضه اعطاها بالثلث والربع والنصف، ويشترط ثلاث جداول والقصارة وما سقى الربيع، وكان العيش إذ ذاك شديدا، وكان يعمل فيها بالحديد، وما شاء الله، ونصيب منها منفعة، فاتانا رافع بن خديج ، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم ينهاكم عن امر كان لكم نافعا، وطاعة الله وطاعة رسول الله صلى الله عليه وسلم انفع لكم، إن النبي صلى الله عليه وسلم ينهاكم عن الحقل، ويقول:" من استغنى عن ارضه، فليمنحها اخاه، او ليدع"، وينهاكم عن المزابنة , والمزابنة: ان يكون الرجل له المال العظيم من النخل، فياتيه الرجل، فيقول: قد اخذته بكذا وسقا من تمر.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ أُسَيْدِ بْنِ ظُهَيْرٍ ابْنُ أَخِي رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: كَانَ أَحَدُنَا إِذَا اسْتَغْنَى عَنْ أَرْضِهِ أَعْطَاهَا بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ وَالنِّصْفِ، وَيَشْتَرِطُ ثَلَاثَ جَدَاوِلَ وَالْقُصَارَةَ وَمَا سَقَى الرَّبِيعُ، وَكَانَ الْعَيْشُ إِذْ ذَاكَ شَدِيدًا، وَكَانَ يُعْمَلُ فِيهَا بِالْحَدِيدِ، وَمَا شَاءَ اللَّهُ، وَنُصِيبُ مِنْهَا مَنْفَعَةً، فَأَتَانَا رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَاكُمْ عَنْ أَمْرٍ كَانَ لَكُمْ نَافِعًا، وَطَاعَةُ اللَّهِ وَطَاعَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْفَعُ لَكُمْ، إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَاكُمْ عَنِ الْحَقْلِ، وَيَقُولُ:" مَنْ اسْتَغْنَى عَنْ أَرْضِهِ، فَلْيَمْنَحْهَا أَخَاهُ، أَوْ لِيَدَعْ"، وَيَنْهَاكُمْ عَنِ الْمُزَابَنَةِ , وَالْمُزَابَنَةُ: أَنْ يَكُونَ الرَّجُلُ لَهُ الْمَالُ الْعَظِيمُ مِنَ النَّخْلِ، فَيَأْتِيهِ الرَّجُلُ، فَيَقُولُ: قَدْ أَخَذْتُهُ بِكَذَا وَسْقًا مِنْ تَمْرٍ.
اسید بن ظہیر کہتے ہیں کہ جب ہم میں سے کوئی شخص اپنی زمین سے مستغنی ہوتا تو اسے تہائی چوتھائی اور نصف کے عوض دوسروں کو دے دیتا اور تین شرطیں لگاتا نہری نالیوں کے قریب پیدوار، بھوسی اور سبزیوں کی، اس وقت زندگی بڑی مشکل اور سخت تھی لوگ لوہے وغیرہ سے کام کرتے تھے البتہ انہیں اس کام میں منافع مل جاتا تھا ایک دن سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں ایک ایسی چیز سے منع فرمایا ہے جو تمہارے لئے نفع بخش ہو سکتی تھی لیکن اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت تمہارے لئے اس سے بھی زیادہ نفع بخش ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حقل سے روکتے ہوئے فرمایا ہے کہ جس شخص کے پاس کوئی زمین ہو وہ خود اس میں کھیتی باڑی کر ے اگر خود نہیں کر سکتا تو اپنے کسی بھائی کو اجازت دیدے اور مزابنہ سے منع فرمایا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے پاس کھجور کا بہت زیادہ مال ہو دوسرا آدمی اس کے پاس آ کر کہے کہ میں نے اتنے وسق کھجور کے عوض تم سے یہ مال لے لیا ہے۔
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔ سیدنا ابن عمر سے مروی ہے کہ ہم لوگ زمین کو بٹائی پردے دیا کرتے تھے اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے بعد میں سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے اس لئے ہم نے اسے ترک کر دیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، قال: حدثنا شعبة ، عن منصور ، قال: سمعت مجاهدا يحدث , عن اسيد بن ظهير ، قال: كان احدنا إذا استغنى عن ارضه، او افتقر إليها، اعطاها بالنصف والثلث والربع، ويشترط ثلاث جداول والقصارة وما سقى الربيع، وكنا نعمل فيها عملا شديدا، ونصيب منها منفعة، فاتانا رافع بن خديج ، فقال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن امر كان لكم نافعا وطاعة الله وطاعة رسول الله صلى الله عليه وسلم خير لكم، نهاكم عن الحقل، وقال:" من كانت له ارض فليمنحها اخاه، او ليدعها"، ونهانا عن المزابنة. والمزابنة: الرجل يكون له المال العظيم من النخل، فيجيء الرجل، فياخذها بكذا وكذا وسقا من تمر.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ مُجَاهِدًا يُحَدِّثُ , عَنْ أُسَيْدِ بْنِ ظُهَيْرٍ ، قَالَ: كَانَ أَحَدُنَا إِذَا اسْتَغْنَى عَنْ أَرْضِهِ، أَوْ افْتَقَرَ إِلَيْهَا، أَعْطَاهَا بِالنِّصْفِ وَالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ، وَيَشْتَرِطُ ثَلَاثَ جَدَاوِلَ وَالْقُصَارَةَ وَمَا سَقَى الرَّبِيعُ، وَكُنَّا نَعْمَلُ فِيهَا عَمَلًا شَدِيدًا، وَنُصِيبُ مِنْهَا مَنْفَعَةً، فَأَتَانَا رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ ، فَقَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَمْرٍ كَانَ لَكُمْ نَافِعًا وَطَاعَةُ اللَّهِ وَطَاعَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرٌ لَكُمْ، نَهَاكُمْ عَنِ الْحَقْلِ، وَقَالَ:" مَنْ كَانَتْ لَهُ أَرْضٌ فَلْيَمْنَحْهَا أَخَاهُ، أَوْ لِيَدَعْهَا"، وَنَهَانَا عَنِ الْمُزَابَنَةِ. وَالْمُزَابَنَةُ: الرَّجُلُ يَكُونُ لَهُ الْمَالُ الْعَظِيمُ مِنَ النَّخْلِ، فَيَجِيءُ الرَّجُلُ، فَيَأْخُذُهَا بِكَذَا وَكَذَا وَسْقًا مِنْ تَمْرٍ.
اسید بن ظہیر کہتے ہیں کہ جب ہم میں سے کوئی شخص اپنی زمین سے مستغنی ہوتا تو اسے تہائی چوتھائی اور نصف کے عوض دوسروں کودے دیتا اور تین شرطیں لگاتا نہری نالیوں کے قریب پیدوار، بھوسی اور سبزیوں کی، اس وقت زندگی بڑی مشکل اور سخت تھی لوگ لوہے وغیرہ سے کام کرتے تھے البتہ انہیں اس کام میں منافع مل جاتا تھا ایک دن سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں ایک ایسی چیز سے منع فرمایا ہے جو تمہارے لئے نفع بخش ہو سکتی تھی لیکن اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت تمہارے لئے اس سے بھی زیادہ نفع بخش ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حقل سے روکتے ہوئے فرمایا ہے کہ جس شخص کے پاس کوئی زمین ہو وہ خود اس میں کھیتی باڑی کر ے اگر خود نہیں کر سکتا تو اپنے کسی بھائی کو اجازت دیدے اور مزابنہ سے منع فرمایا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے پاس کھجور کا بہت زیادہ مال ہو دوسرا آدمی اس کے پاس آ کر کہے کہ میں نے اتنے وسق کھجور کے عوض تم سے یہ مال لے لیا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن سعيد ، وابن نمير , قالا: حدثنا عبيد الله قال يحيى: عن عبيد الله , اخبرني نافع ، قال: كان ابن عمر يكري المزارع، فبلغه ان رافعا ياثر فيه حديثا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فخرج إليه ابن عمر إلى البلاط، فساله، فاخبره ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" نهى عن كراء المزارع"، فترك عبد الله كراءها. قال ابن نمير في حديثه: فذهب إليه ابن عمر، وذهبت معه. وحدثناه محمد بن عبيد ايضا قال: فذهب ابن عمر، وذهبت معه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ , قَالَا: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ قَالَ يَحْيَى: عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ , أَخْبَرَنِي نَافِعٌ ، قَالَ: كَانَ ابْنُ عُمَرَ يُكْرِي الْمَزَارِعَ، فَبَلَغَهُ أَنَّ رَافِعًا يَأْثِرُ فِيهِ حَدِيثًا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَرَجَ إِلَيْهِ ابْنُ عُمَرَ إِلَى الْبَلَاطِ، فَسَأَلَهُ، فَأَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنْ كِرَاءِ الْمَزَارِعِ"، فَتَرَكَ عَبْدُ اللَّهِ كِرَاءَهَا. قَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ فِي حَدِيثِهِ: فَذَهَبَ إِلَيْهِ ابْنُ عُمَرَ، وَذَهَبْتُ مَعَهُ. وحَدَّثَنَاه مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ أَيْضًا قَالَ: فَذَهَبَ ابْنُ عُمَرَ، وَذَهَبْتُ مَعَهُ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگ زمین کو بٹائی پردے دیا کرتے تھے اور اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے بعد میں سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے، اس لئے ہم نے اسے ترک کر دیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن يحيى بن سعيد ، عن عباية بن رفاعة ، عن جده رافع بن خديج ، قال: إن جبريل او ملكا جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: ما تعدون من شهد بدرا فيكم؟ فقال:" خيارنا" , قال: كذلك هم عندنا خيارنا من الملائكة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ ، عَنْ جَدِّهِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ ، قَالَ: إِنَّ جِبْرِيلَ أَوْ مَلَكًا جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَا تَعُدُّونَ مَنْ شَهِدَ بَدْرًا فِيكُمْ؟ فقال:" خِيَارُنَا" , قَالَ: كَذَلِكَ هُمْ عِنْدَنَا خِيَارُنَا مِنَ الْمَلَائِكَةِ.
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا جبرائیل یا کوئی اور فرشتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ آپ لوگ اپنے درمیان شرکاء بدر کو کیسا پاتے ہیں بتایا کہ سب سے بہترین افراد اس پر انہوں نے کہا کہ ہمارے یہاں بھی وہ فرشتے سب سے بہترین سمجھے جاتے ہیں جو اس غزوے میں شریک ہوئے۔
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص مالک کی اجازت کے بغیر اس کی زمین میں فصل اگائے اسے اس کا خرچ ملے گا فصل میں سے کچھ نہیں ملے گا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح بطرقه، وهذا إسناد ضعيف لضعف شريك لكن تابعه ضعيف مثله. ولانقطاعه عطاء لم يسمع من رافع
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا عمر بن ذر ، عن مجاهد ، عن ابن رافع بن خديج ، عن ابيه ، قال: جاءنا من عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم اليوم عن امر كان يرفق بنا، وطاعة الله وطاعة رسول الله صلى الله عليه وسلم ارفق بنا،" نهانا ان نزرع ارضا إلا ارضا يملك احدنا رقبتها او منحة رجل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ ذَرٍّ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ ابْنِ رَافِعِ بْنِ خَدِيج ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: جَاءَنَا مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْيَوْمَ عَنْ أَمْرٍ كَانَ يَرْفُقُ بِنَا، وَطَاعَةُ اللَّهِ وَطَاعَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْفَقُ بِنَا،" نَهَانَا أَنْ نَزْرَعَ أَرْضًا إِلَّا أَرْضًا يَمْلِكُ أَحَدُنَا رَقَبَتَهَا أَوْ مِنْحَةَ رَجُلٍ".
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک ایسی چیز سے منع فرمایا ہے جو ہمارے لئے نفع بخش ہو سکتی تھی لیکن اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہمارے لئے اس سے بھی زیادہ نفع بخش ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مزارعت سے منع کرتے ہوئے فرمایا: جس شخص کے پاس کوئی زمین ہو وہ خود اس میں کھیتی باڑی کر ے اگر خود نہیں کر سکتا اپنے کسی بھائی کو اجازت دیدے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، ابن رافع بن خديج مجهول، لكنه توبع
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، حدثنا ايوب ، عن يعلى بن حكيم ، عن سليمان بن يسار ، عن رافع بن خديج ، قال: كنا نحاقل بالارض على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فنكريها بالثلث والربع والطعام المسمى، فجاءنا ذات يوم رجل من عمومتي، فقال: نهانا رسول الله صلى الله عليه وسلم عن امر كان لنا نافعا، وطاعة الله ورسوله انفع لنا،" نهانا ان نحاقل بالارض، فنكريها على الثلث والربع والطعام المسمى , وامر رب الارض ان يزرعها او يزرعها، وكره كراءها وما سوى ذلك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ يَعْلَى بْنِ حَكِيمٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ ، قَالَ: كُنَّا نُحَاقِلُ بِالْأَرْضِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنُكْرِيهَا بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ وَالطَّعَامِ الْمُسَمَّى، فَجَاءَنَا ذَاتَ يَوْمٍ رَجُلٌ مِنْ عُمُومَتِي، فَقَالَ: نَهَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَمْرٍ كَانَ لَنَا نَافِعًا، وَطَاعَةُ اللَّهِ وَرَسُولِهِ أَنْفَعُ لَنَا،" نَهَانَا أَنْ نُحَاقِلَ بِالْأَرْضِ، فَنُكْرِيَهَا عَلَى الثُّلُثِ وَالرُّبُعِ وَالطَّعَامِ الْمُسَمَّى , وَأَمَرَ رَبَّ الْأَرْضِ أَنْ يَزْرَعَهَا أَوْ يُزْرِعَهَا، وَكَرِهَ كِرَاءَهَا وَمَا سِوَى ذَلِكَ".
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں زمین کو بٹائی پر ایک تہائی، چوتھائی یاطے شدہ غلے پر کرایہ کی صورت میں دے دیا کرتے تھے لیکن ایک دن میرے ایک پھوپھا میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک ایسے کام سے منع کر دیا ہے جو کہ ہمارے لئے نفع بخش تھا لیکن اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت زیادہ نفع بخش ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بٹائی پر زمین دینے سے اور ایک تہائی یا چوتھائی یاطے شدہ غلے کے عوض کرایہ پر دینے سے منع فرمایا ہے اور زمین کے مالک کو حکم دیا کہ خود کاشت کاری کر ے یا دوسرے کو اجازت دیدے لیکن کرایہ پر اور اس کے علاوہ صورتوں کو آپ نے ناپسند کیا۔
سیدنا ابن عمر سے مروی ہے کہ ہم لوگ زمین کو بٹائی پردے دیا کرتے تھے اور اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے بعد میں سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے اس لئے ہم نے اسے ترک کر دیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا حجاج ، حدثنا ليث بن سعد ، عن عقيل ، عن ابن شهاب ، انه قال: اخبرني سالم بن عبد الله ، ان عبد الله بن عمر، قال: يا ابن خديج، ماذا تحدث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في كراء الارض؟ قال رافع : لقد سمعت عمي وكانا قد شهدا بدرا يحدثان اهل الدار، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" نهى عن كراء الارض".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ عُقَيْلٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، أَنَّهُ قَالَ: أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، قَالَ: يَا ابْنَ خَدِيجٍ، مَاذَا تُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي كِرَاءِ الْأَرْضِ؟ قَالَ رَافِعٌ : لَقَدْ سَمِعْت عَمَّيَّ وَكَانَا قَدْ شَهِدَا بَدْرًا يُحَدِّثَانِ أَهْلَ الدَّارِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنْ كِرَاءِ الْأَرْضِ".
سیدنا ابن عمر سے مروی ہے کہ انہوں نے سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ اے ابن خدیج آپ زمین کو کرایہ پر دینے کے حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کون سی حدیث بیان کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے دو چچاؤں سے جو شرکاء بدر میں سے تھے اپنے اہل خانہ کو یہ حدیث سناتے ہوئے سنا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کو کرایہ پر لینے دینے سے منع فرمایا ہے۔
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ کی رضا کے لئے حق کے ساتھ زکوٰۃ وصول کرنے والا اس شخص کی طرح ہے جو اللہ کے راستے میں جہاد کرتا ہوں تاآنکہ اپنے گھر واپس لوٹ آئے۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا الإسناد منقطع بين عاصم بن عمر وبين رافع بن خديج، وسيأتي متصلا بذكر محمود بن لبيد بين عاصم وبين رافع، هناك صرح ابن إسحاق بالتحديث
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سینگی لگانے والے کی کمائی گندی ہے فاحشہ عورت کی کمائی گندی ہے اور کتے کی قمت گندی ہے۔
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حقل سے منع فرمایا ہے راوی نے حقل کا معنی بتایا ہے کہ تہائی اور چوتھائی کے عوض زمین کو بٹائی پر دینا۔
حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، مجاهد لم يسمع من رافع