(حديث مرفوع) حدثنا مصعب بن المقدام ، ومحمد بن سابق , قالا: حدثنا إسرائيل ، عن ابي الجويرية ، ان معن بن يزيد حدثه، قال: بايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم انا وابي وجدي، وخطب علي فانكحني، وخاصمت إليه، فكان ابي يزيد خرج بدنانير يتصدق بها، فوضعها عند رجل في المسجد، فاخذتها، فاتيته بها، فقال: والله ما إياك اردت بها , فخاصمته إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" لك ما نويت يا يزيد، ولك يا معن ما اخذت".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُصْعَبُ بْنُ الْمِقْدَامِ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ سَابِقٍ , قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي الْجُوَيْرِيَةِ ، أَنَّ مَعْنَ بْنَ يَزِيدَ حَدَّثَهُ، قَالَ: بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَأَبِي وَجَدِّي، وَخَطَبَ عَلَيَّ فَأَنْكَحَنِي، وَخَاصَمْتُ إِلَيْهِ، فَكَانَ أَبِي يَزِيدُ خَرَجَ بِدَنَانِيرَ يَتَصَدَّقُ بِهَا، فَوَضَعَهَا عِنْدَ رَجُلٍ فِي الْمَسْجِدِ، فَأَخَذْتُهَا، فَأَتَيْتُهُ بِهَا، فَقَالَ: وَاللَّهِ مَا إِيَّاكَ أَرَدْتُ بِهَا , فَخَاصَمْتُهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" لَكَ مَا نَوَيْتَ يَا يَزِيدُ، وَلَكَ يَا مَعْنُ مَا أَخَذْتَ".
سیدنا معن بن یزید سے مروی ہے کہ میں نے میرے والد اور دادا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے پیغام نکاح پر خطبہ پڑھ کر میرا نکاح کر دیا میرے والد یزید نے کچھ دینار صدقہ کی نیت سے نکالے اور مسجد میں ایک آدمی کے ہاتھ پر رکھ دیئے وہ آدمی میں ہی تھا میں نے وہ دینار لئے اور ان کے پاس آیا تو وہ کہنے لگا کہ کہ میں نے تمہیں یہ دینار نہیں دینا چاہے تھے میں یہ مقدمہ لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یزید تمہیں اپنی نیت کا ثواب مل گیا اور معن جو تمہارے ہاتھ لگ گیا وہ تمہارا ہو گیا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 1422، مصعب بن المقدام و محمد بن سابق مختلف فيهما وقد توبعا
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن حماد ، قال: حدثنا ابو عوانة ، عن عاصم بن كليب ، قال: حدثني سهيل بن ذراع ، انه سمع معن بن يزيد او ابا معن ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اجتمعوا في مساجدكم، فإذا اجتمع قوم فليؤذنوني"، قال: فاجتمعنا اول الناس، فاتيناه، فجاء يمشي معنا حتى جلس إلينا، فتكلم متكلم منا، فقال: الحمد لله الذي ليس للحمد دونه مقتصر، وليس وراءه منفذ، ونحوا من هذا، فغضب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقام، فتلاومنا، ولام بعضنا بعضا، فقلنا: خصنا الله به ان اتانا اول الناس، وان فعل وفعل , قال: فاتيناه، فوجدناه في مسجد بني فلان، فكلمناه، فاقبل يمشي معنا، حتى جلس في مجلسه الذي كان فيه او قريبا منه، ثم قال:" إن الحمد لله، ما شاء الله جعل بين يديه، وما شاء جعل خلفه، وإن من البيان سحرا"، ثم اقبل علينا فامرنا، وكلمنا، وعلمنا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي سُهَيْلُ بْنُ ذِرَاعٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ مَعْنَ بْنَ يَزِيدَ أَوْ أَبَا مَعْنٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اجْتَمِعُوا فِي مَسَاجِدِكُمْ، فَإِذَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فَلْيُؤْذِنُونِي"، قَالَ: فَاجْتَمَعْنَا أَوَّلَ النَّاسِ، فَأَتَيْنَاهُ، فَجَاءَ يَمْشِي مَعَنَا حَتَّى جَلَسَ إِلَيْنَا، فَتَكَلَّمَ مُتَكَلِّمٌ مِنَّا، فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَيْسَ لِلْحَمْدِ دُونَهُ مُقْتَصَرٌ، وَلَيْسَ وَرَاءَهُ مَنْفَذٌ، وَنَحْوًا مِنْ هَذَا، فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ، فَتَلَاوَمْنَا، وَلَامَ بَعْضُنَا بَعْضًا، فَقُلْنَا: خَصَّنَا اللَّهُ بِهِ أَنْ أَتَانَا أَوَّلَ النَّاسِ، وَأَنْ فَعَلَ وَفَعَلَ , قَالَ: فَأَتَيْنَاهُ، فَوَجَدْنَاهُ فِي مَسْجِدِ بَنِي فُلَانٍ، فَكَلَّمْنَاهُ، فَأَقْبَلَ يَمْشِي مَعَنَا، حَتَّى جَلَسَ فِي مَجْلِسِهِ الَّذِي كَانَ فِيهِ أَوْ قَرِيبًا مِنْهُ، ثُمَّ قَالَ:" إِنَّ الْحَمْدَ لِلَّهِ، مَا شَاءَ اللَّهُ جَعَلَ بَيْنَ يَدَيْهِ، وَمَا شَاءَ جَعَلَ خَلْفَهُ، وَإِنَّ مِنَ الْبَيَانِ سِحْرًا"، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا فَأَمَرَنَا، وَكَلَّمَنَا، وَعَلَّمَنَا.
سیدنا معن سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مسجد میں سب لوگ جمع ہو جاؤ اور جب لوگ جمع ہو جائیں تو مجھے اطلاع کرنا چنانچہ سب سے پہلے ہم لوگ آئے تھوڑی دیر بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم باوقار طریقے سے چلتے ہوئے تشریف لائے اور آ کر رونق افروز ہو گئے اسی اثناء میں ہم میں سے ایک آدمی تک بندی کے ساتھ کلام کرتے ہوئے کہنے لگا نبی صلی اللہ علیہ وسلم غصے میں آ کر کھڑے ہو گئے۔ ہم ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے کہ اللہ نے ہمیں سب سے پہلے حاضر ہو نے کی خصوصیت عطا فرمائی تھی اور فلاں شخص نے یہ حرکت کر دی پھر ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ کو بنو فلاں کی مسجد میں پایا ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو راضی کرنے کے لئے کوشش کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ چلتے ہوئے آئے اور پہلے والی نشست پر آ کر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں وہ جسے چاہتا ہے اپنے سامنے کر لیتا ہے اور جسے چاہتا ہے پیچھے کر دیتا ہے اور بعض بیان جادو کا سا اثر رکھتے ہیں پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف متوجہ ہو کر ہمیں کچھ احکامات بتائے اور کچھ باتیں تعلیم فرمائیں۔
حكم دارالسلام: بعضه صحيح لغيره، وهذا اسناد ضعيف، سهيل بن ذرا مجهول
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، قال: حدثنا ابو عوانة ، قال: حدثنا عاصم بن كليب ، قال: حدثني ابو الجويرية ، قال:" اصبت جرة حمراء فيها دنانير في إمارة معاوية في ارض الروم، قال: وعلينا رجل من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم من بني سليم يقال له: معن بن يزيد ، قال: فاتيت بها يقسمها بين المسلمين، فاعطاني مثل ما اعطى رجلا منهم، ثم قال: لولا اني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم ورايته يفعله سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" لا نفل إلا بعد الخمس" إذا لاعطيتك. قال: ثم اخذ فعرض علي من نصيبه، فابيت عليه , قلت: ما انا باحق به منك.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ كُلَيْبٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو الْجُوَيْرِيَةِ ، قَالَ:" أَصَبْتُ جَرَّةً حَمْرَاءَ فِيهَا دَنَانِيرُ فِي إِمَارَةِ مُعَاوِيَةَ فِي أَرْضِ الرُّومِ، قَالَ: وَعَلَيْنَا رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ يُقَالُ لَهُ: مَعْنُ بْنُ يَزِيدَ ، قَالَ: فَأَتَيْتُ بِهَا يَقْسِمُهَا بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ، فَأَعْطَانِي مِثْلَ مَا أَعْطَى رَجُلًا مِنْهُمْ، ثُمَّ قَالَ: لَوْلَا أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَأَيْتُهُ يَفْعَلُهُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" لَا نَفْلَ إِلَّا بَعْدَ الْخُمُسِ" إِذًا لَأَعْطَيْتُكَ. قَالَ: ثُمَّ أَخَذَ فَعَرَضَ عَلَيَّ مِنْ نَصِيبِهِ، فَأَبَيْتُ عَلَيْهِ , قُلْتُ: مَا أَنَا بِأَحَقَّ بِهِ مِنْكَ.
ابوجویریہ کہتے ہیں کہ سیدنا امیر معاویہ کے دور خلافت میں سر زمین روم میں مجھے سرخ رنگ کا ایک مٹکا ملا جس میں دینار بھرے ہوئے تھے ہمارے سپہ سالار بنوسلیم میں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی تھے جن کا نام معن بن یزید تھا میں وہ مٹکا ان کے پاس لے کر گیا تاکہ وہ اسے مسلمانوں میں تقسیم کر دیں چنانچہ انہوں نے مجھے بھی اتنا ہی دیا جتنا ایک عام آدمی کو دیا تھا پھر فرمایا کہ اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا اور کرتے ہوئے دیکھا نہ ہوتا کہ خمس کے بعد انعام نہیں رہتا تو میں یہ سارا کچھ تمہیں دیدیتا پھر انہوں نے مجھے اپناحصہ دینے کی پیش کش کی لیکن میں نے اسے لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ میں آپ سے زیادہ اس کا حق دار نہیں ہوں۔
سیدنا معن بن یزید سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر میں نے میرے والد اور دادانے بیعت کی میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنا مقدمہ رکھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے حق میں فیصلہ کر دیا اور میرے پیغام نکاح پر خطبہ پڑھ کر میرا نکاح کر دیا۔ سیدنا معن بن یزید سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر میں نے میرے والد اور دادانے بیعت کی میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنا مقدمہ رکھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے حق میں فیصلہ کر دیا اور میرے پیغام نکاح پر خطبہ پڑھ کر میرا نکاح کر دیا۔