(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل بن إبراهيم ، قال: اخبرنا محمد بن إسحاق ، قال: حدثني سعيد بن عبيد بن السباق ، عن ابيه ، عن سهل بن حنيف ، قال: كنت القى من المذي شدة، فكنت اكثر الاغتسال منه، فسالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فقال:" إنما يجزئك منه الوضوء"، فقلت: كيف بما يصيب ثوبي؟ فقال:" يكفيك ان تاخذ كفا من ماء، فتمسح بها من ثوبك، حيث ترى انه اصاب".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ عُبَيْدِ بْنِ السَّبَّاقِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ ، قَالَ: كُنْتُ أَلْقَى مِنَ الْمَذْيِ شِدَّةً، فَكُنْتُ أُكْثِرُ الِاغْتِسَالَ مِنْهُ، فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ:" إِنَّمَا يُجْزِئُكَ مِنْهُ الْوُضُوءُ"، فَقُلْتُ: كَيْفَ بِمَا يُصِيبُ ثَوْبِي؟ فَقَالَ:" يَكْفِيكَ أَنْ تَأْخُذَ كَفًّا مِنْ مَاءٍ، فَتَمْسَحَ بِهَا مِنْ ثَوْبِكَ، حَيْثُ تَرَى أَنَّهُ أَصَابَ".
سیدنا سہل بن حنیف سے مروی ہے کہ مجھے کثرت سے خروج مذی کا مرض تھا جس کی بناء پر مجھے کثرت سے غسل بھی کرنا پڑتا تھا ایک دن میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا: تو آپ نے فرمایا: تمہارے لئے وضو ہی کافی ہے میں نے پوچھا کہ اس کے جو قطرے کپڑوں کو لگ جائیں فرمایا: اس کے لئے اتناہی کافی ہے کہ ہتھیلی میں پانی بھرو اور جہاں اس کے نشانات دیکھو اس پر چھڑک دو۔
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا سفيان بن عيينة ، قال: حدثنا الاعمش ، عن ابي وائل ، قال: قال سهل بن حنيف : اتهموا رايكم، فلقد رايتنا يوم ابي جندل ولو نستطيع ان نرد امره لرددناه، والله ما وضعنا سيوفنا عن عواتقنا منذ اسلمنا لامر يفظعنا إلا اسهل بنا إلى امر نعرفه، إلا هذا الامر ما سددنا خصما إلا انفتح لنا خصم آخر.(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، قَالَ: قَالَ سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ : اتَّهِمُوا رَأْيَكُمْ، فَلَقَدْ رَأَيْتُنَا يَوْمَ أَبِي جَنْدَلٍ وَلَوْ نَسْتَطِيعُ أَنْ نَرُدَّ أَمْرَهُ لَرَدَدْنَاهُ، وَاللَّهِ مَا وَضَعْنَا سُيُوفَنَا عَنْ عَوَاتِقِنَا مُنْذُ أَسْلَمْنَا لِأَمْرٍ يُفْظِعُنَا إِلَّا أَسْهَلَ بِنَا إِلَى أَمْرٍ نَعْرِفُهُ، إِلَّا هَذَا الْأَمْرَ مَا سَدَدْنَا خَصْمًا إِلَّا انْفَتَحَ لَنَا خَصْمٌ آخَرُ.
سیدنا سہل بن حنیف سے مروی ہے کہ اپنی رائے کو ہمیشہ صحیح نہ سمجھا کر و میں نے ابوجندل والا دن دیکھا ہے اگر ہم میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی حکم کو ٹالنے کی ہمت ہو تی تو اس دن ٹال دیتے واللہ اسلام قبول کرنے کے بعد جب بھی ہم نے کسی پریشان کن معاملے میں اپنے کندھوں سے تلواریں اتاریں وہ ہمارے لئے آسان ہو گیا سوائے اس معاملے کے کہ جب بھی ہم ایک فریق کا راستہ بند کرتے ہیں تو دوسرے کا راستہ کھل جاتا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعلى بن عبيد ، عن عبد العزيز بن سياه ، عن حبيب بن ابي ثابت ، قال: اتيت ابا وائل في مسجد اهله اساله عن هؤلاء القوم الذين قتلهم علي بالنهروان، فيما استجابوا له، وفيما فارقوه، وفيما استحل قتالهم، قال: كنا بصفين، فلما استحر القتل باهل الشام، اعتصموا بتل، فقال عمرو بن العاص لمعاوية: ارسل إلى علي بمصحف، وادعه إلى كتاب الله، فإنه لن يابى عليك , فجاء به رجل، فقال: بيننا وبينكم كتاب الله الم تر إلى الذين اوتوا نصيبا من الكتاب يدعون إلى كتاب الله ليحكم بينهم ثم يتولى فريق منهم وهم معرضون , فقال علي: نعم، انا اولى بذلك، بيننا وبينكم كتاب الله. قال: فجاءته الخوارج ونحن ندعوهم يومئذ: القراء، وسيوفهم على عواتقهم، فقالوا: يا امير المؤمنين، ما ننتظر بهؤلاء القوم الذين على التل؟ الا نمشي إليهم بسيوفنا حتى يحكم الله بيننا وبينهم؟ فتكلم سهل بن حنيف ، فقال: يا ايها الناس، اتهموا انفسكم، فلقد رايتنا يوم الحديبية يعني الصلح الذي كان بين رسول الله صلى الله عليه وسلم وبين المشركين ولو نرى قتالا لقاتلنا، فجاء عمر إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، السنا على الحق وهم على باطل؟ اليس قتلانا في الجنة وقتلاهم في النار؟ قال:" بلى"، قال: ففيم نعطي الدنية في ديننا ونرجع ولما يحكم الله بيننا وبينهم؟ فقال:" يا ابن الخطاب، إني رسول الله، ولن يضيعني ابدا"، قال: فرجع وهو متغيظ , فلم يصبر حتى اتى ابا بكر، فقال: يا ابا بكر، السنا على حق وهم على باطل؟ اليس قتلانا في الجنة وقتلاهم في النار؟ قال: بلى , قال: ففيم نعطي الدنية في ديننا ونرجع ولما يحكم الله بيننا وبينهم؟ فقال: يا ابن الخطاب، إنه رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولن يضيعه الله ابدا , قال: فنزلت سورة الفتح، قال: فارسلني رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى عمر، فاقراها إياه , قال: يا رسول الله، وفتح هو؟ قال:" نعم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ سِيَاهٍ ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ ، قَالَ: أَتَيْتُ أَبَا وَائِلٍ فِي مَسْجِدِ أَهْلِهِ أَسْأَلُهُ عَنْ هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ الَّذِينَ قَتَلَهُمْ عَلِيٌّ بِالنَّهْرَوَانِ، فَِيمَا اسْتَجَابُوا لَهُ، وَفِيمَا فَارَقُوهُ، وَفِيمَا اسْتَحَلَّ قِتَالَهُمْ، قَالَ: كُنَّا بِصِفِّينَ، فَلَمَّا اسْتَحَرَّ الْقَتْلُ بِأَهْلِ الشَّامِ، اعْتَصَمُوا بِتَلٍّ، فَقَالَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ لِمُعَاوِيَةَ: أَرْسِلْ إِلَى عَلِيٍّ بِمُصْحَفٍ، وَادْعُهُ إِلَى كِتَابِ اللَّهِ، فَإِنَّهُ لَنْ يَأْبَى عَلَيْكَ , فَجَاءَ بِهِ رَجُلٌ، فَقَالَ: بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ كِتَابُ اللَّهِ أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ يُدْعَوْنَ إِلَى كِتَابِ اللَّهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ يَتَوَلَّى فَرِيقٌ مِنْهُمْ وَهُمْ مُعْرِضُونَ , فَقَالَ عَلِيٌّ: نَعَمْ، أَنَا أَوْلَى بِذَلِكَ، بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ كِتَابُ اللَّهِ. قَالَ: فجاءته الخوارج وَنَحْنُ نَدْعُوهُمْ يَوْمَئِذٍ: الْقُرَّاءَ، وَسُيُوفُهُمْ عَلَى عَوَاتِقِهِمْ، فَقَالُوا: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، مَا نَنْتَظِرُ بِهَؤُلَاءِ الْقَوْمِ الَّذِينَ عَلَى التَّلِّ؟ أَلَا نَمْشِي إِلَيْهِمْ بِسُيُوفِنَا حَتَّى يَحْكُمَ اللَّهُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ؟ فَتَكَلَّمَ سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ ، فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، اتَّهِمُوا أَنْفُسَكُمْ، فَلَقَدْ رَأَيْتُنَا يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ يَعْنِي الصُّلْحَ الَّذِي كَانَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ الْمُشْرِكِينَ وَلَوْ نَرَى قِتَالًا لَقَاتَلْنَا، فَجَاءَ عُمَرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَسْنَا عَلَى الْحَقِّ وَهُمْ عَلَى بَاطِلٍ؟ أَلَيْسَ قَتْلَانَا فِي الْجَنَّةِ وَقَتْلَاهُمْ فِي النَّارِ؟ قَالَ:" بَلَى"، قَالَ: فَفِيمَ نُعْطِي الدَّنِيَّةَ فِي دِينِنَا وَنَرْجِعُ وَلَمَّا يَحْكُمِ اللَّهُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ؟ فَقَالَ:" يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ، وَلَنْ يُضَيِّعَنِي أَبَدًا"، قَالَ: فَرَجَعَ وَهُوَ مُتَغَيِّظٌ , فَلَمْ يَصْبِرْ حَتَّى أَتَى أَبَا بَكْرٍ، فَقَالَ: يَا أَبَا بَكْرٍ، أَلَسْنَا عَلَى حَقٍّ وَهُمْ عَلَى بَاطِلٍ؟ أَلَيْسَ قَتْلَانَا فِي الْجَنَّةِ وَقَتْلَاهُمْ فِي النَّارِ؟ قَالَ: بَلَى , قَالَ: فَفِيمَ نُعْطِي الدَّنِيَّةَ فِي دِينِنَا وَنَرْجِعُ وَلَمَّا يَحْكُمِ اللَّهُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ؟ فَقَالَ: يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، إِنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَنْ يُضَيِّعَهُ اللَّهُ أَبَدًا , قَالَ: فَنَزَلَتْ سُورَةُ الْفَتْحِ، قَالَ: فَأَرْسَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى عُمَرَ، فَأَقْرَأَهَا إِيَّاهُ , قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَفَتْحٌ هُوَ؟ قَالَ:" نَعَمْ".
حبیب بن ابی ثابت کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں ابو وائل کے پاس ان کے گھر کی مسجد میں آیا تاکہ ان سے ان لوگوں کے متعلق پوچھ سکوں جنہیں سیدنا علی نے نہروان کے مقام پر قتل کیا تھا انہوں نے سیدنا علی کی کون سی بات مانی کس میں اختلاف کیا۔ اور سیدنا علی نے کس بناء پر ان سے قتال کو جائز سمجھا وہ کہنے لگے کہ ہم لوگ صفین میں تھے جب اہل شام کے مقتولین کی تعداد زیادہ بڑھنے لگی تو وہ ایک ٹیلے پر چڑھ گئے اور سیدنا عمرو بن عاص نے سیدنا امیر معاویہ سے کہا کہ آپ سیدنا علی کے پاس قرآن کر یم کا ایک نسخہ بھیجیے اور انہیں کتاب اللہ کی دعوت دیجیے وہ آپ کی بات سے کسی صورت انکار نہیں کر یں گے۔ چنانچہ سیدنا علی کے پاس ایک آدمی یہ پیغام لے کر آیا اور کہنے لگا کہ ہمارے اور تمہارے درمیان کتاب اللہ ثالث ہے اور یہ آیت پڑھی کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں کتاب کا کچھ حصہ دیا گیا وہ انہیں کتاب اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرنے کا زیادہ حق دارہوں ہمارے اور تمہارے درمیان کتاب اللہ ثالث ہے اس کے بعد خوارج جنہیں ہم اس وقت قراء کہتے تھے سیدنا علی کے پاس اپنے کندھوں پر تلواریں لٹکائے ہوئے آئے اور کہنے لگے کہ اے امیر المومنین یہ لوگ جو ٹیلے پر ہیں ان کے متعلق ہم کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں کیا ہم ان پر اپنی تلواریں لے کر حملہ نہ کر دے یہاں تک کہ اللہ ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ کر دے۔ اس پر سیدنا سہل بن حنیف بولے اور کہنے لگے اے لوگو اپنے آپ کو ہمیشہ صحیح مت سمجھا کر و ہم نے حدیبیہ کا وہ دن بھی دیکھا ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین کے درمیان صلح ہوئی تھی اگر ہم جنگ کرنا چاہتے تو کر سکتے تھے اسی دوران سیدنا عمر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ! کیا ہم حق پر ہیں اور وہ باطل پر نہیں ہیں کیا ہمارے مقتول جنت میں اور ان کے مقتول جہنم میں نہیں جائیں گے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیوں نہیں وہ کہنے لگے کہ پھر ہم اپنے دین کے معاملے میں دب کر صلح کیوں کر یں اور اسی طرح واپس لوٹ جائیں کہ اللہ نے ابھی تک ہمارے اور ان کے درمیان کوئی فیصلہ ہی نہیں کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابن خطاب میں اللہ کا پیغمبر ہوں وہ مجھے کبھی بھی ضائع نہیں کر ے گا۔ سیدنا عمر اسی طرح غصے کی حالت میں واپس چلے گئے اور ان سے صبر نہ ہو سکا وہ سیدنا ابوبکر کے پاس پہنچے اور ان سے بھی یہی سوال و جواب ہوئے سیدنا صدیق اکبر نے فرمایا: وہ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ انہیں کبھی بھی ضائع نہیں کر ے گا اس کے بعد سورت فتح نازل ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سیدنا عمر کے پاس بھیجا اور انہیں یہ سورت پڑھ کر سنائی سیدنا عمر کہنے لگے یا رسول اللہ! کیا یہ فتح ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔
سیدنا سہل بن حنیف سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مشرق کی طرف سے ایک قوم آئے گی جو بھٹکتی پھرے گی اور ان کے سرمنڈے ہوئے ہوں گے کسی نے مدینہ منورہ کے متعلق پوچھا: تو فرمایا کہ وہ حرم ہے اور امن وامان والا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو النضر ، قال: حدثنا حزام بن إسماعيل العامري ، عن ابي إسحاق الشيباني ، عن يسير بن عمرو ، قال: دخلت على سهل بن حنيف ، فقلت: حدثني ما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال في الحرورية , قال: احدثك ما سمعت لا ازيدك عليه: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يذكر قوما يخرجون من هاهنا، واشار بيده نحو العراق" يقرءون القرآن لا يجاوز حناجرهم، يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية" , قلت: هل ذكر لهم علامة؟ قال: هذا ما سمعت، لا ازيدك عليه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا حِزَامُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْعَامِرِيُّ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ الشَّيْبَانِيِّ ، عَنْ يُسَيْرِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ ، فَقُلْتُ: حَدِّثْنِي مَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ فِي الْحَرُورِيَّةِ , قَالَ: أُحَدِّثُكَ مَا سَمِعْتُ لَا أَزِيدُكَ عَلَيْهِ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ قَوْمًا يَخْرُجُونَ مِنْ هَاهُنَا، وَأَشَارَ بِيَدِهِ نَحْوَ الْعِرَاقِ" يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ" , قُلْتُ: هَلْ ذَكَرَ لَهُمْ عَلَامَةً؟ قَالَ: هَذَا مَا سَمِعْتُ، لَا أَزِيدُكَ عَلَيْهِ.
یسیر بن عمرو سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں سیدنا سہل بن حنیف کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے عرض کیا: کہ مجھے کوئی ایسی حدیث سنائیے جو فرقہ حروریہ کے متعلق آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوانہوں نے فرمایا کہ میں تم سے صرف اتنا ہی بیان کرتا ہوں جو میں نے سنا ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں کہتا میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک قوم کا ذکر کرتے ہوئے سنا ہے جو یہاں سے نکلے گی اور عراق کی طرف اشارہ کیا وہ لوگ قرآن تو پڑھتے ہوں گے لیکن وہ ان کے گلے سے نیچے نہیں اترے گا وہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ راوی کہتے ہیں میں نے ان سے پوچھا کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی کوئی علامت بھی ذکر فرمائی ہے انہوں نے جواب دیا میں نے جو سنا تھا وہ یہی ہے کہ میں اسے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 1068، لم يوجد فى حزام بن إسماعيل توثيق، لكنه توبع
(حديث مرفوع) حدثنا يونس بن محمد وعفان ، قالا: حدثنا عبد الواحد يعني ابن زياد , قال: حدثنا عثمان بن حكيم ، قال: حدثتني جدتي الرباب . وقال يونس في حديثه: قالت: سمعت سهل بن حنيف يقول: مررنا بسيل، فدخلت فاغتسلت منه، فخرجت محموما، فنمي ذلك إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" مروا ابا ثابت يتعوذ" , قلت: يا سيدي، والرقى صالحة؟ قال:" لا رقية إلا في نفس، او حمة , او لدغة". قال عفان:" النظرة , واللدغة , والحمة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ وَعَفَّانُ ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ يَعْنِي ابْنَ زِيَادٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ حَكِيمٍ ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي جَدَّتِي الرَّبَابُ . وَقَالَ يُونُسُ فِي حَدِيثِهِ: قَالَتْ: سَمِعْتُ سَهْلَ بْنَ حُنَيْفٍ يَقُولُ: مَرَرْنَا بِسَيْلٍ، فَدَخَلْتُ فَاغْتَسَلْتُ مِنْهُ، فَخَرَجْتُ مَحْمُومًا، فَنُمِيَ ذَلِكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" مُرُوا أَبَا ثَابِتٍ يَتَعَوَّذُ" , قُلْتُ: يَا سَيِّدِي، وَالرُّقَى صَالِحَةٌ؟ قَالَ:" لَا رُقْيَةَ إِلَّا فِي نَفْسٍ، أَوْ حُمَةٍ , أَوْ لَدْغَةٍ". قَالَ عَفَّانُ:" النَّظْرَةُ , وَاللَّدْغَةُ , وَالْحُمَةُ".
سیدنا سہل بن حنیف سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کسی علاقے میں پانی کی ندی پر سے ہمارا گزر ہوا میں اس میں غسل کرنے لگا جب نکلا تو بخار چڑھ چکا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ چلا تو فرمایا: ابوثابت سے کہو کہ اپنے اوپر تعوذ پڑھ کر پھونک لیں میں نے عرض کیا: آقا جھاڑ پھونک بھی ہو سکتا ہے فرمایا: جھاڑ پھونک صرف نظر بد سانپ کے ڈسنے یا بچھو کے ڈسنے کی صورت میں ہو سکتا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، الرباب مجهولة
(حديث مرفوع) حدثنا إسحاق بن عيسى ، قال: حدثنا مالك ، عن ابي النضر ، عن عبيد الله بن عبد الله ، انه دخل على ابي طلحة الانصاري يعوده، قال: فوجدنا عنده سهل بن حنيف، قال: فدعا ابو طلحة إنسانا، فنزع نمطا تحته، فقال له سهل بن حنيف: لم تنزعه؟ قال: لان فيه تصاوير، وقد قال فيها رسول الله صلى الله عليه وسلم ما قد علمت , قال سهل : اولم يقل:" إلا ما كان رقما في ثوب؟" , قال: بلى، ولكنه اطيب لنفسي.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى أَبِي طَلْحَةَ الْأَنْصَارِيِّ يَعُودُهُ، قَالَ: فَوَجَدْنَا عِنْدَهُ سَهْلَ بْنَ حُنَيْفٍ، قَالَ: فَدَعَا أَبُو طَلْحَةَ إِنْسَانًا، فَنَزَعَ نَمَطًا تَحْتَهُ، فَقَالَ لَهُ سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ: لِمَ تَنْزِعُهُ؟ قَالَ: لِأَنَّ فِيهِ تَصَاوِيرَ، وَقَدْ قَالَ فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا قَدْ عَلِمْتَ , قَالَ سَهْلٌ : أَوَلَمْ يَقُلْ:" إِلَّا مَا كَانَ رَقْمًا فِي ثَوْبٍ؟" , قَالَ: بَلَى، وَلَكِنَّهُ أَطْيَبُ لِنَفْسِي.
عبیداللہ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ سیدنا ابوطلحہ انصاری کے پاس ان کی عیادت کے لئے گئے تو وہاں سیدنا سہل بن حنیف بھی آئے ہوئے تھے اسی دوران سیدنا ابوطلحہ نے ایک آدمی کو بلایا جس نے ان کے حکم پر ان کے نیچے بچھا ہوا نمطہ نکال لیا سیدنا سہل نے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے فرمایا کہ اس پر تصویریں ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق جو فرمایا ہے وہ آپ بھی جانتے ہیں سیدنا سہل نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کپڑوں میں بنے ہوئے نقش کو مستثنی نہیں کیا انہوں نے فرمایا: کیوں نہیں لیکن مجھے اسی میں اپنے لئے راحت محسوس ہو تی ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وفي هذا الإسناد مقال، فقول عبيد الله: أنه دخل على أبى طلحة فوجد عنده سهل بن حنيف وهم، والصواب: أن بين عبيدالله وبين أبى طلحة ابن عباس وعبيدالله لم ير سهل بن حنيف قط لعل الصواب فيه عثمان بن حنيف
(حديث مرفوع) حدثنا حسين بن محمد ، قال: حدثنا ابو اويس ، حدثنا الزهري ، عن ابي امامة بن سهل بن حنيف ، ان اباه حدثه , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج وساروا معه نحو مكة، حتى إذا كانوا بشعب الخزار من الجحفة، اغتسل سهل بن حنيف، وكان رجلا ابيض، حسن الجسم والجلد، فنظر إليه عامر بن ربيعة اخو بني عدي بن كعب وهو يغتسل، فقال: ما رايت كاليوم ولا جلد مخباة، فلبط سهل، فاتي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقيل له: يا رسول الله، هل لك في سهل , والله ما يرفع راسه وما يفيق , قال:" هل تتهمون فيه من احد؟" , قالوا: نظر إليه عامر بن ربيعة , فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم عامرا، فتغيظ عليه، وقال:" علام يقتل احدكم اخاه؟ هلا إذا رايت ما يعجبك بركت؟" , ثم قال له:" اغتسل له" , فغسل وجهه ويديه، ومرفقيه وركبتيه، واطراف رجليه، وداخلة إزاره في قدح، ثم صب ذلك الماء عليه، يصبه رجل على راسه وظهره من خلفه، ثم يكفئ القدح وراءه، ففعل به ذلك، فراح سهل مع الناس، ليس به باس.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أُوَيْسٍ ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ ، أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ وَسَارُوا مَعَهُ نَحْوَ مَكَّةَ، حَتَّى إِذَا كَانُوا بِشِعْبِ الْخَزَّارِ مِنَ الْجُحْفَةِ، اغْتَسَلَ سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ، وَكَانَ رَجُلًا أَبْيَضَ، حَسَنَ الْجِسْمِ وَالْجِلْدِ، فَنَظَرَ إِلَيْهِ عَامِرُ بْنُ رَبِيعَةَ أَخُو بَنِي عَدِيِّ بْنِ كَعْبٍ وَهُوَ يَغْتَسِلُ، فَقَالَ: مَا رَأَيْتُ كَالْيَوْمِ وَلَا جِلْدَ مُخَبَّأَةٍ، فَلُبِطَ سَهْلٌ، فَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقِيلَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ لَكَ فِي سَهْلٍ , وَاللَّهِ مَا يَرْفَعُ رَأْسَهُ وَمَا يُفِيقُ , قَالَ:" هَلْ تَتَّهِمُونَ فِيهِ مِنْ أَحَدٍ؟" , قَالُوا: نَظَرَ إِلَيْهِ عَامِرُ بْنُ رَبِيعَةَ , فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامِرًا، فَتَغَيَّظَ عَلَيْهِ، وَقَالَ:" عَلَامَ يَقْتُلُ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ؟ هَلَّا إِذَا رَأَيْتَ مَا يُعْجِبُكَ بَرَّكْتَ؟" , ثُمَّ قَالَ لَهُ:" اغْتَسِلْ لَهُ" , فَغَسَلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ، وَمِرْفَقَيْهِ وَرُكْبَتَيْهِ، وَأَطْرَافَ رِجْلَيْهِ، وَدَاخِلَةَ إِزَارِهِ فِي قَدَحٍ، ثُمَّ صُبَّ ذَلِكَ الْمَاءُ عَلَيْهِ، يَصُبُّهُ رَجُلٌ عَلَى رَأْسِهِ وَظَهْرِهِ مِنْ خَلْفِهِ، ثُمَّ يُكْفِئُ الْقَدَحَ وَرَاءَهُ، فَفَعَلَ بِهِ ذَلِكَ، فَرَاحَ سَهْلٌ مَعَ النَّاسِ، لَيْسَ بِهِ بَأْسٌ.
سیدنا سہل سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو ساتھ لے کر مکہ مکر مہ کی طرف روانہ ہوئے جب حجفہ میں شعب خرار میں پہنچے تو سیدنا سہل بن حنیف غسل کے ارادے سے نکلے وہ بڑے حسین و جمیل جسم کے مالک تھے دوران غسل عامر بن ربیعہ کی نظر ان کے جسم پر پڑی اور وہ کہنے لگے کہ میں نے آج تک ایسی حسین جلد نہیں دیکھی یہ کہنے کی دیر تھی کہ سیدنا سہل گرپڑے ایک آدمی بارگاہ نبوت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! سہل کا کچھ کیجیے واللہ وہ تو سر اٹھارہا ہے اور نہ اسے ہو ش ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم کس پر اس کا الزام لگاتے ہو لوگوں نے بتایا کہ انہیں عامر بن ربیعہ نے دیکھا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عامر کو بلا کر انہیں سخت سست کہا اور فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کو کیوں قتل کرتا ہے جب اسے کوئی تعجب خیز چیز نظر آتی ہے تو وہ اس کے لئے برکت کی دعا کیوں نہیں کرتا پھر ان سے اپنے اعضاء دھونے کے لئے فرمایا: انہوں نے ایک پیالے میں اپنا چہرہ ہاتھ کہنیاں گھٹنے پاؤں کے حصے اور تہبند کے اندر سے دھویا پھر حکم دیا کہ یہ پانی سہل پر بہایا جائے وہ اس طرح کہ ایک آدمی اس کے سر پر پانی ڈالے اور پیچھے سے کمر پر ڈالے اس کے بعد پورا پیالہ اس پر انڈیل دے جب اس کے مطابق کیا گیا تو سیدنا سہل لوگوں کے ساتھ اس طرح چلنے لگے جیسے انہیں کوئی تکلیف تھی ہی نہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، أبو أويس مختلف فيه، وقد توبع
حدثنا روح وعبد الرزاق قالا: اخبرنا ابن جريج قال: حدثني عبد الكريم بن ابي المخارق، ان الوليد بن مالك بن عبد القيس اخبره - وقال عبد الرزاق: من عبد القيس - ان محمد بن قيس مولى سهل بن حنيف من بني ساعدة اخبره، ان سهلا اخبره: ان النبي ﷺ بعثه، قال: «انت رسولي إلى اهل مكة، قل: إن رسول الله ﷺ ارسلني يقرا عليكم السلام، ويامركم بثلاث: لا تحلفوا بغير الله، وإذا تخليتم فلا تستقبلوا القبلة، ولا تستدبروها، ولا تستنجوا بعظم ولا ببعرة» حَدَّثَنَا رَوْحٌ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَا: أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الْكَرِيمِ بْنُ أَبِي الْمُخَارِقِ، أَنَّ الْوَلِيدَ بْنَ مَالِكِ بْنِ عَبْدِ الْقَيْسِ أَخْبَرَهُ - وَقَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: مِنْ عَبْدِ الْقَيْسِ - أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسٍ مَوْلَى سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ مِنْ بَنِي سَاعِدَةَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ سَهْلًا أَخْبَرَهُ: أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ بَعَثَهُ، قَالَ: «أَنْتَ رَسُولِي إِلَى أَهْلِ مَكَّةَ، قُلْ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَرْسَلَنِي يَقْرَأُ عَلَيْكُمُ السَّلَامَ، وَيَأْمُرُكُمْ بِثَلَاثٍ: لَا تَحْلِفُوا بِغَيْرِ اللَّهِ، وَإِذَا تَخَلَّيْتُمْ فَلَا تَسْتَقْبِلُوا الْقِبْلَةَ، وَلَا تَسْتَدْبِرُوهَا، وَلَا تَسْتَنْجُوا بِعَظْمٍ وَلَا بِبَعْرَةٍ»
سیدنا سہل سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روانہ کرتے ہوئے فرمایا کہ تم اہل مکہ کی طرف میرے قاصد ہوانہیں جا کر یہ پیغام پہنچادو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تمہاری طرف بھیجا ہے وہ تمہیں سلام کہتے ہیں اور تین چیزوں کا حکم دیتے ہیں اللہ کے علاوہ کسی اور کی قسم نہ کھاؤ قضاء حاجت کر و تو قبلہ کی طرف منہ یا پشت نہ کر و اور ہڈی یا مینگنی سے اسنتجاء نہ کرو۔
حكم دارالسلام: ماورد فيه من نهي صحيح، وهذا اسناد ضيعف لضعف عبدالكريم، ولجهالة الوليد بن مالك، ومحمد بن قيس
سیدنا سہل سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کی موجودگی میں کسی مومن کو ذلیل کیا جارہا ہواور وہ قوت کے باوجود اس کی مدد نہ کر ے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ساری مخلوق کے سامنے ذلیل کر یں گے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف ابن لهيعة، وموسي بن جبير الأنصاري مستور
سیدنا سہل سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کسی مجاہد کے ساتھ یا کسی عبد مکاتب کو آزاد کرانے میں اس کی مدد کرتا ہے اللہ اسے اپنے عرش کے سائے میں اس دن جگہ عطا فرمائے گا جس دن کہیں سایہ نہ ہو گا۔
سیدنا سہل سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کسی مجاہد کے ساتھ یا کسی عبد مکاتب کو آزاد کرانے میں اس کی مدد کرتا ہے اللہ اسے اپنے عرش کے سائے میں اس دن جگہ عطا فرمائے گا جس دن کہیں سایہ نہ ہو گا۔
حكم دارالسلام: حديث ضعيف دون قوله: أو غارما فى عسرته فهو صحيح لغيره، عبدالله بن سهل مجهول