(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، قال: عن ابن إسحاق ، قال: حدثني محمد بن جعفر بن الزبير ، عن ابن عبد الله بن انيس ، عن ابيه ، قال: دعاني رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" إنه قد بلغني ان خالد بن سفيان بن نبيح الهذلي، يجمع لي الناس ليغزوني وهو بعرنة، فاته فاقتله" , قال: قلت: يا رسول الله، انعته لي حتى اعرفه , قال:" إذا رايته وجدت له قشعريرة" , قال: فخرجت متوشحا بسيفي حتى وقعت عليه، وهو بعرنة مع ظعن يرتاد لهن منزلا، وحين كان وقت العصر، فلما رايته وجدت ما وصف لي رسول الله صلى الله عليه وسلم من القشعريرة، فاقبلت نحوه، وخشيت ان يكون بيني وبينه محاولة تشغلني عن الصلاة، فصليت وانا امشي نحوه اومئ براسي الركوع والسجود، فلما انتهيت إليه، قال: من الرجل؟ قلت: رجل من العرب سمع بك وبجمعك لهذا الرجل، فجاءك لهذا , قال: اجل انا في ذلك , قال: فمشيت معه شيئا، حتى إذا امكنني حملت عليه السيف حتى قتلته، ثم خرجت، وتركت ظعائنه مكبات عليه، فلما قدمت على رسول الله صلى الله عليه وسلم فرآني، فقال:" افلح الوجه" , قال: قلت: قتلته يا رسول الله , قال:" صدقت" , قال: ثم قام معي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فدخل في بيته، فاعطاني عصا، فقال:" امسك هذه عندك، يا عبد الله بن انيس" , قال: فخرجت بها على الناس، فقالوا: ما هذه العصا؟ قال: قلت: اعطانيها رسول الله صلى الله عليه وسلم، وامرني ان امسكها , قالوا: اولا ترجع إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فتساله عن ذلك؟ قال: فرجعت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، لم اعطيتني هذه العصا؟ قال:" آية بيني وبينك يوم القيامة، إن اقل الناس المتخصرون يومئذ" , قال: فقرنها عبد الله بسيفه، فلم تزل معه حتى إذا مات امر بها فصبت معه في كفنه، ثم دفنا جميعا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، قَالَ: عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنِ ابْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُنَيْسٍ ، عَنِ أَبِيهِ ، قَالَ: دَعَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" إِنَّهُ قَدْ بَلَغَنِي أَنَّ خَالِدَ بْنَ سُفْيَانَ بْنِ نُبَيْحٍ الهُذَلِي، يَجْمَعُ لِي النَّاسَ لِيَغْزُوَنِي وَهُوَ بِعُرَنَةَ، فَأْتِهِ فَاقْتُلْهُ" , قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، انْعَتْهُ لِي حَتَّى أَعْرِفَهُ , قَالَ:" إِذَا رَأَيْتَهُ وَجَدْتَ لَهُ قَشْعَرِيرَةً" , قَالَ: فَخَرَجْتُ مُتَوَشِّحًا بِسَيْفِي حَتَّى وَقَعْتُ عَلَيْهِ، وَهُوَ بِعُرَنَةَ مَعَ ظُعُنٍ يَرْتَادُ لَهُنَّ مَنْزِلًا، وَحِينَ كَانَ وَقْتُ الْعَصْرِ، فَلَمَّا رَأَيْتُهُ وَجَدْتُ مَا وَصَفَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْقَشْعَرِيرَةِ، فَأَقْبَلْتُ نَحْوَهُ، وَخَشِيتُ أَنْ يَكُونَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ مُحَاوَلَةٌ تَشْغَلُنِي عَنِ الصَّلَاةِ، فَصَلَّيْتُ وَأَنَا أَمْشِي نَحْوَهُ أُومِئُ بِرَأْسِي الرُّكُوعَ وَالسُّجُودَ، فَلَمَّا انْتَهَيْتُ إِلَيْهِ، قَالَ: مَنْ الرَّجُلُ؟ قُلْتُ: رَجُلٌ مِنَ الْعَرَبِ سَمِعَ بِكَ وَبِجَمْعِكَ لِهَذَا الرَّجُلِ، فَجَاءَكَ لِهَذَا , قَالَ: أَجَلْ أَنَا فِي ذَلِكَ , قَالَ: فَمَشَيْتُ مَعَهُ شَيْئًا، حَتَّى إِذَا أَمْكَنَنِي حَمَلْتُ عَلَيْهِ السَّيْفَ حَتَّى قَتَلْتُهُ، ثُمَّ خَرَجْتُ، وَتَرَكْتُ ظَعَائِنَهُ مُكِبَّاتٍ عَلَيْهِ، فَلَمَّا قَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَآنِي، فَقَالَ:" أَفْلَحَ الْوَجْهُ" , قَالَ: قُلْتُ: قَتَلْتُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَالَ:" صَدَقْتَ" , قَالَ: ثُمَّ قَامَ مَعِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَخَلَ فِي بَيْتِهِ، فَأَعْطَانِي عَصًا، فَقَالَ:" أَمْسِكْ هَذِهِ عِنْدَكَ، يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُنَيْسٍ" , قَالَ: فَخَرَجْتُ بِهَا عَلَى النَّاسِ، فَقَالُوا: مَا هَذِهِ الْعَصَا؟ قَالَ: قُلْتُ: أَعْطَانِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَمَرَنِي أَنْ أَمْسِكَهَا , قَالُوا: أَوَلَا تَرْجِعُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَسْأَلَهُ عَنْ ذَلِكَ؟ قَالَ: فَرَجَعْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لِمَ أَعْطَيْتَنِي هَذِهِ الْعَصَا؟ قَالَ:" آيَةٌ بَيْنِي وَبَيْنَكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، إِنَّ أَقَلَّ النَّاسِ الْمُتَخَصِّرُونَ يَوْمَئِذٍ" , قَالَ: فَقَرَنَهَا عَبْدُ اللَّهِ بِسَيْفِهِ، فَلَمْ تَزَلْ مَعَهُ حَتَّى إِذَا مَاتَ أَمَرَ بِهَا فَصُبَّتْ مَعَهُ فِي كَفَنِهِ، ثُمَّ دُفِنَا جَمِيعًا.
سیدنا عبداللہ بن انیس سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا اور فرمایا کہ مجھ معلوم ہوا ہے کہ خالد بن سفیان بن نبی صلی اللہ علیہ وسلم ح مجھ سے جنگ کرنے کے لے لوگوں کو جمع کر رہا ہے اس وقت وہ بطحن عرنہ میں ہے اس کے پاس جا کر اسے قتل کر آؤ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے اس کی کوئی علامت بتا دیجیے تاکہ میں اس کو پہچان سکوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم اسے دیکھو گے تو اس کے جسم کے بال کھڑے ہوئے محسوس ہوں گے چنانچہ میں اپنی تلوار لے کر نکل کر کھڑا ہوا اور عصر کے وقت جبکہ وہ ابھی بطن عرنہ میں ہی اپنی عورتوں کے ساتھ جو ان کے لئے سفر کو آسان بناتی تھیں میں نے اسے جالیا۔ میں نے اسے دیکھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان کر دہ وصف اس میں پا لیا میں اس کی طرف چل پڑا پھر میں نے سوچا کہ کہیں میرے اور اس کے درمیان بات چیت شروع نہ ہو جائے تو پھر نماز عصر فوت ہو جائے گی چنانچہ میں چلتے چلتے اشارے سے رکوع سجدہ کر کے نماز پڑھ لی جب میں اس کے پاس پہنچا تو وہ کہنے لگا کہ کون صاحب ہیں میں نے کہا اہل عرب میں سے ایک آدمی جس نے آپ کے بارے میں اور اس شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے لشکر جمع کرنے کے بارے سنا ہے تو آپ کے پاس آگیا اس نے کہا بہت اچھا میں اسی مقصد میں لگا ہوا ہوں میں اس کے ساتھ تھوڑی دور تک چلا جب اس پر قابو پالیا تو اس پر اپنی تلوار اٹھائی یہاں تک کہ اسے قتل کر دیا۔ پھر میں وہاں سے نکلا اور میں نے اس کی عورتوں کو اس پر جھکا ہوا چھوڑ دیا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا تو فرمایا: یہ چہرہ کامیاب ہو گیا میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے سے قتل کر دیا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سچ کہتے ہو پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے ساتھ اٹھے اور اپنے گھر میں داخل ہوئے وہاں سے ایک عصا لآ کر مجھے دیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عبداللہ بن انیس اسے اپنے پاس سنبھال کر رکھو میں وہ لاٹھی لے کر نکلا تو لوگ مجھے روک کر پوچھنے لگے یہ لاٹھی کیسی ہے میں نے بتایا کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو دی ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں وہ لاٹھی سنبھال کر رکھو لوگوں نے کہا تم جا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھو تو سہی چنانچہ میں واپس آ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یا رسول اللہ! آپ نے مجھے یہ لاٹھی کسی نیت سے دی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ قیامت کے دن میرے اور تمہارے درمیان علامت ہو گی اس دن بہت کم لوگوں کے پاس لاٹھی ہو گی۔ چنانچہ سیدنا عبداللہ بن انیس نے اپنی تلوار کے ساتھ لگالیا اور وہ ہمیشہ ان کے پاس رہی جب ان کے انتقال کا وقت ہو گیا تو ان کے حکم پر وہ ان کے ساتھ کفن میں شامل کر دی اور ہم سب نے مل کر انہیں سپرد خاک کر دیا۔ سیدنا عبداللہ بن انیس سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا اور فرمایا کہ مجھ معلوم ہوا ہے کہ خالد بن سفیان بن نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے جنگ کرنے کے لے لوگوں کو جمع کر رہا ہے اس وقت وہ بطحن عرنہ میں ہے اس کے پاس جا کر اسے قتل کر آؤ چنانچہ میں اپنی تلوار لے کر نکل کر کھڑا ہوا اور عصر کے وقت جبکہ وہ ابھی بطن عرنہ میں تھا جالیا۔ پھر میں نے سوچا کہ کہیں میرے اور اس کے درمیان بات چیت شروع نہ ہو جائے تو پھر نماز عصر فوت ہو جائے گی چنانچہ میں چلتے چلتے اشارے سے رکوع سجدہ کر کے نماز پڑھ لی جب میں اس کے پاس پہنچا تو۔۔۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔