صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر
صحيح ابن خزيمه
جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ
اذان اور اقامت کے ابواب کا مجموعہ
350. ‏(‏117‏)‏ بَابُ قِرَاءَةِ الْمُعَوِّذَتَيْنِ فِي الصَّلَاةِ ضِدَّ قَوْلِ مَنْ زَعَمَ أَنَّ الْمُعَوِّذَتَيْنِ لَيْسَتَا مِنَ الْقُرْآنِ‏.‏
نماز میں معوذتین کی قرأت کرنے کا بیان، اس شخص کے قول کے برخلاف جس کا گمان ہے کہ معوذتین قرآن مجید کا حصہ نہیں ہیں
حدیث نمبر: 534
Save to word اعراب
نا ابو عمار ، وعلي بن سهل الرملي ، قالا: حدثنا الوليد بن مسلم ، حدثني عبد الرحمن بن يزيد بن جابر ، حدثني القاسم ابو عبد الرحمن ، عن عقبة بن عامر ، قال: قدت رسول الله في نقب من تلك النقاب، فقال:" الا تركب يا عقيب؟"، فاجللت ان اركب مركب رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال:" الا تركب يا عقيب؟"، فاشفقت ان تكون معصية، فنزل رسول الله صلى الله عليه وسلم، وركبت هنيهة، ثم نزلت، وركب رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال:" يا عقيب، الا اعلمك سورتين من خير سورتين قرا بهما الناس؟" قلت: بلى، يا رسول الله،" فاقراني قل اعوذ برب الفلق، وقل اعوذ برب الناس، ثم اقيمت الصلاة، فصلى وقرا بهما، ثم مر بي، فقال:" كيف رايت يا عقيب؟ اقرا بهما كلما نمت وقمت" . نا ابو الخطاب ، نا الوليد ، بهذا الإسناد بمثله، وقال: عن القاسم . قال ابو بكر: هذه اللفظة:" كلما نمت وقمت"، من الجنس الذي اعلمت ان العرب يوقع اسم النائم على المضطجع، ويوقعه على النائم الزائل العقل، والنبي صلى الله عليه وسلم إنما اراد بقوله في هذا الخبر:" اقرا بهما إذا نمت"، اي إذا اضطجعت، إذ النائم الزائل العقل محال ان يخاطب، فيقال له: إذا نمت وزال عقله، فاقرا بالمعوذتين، وكذاك خبر ابن بريدة، عن عمران بن حصين:" صلاة النائم على نصف صلاة القاعد"، وإنما اراد بالنائم في هذا الموضع، المضطجع لا النائم الزائل العقل، إذ النائم الزائل العقل غير مخاطب بالصلاة، لا يمكنه الصلاة لزوال العقلنا أَبُو عَمَّارٍ ، وَعَلِيُّ بْنُ سَهْلٍ الرَّمْلِيُّ ، قَالا: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ ، حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ ، قَالَ: قُدْتُ رَسُولَ اللَّهِ فِي نَقَبٍ مِنْ تِلْكَ النِّقَابِ، فَقَالَ:" أَلا تَرْكَبُ يَا عُقَيْبُ؟"، فَأَجْلَلْتُ أَنْ أَرْكَبَ مَرْكَبَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ:" أَلا تَرْكَبُ يَا عُقَيْبُ؟"، فَأَشْفَقْتُ أَنْ تَكُونَ مَعْصِيَةً، فَنَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَكِبْتُ هُنَيْهَةً، ثُمَّ نَزَلْتُ، وَرَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ:" يَا عُقَيْبُ، أَلا أُعَلِّمْكَ سُورَتَيْنِ مِنْ خَيْرِ سُورَتَيْنِ قَرَأَ بِهِمَا النَّاسُ؟" قُلْتُ: بَلَى، يَا رَسُولَ اللَّهِ،" فَأَقْرَأَنِي قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ، وَقُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ، ثُمَّ أُقِيمَتِ الصَّلاةُ، فَصَلَّى وَقَرَأَ بِهِمَا، ثُمَّ مَرَّ بِي، فَقَالَ:" كَيْفَ رَأَيْتَ يَا عُقَيْبُ؟ اقْرَأْ بِهِمَا كُلَّمَا نِمْتَ وَقُمْتَ" . نا أَبُو الْخَطَّابِ ، نا الْوَلِيدُ ، بِهَذَا الإِسْنَادِ بِمِثْلِهِ، وَقَالَ: عَنِ الْقَاسِمِ . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: هَذِهِ اللَّفْظَةُ:" كُلَّمَا نِمْتَ وَقُمْتَ"، مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي أَعْلَمْتُ أَنَّ الْعَرَبَ يُوقِعُ اسْمَ النَّائِمِ عَلَى الْمُضْطَجِعِ، وَيُوقِعُهُ عَلَى النَّائِمِ الزَّائِلِ الْعَقْلِ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا أَرَادَ بِقَوْلِهِ فِي هَذَا الْخَبَرِ:" اقْرَأْ بِهِمَا إِذَا نِمْتَ"، أَيْ إِذَا اضْطَجَعْتَ، إِذِ النَّائِمُ الزَّائِلُ الْعَقْلِ مُحَالٌ أَنْ يُخَاطَبَ، فَيُقَالَ لَهُ: إِذَا نِمْتَ وَزَالَ عَقَلَهُ، فَاقْرَأْ بِالْمُعَوِّذَتَيْنِ، وَكَذَاكَ خَبَرُ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ:" صَلاةُ النَّائِمِ عَلَى نِصْفِ صَلاةِ الْقَاعِدِ"، وَإِنَّمَا أَرَادَ بِالنَّائِمِ فِي هَذَا الْمَوْضِعِ، الْمُضْطَجِعَ لا النَّائِمَ الزَّائِلَ الْعَقْلِ، إِذِ النَّائِمُ الزَّائِلُ الْعَقْلِ غَيْرُ مُخَاطَبٍ بِالصَّلاةِ، لا يُمْكِنْهُ الصَّلاةَ لِزَوَالِ الْعَقْلِ
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کی سواری کی نکیل تھامے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری) کو اُن گھاٹیوں میں سے ایک گھاٹی میں چلا رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے پیارے عقبہ، تم سوار نہیں ہو گے؟ تو میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر سوار ہونا بڑی بے ادبی خیال کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: پیارے عقبہ، تم سوار نہیں ہو گے؟ لہٰذا میں ڈر گیا کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی نہ ہو جائے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سواری سے اُتر گئے اور میں کچھ دیر کے لئے اُس پر سوار ہو گیا۔ پھر میں اُتر گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہو گئے (کچھ دیر کے بعد) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پیارے عقبہ، کیا میں تمہیں ایسی دو بہترین سورتیں نہ سکھاؤں جنہیں لوگوں نے پڑھا ہے۔ میں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، ضرور سکھادیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے (یہ دو سورتیں) پڑھائیں «‏‏‏‏قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ» ‏‏‏‏ [ سورة الفلق ] اور «‏‏‏‏قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ» ‏‏‏‏ [ سورة الناس ] پھر نماز کھڑی کی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی اور یہی دو سورتیں پڑھیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے تو فرمایا: پیارے عقبہ، تم نے (ان دو سورتوں کے مقام و مرتبہ کو) کیسے پایا؟ ان دونوں سورتوں کو سوتے وقت اور اُٹھتے وقت پڑھا کرو۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حدیث کے یہ الفاظ جب بھی تو سونے لگے یا بیدارہونے لگے۔ یہ اسی جنس سے ہے جسے میں نے بیان کیا کہ عرب نائم کا لفظ لیٹنے والے پر بھی بولتے ہیں اور اس شخص پر بھی بولتے ہیں جس کی عقل سونے کی حالت میں زائل ہو چکی ہوتی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ان دونوں سورتوں کو پڑھا کرو جب تم سو جاؤ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ ہے کہ جب تم سونے کے لئے لیٹو کیونکہ اگر نائم سے مراد ایسا شخص لیں جس کی عقل زائل ہو چکی ہو تو ایسے شخص کو مخاطب کرنا ہی محال و ناممکن ہے کہ اس سے یہ کہا جائے کہ جب تم سو جاؤ، اور اس کی عقل زائل ہو جائے، تو معوذتین کو پڑھا کرو۔ اسی طرح حضرت عمران بن حصین سے مروی سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ کی حد یث کا معنی ہے (جس میں ہے) سونے والے کی نماز کا اجر و ثواب بیٹھ کر نماز پڑ ھنے والے کے اجر سے آدھا ہے اس حدیث میں بھی سونے والے سے آپ کی مراد لیٹنے والا ہے۔ وہ نائم مراد نہیں جس کی عقل سونے کی حالت میں زائل ہو چکی ہو۔ کیونکہ ایسا نائم (سونے والا) جس کی عقل زائل ہوچکی ہو، نماز کا مخاطب نہیں ہے اور عقل کے زائل ہونے کی وجہ سے اس کے لئے نماز پڑھنا ممکن بھی نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: اسناده حسن
حدیث نمبر: 535
Save to word اعراب
نا عبد الله بن هاشم ، حدثنا عبد الرحمن يعني ابن مهدي . ح ونا عبدة بن عبد الله الخزاعي ، اخبرنا زيد يعني ابن الحباب ، كلاهما عن معاوية وهو ابن صالح ، قال عبدة، قال: حدثني العلاء بن الحارث الحضرمي ، وقال ابن هاشم: عن العلاء بن الحارث، عن القاسم مولى معاوية، عن عقبة بن عامر ، قال: كنت اقود برسول الله صلى الله عليه وسلم راحلته في السفر، فقال" يا عقبة، الا اعلمك خير سورتين قرئتا؟"، قلت: بلى، قال:" قل اعوذ برب الفلق، و قل اعوذ برب الناس" ، فلما نزل صلى بهما صلاة الغداة، قال:" كيف رايت يا عقبة؟". هذا لفظ حديث عبد الرحمن، ولم يقل عبدة: في السفر، وقال: فلم يرني اعجبت بهما، فصلى بالناس الصبح، فقرا بهما، ثم قال لي:" يا عقبة، كيف رايت؟"نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ هَاشِمٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ مَهْدِيٍّ . ح وَنا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْخُزَاعِيُّ ، أَخْبَرَنَا زَيْدٌ يَعْنِي ابْنَ الْحُبَابِ ، كِلاهُمَا عَنْ مُعَاوِيَةَ وَهُوَ ابْنُ صَالِحٍ ، قَالَ عَبْدَةُ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْعَلاءُ بْنُ الْحَارِثِ الْحَضْرَمِيُّ ، وَقَالَ ابْنُ هَاشِمٍ: عَنِ الْعَلاءِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنِ الْقَاسِمِ مَوْلَى مُعَاوِيَةَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ ، قَالَ: كُنْتُ أَقُودُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَاحِلَتَهُ فِي السَّفَرِ، فَقَالَ" يَا عُقْبَةُ، أَلا أُعَلِّمُكَ خَيْرَ سُورَتَيْنِ قُرِئَتَا؟"، قُلْتُ: بَلَى، قَالَ:" قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ، وَ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ" ، فَلَمَّا نَزَلَ صَلَّى بِهِمَا صَلاةَ الْغَدَاةِ، قَالَ:" كَيْفَ رَأَيْتَ يَا عُقْبَةُ؟". هَذَا لَفْظُ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَلَمْ يَقُلْ عَبْدَةُ: فِي السَّفَرِ، وَقَالَ: فَلَمْ يَرَنِي أُعْجِبْتُ بِهِمَا، فَصَلَّى بِالنَّاسِ الصُّبْحَ، فَقَرَأَ بِهِمَا، ثُمَّ قَالَ لِي:" يَا عُقْبَةُ، كَيْفَ رَأَيْتَ؟"
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ کی سواری (کی نکیل تھامے اُسے) چلا رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عقبہ، کیا میں تمہیں پڑھی گئی دو بہترین سورتیں نہ سکھاؤں؟ میں نےعرض کی کہ ضرور سکھا دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «‏‏‏‏قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ» ‏‏‏‏ [ سورة الفلق ] اور «‏‏‏‏قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ» ‏‏‏‏ [ سورة الناس ] پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اترے اور پڑاؤ ڈالا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز میں یہی دو سورتیں تلاوت کیں۔ (پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا: اے عقبہ (ان سورتوں کی عظمت کے بارے میں) کیا خیال ہے۔ یہ عبدالرحمٰن کی حدیث کے الفاظ ہیں۔ اور عبدہ راوی نے سفرمیں کے الفاظ روایت نہیں کئے۔ اور فرمایا کہ آپ نے دیکھا کہ مجھے یہ دو سورتیں زیادہ پسند نہیں آئیں (ان کی فضیلت و عظمت میرے دل میں نہیں بیٹھی) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو صبح کی نماز پڑھائی تو یہی دو سورتیں تلاوت فرمائیں۔ پھر مجھ سے فرمایا: اے عقبہ، کیا خیال ہے؟ (ان کی فضیلت کیسی ہے؟)

تخریج الحدیث: اسناده حسن
حدیث نمبر: 536
Save to word اعراب
نا موسى بن عبد الرحمن المسروقي ، وعبد الرحمن بن الفضل بن الموفق ، قالا: حدثنا ابو اسامة ، وزيد بن ابي الزرقاء ، كلاهما عن سفيان ، عن معاوية بن صالح ، عن عبد الرحمن بن جبير بن نفير الحضرمي ، عن ابيه ، عن عقبة بن عامر ، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان " يقرا في صلاة الغداة قل اعوذ برب الفلق، وقل اعوذ برب الناس" . هذا لفظ حديث يزيد بن ابي الزرقاء، وفي حديث ابي اسامة، قال: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن المعوذتين، امن القرآن هما؟ فامنا بهما رسول الله صلى الله عليه وسلم في صلاة الفجر. قال ابو بكر: اصحابنا يقولون: الثوري اخطا في هذا الحديث وانا اقول غير مستنكر لسفيان ان يروي هذا عن معاوية، وعن غيرهنا مُوسَى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَسْرُوقِيُّ ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْفَضْلِ بْنِ الْمُوَفَّقِ ، قَالا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، وَزَيْدُ بْنُ أَبِي الزَّرْقَاءِ ، كلاهما عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ الْحَضْرَمِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " يَقْرَأُ فِي صَلاةِ الْغَدَاةِ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقَ، وَقُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ" . هَذَا لَفْظُ حَدِيثِ يَزِيدَ بْنِ أَبِي الزَّرْقَاءِ، وَفِي حَدِيثِ أَبِي أُسَامَةَ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمُعَوِّذَتَيْنِ، أَمِنَ الْقُرْآنِ هُمَا؟ فَأَمَّنَا بِهِمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صَلاةِ الْفَجْرِ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَصْحَابُنَا يَقُولُونَ: الثَّوْرِيُّ أَخْطَأَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ وَأَنَا أَقُولُ غَيْرَ مُسْتَنْكَرٍ لِسُفْيَانَ أَنْ يَرْوِيَ هَذَا عَنْ مُعَاوِيَةَ، وَعَنْ غَيْرِهِ
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز میں «‏‏‏‏قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ» ‏‏‏‏ [ سورة الفلق ] اور «‏‏‏‏قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ» ‏‏‏‏ [ سورة الناس ] پڑھا کرتے تھے۔ یہ یزید بن ابی الزرقاء کی حدیث کے الفاظ ہیں۔ حضرت ابواسامہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں، کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معوذتین کے بارے میں پوچھا کہ کیا وہ قرآن مجید میں سے ہیں؟ تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو سورتوں کے ساتھ ہمیں نماز فجر کی امامت کرائی۔ امام ابوبکر رحمہ ﷲ فرماتے ہیں کہ ہمارے اصحاب (محدثین) فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو روایت کرنے میں امام سفیان ثوری رحمہ اللہ سے غلطی ہوئی ہے جبکہ میں کہتا ہوں کہ امام سفیان ثوری کا معاویہ اور دیگر رواۃ سے یہ حدیث بیان کرنا باعث عیب نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: اسناده صحيح

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.