وإن كان المرء وحده ليس معه جماعة ولا واحد طلبا لفضيلة الاذان ضد قول من سئل عن الاذان في السفر فقال: لمن يؤذن؟ فتوهم ان الاذان لا يؤذن إلا لاجتماع الناس إلى الصلاة جماعة، والاذان وإن كان الاعم انه يؤذن لاجتماع الناس إلى الصلاة جماعة فقد يؤذن ايضا طلبا لفضيلة الاذان، الا ترى النبي صلى الله عليه وسلم قد امر مالك بن الحويرث وابن عمه إذا كانا في السفر بالاذان والإقامة، وإمامة اكبرهما اصغرهما، ولا جماعة معهم تجتمع لاذانهما وإقامتهما. قال ابو بكر: وفي خبر ابي سعيد: إذا كنت في البوادي فارفع صوتك بالنداء، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «لا يسمع صوته شجر ولا مدر ولا حجر ولا جن ولا إنس إلا شهد له» فالمؤذن في البوادي وإن كان وحده إذا اذن طلبا لهذه الفضيلة كان خيرا واحسن وافضل من ان يصلي بلا اذان ولا إقامة. وكذلك النبي صلى الله عليه وسلم قد اعلم ان المؤذن يغفر له مدى صوته ويشهد له كل رطب ويابس. والمؤذن في البوادي والاسفار وإن لم يكن هناك من يصلي معه صلاة جماعة، كانت له هذه الفضيلة لاذانه بالصلاة إذ النبي صلى الله عليه وسلم لم يخص مؤذنا في مدينة ولا في قرية دون مؤذن في سفر وبادية، ولا مؤذنا يؤذن لاجتماع الناس إليه للصلاة جماعة دون مؤذن لصلاة يصلي منفرداوَإِنْ كَانَ الْمَرْءُ وَحْدَهُ لَيْسَ مَعَهُ جَمَاعَةٌ وَلَا وَاحِدٌ طَلَبًا لِفَضِيلَةِ الْأَذَانِ ضِدَّ قَوْلِ مَنْ سُئِلَ عَنِ الْأَذَانِ فِي السَّفَرِ فَقَالَ: لِمَنْ يُؤَذِّنُ؟ فَتَوَهَّمَ أَنَّ الْأَذَانَ لَا يُؤَذَّنُ إِلَّا لِاجْتِمَاعِ النَّاسِ إِلَى الصَّلَاةِ جَمَاعَةً، وَالْأَذَانُ وَإِنْ كَانَ الْأَعَمُّ أَنَّهُ يُؤَذَّنَ لِاجْتِمَاعِ النَّاسِ إِلَى الصَّلَاةِ جَمَاعَةً فَقَدْ يُؤَذَّنُ أَيْضًا طَلَبًا لِفَضِيلَةِ الْأَذَانِ، أَلَا تَرَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَمَرَ مَالِكَ بْنَ الْحُوَيْرِثِ وَابْنَ عَمِّهِ إِذَا كَانَا فِي السَّفَرِ بِالْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ، وَإِمَامَةِ أَكْبَرِهِمَا أَصْغَرَهُمَا، وَلَا جَمَاعَةَ مَعَهُمْ تَجْتَمِعُ لِأَذَانِهِمَا وَإِقَامَتِهِمَا. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَفِي خَبَرِ أَبِي سَعِيدٍ: إِذَا كُنْتَ فِي الْبَوَادِي فَارْفَعْ صَوْتَكَ بِالنِّدَاءِ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَا يَسْمَعُ صَوْتَهُ شَجَرٌ وَلَا مَدَرٌ وَلَا حَجَرٌ وَلَا جِنٌّ وَلَا إِنْسٌ إِلَّا شَهِدَ لَهُ» فَالْمُؤَذِّنُ فِي الْبَوَادِي وَإِنْ كَانَ وَحْدَهُ إِذَا أَذَّنَ طَلَبًا لِهَذِهِ الْفَضِيلَةِ كَانَ خَيْرًا وَأَحْسَنَ وَأَفْضَلَ مِنْ أَنْ يُصَلِّي بِلَا أَذَانٍ وَلَا إِقَامَةٍ. وَكَذَلِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَعْلَمَ أَنَّ الْمُؤَذِّنَ يُغْفَرُ لَهُ مَدَى صَوْتِهِ وَيَشْهَدُ لَهُ كُلُّ رَطْبٍ وَيَابِسٍ. وَالْمُؤَذِّنُ فِي الْبَوَادِي وَالْأَسْفَارِ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ هُنَاكَ مَنْ يُصَلِّي مَعَهُ صَلَاةَ جَمَاعَةٍ، كَانَتْ لَهُ هَذِهِ الْفَضِيلَةُ لِأَذَانِهِ بِالصَّلَاةِ إِذِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَخُصَّ مُؤَذِّنًا فِي مَدِينَةٍ وَلَا فِي قَرْيَةٍ دُونَ مُؤَذِّنٍ فِي سَفَرٍ وَبَادِيَةٍ، وَلَا مُؤَذِّنًا يُؤَذِّنُ لِاجْتِمَاعِ النَّاسِ إِلَيْهِ لِلصَّلَاةِ جَمَاعَةً دُونَ مُؤَذِّنٍ لِصَلَاةٍ يُصَلِّي مُنْفَرِدًا
اگرچہ تنہا آدمی ہی ہو، اس کے ساتھ لوگوں کی جماعت ہو نہ ہی کوئی آدمی ہی ہو-اس شخص کے قول کے برعکس جس سے سفر میں اذان دینے کے متعلق پوچھا گیا تو اس نے جواب دیا: کس کے لیے اذان دی جائے گی؟اسے یہ وہم ہوا کہ اذان صرف لوگوں کو نماز باجماعت کے لیے جمع کرنے کے لیے دی جاتی ہے-اگرچہ اذان کا عام مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے جمع کرنے کے لیے دی جاتی ہے لیکن کبھی اذان کی فضیلت واجر حاصل کرنے کے لیے بھی اذان دی جاتی ہے کیا آپ دیکھتے نہیں کہ نبی اکرام صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کو اور ان کے چچازاد کو حکم دیا تھا کہ جب وہ دونوں سفر میں ہوں تو اذان کہیں اور اقامت کہیں،اور ان میں سے بڑا چھوٹے کی امامت کروائے حالانکہ ان کے ساتھ کوئی جماعت نہیں جو اُن کی اذان اور اقامت کے لیے جمع ہوں-“ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے:”جب تم جنگلوں میں ہو تو اذان بلند آواز سے کہو کیوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے:”جو بھی درخت،ڈھیلے،پتھر،جن اور انسان اس کی آوازیں سنیں گئ وہ اس کے لیے گواہی دیں گے-لہذا اذان کی فضیلت و اجر کو حاصل کرنے کے لیے اگر موذن جنگل میں اذان دے،اگرچہ وہ اکیلا ہو تو یہ بغیراذان و تکبیر کہے نماز پڑھنے سے بہتر،اچھا اور افضل ہے،اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے کہ کہ مؤذن کے گناہ وہاں تک بخش دیے جاتے ہیں جہاں تک اس کی آواز پہنچتی ہے- اور اس کے لیے ہر خشک وتر چیز گواہی دے گی-چنانچہ جنگلوں اور سفر میں اذان دینے والے کو یہ فضیلت نماز کے لیے اذان دینے کی وجہ سے حاصل ہوجائے گی اگرچہ وہاں اس کے ساتھ نماز ادا کرنے کے لیے کوئی شخص نہ ہو-کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر اور جنگل کے مؤذن کو چھوڑ کر ایسے مؤذن کی تخصیص نہیں کی ہے جو لوگوں کو نماز باجماعت کے لیے جمع کرنے کے لیے اذان دیتا ہے-(بلکہ یہ فضیلت ہر مؤذن کو حاصل ہے)
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کوسنا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفرمیں تھے، وہ کہہ رہا تھا «اللہُ أَکبَرُ، اللہُ أَکبَرُ» ”اللہ سب سے بڑاہے، اللہ سب سے بڑا ہے“ تو اللہ تعالیٰ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(یہ شخص) فطرت پر ہے۔“ اُس نے کہا کہ «أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ» ”میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آگ سے نکل گیا۔“ تو لوگ دوڑتے ہوئے اُس شخص کی طرف گئے تو وہ بکریوں کا چرواہا تھا، نماز کا وقت ہو گیا تو وہ کھڑا ہو کر اذان دینے لگا۔
نا محمد بن ابي صفوان العلي ، نا بهز يعني ابن اسد ، نا حماد بن سلمة ، اخبرنا ثابت ، عن انس ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يغير عند صلاة الصبح، فإن سمع اذانا امسك، وإلا اغار، فاستمع ذات يوم فسمع رجلا، يقول: الله اكبر، الله اكبر، فقال:" على الفطرة"، فقال: اشهد ان لا إله إلا الله، قال:" خرجت من النار" . قال ابو بكر: فإذا كان المرء يطمع بالشهادة بالتوحيد لله في الاذان، وهو يرجو ان يخلصه الله من النار بالشهادة بالله بالتوحيد في اذانه، فينبغي لكل مؤمن ان يتسارع إلى هذه الفضيلة طمعا في ان يخلصه الله من النار، خلا في منزله او في بادية او قرية او مدينة، طلبا لهذه الفضيلة، وقد خرجت ابواب الاذان في السفر ايضا في مواضع غير هذا الموضع، في نوم النبي صلى الله عليه وسلم عن صلاة الصبح حتى طلعت الشمس، وامره صلى الله عليه وسلم بلالا بالاذان للصبح بعد ذهاب وقت تلك الصلاة، وتلك الاخبار ايضا خلاف قول من زعم ان لا يؤذن للصلاة بعد ذهاب وقتها، وإنما يقام لها بغير اذاننا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي صَفْوَانَ الْعَلِيُّ ، نا بَهْزٌ يَعْنِي ابْنَ أَسَدٍ ، نا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُغِيرُ عِنْدَ صَلاةِ الصُّبْحِ، فَإِنْ سَمِعَ أَذَانًا أَمْسَكَ، وَإِلا أَغَارَ، فَاسْتَمَعَ ذَاتَ يَوْمٍ فَسَمِعَ رَجُلا، يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، فَقَالَ:" عَلَى الْفِطْرَةِ"، فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، قَالَ:" خَرَجْتَ مِنَ النَّارِ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَإِذَا كَانَ الْمَرْءُ يَطْمَعُ بِالشَّهَادَةِ بِالتَّوْحِيدِ لِلَّهِ فِي الأَذَانِ، وَهُوَ يَرْجُو أَنْ يُخَلِّصَهُ اللَّهُ مِنَ النَّارِ بِالشَّهَادَةِ بِاللَّهِ بِالتَّوْحِيدِ فِي أَذَانِهِ، فَيَنْبَغِي لِكُلِّ مُؤْمِنٍ أَنْ يَتَسَارَعَ إِلَى هَذِهِ الْفَضِيلَةِ طَمَعًا فِي أَنْ يُخَلِّصَهُ اللَّهُ مِنَ النَّارِ، خَلا فِي مَنْزِلِهِ أَوْ فِي بَادِيَةٍ أَوْ قَرْيَةٍ أَوْ مَدِينَةٍ، طَلَبًا لِهَذِهِ الْفَضِيلَةِ، وَقَدْ خَرَّجْتُ أَبْوَابَ الأَذَانِ فِي السَّفَرِ أَيْضًا فِي مَوَاضِعَ غَيْرِ هَذَا الْمَوْضِعِ، فِي نَوْمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَلاةِ الصُّبْحِ حَتَّى طَلَعَتِ الشَّمْسُ، وَأَمْرُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلالا بِالأَذَانِ لِلصُّبْحِ بَعْدَ ذَهَابِ وَقْتِ تِلْكَ الصَّلاةِ، وَتِلْكَ الأَخْبَارُ أَيْضًا خِلافُ قَوْلِ مَنْ زَعَمَ أَنْ لا يُؤَذَّنَ لِلصَّلاةِ بَعْدَ ذَهَابِ وَقْتِهَا، وَإِنَّمَا يُقَامُ لَهَا بِغَيْرِ أَذَانٍ
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز کے وقت (دشمن کی بستیوں پر) حملہ آور ہوتے تھے پھر اگر اذان کی آواز سن لیتے تو (حملہ کرنے سے) رُک جاتے (اور اگر اذان کی آواز نہ سنتے تو) حملہ کر دیتے۔ چنانچہ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو سنا وہ کہہ رہا تھا: «اللہُ أَکبَرُ، اللہُ أَکبَرُ» ”اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ فطرتِ اسلام پر ہے۔“ تو اُس نے کہا: «أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ» ”میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”توجہنّم کی آگ سے نجات پا گیا۔“ اما م ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب کسی شخص کواذان میں اللہ تعالیٰ کی توحید کے اعلان و گواہی دینے کی خواہش ہو اور وہ امید رکھتا ہو کہ اس کی اذان میں اللہ تعالیٰ کی توحید کی گواہی دینے سے اللہ تعالیٰ اٗسے جہنّم کی آگ سے نجات عطا فرمائیں گے تو ہر مومن کو اس خواہش اور تمنّا کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ اُس کو آگ سے نجات دے دیں گے، اس فضیلت کے حُصول میں سبقت کرنی چاہیے۔ وہ اپنے گھر میں تنہا ہو یا جنگل میں یا بستی وشہر میں اکیلا ہو، اس فضلیت واجر کو حاصل کرنے کے لئے (اُسے اذان دینی چاہیے) میں نے اس جگہ کے علاوہ بھی کئی مقامات پر سفر میں اذان کے ابواب کو بیان کیا ہے (مثلاً) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا صبح کی نماز سے سوئے رہ جانا حتیٰ کہ سورج طلوع ہوگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کوصبح کی نماز کی اذان دینے کا حُکم دینا جبکہ اُس کا وقت ختم ہوچکا تھا۔ یہ احادیث اُن لوگوں کے قول کے برعکس ہیں اُن کا دعویٰ ہے کہ نماز کا وقت ختم ہو جانے کے بعد اُس کے لیے اذان نہیں دی جائے گی بلکہ بغیر اذان کے صرف اقامت کہی جائے گی۔