جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ اذان اور اقامت کے ابواب کا مجموعہ 272. (39) بَابُ ذِكْرِ الْخَبَرِ الْمُفَسِّرِ لِلَّفْظَةِ الْمُجْمَلَةِ الَّتِي ذَكَرْتُهَا، وَالدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا أَمَرَ بأَنْ يُشْفَعَ بَعْضُ الْأَذَانِ لَا كُلُّهَا، وَأَنَّهُ إِنَّمَا أَمَرَ بِأَنْ يُوتَرَ بَعْضُ الْإِقَامَةِ لَا كُلُّهَا، گذشتہ مجمل روایت کی مفسر روایت کا بیان اور اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض کلمات اذان کو دہرے کہنے کا حکم دیا ہے سارے کلمات نہیں
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اقامت کے بعض کلمات اکہرے کہنے کا حُکم دیا ہے ساری تکبیراکہری کہنے کا حُکم نہیں دیا، اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں مذکورہ الفاظ وہ ایسی روایت سے ہیں کہ اُن کے الفاظ عام ہوتے ہیں اور اُن کی مراد خاص ہوتی ہے۔ کیونکہ اذان اکہری ہے دوہری نہیں۔ کیونکہ مؤذّن آخر میں «لَا إِلٰهَ إِلَّا الله» ایک ہی مرتبہ کہتا ہے اسی طرح تکبیر کہنے والا اقامت کی ابتدا میں «اللهُ أَكْبَرُ» دو مرتبہ کہتا ہے، اور اسی طرح «قد قامت الصلاة» دو مرتبہ کہتا ہے اور «اللهُ أَكْبَرُ» بھی دو مرتبہ کہتا ہے۔
تخریج الحدیث:
جناب محمد بن اسحاق رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو لوگ بغیر اذان کے نماز کے اوقات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہوجاتے تھے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کے بگل کی طرح کا بگل بنانے کا ارادہ کیا جس سے وہ اپنی نمازوں کے لیے بلاتے ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ناپسند کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھنٹہ بنانے کا حُکم دیا تو وہ تراش دیا گیا تاکہ مسلمانوں کو نماز کے لئے بلانے کے لیے بجایا جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم (اور آپ کے صحابہ کرام) اسی صلاح مشورے میں مصروف تھے کہ حارث بن خزرج کے بھائی عبداللہ بن زید بن عبدربہ کو (خواب میں) اذان دکھائی گئی۔ تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، آج رات میں نے ایک شخص کوخواب میں دیکھا، ایک آدمی میرے پاس سے گزرا، اُس پر دو سبز کپڑے تھے اور وہ ہاتھ میں گھنٹہ اُٹھائے ہوئے تھا۔ تو میں نے کہا کہ اے اللہ کے بندے، کیا تم اس گھنٹے کو بیچو گے؟ اُس نے کہا کہ تم اس سے کیا کرو گے؟ میں نے کہا کہ ہم اس سے نماز کے لیے بلائیں گے۔ تو اُس نے کہا کہ کیا میں تمہیں اس سے بہتر چیز نہ بتاؤں؟ میں نے کہا کہ وہ کیا ہے؟ اُس نے کہا کہ تم کہا کرو: «اللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ» ”اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے“ «أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ» ”میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، میں گوہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں“ «أَشْهَدُ أَنْ مُحَمَّدٌ رَسُولُ ٱللَّٰه، أَشْهَدُ أَنْ مُحَمَّدٌ رَسُولُ ٱللَّٰه» ”میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں“ «حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ» ”نماز کی طرف آؤ، نماز کی طرف آؤ“ «حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ» ”آؤ کامیابی کی طرف، آؤ کامیابی کی طرف“ «اللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ» ”اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے“ «لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ» ﷲ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں“ پھر وہ تھوڑا سا پیچھے ہٹا پھر اُس نے اسی طرح کہا کہ جیسے پہلے کہا تھا۔ اور اُس نے وہ کلمات اکہرے کہے سوائے قد قامت الصلاۃ کے، اُس نے (دو مرتبہ) « قَد قَامَتِ الصَّلَاةُ، قَد قَامَتِ الصَّلَاةُ» ”نماز کھڑی ہوگئی، نماز قائم ہوگئی“ «اللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ» ”اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، ﷲ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں“ جب میں نے اس کی خبر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان شاء اللہ یہ خواب سچا ہے۔“ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ اور اُسے یہ کلمات بتاؤ کیونکہ وہ تم سے بلند آواز والا ہے۔“ پھر جب سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے ان کلمات کے ساتھ اذان دی تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اسے سنا جبکہ وہ اپنے گھر میں تھے۔ تو وہ اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نکلے اور کہنے لگے کہ اے اللہ کے نبی، اس ذات باری کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق دیکر بھیجا ہے، یقیناًً ً میں نے بھی ایسا ہی (خواب) دیکھا ہے جیسا اُس نے دیکھا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں اور اس (گواہی نے) مسئلے کو زیادہ مضبوط اور واضح کر دیا ہے۔“
تخریج الحدیث: اسناده حسن صحيح
سیدناعبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول للہ صلے اللہ علیہ و سلم نے ناقوس بنانے کا حُکم دیا تو وہ بنادیا گیا تاکہ لوگوں کو نماز کے لئے جمع کرنے کے لئے بجایا جائے، پھر سلمہ بن فضل کی حدیث کی طرح مکمل حدیث بیان کی۔
تخریج الحدیث: اسناده حسن صحيح
جناب محمد بن یحییٰ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبدﷲ بن زید کے قِصّہ اذان کی روایات میں اس سے زیادہ صحیح روایت اور کوئی نہیں کیونکہ محمد بن عبدﷲ بن زید نے اسے اپنے والد محترم (سیدنا عبداللہ بن زید) سے سنا ہے۔ اور عبدالرحمان بن ابی لیلیٰ نے سیدنا عبداللہ بن زید سے اس روایت کو نہیں سنا۔
تخریج الحدیث:
سیدنا عبداﷲ بن زید بن عبدربہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے فرمایا: ”یہ خواب سچا ہے ان شاﺀ اﷲ۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان کا حُکم دیا، لہٰذا سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام سیدنا بلال رضی اللہ عنہ ان کلمات کے ساتھ اذان دیتے تھے۔
تخریج الحدیث:
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اذان دو دو مرتبہ اور اقامت ایک مرتبہ تھی۔ سوائے اس کے کہ وہ (مؤذن) « قَد قَامَتِ الصَّلَاةُ، قَد قَامَتِ الصَّلَاةُ» دو مرتبہ کہتا تھا، تو جب ہم یہ کلمات سنتے تو وضو کرکے نکل پڑتے۔ محمد کہتے ہیں کہ شعبہ نے کہا، میں نے ابوجعفر سے اس حدیث کے سوا کوئی حدیث نہیں سنی۔ امام ابوبکر بندار کی سند سے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مذکورہ بالا کی طرح روایت بیان کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: اسناده حسن
|