سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کی سواری کی نکیل تھامے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری) کو اُن گھاٹیوں میں سے ایک گھاٹی میں چلا رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے پیارے عقبہ، تم سوار نہیں ہو گے؟“ تو میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر سوار ہونا بڑی بے ادبی خیال کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ”پیارے عقبہ، تم سوار نہیں ہو گے؟“ لہٰذا میں ڈر گیا کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی نہ ہو جائے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سواری سے اُتر گئے اور میں کچھ دیر کے لئے اُس پر سوار ہو گیا۔ پھر میں اُتر گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہو گئے (کچھ دیر کے بعد) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پیارے عقبہ، کیا میں تمہیں ایسی دو بہترین سورتیں نہ سکھاؤں جنہیں لوگوں نے پڑھا ہے۔“ میں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، ضرور سکھادیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے (یہ دو سورتیں) پڑھائیں «قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ» [ سورة الفلق ] اور «قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ» [ سورة الناس ] پھر نماز کھڑی کی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی اور یہی دو سورتیں پڑھیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے تو فرمایا: ”پیارے عقبہ، تم نے (ان دو سورتوں کے مقام و مرتبہ کو) کیسے پایا؟ ان دونوں سورتوں کو سوتے وقت اور اُٹھتے وقت پڑھا کرو۔“ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حدیث کے یہ الفاظ جب بھی تو سونے لگے یا بیدارہونے لگے۔ یہ اسی جنس سے ہے جسے میں نے بیان کیا کہ عرب نائم کا لفظ لیٹنے والے پر بھی بولتے ہیں اور اس شخص پر بھی بولتے ہیں جس کی عقل سونے کی حالت میں زائل ہو چکی ہوتی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ”ان دونوں سورتوں کو پڑھا کرو جب تم سو جاؤ“ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ ہے کہ جب تم سونے کے لئے لیٹو کیونکہ اگر نائم سے مراد ایسا شخص لیں جس کی عقل زائل ہو چکی ہو تو ایسے شخص کو مخاطب کرنا ہی محال و ناممکن ہے کہ اس سے یہ کہا جائے کہ جب تم سو جاؤ، اور اس کی عقل زائل ہو جائے، تو معوذتین کو پڑھا کرو۔ اسی طرح حضرت عمران بن حصین سے مروی سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ کی حد یث کا معنی ہے (جس میں ہے) سونے والے کی نماز کا اجر و ثواب بیٹھ کر نماز پڑ ھنے والے کے اجر سے آدھا ہے اس حدیث میں بھی سونے والے سے آپ کی مراد لیٹنے والا ہے۔ وہ نائم مراد نہیں جس کی عقل سونے کی حالت میں زائل ہو چکی ہو۔ کیونکہ ایسا نائم (سونے والا) جس کی عقل زائل ہوچکی ہو، نماز کا مخاطب نہیں ہے اور عقل کے زائل ہونے کی وجہ سے اس کے لئے نماز پڑھنا ممکن بھی نہیں ہے۔