جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ اذان اور اقامت کے ابواب کا مجموعہ 288. (55) بَابُ ذِكْرِ خَبَرٍ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ- صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – [يَرَى] بَعْضُ أَهْلِ الْجَهْلِ أَنَّهُ يُضَادُّ هَذَا الْخَبَرَ الَّذِي ذَكَرْنَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ بِلَالًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ اس رویت کا بیان جسے بعض جہلاء نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا ہے کہ وہ اِس روایت کے مخالف ہے جو ہم نے بیان کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال رضی اللہ عنہ رات کے وقت اذان دیتے ہیں
حضرت خبیب بن عبدالرحمٰن اپنی پُھوپی سیدہ انیسہ بنت خبیب رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب ابن اُم مکتُوم رضی اللہ عنہ اذان دیں تو کھاؤ، پیو اور جب سیدنا بلال رضی اللہ عنہ اذان دیں تو مت کھاؤ پیو۔“ لہٰذا اگر ہم میں سے کسی عورت کی سحری میں سے کچھ باقی رہ جاتا تو وہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے کہتی کہ ذرا ٹھہریں تاکہ میں اپنی سحری سے فارغ ہو جاؤں۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس روایت کے بیان میں خبیب بن عبدالرحمٰن سے اختلاف کیا گیا ہے۔ امام شعبہ نے ان کی پُھوپھی سیدہ انیسہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا تو کہا کہ ابن مکتُوم یا سیدنا بلال رضی اللہ عنہ رات کے وقت اذان دیتے ہیں۔
تخریج الحدیث: اسناده صحيح
حضرت خبیب بن عبدالرحمٰن اپنی پھوپھی سیدہ انیسہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں، وہ (بکثرت نفلی) نماز پڑھنے والی خاتون تھیں، کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابن اُم مکتُوم رضی اللہ عنہ یا سیدنا بلال رضی اللہ عنہ رات کے وقت اذان دیتے ہیں تو تم کھاؤ پیو حتیٰ کہ بلال رضی اللہ عنہ یا ابن مکتُوم اذان دیں اور فرق اتنا ہوتا تھا کہ ایک اُترتا تو دوسرا بیٹھ جاتا۔ تو سیدہ انیسہ رضی اللہ عنہا اُن کا کپڑا تھام کر کہتیں کہ اسی طرح تشریف فرما رہیں حتیٰ کہ میں سحری کرلوں۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہمیں احمد بن مقدام عجلی نے بھی شعبہ سے اسی طرح بیان کیا ہے، امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدہ انیسہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں راویوں نے اُن الفاظ میں اختلاف کیا ہے لیکن دراوردی نے اپنی سند سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے منصور بن زاذان کی روایت (404) کے ہم معنی روایت بیان کی ہے۔
تخریج الحدیث: اسناده صحيح
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسواللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک ابن اٗم مکتٗوم رضی اللہ عنہا رات کے وقت اذان دیتے ہیں تو تم کھاوٗ اور پیو حتیٰ کہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ اذان دیں۔ کیونکہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ طلوع فجر دیکھ کر ہی اذان دیتے ہیں۔ اس سے ملتی جُلتی روایت ابواسحاق نے اسود کے واسطے سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کی ہے۔
تخریج الحدیث: اسناده صحيح
حضرت اسود بن یزید کہتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ آپ کس وقت وتر ادا کرتی ہیں؟ اُنہوں نے فرمایا کہ میں اُس وقت تک وتر نہیں پڑھتی حتیٰ کہ وہ اذان دینے لگیں، اور وہ اس وقت تک اذان نہیں دیتے حتیٰ کہ فجر طلوع ہو جائے۔ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو مؤذن تھے، فلاں اور عمرو بن اُم مکتُوم رضی اللہ عنہ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب عمرو اذان کہیں تو کھاتے پیتے رہو کیونکہ وہ ایک نابینا شخص ہیں۔ اور جب بلال رضی اللہ عنہ اذان دیں تو اپنے ہاتھ (کھانے سے) روک لو، کیونکہ بلال رضی اللہ عنہ صبح ہونے پر ہی اذان کہتے ہیں۔“
تخریج الحدیث: اسناده صحيح
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے تین مؤذن تھے۔ سیدنا بلال، ابومحذورہ اور عمرہ بن اُم مکتُوم رضی اللہ عنہم تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب عمرہ رضی اللہ عنہ اذان کہیں تو وہ تمہیں مغالطے میں نہ ڈال دیں کیونکہ وہ نابینا آدمی ہیں۔ اور جب بلال رضی اللہ عنہ اذان کہیں تو کوئی شخص ہرگز نہ کھائے۔“ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رہی ابواسحاق کی اسود کے واسطے سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت تو اس میں غور و فکر کی ضرورت ہے کیونکہ مجھے اسود سے ابواسحاق کا اس روایت کا سماع نہیں ملا۔ جبکہ ہشام بن عروہ کی روایت نقل کے اعتبار سے صحیح ہے اور یہ روایت حضرت سالم کی سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت اور قاسم کی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کے مخالف نہیں ہے۔ کیونکہ یہ ممکن ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کی اذان کے لئے سیدنا بلال اور سیدنا ابن اُم مکتُوم رضی ﷲ عنہما کی باری مقرر کی ہو۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض راتوں میں سیدنا بلال رضی اﷲ عنہ کو حُکم دیا کہ وہ پہلے رات کے وقت اذان دیں، تو جب سیدنا بلال رضی اللہ عنہ (اذان دے کر) اُترے تو سیدنا ابن مکتُوم رضی اللہ عنہ (اذان دینے کے لئے) اُوپر چڑھ گئے اور اُنہوں نے اُن کے بعد صبح کی اذان دی۔ پھر جب سیدنا ابن اٗم مکتٗوم کی باری آئی تو اُنہوں نے رات کے وقت اذان دی، پھر جب وہ اذان دے کر اُترے تو سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے اُن کے بعد اوپر چڑھ کر صبح کی اذان کہی۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان مبارک کہ بلال رات کے وقت اذان دیتے ہیں۔ یہ اٗس وقت ہو گا جب سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کی باری رات کے وقت اذان دینے کی تھی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ ابن اُم مکتُوم رضی اللہ عنہ رات کے وقت اذان دیتے ہیں، یہ اُس وقت ہو جبکہ رات کے وقت اذان دینے کی باری سیدنا ابن اُم مکتُوم رضی اللہ عنہ کی تھی۔ اس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر دو وقتوں میں لوگوں کو بتایا کہ دونوں اذانوں میں سے پہلی اذان رات کے وقت ہے صبح کے وقت نہیں۔ اور یہ اذان روزے کا ارادہ کرنے والے کو کھانے پینے سے منع نہیں کرتی۔ اور دوسری اذان کھانے پینے سے روکتی ہے کیونکہ وہ دن کے وقت (یعنی طلوع فجر کے بعد) ہوتی ہے رات کے وقت نہیں۔ جبکہ حضرت اسود کی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کہ وہ موذن اذان نہیں کہتے تھے حتیٰ کہ فجر طلوع ہو جاتی، تو اس کا دو معنوں میں سے ایک معنی ہو سکتا ہے۔ ایک معنی یہ ہو سکتا ہے کہ وہ سب مؤذن اُس وقت تک اذان نہیں دیتے تھے جب تک فجر طلوع نہیں ہوتی تھی۔ یہ مطلب نہیں کہ اٗن میں سے کوئی ایک بھی (طلوع فجر سے پہلے) اذان نہیں دیتا تھا۔ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ اُنہوں نے اپنی روایت میں یہ کہا ہے کہ جب عمرو رضی اللہ عنہ اذان کہیں تو کھاتے پیتے رہو۔ اس لئے اگر سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ طلوع فجر کے بعد ہی اذان دیتے ہوتے تو سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ کی اذان کے بعد روزے دار کے لئے کھانا پینا حرام ہوتا۔ دوسرا معنی یہ ہو سکتا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا مطلب یہ ہو کہ (وہ اُس وقت تک اذان نہیں دیتے تھے) جب تک پہلی فجر طلوع نہ ہو جائے۔ تو مؤذن میں سے پہلے اذان دینے والا پہلی فجر کے طلوع کے بعد اذان دیتا نہ کہ اس سے پہلے۔ یہی وقت ہے جب روزے کا ارادہ رکھنے کے لیے کھانا اور پینا حلال ہوتا ہے کیونکہ پہلی فجر رات کے طلوع ہوتی ہے دن کے وقت نہیں۔ پھر ان کے بعد والا مؤذن دوسری فجر طلوع ہونے کے بعد اذان کہتا ہے جو کہ دن میں ہوتا ہے رات میں نہیں۔ تو اس روایت کا میرے نزدیک یہ معنی ہے۔ واللہ اعلم۔
تخریج الحدیث: اسناده صحيح
|