288. اس رویت کا بیان جسے بعض جہلاء نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا ہے کہ وہ اِس روایت کے مخالف ہے جو ہم نے بیان کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال رضی اللہ عنہ رات کے وقت اذان دیتے ہیں
نا احمد بن سعيد الدارمي ، ومحمد بن عثمان العجلي ، قالا: حدثنا عبيد الله بن موسى ، عن إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن الاسود ، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: كان لرسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاثة مؤذنين: بلال، وابو محذورة، وعمرو بن ام مكتوم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا اذن عمرو، فإنه ضرير البصر فلا يغرنكم، وإذا اذن بلال فلا يطعمن احد" . قال ابو بكر: اما خبر ابي إسحاق، عن الاسود، عن عائشة، فإن فيه نظرا، لاني لا اقف على سماع ابي إسحاق هذا الخبر من الاسود، فاما خبر هشام بن عروة، فصحيح من جهة النقل، وليس هذا الخبر يضاد خبر سالم عن ابن عمر، وخبر القاسم عن عائشة، إذ جائز ان يكون النبي صلى الله عليه وسلم قد كان جعل الاذان بالليل نوائب بين بلال وبين ابن ام مكتوم، فامر في بعض الليالي بلالا ان يؤذن اولا بالليل، فإذا نزل بلال، صعد ابن ام مكتوم، فاذن بعده بالنهار، فإذا جاءت نوبة ابن ام مكتوم، بدا ابن ام مكتوم، فاذن بليل، فإذا نزل، صعد بلال، فاذن بعده بالنهار، وكانت مقالة النبي صلى الله عليه وسلم: ان بلالا يؤذن بليل في الوقت الذي كانت النوبة لبلال في الاذان بليل، وكانت مقالته صلى الله عليه وسلم: ان ابن ام مكتوم يؤذن بليل في الوقت الذي كانت النوبة في الاذان بالليل نوبة ابن ام مكتوم، فكان النبي صلى الله عليه وسلم يعلم الناس في كل الوقتين ان الاذان الاول منهما، هو اذان بليل لا بنهار، وانه لا يمنع من اراد الصوم طعاما ولا شرابا، وان اذان الثاني إنما يمنع الطعام والشراب إذ هو بنهار لا بليل، فاما خبر الاسود، عن عائشة: وما يؤذنون حتى يطلع الفجر، فإن له احد معنيين: احدهما لا يؤذن جميعهم حتى يطلع الفجر لا انه لا يؤذن احد منهم، الا تراه انه قد قال في الخبر: إذا اذن عمرو، فكلوا واشربوا، فلو كان عمرو لا يؤذن حتى يطلع الفجر، لكان الاكل والشرب على الصائم بعد اذان عمرو محرمين، والمعنى الثاني ان تكون عائشة ارادت حتى يطلع الفجر الاول، فيؤذن البادي منهم، بعد طلوع الفجر الاول لا قبله، وهو الوقت الذي يحل فيه الطعام والشراب لمن اراد الصوم، إذ طلوع الفجر الاول بليل لا بنهار، ثم يؤذن الذي يليه بعد طلوع الفجر الثاني الذي هو نهار لا ليل، فهذا معنى هذا الخبر عندي، والله اعلمنا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْعِجْلِيُّ ، قَالا: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، عَنْ إِسْرَائِيلَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنِ الأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلاثَةُ مُؤَذِّنِينَ: بِلالٌ، وَأَبُو مَحْذُورَةَ، وَعَمْرُو بْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا أَذَّنَ عَمْرٌو، فَإِنَّهُ ضَرِيرُ الْبَصَرِ فَلا يَغُرَّنَّكُمْ، وَإِذَا أَذَّنَ بِلالٌ فَلا يَطْعَمَنَّ أَحَدٌ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَمَّا خَبَرُ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، فَإِنَّ فِيهِ نَظَرًا، لأَنِّي لا أَقِفُ عَلَى سَمَاعِ أَبِي إِسْحَاقَ هَذَا الْخَبَرَ مِنَ الأَسْوَدِ، فَأَمَّا خَبَرُ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، فَصَحِيحٌ مِنْ جِهَةِ النَّقْلِ، وَلَيْسَ هَذَا الْخَبَرُ يُضَادُّ خَبَرَ سَالِمٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، وَخَبَرَ الْقَاسِمِ عَنْ عَائِشَةَ، إِذْ جَائِزٌ أَنْ يَكُونَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ كَانَ جَعَلَ الأَذَانَ بِاللَّيْلِ نَوَائِبَ بَيْنَ بِلالٍ وَبَيْنَ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ، فَأَمَرَ فِي بَعْضِ اللَّيَالِي بِلالا أَنْ يُؤَذِّنَ أَوَلا بِاللَّيْلِ، فَإِذَا نَزَلَ بِلالٌ، صَعِدَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ، فَأَذَّنَ بَعْدَهُ بِالنَّهَارِ، فَإِذَا جَاءَتْ نَوْبَةُ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ، بَدَأَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ، فَأَذَّنَ بِلَيْلٍ، فَإِذَا نَزَلَ، صَعِدَ بِلالٌ، فَأَذَّنَ بَعْدَهُ بِالنَّهَارِ، وَكَانَتْ مَقَالَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّ بِلالا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ فِي الْوَقْتِ الَّذِي كَانَتِ النَّوْبَةُ لِبِلالٍ فِي الأَذَانِ بِلَيْلٍ، وَكَانَتْ مَقَالَتُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنُّ ابْنَ أُمِّ مَكْتُومٍ يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ فِي الْوَقْتِ الَّذِي كَانَتِ النَّوْبَةُ فِي الأَذَانِ بِاللَّيْلِ نَوْبَةَ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ، فَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْلِمُ النَّاسَ فِي كُلِّ الْوَقْتَيْنِ أَنَّ الأَذَانَ الأَوَّلَ مِنْهُمَا، هُوَ أَذَانٌ بِلَيْلٍ لا بِنَهَارٍ، وَأَنَّهُ لا يَمْنَعُ مَنْ أَرَادَ الصَّوْمَ طَعَامًا وَلا شَرَابًا، وَأَنَّ أَذَانَ الثَّانِي إِنَّمَا يَمْنَعُ الطَّعَامَ وَالشَّرَابَ إِذْ هُوَ بِنَهَارٍ لا بِلَيْلٍ، فَأَمَّا خَبَرُ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ: وَمَا يُؤَذِّنُونَ حَتَّى يَطْلُعَ الْفَجْرُ، فَإِنَّ لَهُ أَحَدَ مَعْنَيَيْنِ: أَحَدُهُمَا لا يُؤَذِّنُ جَمِيعُهُمْ حَتَّى يَطْلُعَ الْفَجْرَ لا أَنَّهُ لا يُؤَذِّنُ أَحَدٌ مِنْهُمْ، أَلا تَرَاهُ أَنَّهُ قَدْ قَالَ فِي الْخَبَرِ: إِذَا أَذَّنَ عَمْرٌو، فَكُلُوا وَاشْرَبُوا، فَلَوْ كَانَ عَمْرٌو لا يُؤَذِّنُ حَتَّى يَطْلُعَ الْفَجْرُ، لَكَانَ الأَكْلُ وَالشُّرْبُ عَلَى الصَّائِمِ بَعْدَ أَذَانِ عَمْرٍو مُحَرَّمَيْنِ، وَالْمَعْنَى الثَّانِي أَنْ تَكُونَ عَائِشَةُ أَرَادَتْ حَتَّى يَطْلُعَ الْفَجْرُ الأَوَّلُ، فَيُؤَذِّنُ الْبَادِي مِنْهُمْ، بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ الأَوَّلِ لا قَبْلَهُ، وَهُوَ الْوَقْتُ الَّذِي يَحِلُّ فِيهِ الطَّعَامُ وَالشَّرَابُ لِمَنْ أَرَادَ الصَّوْمَ، إِذْ طُلُوعُ الْفَجْرِ الأَوَّلِ بِلَيْلٍ لا بِنَهَارٍ، ثُمَّ يُؤَذِّنُ الَّذِي يَلِيهِ بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ الثَّانِي الَّذِي هُوَ نَهَارٌ لا لَيْلٌ، فَهَذَا مَعْنَى هَذَا الْخَبَرِ عِنْدِي، وَاللَّهُ أَعْلَمُ
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے تین مؤذن تھے۔ سیدنا بلال، ابومحذورہ اور عمرہ بن اُم مکتُوم رضی اللہ عنہم تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب عمرہ رضی اللہ عنہ اذان کہیں تو وہ تمہیں مغالطے میں نہ ڈال دیں کیونکہ وہ نابینا آدمی ہیں۔ اور جب بلال رضی اللہ عنہ اذان کہیں تو کوئی شخص ہرگز نہ کھائے۔“ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رہی ابواسحاق کی اسود کے واسطے سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت تو اس میں غور و فکر کی ضرورت ہے کیونکہ مجھے اسود سے ابواسحاق کا اس روایت کا سماع نہیں ملا۔ جبکہ ہشام بن عروہ کی روایت نقل کے اعتبار سے صحیح ہے اور یہ روایت حضرت سالم کی سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت اور قاسم کی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کے مخالف نہیں ہے۔ کیونکہ یہ ممکن ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کی اذان کے لئے سیدنا بلال اور سیدنا ابن اُم مکتُوم رضی ﷲ عنہما کی باری مقرر کی ہو۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض راتوں میں سیدنا بلال رضی اﷲ عنہ کو حُکم دیا کہ وہ پہلے رات کے وقت اذان دیں، تو جب سیدنا بلال رضی اللہ عنہ (اذان دے کر) اُترے تو سیدنا ابن مکتُوم رضی اللہ عنہ (اذان دینے کے لئے) اُوپر چڑھ گئے اور اُنہوں نے اُن کے بعد صبح کی اذان دی۔ پھر جب سیدنا ابن اٗم مکتٗوم کی باری آئی تو اُنہوں نے رات کے وقت اذان دی، پھر جب وہ اذان دے کر اُترے تو سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے اُن کے بعد اوپر چڑھ کر صبح کی اذان کہی۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان مبارک کہ بلال رات کے وقت اذان دیتے ہیں۔ یہ اٗس وقت ہو گا جب سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کی باری رات کے وقت اذان دینے کی تھی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ ابن اُم مکتُوم رضی اللہ عنہ رات کے وقت اذان دیتے ہیں، یہ اُس وقت ہو جبکہ رات کے وقت اذان دینے کی باری سیدنا ابن اُم مکتُوم رضی اللہ عنہ کی تھی۔ اس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر دو وقتوں میں لوگوں کو بتایا کہ دونوں اذانوں میں سے پہلی اذان رات کے وقت ہے صبح کے وقت نہیں۔ اور یہ اذان روزے کا ارادہ کرنے والے کو کھانے پینے سے منع نہیں کرتی۔ اور دوسری اذان کھانے پینے سے روکتی ہے کیونکہ وہ دن کے وقت (یعنی طلوع فجر کے بعد) ہوتی ہے رات کے وقت نہیں۔ جبکہ حضرت اسود کی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کہ وہ موذن اذان نہیں کہتے تھے حتیٰ کہ فجر طلوع ہو جاتی، تو اس کا دو معنوں میں سے ایک معنی ہو سکتا ہے۔ ایک معنی یہ ہو سکتا ہے کہ وہ سب مؤذن اُس وقت تک اذان نہیں دیتے تھے جب تک فجر طلوع نہیں ہوتی تھی۔ یہ مطلب نہیں کہ اٗن میں سے کوئی ایک بھی (طلوع فجر سے پہلے) اذان نہیں دیتا تھا۔ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ اُنہوں نے اپنی روایت میں یہ کہا ہے کہ جب عمرو رضی اللہ عنہ اذان کہیں تو کھاتے پیتے رہو۔ اس لئے اگر سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ طلوع فجر کے بعد ہی اذان دیتے ہوتے تو سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ کی اذان کے بعد روزے دار کے لئے کھانا پینا حرام ہوتا۔ دوسرا معنی یہ ہو سکتا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا مطلب یہ ہو کہ (وہ اُس وقت تک اذان نہیں دیتے تھے) جب تک پہلی فجر طلوع نہ ہو جائے۔ تو مؤذن میں سے پہلے اذان دینے والا پہلی فجر کے طلوع کے بعد اذان دیتا نہ کہ اس سے پہلے۔ یہی وقت ہے جب روزے کا ارادہ رکھنے کے لیے کھانا اور پینا حلال ہوتا ہے کیونکہ پہلی فجر رات کے طلوع ہوتی ہے دن کے وقت نہیں۔ پھر ان کے بعد والا مؤذن دوسری فجر طلوع ہونے کے بعد اذان کہتا ہے جو کہ دن میں ہوتا ہے رات میں نہیں۔ تو اس روایت کا میرے نزدیک یہ معنی ہے۔ واللہ اعلم۔