272. گذشتہ مجمل روایت کی مفسر روایت کا بیان اور اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض کلمات اذان کو دہرے کہنے کا حکم دیا ہے سارے کلمات نہیں
وان اللفظة التي في خبر انس إنما هي من اخبار الفاظ العام التي يراد بها الخاص، إذ الاذان وتر لا شفع؛ لان المؤذن إنما يقول: لا إله إلا الله، في آخر الاذان مرة واحدة. وكذلك المقيم يثني في الابتداء الله اكبر، فيقوله مرتين، وكذلك يقول: قد قامت الصلاة مرتين، ويقول ايضا: الله اكبر الله اكبر مرتينوَأَنَّ اللَّفْظَةَ الَّتِي فِي خَبَرِ أَنَسٍ إِنَّمَا هِيَ مِنْ أَخْبَارِ أَلْفَاظِ الْعَامِّ الَّتِي يُرَادُ بِهَا الْخَاصُّ، إِذِ الْأَذَانُ وِتْرٌ لَا شَفْعٌ؛ لِأَنَّ الْمُؤَذِّنَ إِنَّمَا يَقُولُ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فِي آخِرِ الْأَذَانِ مَرَّةً وَاحِدَةً. وَكَذَلِكَ الْمُقِيمُ يُثَنِّي فِي الِابْتِدَاءِ اللَّهُ أَكْبَرُ، فَيَقُولُهُ مَرَّتَيْنِ، وَكَذَلِكَ يَقُولُ: قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ مَرَّتَيْنِ، وَيَقُولُ أَيْضًا: اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ مَرَّتَيْنِ
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اقامت کے بعض کلمات اکہرے کہنے کا حُکم دیا ہے ساری تکبیراکہری کہنے کا حُکم نہیں دیا، اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں مذکورہ الفاظ وہ ایسی روایت سے ہیں کہ اُن کے الفاظ عام ہوتے ہیں اور اُن کی مراد خاص ہوتی ہے۔ کیونکہ اذان اکہری ہے دوہری نہیں۔ کیونکہ مؤذّن آخر میں «لَا إِلٰهَ إِلَّا الله» ایک ہی مرتبہ کہتا ہے اسی طرح تکبیر کہنے والا اقامت کی ابتدا میں «اللهُ أَكْبَرُ» دو مرتبہ کہتا ہے، اور اسی طرح «قد قامت الصلاة» دو مرتبہ کہتا ہے اور «اللهُ أَكْبَرُ» بھی دو مرتبہ کہتا ہے۔
جناب محمد بن اسحاق رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو لوگ بغیر اذان کے نماز کے اوقات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہوجاتے تھے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کے بگل کی طرح کا بگل بنانے کا ارادہ کیا جس سے وہ اپنی نمازوں کے لیے بلاتے ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ناپسند کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھنٹہ بنانے کا حُکم دیا تو وہ تراش دیا گیا تاکہ مسلمانوں کو نماز کے لئے بلانے کے لیے بجایا جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم (اور آپ کے صحابہ کرام) اسی صلاح مشورے میں مصروف تھے کہ حارث بن خزرج کے بھائی عبداللہ بن زید بن عبدربہ کو (خواب میں) اذان دکھائی گئی۔ تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، آج رات میں نے ایک شخص کوخواب میں دیکھا، ایک آدمی میرے پاس سے گزرا، اُس پر دو سبز کپڑے تھے اور وہ ہاتھ میں گھنٹہ اُٹھائے ہوئے تھا۔ تو میں نے کہا کہ اے اللہ کے بندے، کیا تم اس گھنٹے کو بیچو گے؟ اُس نے کہا کہ تم اس سے کیا کرو گے؟ میں نے کہا کہ ہم اس سے نماز کے لیے بلائیں گے۔ تو اُس نے کہا کہ کیا میں تمہیں اس سے بہتر چیز نہ بتاؤں؟ میں نے کہا کہ وہ کیا ہے؟ اُس نے کہا کہ تم کہا کرو: «اللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ» ”اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے“ «أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ» ”میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، میں گوہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں“ «أَشْهَدُ أَنْ مُحَمَّدٌ رَسُولُ ٱللَّٰه، أَشْهَدُ أَنْ مُحَمَّدٌ رَسُولُ ٱللَّٰه» ”میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں“ «حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ» ”نماز کی طرف آؤ، نماز کی طرف آؤ“ «حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ» ”آؤ کامیابی کی طرف، آؤ کامیابی کی طرف“ «اللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ» ”اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے“ «لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ» ﷲ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں“ پھر وہ تھوڑا سا پیچھے ہٹا پھر اُس نے اسی طرح کہا کہ جیسے پہلے کہا تھا۔ اور اُس نے وہ کلمات اکہرے کہے سوائے قد قامت الصلاۃ کے، اُس نے (دو مرتبہ) « قَد قَامَتِ الصَّلَاةُ، قَد قَامَتِ الصَّلَاةُ» ”نماز کھڑی ہوگئی، نماز قائم ہوگئی“ «اللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ» ”اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، ﷲ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں“ جب میں نے اس کی خبر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان شاء اللہ یہ خواب سچا ہے۔“ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ اور اُسے یہ کلمات بتاؤ کیونکہ وہ تم سے بلند آواز والا ہے۔“ پھر جب سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے ان کلمات کے ساتھ اذان دی تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اسے سنا جبکہ وہ اپنے گھر میں تھے۔ تو وہ اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نکلے اور کہنے لگے کہ اے اللہ کے نبی، اس ذات باری کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق دیکر بھیجا ہے، یقیناًً ً میں نے بھی ایسا ہی (خواب) دیکھا ہے جیسا اُس نے دیکھا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں اور اس (گواہی نے) مسئلے کو زیادہ مضبوط اور واضح کر دیا ہے۔“