حدثنا هاشم بن القاسم ، حدثنا سليمان يعني ابن المغيرة ، عن ثابت ، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، عن المقداد ، قال: اقبلت انا وصاحبان لي قد ذهبت اسماعنا وابصارنا من الجهد، قال: فجعلنا نعرض انفسنا على اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ليس احد يقبلنا، قال: فانطلقنا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فانطلق بنا إلى اهله، فإذا ثلاث اعنز، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " احتلبوا هذا اللبن بيننا"، قال: فكنا نحتلب فيشرب كل إنسان نصيبه، ونرفع لرسول الله صلى الله عليه وسلم نصيبه، فيجيء من الليل فيسلم تسليما لا يوقظ نائما، ويسمع اليقظان، ثم ياتي المسجد فيصلي، ثم ياتي شرابه فيشربه، قال: فاتاني الشيطان ذات ليلة، فقال: محمد ياتي الانصار فيتحفونه، ويصيب عندهم، ما به حاجة إلى هذه الجرعة، فاشربها، قال: ما زال يزين لي حتى شربتها، فلما وغلت في بطني، وعرف انه ليس إليها سبيل، قال: ندمني، فقال: ويحك ما صنعت، شربت شراب محمد، فيجيء ولا يراه، فيدعو عليك فتهلك، فتذهب دنياك وآخرتك؟! قال: وعلي شملة من صوف كلما رفعتها على راسي خرجت قدماي وإذا ارسلت على قدمي، خرج راسي، وجعل لا يجيء لي نوم، قال: واما صاحباي فناما، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم فسلم كما كان يسلم، ثم اتى المسجد فصلى، فاتى شرابه فكشف عنه فلم يجد فيه شيئا، فرفع راسه إلى السماء، قال: قلت: الآن يدعو علي فاهلك، فقال:" اللهم اطعم من اطعمني، واسق من سقاني"، قال: فعمدت إلى الشملة، فشددتها علي، فاخذت الشفرة فانطلقت إلى الاعنز اجسهن ايهن اسمن، فاذبح لرسول الله صلى الله عليه وسلم فإذا هن حفل كلهن، فعمدت إلى إناء لآل محمد ما كانوا يطمعون ان يحلبوا فيه، وقال ابو النضر مرة اخرى: ان يحتلبوا فيه فحلبت فيه حتى علته الرغوة، ثم جئت به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" اما شربتم شرابكم الليلة يا مقداد؟" قال: قلت: اشرب يا رسول الله، فشرب ثم ناولني، فقلت: يا رسول الله، اشرب، فشرب ثم ناولني، فاخذت ما بقي فشربت، فلما عرفت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد روي فاصابتني دعوته، ضحكت حتى القيت إلى الارض، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إحدى سوآتك يا مقداد"، قال: قلت: يا رسول الله، كان من امري كذا، صنعت كذا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما كانت هذه إلا رحمة من الله، الا كنت آذنتني نوقظ صاحبيك هذين فيصيبان منها"، قال: قلت: والذي بعثك بالحق، ما ابالي إذا اصبتها واصبتها معك من اصابها من الناس .حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ الْمِقْدَادِ ، قَالَ: أَقْبَلْتُ أَنَا وَصَاحِبَانِ لِي قَدْ ذَهَبَتْ أَسْمَاعُنَا وَأَبْصَارُنَا مِنَ الْجَهْدِ، قَالَ: فَجَعَلْنَا نَعْرِضُ أَنْفُسَنَا عَلَى أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ أَحَدٌ يَقْبَلُنَا، قَالَ: فَانْطَلَقْنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَانْطَلَقَ بِنَا إِلَى أَهْلِهِ، فَإِذَا ثَلَاثُ أَعْنُزٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " احْتَلِبُوا هَذَا اللَّبَنَ بَيْنَنَا"، قَالَ: فَكُنَّا نَحْتَلِبُ فَيَشْرَبُ كُلُّ إِنْسَانٍ نَصِيبَهُ، وَنَرْفَعُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَصِيبَهُ، فَيَجِيءُ مِنَ اللَّيْلِ فَيُسَلِّمُ تَسْلِيمًا لَا يُوقِظُ نَائِمًا، وَيُسْمِعُ الْيَقْظَانَ، ثُمَّ يَأْتِي الْمَسْجِدَ فَيُصَلِّي، ثُمَّ يَأْتِي شَرَابَهُ فَيَشْرَبُهُ، قَالَ: فَأَتَانِي الشَّيْطَانُ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَقَالَ: مُحَمَّدٌ يَأْتِي الْأَنْصَارَ فَيُتْحِفُونَهُ، وَيُصِيبُ عِنْدَهُمْ، مَا بِهِ حَاجَةٌ إِلَى هَذِهِ الْجُرْعَةِ، فَاشْرَبْهَا، قَالَ: مَا زَالَ يُزَيِّنُ لِي حَتَّى شَرِبْتُهَا، فَلَمَّا وَغَلَتْ فِي بَطْنِي، وَعَرَفَ أَنَّهُ لَيْسَ إِلَيْهَا سَبِيلٌ، قَالَ: نَدَّمَنِي، فَقَالَ: وَيْحَكَ مَا صَنَعْتَ، شَرِبْتَ شَرَابَ مُحَمَّدٍ، فَيَجِيءُ وَلَا يَرَاهُ، فَيَدْعُو عَلَيْكَ فَتَهْلِكَ، فَتَذْهَبُ دُنْيَاكَ وَآخِرَتُكَ؟! قَالَ: وَعَلَيَّ شَمْلَةٌ مِنْ صُوفٍ كُلَّمَا رَفَعْتُهَا عَلَى رَأْسِي خَرَجَتْ قَدَمَايَ وَإِذَا أَرْسَلْتُ عَلَى قَدَمَيَّ، خَرَجَ رَأْسِي، وَجَعَلَ لَا يَجِيءُ لِي نَوْمٌ، قَالَ: وَأَمَّا صَاحِبَايَ فَنَامَا، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمَ كَمَا كَانَ يُسَلِّمُ، ثُمَّ أَتَى الْمَسْجِدَ فَصَلَّى، فَأَتَى شَرَابَهُ فَكَشَفَ عَنْهُ فَلَمْ يَجِدْ فِيهِ شَيْئًا، فَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ، قَالَ: قُلْتُ: الْآنَ يَدْعُو عَلَيَّ فَأَهْلِكُ، فَقَالَ:" اللَّهُمَّ أَطْعِمْ مَنْ أَطْعَمَنِي، وَاسْقِ مَنْ سَقَانِي"، قَالَ: فَعَمَدْتُ إِلَى الشَّمْلَةِ، فَشَدَدْتُهَا عليَّ، فَأَخَذْتُ الشَّفْرَةَ فَانْطَلَقْتُ إِلَى الْأَعْنُزِ أَجُسُّهُنَّ أَيُّهُنَّ أَسْمَنُ، فَأَذْبَحُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا هُنَّ حُفَّلٌ كُلُّهُنَّ، فَعَمَدْتُ إِلَى إِنَاءٍ لِآلِ مُحَمَّدٍ مَا كَانُوا يَطْمَعُونَ أَنْ يَحْلِبُوا فِيهِ، وَقَالَ أَبُو النَّضْرِ مَرَّةً أُخْرَى: أَنْ يَحْتَلِبُوا فِيهِ فَحَلَبْتُ فِيهِ حَتَّى عَلَتْهُ الرَّغْوَةُ، ثُمَّ جِئْتُ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" أَمَا شَرِبْتُمْ شَرَابَكُمْ اللَّيْلَةَ يَا مِقْدَادُ؟" قَالَ: قُلْتُ: اشْرَبْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَشَرِبَ ثُمَّ نَاوَلَنِي، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اشْرَبْ، فَشَرِبَ ثُمَّ نَاوَلَنِي، فَأَخَذْتُ مَا بَقِيَ فَشَرِبْتُ، فَلَمَّا عَرَفْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ رَوِيَ فَأَصَابَتْنِي دَعْوَتُهُ، ضَحِكْتُ حَتَّى أُلْقِيتُ إِلَى الْأَرْضِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِحْدَى سَوْآتِكَ يَا مِقْدَادُ"، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَانَ مِنْ أَمْرِي كَذَا، صَنَعْتُ كَذَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا كَانَتْ هَذِهِ إِلَّا رَحْمَةً مِنَ اللَّهِ، أَلَا كُنْتَ آذَنْتَنِي نُوقِظُ صَاحِبَيْكَ هَذَيْنِ فَيُصِيبَانِ مِنْهَا"، قَالَ: قُلْتُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، مَا أُبَالِي إِذَا أَصَبْتَهَا وَأَصَبْتُهَا مَعَكَ مَنْ أَصَابَهَا مِنَ النَّاسِ .
حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں اور میرے دو ساتھی آئے اور تکلیف کی وجہ سے ہماری قوت سماعت اور قوت بصارت چلی گئی تھی ہم نے اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہ پر پیش کیا تو ان میں سے کسی نے بھی ہمیں قبول نہیں کیا پھر ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اپنے گھر کی طرف لے گئے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں) تین بکریاں تھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان بکریوں کا دودھ نکالو پھر ہم ان کا دودھ نکالتے تھے اور ہم میں سے ہر ایک آدمی اپنے حصے کا دودھ پیتا اور ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ اٹھا کر رکھ دیتے۔ راوی کہتے ہیں کہ آپ رات کے وقت تشریف لاتے (تو ایسے انداز میں) سلام کرتے کہ سونے والا بیدار نہ ہوتا اور جاگنے والا (آپ کا سلام) سن لیتا پھر آپ مسجد میں تشریف لاتے اور نماز پڑھتے پھر آپ اپنے دودھ کے پاس آتے اور اسے پیتے ایک رات شیطان آیا جبکہ میں اپنے حصے کا دودھ پی چکا تھا شیطان کہنے لگا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم انصار کے پاس آتے ہیں اور آپ کو تحفے دیتے ہیں او آپ کو جس کسی چیز کی ضرورت ہوتی ہے وہ مل جاتی ہے آپ کو اس ایک گھونٹ دودھ کی کیا ضرورت ہوگی (شیطان کے اس ورغلانے کے نتیجہ میں) پھر میں آیا اور میں نے وہ دودھ پی لیا جب وہ دودھ میرے پیٹ میں چلا گیا اور مجھے اس بات کا یقین ہوگیا کہ اب آپ کو دودھ ملنے کا کوئی راستہ نہیں ہے تو شیطان نے مجھے ندامت دلائی اور کہنے لگا تیری خرابی ہو تو نے یہ کیا کیا؟ تو نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حصے کا بھی دودھ پی لیا آپ آئیں گے اور وہ دودھ نہیں پائیں گے تو تجھے بددعا دیں گے تو تو ہلاک ہوجائے گا اور تیری دنیا آخرت برباد ہوجائے گی میرے پاس ایک چادر تھی جب میں اسے اپنے پاؤں پر ڈالتا تو میرا سر کھل جاتا اور جب میں اسے اپنے سر پر ڈالتا تو میرے پاؤں کھل جاتے اور مجھے نیند بھی آرہی تھی جبکہ میرے دونوں ساتھی سو رہے تھے انہوں نے وہ کام نہیں کیا جو میں نے کیا تھا بالآخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور نماز پڑھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دودھ کی طرف آئے برتن کھولا تو اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ نہ پایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر مبارک آسمان کی طرف اٹھایا میں نے (دل) میں کہا کہ اب آپ میرے لئے بددعا فرمائیں گے پھر میں ہلاک ہوجاؤں گا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ! تو اسے کھلا جو مجھے کھلائے اور تو اسے پلا جو مجھے پلائے (میں نے یہ سن کر) اپنی چادر مضبوط کر کے باندھ لی پھر میں چھری پکڑ کر بکریوں کی طرف چل پڑا کہ ان بکریوں میں سے جو موٹی بکری ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ذبح کر ڈالوں میں نے دیکھا کہ اس کا ایک تھن دودھ سے بھرا پڑا ہے بلکہ سب بکریوں کے تھن دودھ سے بھرے پڑے تھے پھر میں نے اس گھر کے برتنوں میں سے وہ برتن لیا جس میں دودھ نہیں دوہا جاتا تھا پھر میں نے اس برتن میں دودھ نکالا یہاں تک کہ دودھ کی جھاگ اوپر تک آگئی پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم نے رات کو اپنے حصہ کا دودھ پی لیا تھا؟ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! آپ دودھ پئیں پھر آپ کو واقعہ بتاؤں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ پیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیا پھر جب مجھے معلوم ہوگیا کہ آپ سیر ہوگئے ہیں اور آپ کی دعا میں نے لے لی ہے تو میں ہنس پڑا یہاں تک کہ مارے خوشی کے زمین پر لوٹ پوٹ ہونے لگا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے مقداد! یہ تیری ایک بری عادت ہے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! میرے ساتھ تو اس طرح کا معاملہ ہوا ہے اور میں نے اس طرح کرلیا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس وقت کا دودھ سوائے رحمت کے اور کچھ نہ تھا تم نے مجھے پہلے ہی کیوں نہ بتادیا تاکہ ہم اپنے ساتھیوں کو بھی جگا دیتے وہ بھی اس میں سے دودھ پی لیتے میں نے عرض کیا اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے جب آپ نے یہ دودھ پی لیا ہے اور میں نے بھی یہ دودھ پی لیا ہے تو اب مجھے اور کوئی پرواہ نہیں (یعنی میں نے اللہ کی رحمت حاصل کرلی ہے تو اب مجھے کیا پرواہ (بوجہ خوشی) کہ لوگوں میں سے کوئی اور بھی یہ رحمت حاصل کرے یا نہ کرے)