حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن ثابت ، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، عن المقداد بن الاسود ، قال: قدمت المدينة انا وصاحب لي، فتعرضنا للناس فلم يضفنا احد، فاتينا النبي صلى الله عليه وسلم فذكرنا له، فذهب بنا إلى منزله وعنده اربع اعنز، فقال: " احتلبهن يا مقداد وجزئهن اربعة اجزاء، واعط كل إنسان جزاه"، فكنت افعل ذلك، فرفعت للنبي صلى الله عليه وسلم جزاه ذات ليلة، فاحتبس واضطجعت على فراشي، فقالت لي نفسي: إن النبي صلى الله عليه وسلم قد اتى اهل بيت من الانصار، فلو قمت فشربت هذه الشربة، فلم تزل بي حتى قمت فشربت جزاه، فلما دخل في بطني وتقار اخذني ما قدم وما حدث، فقلت: يجيء النبي صلى الله عليه وسلم جائعا ظمآنا ولا يرى في القدح شيئا، فتسجيت ثوبا على وجهي، وجاء النبي صلى الله عليه وسلم فسلم تسليما يسمع اليقظان، ولا يوقظ النائم، فكشف عنه فلم ير شيئا، فرفع راسه إلى السماء، فقال:" اللهم اسق من سقاني، واطعم من اطعمني" فاغتنمت دعوته، وقمت فاخذت الشفرة، فدنوت من الاعنز، فجعلت اجسهن ايهن اسمن لاذبحها، فوقعت يدي على ضرع إحداهن، فإذا هي حافل، ونظرت إلى الاخرى فإذا هي حافل، ونظرت كلهن فإذا هن حفل، فحلبت في الإناء فاتيته به، فقلت: اشرب، فقال:" الخبر يا مقداد"، فقلت: اشرب ثم الخبر، فقال:" بعض سوآتك يا مقداد"، فشرب ثم قال:" اشرب"، فقلت: اشرب يا نبي الله، فشرب حتى تضلع، ثم اخذته فشربته، ثم اخبرته الخبر، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" هيه"، فقلت: كان كذا وكذا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" هذه بركة نزلت من السماء، افلا اخبرتني حتى اسقي صاحبيك"، فقلت: إذا شربت البركة انا وانت، فلا ابالي من اخطات .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنِ الْمِقْدَادِ بْنِ الْأَسْوَدِ ، قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ أَنَا وَصَاحِبٌ لِي، فَتَعَرَّضْنَا لِلنَّاسِ فَلَمْ يُضِفْنَا أَحَدٌ، فَأَتَيْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْنَا لَهُ، فَذَهَبَ بِنَا إِلَى مَنْزِلِهِ وَعِنْدَهُ أَرْبَعُ أَعْنُزٍ، فَقَالَ: " احْتَلِبْهُنَّ يَا مِقْدَادُ وَجَزِّئْهُنَّ أَرْبَعَةَ أَجْزَاءٍ، وَأَعْطِ كُلَّ إِنْسَانٍ جُزْأَهُ"، فَكُنْتُ أَفْعَلُ ذَلِكَ، فَرَفَعْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جُزْأَهُ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَاحْتَبَسَ وَاضْطَجَعْتُ عَلَى فِرَاشِي، فَقَالَتْ لِي نَفْسِي: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَتَى أَهْلَ بَيْتٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَلَوْ قُمْتَ فَشَرِبْتَ هَذِهِ الشَّرْبَةَ، فَلَمْ تَزَلْ بِي حَتَّى قُمْتُ فَشَرِبْتُ جُزْأَهُ، فَلَمَّا دَخَلَ فِي بَطْنِي وَتَقَارَّ أَخَذَنِي مَا قَدُمَ وَمَا حَدُثَ، فَقُلْتُ: يَجِيءُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَائِعًا ظَمْآنًا وَلَا يَرَى فِي الْقَدَحِ شَيْئًا، فَتَسَجَّيْتُ ثَوْبًا عَلَى وَجْهِي، وَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمَ تَسْلِيمًا يُسْمِعُ الْيَقْظَانَ، وَلَا يُوقِظُ النَّائِمَ، فَكَشَفَ عَنْهُ فَلَمْ يَرَ شَيْئًا، فَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ، فَقَال:" اللَّهُمَّ اسْقِ مَنْ سَقَانِي، وَأَطْعِمْ مَنْ أَطْعَمَنِي" فَاغْتَنَمْتُ دَعْوَتَهُ، وَقُمْتُ فَأَخَذْتُ الشَّفْرَةَ، فَدَنَوْتُ مِنَ الْأَعْنُزِ، فَجَعَلْتُ أَجُسُّهُنَّ أَيُّهُنَّ أَسْمَنُ لِأَذْبَحَهَا، فَوَقَعَتْ يَدِي عَلَى ضَرْعِ إِحْدَاهُنَّ، فَإِذَا هِيَ حَافِلٌ، ونَظَرْتُ إِلَى الْأُخْرَى فَإِذَا هِيَ حَافِلٌ، ونَظَرْتُ كُلَّهُنَّ فَإِذَا هُنَّ حُفَّلٌ، فَحَلَبْتُ فِي الْإِنَاءِ فَأَتَيْتُهُ بِهِ، فَقُلْتُ: اشْرَبْ، فَقَالَ:" الْخَبَرَ يَا مِقْدَادُ"، فَقُلْتُ: اشْرَبْ ثُمَّ الْخَبَرَ، فَقَالَ:" بَعْضُ سَوْآتِكَ يَا مِقْدَادُ"، فَشَرِبَ ثُمَّ قَالَ:" اشْرَبْ"، فَقُلْتُ: اشْرَبْ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، فَشَرِبَ حَتَّى تَضَلَّعَ، ثُمَّ أَخَذْتُهُ فَشَرِبْتُه، ثُمَّ أَخْبَرْتُهُ الْخَبَرَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هِيهْ"، فَقُلْتُ: كَانَ كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَذِهِ بَرَكَةٌ نَزَلَتْ مِنَ السَّمَاءِ، أَفَلَا أَخْبَرْتَنِي حَتَّى أَسْقِيَ صَاحِبَيْكَ"، فَقُلْتُ: إِذَا شَرِبْتُ الْبَرَكَةَ أَنَا وَأَنْتَ، فَلَا أُبَالِي مَنْ أَخْطَأَتْ .
حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں اور میرے دو ساتھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ہمیں سخت بھوک لگ رہی تھی، ہم نے اپنے آپ کو صحابہ رضی اللہ عنہ پر پیش کیا تو ان میں سے کسی نے بھی ہمیں قبول نہیں کیا پھر ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اپنے گھر کی طرف لے گئے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں) چار بکریاں تھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا مقداد! ان بکریوں کا دودھ نکالو، اسے چار حصوں میں تقسیم کرلو چناچہ میں نے ایسا ہی کیا ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رات واپسی میں تاخیر ہوگئی میرے دل میں خیال آیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی انصاری کے پاس جا کر کھا پی لیا ہوگا اور سیراب ہوگئے ہوں گے اگر میں نے ان کے حصے کا دودھ پی لیا تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ میں اسی طرح سوچتا رہا حتٰی کہ کھڑے ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حصے کا دودھ پی گیا اور پیالہ ڈھک دیا جب میں دودھ پی چکا تو میرے دل میں طرح طرح کے خیالات ابھرنے لگے اور میں سوچنے لگا کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھوک کی حالت میں تشریف لائے اور انہیں کچھ نہ ملا تو کیا ہوگا؟ میں نے اپنی چادر اوڑھ لی اور اپنے ذہن میں یہ خیالات سوچنے لگا ابھی میں انہی خیالات میں تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور آہستہ سے سلام کیا جو جاگنے والا تو سن لے لیکن سونے والا نہ جاگے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دودھ کی طرف آئے برتن کھولا تو اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ نہ پایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ! تو اسے کھلا جو مجھے کھلائے اور تو اسے پلا جو مجھے پلائے (میں نے اس دعاء کو غنیمت سمجھا اور چھری پکڑ کر بکریوں کی طرف چل پڑا کہ ان بکریوں میں سے جو موٹی بکری ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ذبح کر ڈالوں میں نے دیکھا کہ سب بکریوں کے تھن دودھ سے بھرے پڑے تھے پھر میں نے ایک برتن میں دودھ نکالا یہاں تک کہ وہ بھر گیا پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم نے رات کو اپنے حصہ کا دودھ پی لیا تھا؟ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! آپ دودھ پئیں پھر آپ کو واقعہ بتاؤں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ پیا پھر آپ نے مجھے دیا پھر جب مجھے معلوم ہوگیا کہ آپ سیر ہوگئے ہیں تو میں نے بھی اسے پی لیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب وہ واقعہ بتاؤ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے وہ واقعہ ذکر کردیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس وقت کا دودھ سوائے رحمت کے اور کچھ نہ تھا تم نے مجھے پہلے ہی کیوں نہ بتادیا تاکہ ہم اپنے ساتھیوں کو بھی جگا دیتے وہ بھی اس میں سے دودھ پی لیتے میں نے عرض کیا جب آپ کو اور مجھے یہ برکت حاصل ہوگئی ہے اب مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ کسے اس کا حصہ نہیں ملا۔