حدثنا ابو كامل مظفر بن مدرك ، حدثنا إبراهيم بن سعد ، حدثنا ابن شهاب ، عن ابي الطفيل عامر بن واثلة ، ان رجلا مر على قوم فسلم عليهم، فردوا عليه السلام، فلما جاوزهم، قال رجل منهم: والله إني لابغض هذا في الله، فقال اهل المجلس: بئس والله ما قلت، اما والله لننبئنه، قم يا فلان رجلا منهم فاخبره، قال: فادركه رسولهم، فاخبره بما قال، فانصرف الرجل حتى اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، مررت بمجلس من المسلمين فيهم فلان، فسلمت عليهم فردوا السلام، فلما جاوزتهم ادركني رجل منهم فاخبرني ان فلانا، قال: والله إني لابغض هذا الرجل في الله، فادعه فسله على ما يبغضني؟ فدعاه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فساله عما اخبره الرجل، فاعترف بذلك، وقال: قد قلت له ذلك يا رسول الله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" فلم تبغضه؟" قال: انا جاره وانا به خابر، والله ما رايته يصلي صلاة قط إلا هذه الصلاة المكتوبة التي يصليها البر والفاجر، قال الرجل: سله يا رسول الله: هل رآني قط اخرتها عن وقتها، او اسات الوضوء لها، او اسات الركوع والسجود فيها؟ فساله رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فقال: لا، ثم قال: والله ما رايته يصوم قط إلا هذا الشهر الذي يصومه البر والفاجر، قال: يا رسول الله، هل رآني قط افطرت فيه، او انتقصت من حقه شيئا؟ فساله رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: لا، ثم قال: والله ما رايته يعطي سائلا قط، ولا رايته ينفق من ماله شيئا في شيء من سبيل الله بخير إلا هذه الصدقة التي يؤديها البر والفاجر، قال: فسله يا رسول الله: هل كتمت من الزكاة شيئا قط، او ماكست فيها طالبها؟ قال: فساله رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فقال: لا، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" قم، إن ادري لعله خير منك" ..حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ مُظَفَّرُ بْنُ مُدْرِكٍ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ عَامِرِ بْنِ وَاثِلَةَ ، أَنَّ رَجُلًا مَرَّ عَلَى قَوْمٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ، فَرَدُّوا عَلَيْهِ السَّلَامَ، فَلَمَّا جَاوَزَهُمْ، قَالَ رَجُلٌ مِنْهُمْ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأُبْغِضُ هَذَا فِي اللَّهِ، فَقَالَ أَهْلُ الْمَجْلِسِ: بِئْسَ وَاللَّهِ مَا قُلْتَ، أَمَا وَاللَّهِ لَنُنَبِّئَنَّهُ، قُمْ يَا فُلَانُ رَجُلًا مِنْهُمْ فَأَخْبِرْهُ، قَالَ: فَأَدْرَكَهُ رَسُولُهُمْ، فَأَخْبَرَهُ بِمَا قَالَ، فَانْصَرَفَ الرَّجُلُ حَتَّى أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَرَرْتُ بِمَجْلِسٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ فِيهِمْ فُلَانٌ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِمْ فَرَدُّوا السَّلَامَ، فَلَمَّا جَاوَزْتُهُمْ أَدْرَكَنِي رَجُلٌ مِنْهُمْ فَأَخْبَرَنِي أَنَّ فُلَانًا، قَالَ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأُبْغِضُ هَذَا الرَّجُلَ فِي اللَّهِ، فَادْعُهُ فَسَلْهُ عَلَى مَا يُبْغِضُنِي؟ فَدَعَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَهُ عَمَّا أَخْبَرَهُ الرَّجُلُ، فَاعْتَرَفَ بِذَلِكَ، وَقَالَ: قَدْ قُلْتُ لَهُ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَلِمَ تُبْغِضُهُ؟" قَالَ: أَنَا جَارُهُ وَأَنَا بِهِ خَابِرٌ، وَاللَّهِ مَا رَأَيْتُهُ يُصَلِّي صَلَاةً قَطُّ إِلَّا هَذِهِ الصَّلَاةَ الْمَكْتُوبَةَ الَّتِي يُصَلِّيهَا الْبَرُّ وَالْفَاجِرُ، قَالَ الرَّجُلُ: سَلْهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ: هَلْ رَآنِي قَطُّ أَخَّرْتُهَا عَنْ وَقْتِهَا، أَوْ أَسَأْتُ الْوُضُوءَ لَهَا، أَوْ أَسَأْتُ الرُّكُوعَ وَالسُّجُودَ فِيهَا؟ فَسَأَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: لَا، ثُمَّ قَالَ: وَاللَّهِ مَا رَأَيْتُهُ يَصُومُ قَطُّ إِلَّا هَذَا الشَّهْرَ الَّذِي يَصُومُهُ الْبَرُّ وَالْفَاجِرُ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ رَآنِي قَطُّ أَفْطَرْتُ فِيهِ، أَوْ انْتَقَصْتُ مِنْ حَقِّهِ شَيْئًا؟ فَسَأَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: لَا، ثُمَّ قَالَ: وَاللَّهِ مَا رَأَيْتُهُ يُعْطِي سَائِلًا قَطُّ، وَلَا رَأَيْتُهُ يُنْفِقُ مِنْ مَالِهِ شَيْئًا فِي شَيْءٍ مِنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِخَيْرٍ إِلَّا هَذِهِ الصَّدَقَةَ الَّتِي يُؤَدِّيهَا الْبَرُّ وَالْفَاجِرُ، قَالَ: فَسَلْهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ: هَلْ كَتَمْتُ مِنَ الزَّكَاةِ شَيْئًا قَطُّ، أَوْ مَاكَسْتُ فِيهَا طَالِبَهَا؟ قَالَ: فَسَأَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: لَا، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قُمْ، إِنْ أَدْرِي لَعَلَّهُ خَيْرٌ مِنْكَ" ..
حضرت ابوالطفیل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی کچھ لوگوں کے پاس سے گذرا اس نے انہیں سلام کیا لوگوں نے اس کے سلام کا جواب دیا جب وہ آدمی آگے بڑھ گیا تو ان لوگوں میں سے ایک نے کہا کہ بخدا! میں اللہ کی راہ میں اس سے بغض رکھتا ہوں اہل مجلس نے اس سے کہا کہ تم نے بہت بری بات کی ہے بخدا! ہم اسے یہ بات ضروربتائیں گے، پھر ایک آدمی سے کہا کہ اے فلاں! کھڑا ہو اور جا کر اسے یہ بات بتادے چناچہ قاصد نے اسے جالیا اور یہ بات بتادی وہ آدمی وہاں سے پلٹ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ! مسلمانوں کی ایک مجلس پر میرا گذر ہوا میں نے انہیں سلام کیا ان میں فلاں آدمی بھی تھا ان سب نے میرے سلام کا جواب دیا جب میں آگے بڑھ گیا تو ان میں سے ایک آدمی میرے پاس آیا اور اس نے مجھے بتایا کہ فلاں آدمی کا یہ کہنا ہے کہ میں اس سے بغض فی اللہ رکھتا ہوں آپ اسے بلا کر پوچھئے کہ وہ مجھ سے کس بنا پر بغض رکھتا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلایا اور اس بات کے متعلق دریافت فرمایا اس نے اپنی بات کا اعتراف کرلیا اور کہا کہ یا رسول اللہ! میں نے یہ بات کہی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اس سے بغض کیوں رکھتے ہو؟ اس نے کہا کہ میں اس کا پڑوسی ہوں اور اس کے حالات سے باخبر ہوں بخدا! میں نے اسے اس فرض نماز جسے نیک اور فاجر لوگ ہی پڑھتے ہیں کے علاوہ کبھی کوئی نماز نہیں پڑھتے ہوئے دیکھا اس شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس سے پوچھئے کہ کیا اس نے مجھے کبھی بھی نماز کو اس کے وقت سے مؤخر کرتے ہوئے دیکھا ہے؟ وضو غلط کرتے ہوئے دیکھا ہے؟ یا رکوع و سجود میں کبھی غلطی کرتے ہوئے دیکھا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پوچھنے پر اس نے کہا نہیں پھر کہنے لگا میں نے اسے کبھی روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا سوائے اس مہینے کے جس کا روزہ نیک اور فاجر ہی رکھتے ہیں اس نے کہا یا رسول اللہ! اس سے پوچھئے کہ کیا کبھی اس نے مجھے اس مہینے میں کسی دن روزے کا ناغہ کرتے ہوئے دیکھا ہے؟ یا میں نے اس کے حق میں کوئی کمی کی ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا تو اس نے کہا نہیں۔ پھر اس نے کہا کہ واللہ میں نے اسے کبھی کسی سائل کو کچھ دیتے ہوئے نہیں دیکھا اور میں نے اسے اپنے مال میں سے اللہ کے راستہ میں کچھ خرچ کرتے ہوئے نہیں دیکھا سوائے اس زکوٰۃ کے جو نیک اور فاجر ہی ادا کرتے ہیں اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ اس سے پوچھئے کہ کی میں نے زکوٰۃ کا مال چھپایا ہے؟ یا اسے طلب کرنے والے کو کم دیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پوچھنے پر اس نے کہا نہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معترض سے فرمایا کہ اٹھ جاؤ میں نہیں جانتا شاید یہی تم سے بہتر ہو۔
حكم دارالسلام: ضعيف لإرساله، فالصواب أنه من مراسيل الزهري