حدثنا يزيد ، انبانا الوليد يعني ابن عبد الله بن جميع ، عن ابي الطفيل ، قال: لما اقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم من غزوة تبوك امر مناديا فنادى: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم اخذ العقبة، فلا ياخذها احد، فبينما رسول الله صلى الله عليه وسلم يقوده حذيفة ويسوق به عمار إذ اقبل رهط متلثمون على الرواحل، غشوا عمارا وهو يسوق برسول الله صلى الله عليه وسلم، واقبل عمار يضرب وجوه الرواحل، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لحذيفة:" قد، قد" حتى هبط رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما هبط رسول الله صلى الله عليه وسلم نزل ورجع عمار، فقال: يا عمار، " هل عرفت القوم؟" فقال: قد عرفت عامة الرواحل والقوم متلثمون، قال:" هل تدري ما ارادوا؟" قال: الله ورسوله اعلم، قال:" ارادوا ان ينفروا برسول الله صلى الله عليه وسلم فيطرحوه" ، قال: فسال عمار رجلا من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: نشدتك بالله، كم تعلم كان اصحاب العقبة؟ فقال: اربعة عشر، فقال: إن كنت فيهم فقد كانوا خمسة عشر، فعدد رسول الله صلى الله عليه وسلم منهم ثلاثة، قالوا: والله ما سمعنا منادي رسول الله صلى الله عليه وسلم، وما علمنا ما اراد القوم، فقال عمار: اشهد ان الاثني عشر الباقين حرب لله ولرسوله في الحياة الدنيا ويوم يقوم الاشهاد، قال الوليد: وذكر ابو الطفيل في تلك الغزوة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال للناس، وذكر له ان في الماء قلة، فامر رسول الله صلى الله عليه وسلم مناديا فنادى: ان لا يرد الماء احد قبل رسول الله صلى الله عليه وسلم، فورده رسول الله صلى الله عليه وسلم فوجد رهطا وردوه قبله، فلعنهم رسول الله صلى الله عليه وسلم يومئذ.حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَنْبَأَنَا الْوَلِيدُ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جُمَيْعٍ ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ ، قَالَ: لَمَّا أَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَزْوَةِ تَبُوكَ أَمَرَ مُنَادِيًا فَنَادَى: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ الْعَقَبَةَ، فَلَا يَأْخُذْهَا أَحَدٌ، فَبَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُودُهُ حُذَيْفَةُ وَيَسُوقُ بِهِ عَمَّارٌ إِذْ أَقْبَلَ رَهْطٌ مُتَلَثِّمُونَ عَلَى الرَّوَاحِلِ، غَشَوْا عَمَّارًا وَهُوَ يَسُوقُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَقْبَلَ عَمَّارٌ يَضْرِبُ وُجُوهَ الرَّوَاحِلِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِحُذَيْفَةَ:" قَدْ، قَدْ" حَتَّى هَبَطَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا هَبَطَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَزَلَ وَرَجَعَ عَمَّارٌ، فَقَالَ: يَا عَمَّارُ، " هَلْ عَرَفْتَ الْقَوْمَ؟" فَقَالَ: قَدْ عَرَفْتُ عَامَّةَ الرَّوَاحِلِ وَالْقَوْمُ مُتَلَثِّمُونَ، قَالَ:" هَلْ تَدْرِي مَا أَرَادُوا؟" قَالَ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:" أَرَادُوا أَنْ يَنْفِرُوا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَطْرَحُوهُ" ، قَالَ: فَسَأَلَ عَمَّارٌ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: نَشَدْتُكَ بِاللَّهِ، كَمْ تَعْلَمُ كَانَ أَصْحَابُ الْعَقَبَةِ؟ فَقَالَ: أَرْبَعَةَ عَشَرَ، فَقَالَ: إِنْ كُنْتَ فِيهِمْ فَقَدْ كَانُوا خَمْسَةَ عَشَرَ، فَعَدَّدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ ثَلَاثَةً، قَالُوا: وَاللَّهِ مَا سَمِعْنَا مُنَادِيَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا عَلِمْنَا مَا أَرَادَ الْقَوْمُ، فَقَالَ عَمَّارٌ: أَشْهَدُ أَنَّ الِاثْنَيْ عَشَرَ الْبَاقِينَ حَرْبٌ لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ، قَالَ الْوَلِيدُ: وَذَكَرَ أَبُو الطُّفَيْلِ فِي تِلْكَ الْغَزْوَةِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِلنَّاسِ، وَذُكِرَ لَهُ أَنَّ فِي الْمَاءِ قِلَّةً، فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنَادِيًا فَنَادَى: أَنْ لَا يَرِدَ الْمَاءَ أَحَدٌ قَبْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوَرَدَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَ رَهْطًا وَرَدُوهُ قَبْلَهُ، فَلَعَنَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ.
حضرت ابوالطفیل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوہ تبوک سے واپس آرہے تھے تو راستے میں منادی کو حکم دیا اس نے یہ اعلان کردیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھاٹی کا راستہ اختیار کیا ہے اس راستے پر کوئی نہ جائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ تھے اور پیچھے حضرت عمار رضی اللہ عنہ تھے کہ اچانک کچھ سواریوں پر ڈھاٹا باندھے ہوئے لوگوں کا ایک گروہ سامنے آگیا جنہوں نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو گھیر لیا حضرت عمار رضی اللہ عنہ پیچھے تھے وہ ان سواریوں کے چہروں پر مارنے لگے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطرے کا احساس ہوتے ہی حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے سواری روکنے کے لئے کہا اور نیچے اتر آئے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس گھاٹی سے اترنے لگے اسی دوران حضرت عمار رضی اللہ عنہ بھی واپس آگئے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا عمار! کیا تم ان لوگوں کو پہچان سکے ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ اکثر سواریوں کو تو میں نے پہچان لیا ہے لیکن لوگوں نے اپنے چہروں پر ڈھاٹا باندھا ہوا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تمہیں ان کا ارادہ معلوم ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کا ارادہ یہ تھا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لے جائیں اور اوپر سے نیچے دھکیل دیں۔
پھر حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی کو سخت سست کہا اور کہا کہ میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا آپ کو معلوم ہے کہ اس گھاٹی میں کتنے آدمی تھے؟ اس نے کہا چودہ انہوں نے کہا کہ اگر آپ بھی ان میں شامل ہوں تو وہ پندرہ ہوتے ہیں جن میں سے تین کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معذور قرار دیا تھا جن کا کہنا یہ تھا کہ بخدا! ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی کی آواز نہیں سنی تھی اور ہمیں معلوم نہیں تھا کہ ان لوگوں کا کیا ارادہ تھا؟ حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ بارہ آدمی جو باقی بچے وہ دنیوی زندگی اور گواہوں کے اٹھنے کے دن دونوں موقعوں پر اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرنے والے ہیں۔
ولید کہتے ہیں کہ حضرت ابوالطفیل رضی اللہ عنہ نے اسی غزوے کے متعلق بتایا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے " جب پانی کی قلت کا علم ہوا تو " لوگوں سے فرما دیا تھا اور منادی نے یہ اعلان کردیا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کوئی شخص پانی پر نہ جائے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب وہاں پہنچے تو کچھ لوگوں کو وہاں موجود پایا جو ان سے پہلے وہاں پہنچ گئے تھے اس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں لعنت ملامت کی۔