(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد، حدثنا زائدة، عن سليمان، عن سالم بن ابي الجعد، عن كريب، عن ابن عباس، عن ميمونة رضي الله عنها، قالت: وضعت للنبي صلى الله عليه وسلم ماء "فافرغ على يديه، فجعل يغسل بها فرجه فلما فرغ، مسحها بالارض او بحائط شك سليمان، ثم تمضمض واستنشق، فغسل وجهه وذراعيه وصب على راسه وجسده، فلما فرغ تنحى، فغسل رجليه"، فاعطيته ملحفة،"فابى، وجعل ينفض بيده"، قالت: فسترته حتى اغتسل، قال سليمان: فذكر سالم ان غسل النبي صلى الله عليه وسلم هذا كان من جنابة.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ مَيْمُونَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، قَالَتْ: وَضَعْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَاءً "فَأَفْرَغَ عَلَى يَدَيْهِ، فَجَعَلَ يَغْسِلُ بِهَا فَرْجَهُ فَلَمَّا فَرَغَ، مَسَحَهَا بِالْأَرْضِ أَوْ بِحَائِطٍ شَكَّ سُلَيْمَانُ، ثُمَّ تَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ، فَغَسَلَ وَجْهَهُ وَذِرَاعَيْهِ وَصَبَّ عَلَى رَأْسِهِ وَجَسَدِهِ، فَلَمَّا فَرَغَ تَنَحَّى، فَغَسَلَ رِجْلَيْهِ"، فَأَعْطَيْتُهُ مِلْحَفَةً،"فَأَبَى، وَجَعَلَ يَنْفُضُ بِيَدِهِ"، قَالَتْ: فَسَتَرْتُهُ حَتَّى اغْتَسَلَ، قَالَ سُلَيْمَانُ: فَذَكَرَ سَالِمٌ أَنَّ غُسْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا كَانَ مِنْ جَنَابَةٍ.
ام المومنین سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے (غسل) کے لئے پانی رکھا تو آپ نے اپنے ہاتھوں پر انڈیلا، پھر شرمگاہ کو دھویا، اس کے بعد اس ہاتھ کو زمین پر یا دیوار پر (یہ سلیمان کا شک ہے) رگڑا، پھر کلی کی، ناک جھاڑی، چہرے اور ہاتھ کہنی تک دھوئے، اور اپنے سر و جسد مبارک کے اوپر پانی ڈالا، غسل سے فارغ ہوئے تو دور ہٹ کر دونوں پیر دھوئے۔ میں نے آپ کو چادر پیش کی لیکن آپ نے انکار کر دیا اور ہاتھ سے ہی پانی سونتنے لگے۔ سلیمان سے مروی ہے سالم نے کہا: یہ آپ کا غسل جنابت تھا۔
وضاحت: (تشریح حدیث 769) اس حدیث سے غسلِ جنابت کا طریقہ معلوم ہوا، پہلے نجاست دور کی جائے، پھر وضو کر کے سارے بدن پر پانی بہایا جائے، پیر اس جگہ سے دور ہٹ کر دھوئے جائیں، تولیہ سے بدن پونچھنا اس حدیث سے ثابت نہیں ہوتا، اگر تولیہ سے بدن پونچھا جائے تو کوئی حرج بھی نہیں، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی وقت انکار کیا تو کسی وقت استعمال بھی کیا ہے۔ واللہ اعلم۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 774]» اس حدیث کی سند صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 249]، [مسلم 317]، [أبوداؤد 245]، [ترمذي 103]، [نسائي 253]، [ابن ماجه 467]، [أبويعلی 7101]، [ابن حبان 1190]