مقدمه مقدمہ 34. باب التَّوْبِيخِ لِمَنْ يَطْلُبُ الْعِلْمَ لِغَيْرِ اللَّهِ: بغیر خلوص وللّٰہیت کے جو علم تلاش کرے اس پر ملامت کا بیان
ابومسلم خولانی رحمہ اللہ نے فرمایا: علماء کی تین قسمیں ہیں۔ ایک وہ آدمی جو علم میں زندگی بسر کرے اور اسی میں اس کے ساتھ دوسرے لوگ زندگی گزاریں، دوسرا وہ شخص جو خود تو علمی دنیا میں رہے لیکن اس کے ساتھ اور کوئی نہ ہو، تیسرا وہ شخص کہ لوگ اس کے علم سے فائدہ اٹھائیں اور (وہ خود بےعمل ہو) علم اس پر وبال ہو گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 373]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ مزید دیکھئے: [المصنف 17547]، [حلية الأولياء 121/5 و 283/2]، [الجامع لمعمر 20472]، [جامع بيان العلم 1546] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
عطاء بن ابی رباح سے مروی ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: اے رب! تیرے بندوں میں سب سے زیادہ دانا و بینا کون ہے؟ فرمایا: وہی جو لوگوں کے لئے بھی وہی فیصلہ کرتا ہے جو اپنے نفس کے لئے فیصلہ کرتا ہے۔ عرض کیا: اے رب! تیرے بندوں میں سب سے زیادہ غنی کون ہے؟ فرمایا: جو سب سے زیادہ اپنی قسمت سے راضی ہو۔ عرض کیا: اے رب! تیرے بندوں میں سب سے زیادہ خشیت والا کون ہے؟ فرمایا: جو سب سے زیادہ میرے بارے میں علم والا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى عطاء وهو منقطع، [مكتبه الشامله نمبر: 374]»
اس روایت کی سند صحیح ہے، لیکن منقطع ہے اور [الزهد لابن المبارك 223، 533] و [العلم لأبي خيثمة 86] میں مذکور ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى عطاء وهو منقطع
سفیان رحمہ اللہ نے فرمایا: کہا جاتا ہے کہ علماء تین قسم کے ہیں: ایک تو وہ جو اللہ کا علم رکھتا ہے، اللہ سے ڈرتا ہے، لیکن اللہ کے حکم سے لا علم ہے۔ دوسرا اللہ کو جانے والا، اور اللہ کے حکم کا عالم، اللہ سے ڈرتا بھی ہے، یہ کامل عالم (دین) ہے، تیسرا اللہ کے حکم کو جاننے والا الله کو نہ جانے نہ اس سے ڈرے، یہ عالم فاجر ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 375]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [شعب الايمان 1919]، [حلية الأولياء 280/7]، [جامع بيان العلم 1543]، [الدر المنثور 250/5] و [تفسير ابن كثير 531/6] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
امام حسن بصری رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ علم دو طرح کا ہے، جو علم دل میں گھر کر جائے یہ علم نافع ہے، دوسرا علم (جو صرف) زبان تک رہے تو یہ علم ابن آدم پر اللہ کی طرف سے حجت ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى الحسن وهو موقوف عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 376]»
یہ اثر امام حسن بصری رحمہ اللہ پر موقوف ہے، اور ان تک سند صحیح ہے۔ مزید دیکھئے: [المصنف 235/13]، [تاريخ بغداد 346/4]، [العلل المتناهية 88] وضاحت:
(تشریح احادیث 371 سے 375) یعنی جو علم صرف زبان تک محدود رہے اور دل میں نہ بیٹھے تو عمل سے قاصر رہے گا اور کوئی فائدہ نہ دے گا، اس لئے علم کے ساتھ عمل بھی ہونا چاہیے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى الحسن وهو موقوف عليه
حسن رحمہ اللہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مذکورہ بالا نص کے مثل روایت کی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 377]»
اس کی سند صحیح ہے۔ دوسری جگہ یہ روایت نہیں مل سکی، نیز مذکورہ بالا تخریج دیکھئے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: علم سیکھو، علم سیکھو، اور جب علم حاصل کر لو تو عمل کرو۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف يزيد بن أبي زياد، [مكتبه الشامله نمبر: 378]»
اس اثر کی سند میں یزید بن ابی زیاد ضعیف ہیں۔ دیکھئے: [المصنف 294/13، 16394]، [اقتضاء العلم والعمل للخطيب 10]، [جامع بيان العلم 1266]، [حلية الأولياء 131/1] سب نے اسی طریق سے اس روایت کو ذکر کیا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف يزيد بن أبي زياد
سیدنا عبدالله مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جس نے چار چیزوں کے لئے علم طلب کیا وہ جہنم میں چلا گیا۔ یا اسی طرح کا جملہ کہا (وہ چیزیں یہ ہیں): تاکہ اس علم کے ذریعہ علماء پر گھمنڈ کرے، یا بے وقوف جاہلوں سے اس کے ذریعہ تکرار کرے، لڑے، یا اس کے ذریعہ لوگوں کے (دل) چہرے اپنی طرف موڑ لے، یا اس علم کے ذریعہ امراء سے کچھ حاصل کرے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف فيه جهالة وهو موقوف على عبد الله، [مكتبه الشامله نمبر: 379]»
اس اثر کی سند ضعیف اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ پر موقوف ہے۔ دیکھئے: [المطالب العالية 3028] و اثر رقم (384، 385) اس کے شواہد [مجمع الزوائد 875] میں موجود ہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف فيه جهالة وهو موقوف على عبد الله
ہشام دستوائی کے شاگرد نے کہا: میں نے کسی کتاب میں پڑھا، مجھے خبر ملی کہ یہ عیسیٰ علیہ السلام کا کلام ہے: تم دنیا کے لئے کام کرتے ہو اور تم کو اس دنیا میں بنا عمل کے رزق مہیا کیا جاتا ہے۔ اور تم آخرت کے لئے عمل نہیں کرتے ہو حالانکہ آخرت میں تم کو عمل کے عوض ہی رزق دیا جائے گا۔ علمائے سوء تمہاری خرابی ہو، اجرت لے لیتے ہو اور عمل ضائع کر دیتے ہو، قریب ہے کہ رب (العمل) اپنا کام طلب کر لے اور تم قریب ہے کہ اس وسیع دنیا سے نکل کر اندھیری اور تنگ قبر کی طرف چلے جاؤ۔ اللہ تعالیٰ تم کو گناہوں سے منع کرتا ہے، جس طرح تم کو صلاة و صيام کا حکم دیتا ہے۔ وہ آدمی کیسے اہل علم میں سے ہو سکتا ہے جو اپنے رزق سے ناراض اور اپنے مقام کو حقیر جانے، حالانکہ وہ جانتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے علم اور قدرت سے ہے، وہ آدمی کیسے اہل علم میں سے ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے جو فیصلہ کر دیا ہے اس پر الله کو الزام دے، اور جو چیز اللہ کی طرف سے اسے ملی اس پر راضی نہ ہو، وہ آدمی کیسے اہل علم میں سے ہو گا جس کے نزدیک اس کی دنیا آخرت سے زیادہ راجح ہو اور وہ دنیا کی زیادہ رغبت رکھے۔ وہ آدمی کیسے علماء میں سے ہو گا جس کا ٹھکانہ آخرت ہو لیکن وہ دنیا کی طرف متوجہ رہے، اور جو (چیز) اسے نقصان دے اس کی زیادہ خواہش رکھے، یا جو اس کو نفع دے اس سے زیادہ محبوب ہو، وہ کیسے اہل علم میں سے ہو گا جو علم طلب کرے تاکہ اس کو عام کرے اور عمل کے لئے علم طلب نہ کرے۔
تخریج الحدیث: «إسناده معضل، [مكتبه الشامله نمبر: 380]»
اس روایت کی سند میں اعضال ہے۔ دیکھئے: [حلية الاولياء 279/6]، [الزهد لأحمد 75] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده معضل
حبیب بن عبید نے کہا: کہا جاتا ہے علم سیکھو اور اس سے فائدہ اٹھاؤ، اور علم اس لئے نہ حاصل کرو کہ اس سے زیب و زینت حاصل کرو، اگر تمہاری عمر دراز ہو تو قریب ہے (کہ تم دیکھو) عالم اپنے علم سے خوبصورتی حاصل کرے گا جس طرح پارچہ فروش پارچے (کپڑے) سے زیب و زینت حاصل کرتا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 381]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [الزهد لأحمد ص: 386]، [الزهد لابن المبارك 1345] و [حلية الاولياء 102/6] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
احوص بن حکیم نے اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے کہا: ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شر کے بارے میں پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شر (برائی) کے بارے میں مجھ سے نہ پوچھو، بلکہ بھلائی کے بارے میں مجھ سے سوال کرو“، تین بار اسی طرح فرمایا پھر فرمایا: ”خبردار سب سے بڑی برائی اور شر علماء کا شر ہے، اور سب سے بڑی بھلائی علماء کی بھلائی ہے۔“
تخریج الحدیث: «الأحوص ضعيف الحفظ وبقية مدلس وقد عنعن وحكيم بن عمير تابعي فالحديث مرسل أيضا، [مكتبه الشامله نمبر: 382]»
یہ روایت ضعیف ہے، کیونکہ اس میں کئی علتیں ہیں، مرسل بھی ہے اور کسی محدث نے اسے روایت نہیں کیا۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: الأحوص ضعيف الحفظ وبقية مدلس وقد عنعن وحكيم بن عمير تابعي فالحديث مرسل أيضا
عیسیٰ نے کہا: میں نے امام شعبی رحمہ اللہ کو کہتے سنا: اس علم کو وہی شخص طلب کرے گا جس میں دو خصلتیں ہوں گی: عقل اور عبادت، اگر عبادت گزار ہو گا اور عاقل نہ ہو گا تو کہے گا: اس (علم) کو صرف عاقل لوگ ہی حاصل کر سکتے ہیں اور اس کی طلب چھوڑ دے گا۔ اور اگر سمجھ دار (عاقل) ہو گا عبادت گزار نہیں تو کہے گا: اس چیز کو تو عبادت گزار ہی حاصل کر سکتے ہیں، لہٰذا اس (علم) کی طلب چھوڑ دے گا۔ امام شعبی رحمہ اللہ نے فرمایا: مجھے خوف ہے کہ آج جو علم کی تلاش میں ہیں، ان میں دونوں میں سے ایک چیز بھی نہ ہو، نہ عقل مندی اور نہ عبادت گزاری۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 383]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ ابن ابی الدنیا نے اسے [العقل وفضله 51] میں، اور بیہقی نے [شعب الإيمان 1801] میں اسی سند سے ذکر کیا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
ابوعاصم نے کہا کہ سفیان نے اپنا عندیہ بتاتے ہوئے فرمایا: آدمی پہلے چالیس سال تک عبادت کرتا تھا، پھر علم کی طلب و تلاش میں نکلتا تھا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 384]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [المحدث الفاصل 51] وضاحت:
(تشریح احادیث 375 سے 383) ابوعاصم: ضحاک بن مخلد ہیں۔ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چالیس سال بعد نبوت ملی)۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
مکحول رحمہ اللہ نے فرمایا: جو علم کو اس لئے طلب کرے کہ اس کے ذر یعہ جاہل و بےوقوفوں سے جھگڑا و تکرار کرے، اور علماء سے اس پر فخر کرے، اور لوگوں کے دل اس کے ذریعے اپنی طرف موڑ لے، تو وہ جہنم کی آگ میں ہو گا۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات وهذا إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 385]»
اس قول کے رواۃ ثقات ہیں۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 6177]، [جامع بيان العلم 1132] لیکن یہ موقوف ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات وهذا إسناده صحيح
مکحول رحمہ اللہ نے کہا: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کسی نے علم اس لئے طلب کیا کہ اس کے ذریعے علماء پر فخر کرے، سفہاء سے تکرار کرے، یا اس کے ذریعہ لوگوں کے دل اپنی طرف متوجہ کرنا چاہے، اللہ تعالیٰ اس کو جہنم میں داخل کرے گا۔“
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أنه مرسل، [مكتبه الشامله نمبر: 386]»
اس حدیث کے رجال ثقات ہیں، اور مرسل روایت ہے، لیکن [صحيح ابن حبان 77] میں اس کا شاہد موجود ہے۔ مزید دیکھئے: [ابن ماجه 254]، [مستدرك الحاكم 86/1]، [ترمذي 2656، واسناده ضعيف] لیکن ان شواہد سے اس حدیث کو تقویت ملتی ہے اور حسن کے درجے کو پہنچ جاتی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أنه مرسل
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: آدمی کی بات اس کے خلوص نیت کے بمقدار یاد رکھی جاتی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 387]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے «وانفرد به الدارمي» ۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف
قاسم نے کہا: سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: میرے خیال میں آدمی جو علم رکھتا ہے، پھر جو گناہ کرتا ہے اس کی وجہ سے علم کو بھول جاتا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 388]»
اس کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [العلم لأبي خيثمه 132]، [الزهد لابن المبارك 83]، [الزهد لوكيع 269]، [الزهد لأحمد ص: 195، 196]، [حلية الأولياء 131/1]، [جامع بيان العلم 1195] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف
شہر بن حوشب نے کہا: ہمیں یہ بات ملی (پہنچی) ہے کہ لقمان حکیم اپنے بیٹے سے کہتے تھے: بیٹے! علم اس لئے نہ سیکھو کہ اس کے ذریعہ علماء پر فخر کرو، یا سفہاء سے تکرار کرو، یا اس کے ذریعہ مجلسوں میں ریاکاری کرو، اور علم کو بےرغبتی سے اور جہالت میں رغبت سے نہ چھوڑو۔ اے بیٹے! دیکھ بھال کر مجالس اختیار کرو، پس جب تم کسی جماعت کو الله کا ذکر کرتے دیکھو تو ان کے ساتھ بیٹھ جاؤ، کیونکہ اگر تم عالم ہو گے تو تمہارا علم تمہیں نفع دے گا، اور اگر جاہل ہو گے تو وہ لوگ تمہیں سکھائیں گے، اور ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ ان پر رحمت کی نظر فرمائے تو تم کو بھی اس رحمت سے حصہ مل جائے۔ اور اگر تم ایسی جماعت کو دیکھو جو اللہ کے ذکر سے غافل ہیں، تو ان کے ساتھ نہ بیٹھو، اس لئے کہ اگر تم عالم ہو تو تمہارا علم نفع نہ دے گا، اور اگر تم جاہل ہو تو وہ تمہاری بےچارگی اور بڑھا دیں گے، اور ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ ان پر عذاب ڈال دے اور تمہیں بھی اس کا مزہ چکھنا پڑ جائے۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن إلى شهر بن حوشب، [مكتبه الشامله نمبر: 389]»
یہ روایت موقوف ہے، اور شہر بن حوشب تک سند حسن ہے، اس کو ابن عبدالبر نے [جامع بيان العلم 678] میں ذکر کیا ہے اور اسی کے ہم معنی امام احمد نے [الزهد 153/1] میں اور انہیں کی سند سے ابونعیم نے [حلية 55/9] میں ذکر کیا ہے۔ نیز دیکھئے: رقم (392)۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن إلى شهر بن حوشب
کثیر بن مرہ نے کہا: باطل کو حکماء (دانشمندوں) سے بیان نہ کرو، وہ تم سے نفرت کرنے لگیں گے، اور حکمت کی بات سفہاء (بےوقوفوں) سے نہ کہو، وہ تمہیں جھٹلا دیں گے، علم کے اہل لوگوں سے علم کو نہ چھپاؤ تم گنہگار ہو گے، اور نااہل لوگوں کو علم نہ سکھاؤ وہ تم کو جاہل سمجھیں گے، تمہارے علم کا تمہارے اوپر حق ہے جس طرح سے تمہارے مال میں تمہارا حق ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 390]»
اس کی سند صحیح ہے، اور یہ کثیر بن مرة کا قول ہے۔ دیکھئے: [الزهد لأحمد 386]، [المحدث الفاصل 804]، [الجامع لأخلاق الراوي 790] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
ابوفروہ نے بیان کیا کہ عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کہا کرتے تھے: علم کے اہل سے علم نہ روکو کیونکہ تم گنہگار ہو گے، اور نا اہل لوگوں میں علم نہ پھیلاؤ کہ تم کو جاہل بنایا جائے، نرم خو طبیب بنو جو دوا کو ایسی جگہ رکھتا ہے جہاں وہ فائدہ دے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف فيه عبد الله بن صالح كاتب الليث وهو ضعيف وفي الإسناد إعضال، [مكتبه الشامله نمبر: 391]»
اس روایت کی سند میں عبداللہ بن صالح ضعیف ہیں، لیکن [جامع بيان العلم 697] میں اس کا تابع موجود ہے۔ نیز دیکھئے: [المحدث الفاصل 808] و [حلية الأولياء 273/7] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف فيه عبد الله بن صالح كاتب الليث وهو ضعيف وفي الإسناد إعضال
مطرف نے کہا: اپنا کھانا ایسے آدمی کو نہ کھلاؤ جس کو اس کی اشتہاء نہ ہو۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 392]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [المحدث الفاصل 843]، [الجامع لأخلاق الراوي 738] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
داؤد بن سابور نے شہر بن حوشب کو کہتے سنا: لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے سے کہا: اے بیٹے! علم اس لئے نہ سیکھو کہ اس کے ذریعہ ریاکاری کرو، علم سے بےرغبتی اور جہالت میں رغبت کرتے ہوئے علم کو نہ چھوڑو، اور جب تم کسی جماعت کو دیکھو جو الله کو یاد کرتی ہے تو ان کے ساتھ بیٹھو، اگر تم علم والے ہو گے تو تمہارا علم تمہیں فائدہ دے گا، اور اگر جاہل ہو گے تو وہ تمہیں آگاہ کریں گے، اور ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پر رحمت کی نظر ڈالے اور ان کے ساتھ تمہیں بھی اس سے کچھ حصہ نصیب ہو جائے۔ اور اگر تم ایسی جماعت کو دیکھو جو اللہ کے ذکر سے غافل ہیں تو ان کے ساتھ نہ بیٹھو، کیونکہ تمہارے پاس علم ہو تو بھی تمہارا علم فائدہ نہ دے گا، اور اگر جاہل ہو تو وہ تمہاری گمراہی یا بیچارگی میں اضافہ ہی کریں گے، اور ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی طرف متوجہ ہو کر ناراض ہو تو تم بھی اس ناراضگی میں شامل ہو۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى شهر بن حوشب ولكنه معضل، [مكتبه الشامله نمبر: 393]»
شہر بن حوشب تک اس روایت کی سند صحیح ہے، لیکن موقوف بلکہ معضل ہے۔ دیکھئے: [الزهد لابن المبارك 952]، [حلية الأولياء 62/6]، [جامع بيان العلم 679]، نیز دیکھئے: الرقم (388)۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى شهر بن حوشب ولكنه معضل
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے علم کے حاصل کرنے والو! اس پر عمل کرو، بیشک عالم وہی ہے جس نے اپنے علم کے مطابق عمل کیا، اور اس کے علم و عمل میں موافقت ہو، عنقریب ایسے لوگ (پیدا) ہوں گے جو علم کے حامل ہوں گے لیکن وہ علم ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا، ان کا عمل ان کے علم کے خلاف ہو گا اور ان کا اندرونی معاملہ ظاہر کے خلاف ہوتا ہے، حلقوں میں بیٹھتے ہیں اور ایک دوسرے پر فخر کرتے ہیں یہاں تک کہ آدمی اپنے ہم نشین سے بھی اگر وہ اس کو چھوڑ کر کسی اور کے پاس بیٹھے تو ناراض ہو جاتا ہے، یہ لوگ ایسے ہیں جن کے اعمال ان کی مجالس سے اللہ تعالیٰ کی طرف اٹھ کر جاتے ہی نہیں۔
تخریج الحدیث: «بشر بن سلم منكر الحديث وثوير بن أبي فاخته ضعيف ويحيى بن جعدة ما عرفنا له رواية عن علي فيما نعلم، [مكتبه الشامله نمبر: 394]»
اس روایت میں بشر بن سلمہ منکر الحدیث ہیں، ثویر بن فاختہ ضعف، یحییٰ بن جعدہ غیر معروف ہیں، لہٰذا یہ اثر ضعیف ہے، گرچہ [اقتضاء العلم 9] و [الجامع لأخلاق الراوي 321] میں یہ اثر موجود ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: بشر بن سلم منكر الحديث وثوير بن أبي فاخته ضعيف ويحيى بن جعدة ما عرفنا له رواية عن علي فيما نعلم
مسروق رحمہ اللہ نے کہا: آدمی کے علم کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اللہ سے ڈرے اور آدمی کی جہالت کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے علم پر گھمنڈ کرے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 395]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے اثر نمبر (322)۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 383 سے 394) یعنی آدمی عالم ہو کر اللہ سے ڈرتا ہے اور جاہل اپنے علم پر گھمنڈ کرتا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
معاویہ بن قرة رحمہ اللہ نے فرمایا: دیگر امم میں سے کوئی بھی امت اگر اس امت کے ادنیٰ عالم کی پیروی کرے تو وہ امت ہدایت یافتہ ہو جائے۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 396]»
اس قول کی سند حسن ہے مگر کسی مرجع میں نہیں مل سکی۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
امام حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا: اگر آدمی کو علم کا باب حاصل ہو اور وہ اس پر عمل کرے تو یہ اس کے لئے دنیا و مافیہا سے بہتر ہے، اگر دنیا اس کے پاس ہو تو اسے آخرت کے لئے رکھ چھوڑے۔
تخریج الحدیث: «ثلاثة أحاديث بإسناد واحد وهو إسناد صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 397]»
اس قول کی تخریج آگے آرہی ہے۔ نیز دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 17050]، [جامع بيان العلم 273، 315] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: ثلاثة أحاديث بإسناد واحد وهو إسناد صحيح
امام حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا: (اسلاف میں سے) جب آدمی علم طلب کرتا تھا تو اس کی آنکھ، خشوع، زبان، ہاتھ، نماز اور زہد میں اس کا اثر دیکھا جاتا تھا۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 398]»
دیکھئے: [الزهد لابن المبارك 79]، [جامع بيان العلم 315] و [الزهد لأحمد ص: 261] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے فرمایا: یہ حدیث کس سے لیتے ہو دیکھ لو، اس لئے کہ یہی تمہارا دین ہے۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 399]»
یہ تینوں اثر ایک سند سے صحیح اور امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ کے اقوال ہیں۔ امام مسلم نے مقدمہ صحیح مسلم میں باب باندھا ہے «باب بيان أن الاسناد من الدين» ، نیز خطیب نے اس اثر کو [الفقيه 96/2] ابونعیم نے [الحلية 278/2] اور الخطيب نے [الكفاية ص: 121] میں ذکر کیا ہے۔ نیز دیکھئے: [العلل المتناهية 188]، [كشف الخفاء 796] وغيرها۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
بشر بن حکم نے خبر دی کہ میں نے سفیان رحمہ اللہ کو کہتے ہوئے سنا: جس بندے نے علم میں اضافے کے ساتھ دنیا میں رغبت زیادہ کی اس نے الله تعالیٰ سے دوری میں اضافہ کیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 400]»
اس روایت کی سند صحیح ہے لیکن کہیں مل نہ سکی۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حسان نے کہا: جس بندے نے علم الٰہی میں جتنی پیش قدمی کی، اللہ کی رحمت سے لوگ اس سے اتنے ہی زیادہ قریب ہوں گے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 401]»
ابوالمغيرة کا نام عبدالقدوس بن الحجاج ہے، اور اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [حلية الأولياء 74/6] و [جامع بيان العلم 1508] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
اور حسان نے دوسری حدیث میں کہا: کوئی بندہ علم میں جتنی ترقی و اضافہ کرتا ہے، قصد و ارادہ میں صحیح ہو جاتا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے کسی بندے کو سکون و اطمینان سے بہتر کوئی قلادہ نہیں پہنایا۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 402]»
اس روایت کی سند صحیح کہیں اور نہیں مل سکی، لیکن [الحلية 123/5] و [الزهد لابن مبارك 178] میں اس کے ہم معنی روایت موجود ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
عمیرہ نے کہا: ایک آدمی نے اپنے بیٹے سے کہا: جاؤ علم حاصل کرو، لڑکا نکلا اور غائب ہو گیا، پھر جب واپس آیا تو باپ سے کچھ احادیث بیان کیں، باپ نے کہا: جاؤ بیٹے (ابھی اور) علم تلاش کرو، کچھ زمانے تک وہ غائب رہا، پھر کچھ کتاب کاغذ لے کر واپس آیا اور اپنے باپ کو پڑھ کر سنائیں، تو باپ نے اس سے کہا: یہ سفیدی میں سیاہی ہے، ابھی جاؤ اورعلم سیکھو، چنانچہ وہ پھر ان کے پاس سے غائب ہو کر چلا گیا، پھر واپس آیا تو اپنے والد سے کہا: ابا جان! اب آپ جو چاہیں مجھ سے سوال کر لیں، اس کے باپ نے کہا: اگر تم کسی آدمی کے پاس سے گزرو جو تمہاری مدح سرائی کرتا ہے اور دوسرا آدمی تمہاری عیب جوئی کرتا ہے تو تمہاری اس بارے میں کیا رائے ہے؟ لڑکے نے جواب دیا: ایسی صورت میں جو عیب جوئی کرے نہ اس کو ملامت کروں گا اور جو مدح سرائی کرتا ہے نہ اس کی تعریف کروں گا۔ باپ نے کہا: اگر تم نے کوئی ورق دیکھا تو کیا کرو گے؟ ابوشریح نے کہا: پتہ نہیں یہ کہا کہ سونے کا ورق یا یہ کہا کہ چاندی کا ورق دیکھو تو کیا کرو گے؟ اس نے کہا: نہ میں اسے اٹھاؤں گا اور نہ اس کے قریب جاؤں گا۔ باپ نے کہا: جاؤ اب تم عالم بن گئے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 402]»
عمیرہ: ابن ابی ناجیۃ ہیں، اس روایت کی سند صحیح ہے۔ «وانفرد به الدارمي» ۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سکن بن عمیر نے کہا: میں نے وہب بن منبہ رحمہ اللہ کو کہتے سنا ہے: بیٹے! حکمت و دانائی کو لازم پکڑو، بیشک تمام تر بھلائی حکمت میں ہے، جو حکمت چھوٹے کو بڑے پر اور غلام کو آزاد پر شرف دلاتی ہے۔ اور مالک کی شرافت میں اضافہ کرتی ہے، اور فقیر کو شاہوں کے مقام پر بٹھاتی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف بقية مدلس تدليس تسوية ولم يصرح بالتحديث إلى نهاية الإسناد، [مكتبه الشامله نمبر: 403]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [جامع بيان العلم 625، 626] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف بقية مدلس تدليس تسوية ولم يصرح بالتحديث إلى نهاية الإسناد
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر علماء کے ارشادات نہ ہوتے تو ہم کچھ نہیں ہوتے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف بسبب الانقطاع فإن عتبة لم يدرك أبا الدرداء، [مكتبه الشامله نمبر: 404]»
اس اثر کی سند میں بقیہ مدلس ہیں، اور عتبہ بن ابی حکیم نے سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ کو نہیں پایا، لیکن اس کو خطیب نے [الفقيه 141] میں صحیح سند سے روایت کیا ہے۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 394 سے 404) ان تمام آثار و اقوال میں علم و حکمت اور دانائی کی باتیں ہیں، نیز ان میں علم حاصل کرنے، اور علم کے ساتھ عمل، اور حصولِ علم میں خلوصِ وللّٰہیت کی ترغیب ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف بسبب الانقطاع فإن عتبة لم يدرك أبا الدرداء
|