مقدمه مقدمہ 23. باب في كَرَاهِيَةِ أَخْذِ الرَّأْيِ: رائے اور قیاس پر عمل کرنے سے ناپسندیدگی کا بیان
مالک بن مغول سے مروی ہے کہ مجھ سے امام شعبی رحمہ اللہ نے کہا: یہ لوگ تم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو حدیث بیان کریں اسے لے لو اور جو چیز اپنی رائے سے بیان کریں اسے گھورے پر پھینک دو۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 206]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [الإبانه 607]، [الإحكام 1030/6]، [جامع بيان العلم 1066] اور اس میں ہے کہ جو اپنی رائے سے کہیں اس پر پیشاب کر دو۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
زید بن حباب سے مروی ہے رجاء بن ابی سلمہ نے مجھے خبر دی کہ میں نے عبدہ بن ابی لبابہ کو کہتے سنا: میں اپنے ان ہم عصر ساتھیوں سے خوش ہوں جو نہ مجھ سے کچھ پوچھتے ہیں اور نہ میں ہی ان سے کوئی سوال کرتا ہوں، ان میں سے کوئی کہتا ہے: تمہاری کیا رائے ہے، تمہارا کیا خیال ہے؟
تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل عباس بن سفيان الدبوسي، [مكتبه الشامله نمبر: 207]»
اس روایت کی سند صحیح ہے، اور ابوزرعۃ نے [تاريخ 743] میں اس اثر کو ذکر کیا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل عباس بن سفيان الدبوسي
سیدنا عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک دن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے ایک خط کھینچا اور فرمایا: ”یہ اللہ کا راستہ ہے“، پھر اس کے دائیں بائیں اور خط کھینچے اور فرمایا: ”یہ جو راستے ہیں، ہر راستے پر شیطان کھڑا ہے اور اسی طرف بلاتا ہے۔“ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: «﴿وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ﴾» [انعام: 153/6] یہ میرا راستہ ہے جو مستقیم (سیدها) ہے، سو تم اسی راہ پر چلو اور دوسری راہوں پر مت چلو، وہ راہیں تمہیں اللہ کی راہ سے جدا کر دیں گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 208]»
یہ حدیث حسن ہے۔ حوالہ کے لئے دیکھئے: [مسند أحمد 435/1]، [صحيح ابن حبان 6، 7]، [موارد الظمآن 1741]، [البدعة 75]، [السنة للمروزي 11، 12، 13]، [الشريعة ص: 21]، [الإبانة 126]، [شرح السنة 97] وضاحت:
(تشریح احادیث 205 سے 208) اس حدیث سے معلوم ہوا شاہراہِ سنّت باعثِ نجات ہے اور باقی سب راہیں شیطانی اور گمراہی کی طرف لے جانے والی ہیں «(أعاذني اللّٰه وإياكم منها)» ۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
(مفسر قرآن) مجاہد رحمہ اللہ نے «﴿وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ﴾» کی تفسیر میں کہا: یعنی بدعات و شبہات کے پیچھے نہ پڑو۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 209]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [السنة للمروزي 19، 20]، [الإبانة 134]، [الحلية 293/3]، [الدر المنثور 56/3] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
عمرو بن یحییٰ نے خبر دی کہ میں نے اپنے باپ سے سنا، انہوں نے اپنے والد سے روایت کرتے ہوئے کہا کہ ہم ظہر کی نماز سے پہلے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے دروازے پر بیٹھا کرتے تھے، جب وہ (گھر سے) نکلتے تو ہم ان کے ساتھ مسجد کی طرف روانہ ہوتے، ایک دن ہمارے پاس سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بھی تشریف لائے اور پوچھا: کیا ابوعبدالرحمن (سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی کنیت) باہر نکلے؟ ہم نے کہا: نہیں ابھی تک تو نہیں نکلے، تو وہ بھی ہمارے ساتھ بیٹھ گئے، لہٰذا جب سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ باہر آئے تو ہم سب ان کے لئے کھڑے ہو گئے، سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: ابوعبدالرحمٰن! میں نے ابھی ابھی مسجد میں ایسی بات دیکھی ہے جو مجھے ناگوار گزری ہے حالانکہ الحمد للہ وہ بہتر اور اچھی ہی ہو گی، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے پوچھا: وہ کیا بات ہے؟ کہا: آپ وہاں پہنچ کر خود دیکھ لیں گے، پھر کہا: میں نے وہاں کچھ لوگوں کی جماعت دیکھی جو حلقوں کی صورت میں بیٹھے نماز کا انتظار کر رہے ہیں، ہر حلقے میں ایک آدمی ہے اور ان کے ہاتھوں میں کنکریاں ہیں، وہ آدمی ان سے کہتا ہے: سو بار اللہ اکبر کہو تو وہ (ان کنکریوں کو گن کر) سو بار اللہ اکبر کہتے ہیں، پھر وہ شخص کہتا ہے: سو بار لا إلٰہ إلا اللہ کہو تو (اس طرح) وہ سو بار لا إلٰہ إلا اللہ کہتے ہیں، وہ کہتا ہے: سو بار سبحان الله کہو تو وہ اس طرح سو بار سبحان اللہ کہتے ہیں۔ سیدنا عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر تم نے ان سے کیا کہا؟ انہوں نے کہا: میں نے آپ کی رائے یا حکم کے انتظار میں ان سے کچھ نہیں کہا۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: تم نے انہیں یہ حکم کیوں نہ دیا کہ ان کنکریوں سے وہ اپنے گناہ شمار کریں اور تم نے انہیں اس بات کی ضمانت دیدی کہ ان کی نیکیوں میں سے کچھ برباد نہ ہوا۔ پھر وہ چل پڑے، ہم بھی ان کے ساتھ روانہ ہوئے یہاں تک کہ ان حلقوں میں سے ایک حلقے کے پاس آ کر وہ کھڑے ہوئے اور کہا: یہ میں تمہیں کیا کرتے دیکھ رہا ہوں؟ انہوں نے کہا: ابوعبدالرحمٰن! یہ کنکریاں ہیں ہم ان کے ذریعے تکبیر تہلیل اور تسبیح کی تعداد گنتے ہیں۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: تم اپنی برائیاں گنو، تو میں ضمانت دیتا ہوں کہ تمہاری نیکیوں میں سے کچھ بھی ضائع نہ ہو گا، اے امت محمد! تمہاری خرابی ہوئی، کتنی جلدی تم ہلاکت و بربادی میں پڑ گئے، ابھی تو تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے صحابہ موجود ہیں، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے بھی میلے نہیں ہوئے، نہ آپ کے برتن ٹوٹے ہیں، قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کیا تم ملت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ ہدایت یافتہ ملت کے راستے پر ہو یا گمراہی و ضلالت کا دروازہ کھول رہے ہو۔ انہوں نے کہا: اے ابوعبدالرحمٰن! ہمارا ارادہ صرف نیکی و بھلائی کا ہی تھا، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: ایسی بھلائی کے متلاشی کبھی بھلائی و نیکی حاصل نہ کر سکیں گے، ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ ایک جماعت ہو گی جو قرآن پڑھے گی تو وہ اس کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، قسم اللہ کی ہو سکتا ہے ایسے اکثر لوگ تم ہی میں سے ہوں گے۔ پھر آپ ان کے پاس سے ہٹ گئے، عمرو بن سلمہ نے کہا: ہم نے ان حلقات کے عام آدمیوں کو دیکھا جو واقعہ نہروان کے دن خوارج کے ساتھ ہمیں پر تیر برسا رہے تھے (یعنی وہی لوگ خوارج کا ساتھ دے رہے تھے)۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 210]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبي شيبه 19736]، [معجم الطبراني الكبير 8636]، [مجمع الزوائد 863]، نیز [ترمذي 2189] اور [ابن ماجه 168] نے آخر کا پیراگراف اختصار سے ذکر کیا ہے۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 208 سے 210) اس طویل اثر و حدیث میں بدعت کی شدید مذمت اور کنکریوں یا تسبیح کے دانوں پر تسبیح و تہلیل اور تکبیر پر شدید ناپسندیدگی کا اظہار ہے، اور یہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا شدید رد عمل ہے۔ آج ان کی بات کو دلیل بنانے والے ہی ان کی مخالفت کرتے ہیں اور ہاتھوں میں تسبیح لئے گھومتے پھرتے ہیں۔ اس میں صحابہ کرام کا ایک دوسرے کے ساتھ احترام کرنا بھی ثابت ہوتا ہے جو باعثِ اتباع و عبرت ہے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی کی کہ ایک جماعت ایسی پیدا ہوگی جو قرآن پڑھے گی لیکن بے عمل ہوگی، قرآن و حدیث کی اتباع چھوڑ کر اپنے نفس اور شیطان کی اتباع کرے گی اور دینی اُمور میں اپنی من مانی کرے گی، اور خوارج کی صورت میں یہ پیشین گوئی بالکل درست ثابت ہوئی۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
ابوعبدالرحمٰن (عبداللہ بن حبیب) سے مروی ہے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اتباع کرو گے، ابتداع سے بچو گے تو تمہارے لئے یہی کافی ہے۔
تخریج الحدیث: «في اسناده علتان: الأولى: تدليس حبيب بن أبي ثابت وقد عنعن والثانية: قول شعبة: " لم يسمع أبو عبد الرحمن: عبد الله بن حبيب من عبد الله بن مسعود ". ولكن قال الإمام أحمد: " في قول شعبة: لم يسمع من ابن مسعود شيئا أراه وهما "، [مكتبه الشامله نمبر: 211]»
اس روایت کی سند میں دو علتیں ہیں اس لئے یہ روایت معلول ہے، لیکن دوسرے طرق سے بھی یہ روایت منقول ہے۔ دیکھئے: [الزهد للوكيع 315]، [الإبانة 175]، [البدع 54]، [السنة للمروزي 78]، [الزهد لأحمد 162]، [العلم لأبي خيثمه 54] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: في اسناده علتان: الأولى: تدليس حبيب بن أبي ثابت وقد عنعن والثانية: قول شعبة: " لم يسمع أبو عبد الرحمن: عبد الله بن حبيب من عبد الله بن مسعود ". ولكن قال الإمام أحمد: " في قول شعبة: لم يسمع من ابن مسعود شيئا أراه وهما "
سیدنا جابر بن عبدالله انصاری رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے خطبہ دیا الله تعالیٰ کی حمد و ثنا کی پھر فرمایا: ”سب سے بہترین راستہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اور بدترین کام نئی چیزیں (بدعت) ایجاد کرنا ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل يحيى بن سليم ولكنه لم ينفرد به بل تابعه عليه عبد الوهاب الثقفي وسليمان بن بلال وسفيان فيصح الإسناد، [مكتبه الشامله نمبر: 212]»
اس حدیث کی سند حسن ہے۔ حوالہ دیکھئے: [مسند أبي يعلی 2111]، [البدعة لابن وضاح 53]، [الإبانة 148]، [السنة للمروزي 73]، [السنة لابن أبى عاصم 24] و [فتح الباري 511/10] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل يحيى بن سليم ولكنه لم ينفرد به بل تابعه عليه عبد الوهاب الثقفي وسليمان بن بلال وسفيان فيصح الإسناد
بلاز بن عصمۃ سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا، وہ جمعرات کی شام یعنی جمعہ والی رات کو کھڑے ہوئے اور فرمایا: سب سے سچا قول اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، اور سب سے اچھا راستہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ ہے، اور بدبخت وہ ہے جو اپنی ماں کے پیٹ میں ہی بدبخت قرار دے دیا گیا، اور سب سے بدترین سوچ و فکر (یا قول و فعل) جھوٹی سوچ و فکر ہے، اور بدترین کام بدعت ایجاد کرنا ہے، اور ہر آنے والی چیز قریب ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 213]»
اس اثر کی سند جید ہے۔ حوالہ دیکھئے: [بخاري 7277، 6098]، [ابن ماجه 46] و [البدع 57] وضاحت:
(تشریح احادیث 210 سے 213) ان تمام آثار و احادیث سے سنّت کی اہمیت ثابت ہوتی ہے اور بدعت کی مذمت و برائی معلوم ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس سے بچائے۔ آمین قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
امام ابن سیرین رحمہ اللہ نے فرمایا: کوئی آدمی بدعت کو پکڑتا ہے تو سنت سے تراجع کر لیتا ہے۔ (یعنی بدعت ایجاد ہوتی ہے تو سنت پس پشت چلی جاتی ہے)۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف الليث وهو ابن أبي سليم، [مكتبه الشامله نمبر: 214]»
اس قول کی سند ضعیف ہے، لیکن حقیقت یہ ہی ہے جیسا کہ سابقہ آثار میں گزر چکا ہے، اس اثر کو ابوشامہ المقدسی نے [الباعث ص: 26] میں ذکر کیا ہے نیز دیکھئے: اثر رقم (99) قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف الليث وهو ابن أبي سليم
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اپنی امت میں گمراہ کرنے والے اماموں (حاکموں) سے ڈرتا ہوں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 215]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسند أحمد 278/5، 284]، [أبوداؤد 4252]، [ابن ماجه 3952]، [ترمذي 92230]، [مسند الشهاب 1116]، [دلائل النبوة للبيهقي 527/6] وضاحت:
(تشریح احادیث 213 سے 215) یعنی آپ کی اُمّت میں ایسے امام پیدا ہوں گے جو لوگوں کو گمراہ کریں گے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حیۃ بنت ابی حیۃ نے کہا: دوپہر کے وقت ہمارے پاس ایک آدمی آیا، میں نے کہا: اللہ کے بندے! تم کہاں سے آ رہے ہو؟ تو اس نے کہا: میں اور میرا ساتھی بھٹکے ہوئے کی تلاش میں آئے تھے، میرا ساتھی تلاش میں نکل گیا اور میں سائے اور پانی کی تلاش میں یہاں آ گیا، حیۃ نے کہا: میں مٹی کا مٹھا لائی اور اسے پلایا، اس نے پیا اور میں نے بھی پیا، میں نے تعارف کے لئے پوچھا: اللہ کے بندے! تم کون ہو؟ تو اس نے کہا: میں ابوبکر ہوں، میں نے کہا: وہی ابوبکر جن کے بارے میں میں نے سنا ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یار غار ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں وہی۔ حیہ نے کہا: میں نے خثعم سے اور جاہلیت میں بعض کا بعض کے ساتھ غزوے کا ذکر کیا اور اللہ تعالیٰ نے جو الفت و محبت پیدا کی اور ان خیموں کا ذکر کیا۔ عبداللہ بن عون نے اپنی انگلیاں انگلیوں میں داخل کیں، معاذ بن معاذ نے بھی ایسا ہی کر کے بتایا، احمد اور ان کے استاد احمد بن عبداللہ نے بھی ایسا ہی کیا۔ میں نے کہا: اے عبدالله! کب تک تمہارا خیال ہے کہ ایسا ہی معاملہ چلتا رہے گا؟ کہا: جب تک ائمہ یا حکام سیدھے (راهِ مستقیم) پر رہیں گے۔ میں نے کہا: ائمہ سے مراد کیا ہے؟ کہا: کیا تم نے دیکھا نہیں کہ سید (مالک) جب گھر میں ہوتا ہے تو لوگ اس کی پیروی و اطاعت بجا لاتے ہیں، پس جب تک وہ راہ مستقیم پر رہیں گے۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 216]»
اس روایت کی سند حسن ہے، اور صرف امام دارمی کی روایت ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں سب سے زیادہ تمہارے بارے میں جس چیز سے ڈرتا ہوں وہ گمراہ کرنے والے حکام (ائمہ) ہیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف فيه جهالة ولكن الحديث صحيح يشهد له الحديث قبل السابق، [مكتبه الشامله نمبر: 217]»
اس روایت کی یہ سند ضعیف ہے، لیکن حدیث صحیح ہے، جیسا کہ (215) میں گزر چکا ہے، اس حدیث کو امام احمد نے [مسند 441/6] میں ذکر کیا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف فيه جهالة ولكن الحديث صحيح يشهد له الحديث قبل السابق
قیس بن ابی حازم سے روایت ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ قبیلہ احمس کی ایک عورت سے ملے جس کا نام زینب تھا، آپ نے دیکھا کہ وہ بات ہی نہیں کرتی ہے، پوچھا: کیا بات ہے یہ بات کیوں نہیں کرتی؟ کہا گیا کہ نذر مانی ہے کہ چپی لگا کر حج کرے گی، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: کہو بات کرے، یہ جائز نہیں، یہ تو دور جاہلیت کی رسم ہے۔ راوی نے کہا: وہ بات کرنے لگی اور پوچھا: آپ کون ہیں؟ جواب دیا میں مہاجرین کا ایک فرد ہوں، عورت نے کہا: کون سے مہاجرین کے کس قبیلے سے ہیں؟ کہا: قریش میں سے ہوں، عورت نے دریافت کیا: قریش کے کس خاندان سے؟ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم تو بڑی سوال کرنے والی ہو، میں ابوبکر ہوں، کہنے لگی، جاہلیت کے بعد اللہ تعالیٰ نے جو ہمیں یہ دین عطا فرمایا ہے اس پر ہم کب تک قائم رہ سکیں گے؟ کہا: کہ اس حالت پر اس وقت تک قائم رہیں گے جب تک تمہارے ائمہ درست رہیں گے، اس نے کہا: ائمہ سے مراد کیا ہے؟ کہا: کیا تمہاری قوم میں سردار اور اشراف لوگ نہیں ہیں جو آ کر حکم دیں تو لوگ ان کی پیروی کریں؟ اس نے کہا: جی ہاں کیوں نہیں؟ فرمایا: لوگوں پر اس طرح کے (حاکم) ہوں گے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 218]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ [امام بخاري 3834] نے بھی اسے روایت کیا ہے۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 215 سے 218) اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ایسی نذر جس میں مشقت ہو پوری کرنا ضروری نہیں، بلکہ اس کا کفارہ ادا کر کے اسے توڑا جا سکتا ہے، جیسا کہ ابواسرائیل کی حدیث میں پیدل چل کر حج کرنے کی نذر تھی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تڑوا کر سوار ہونے کا حکم دیا۔ اس حدیث میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تواضع اور خاکساری، نیز اس بات کی نشاندہی ہے کہ ائمہ و حکام جب تک درست و صالح رہیں گے خیرات و برکات کا نزول ہوتا رہے گا، اور جب ان میں بد دیانتی، بے راہ روی آئے گی تو سب کی بربادی ہے۔ واللہ اعلم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
واصل نے ایک عورت سے روایت کیا جس کا نام عائذہ تھا اس نے کہا: میں نے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ عورتوں اور مردوں کو وصیت کرتے ہوئے کہہ رہے تھے: تم میں سے جو کوئی بھی مرد یا عورت وہ زمانہ پائے تو اسلاف کا طریقہ لازم پکڑے، انہیں کے طریق پر رہے تو تم فطرت پر رہو گے۔ عبداللہ نے کہا: «السمت» سے مراد طریقہ ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 219]»
اس اثر کی سند صحیح ہے، اور اسے ابن ابی شیبہ نے [مصنف 17856] میں، ابن سعد نے [طبقات 358/8] میں ذکر کیا ہے۔ نیز دیکھئے اثر نمبر (174) قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
زیاد بن حدیر سے مروی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: جانتے ہو اسلام کو کون سی چیز منہدم کر دے گی؟ میں نے کہا: نہیں، فرمایا: عالم کی غلطی، منافق کا کتاب اللہ میں بحث و مباحثہ یا جدال، اور گمراہ کرنے والے ائمہ کا حکم۔ (یعنی عالم کی غلطی، منافق کا جدال، اور گمراه اماموں یا حکام کا حکم اسلام کو ڈھا دے گا، اس کی عمارت کو منہدم کر دے گا)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 220]»
اس اثر کی سند صحیح ہے، اور اسے دیکھئے: [الإبانة 641-643] و [الفقيه 607] اور [جامع بيان العلم 1867، 1869] میں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
محمد بن علی نے کہا: فلسفی لوگوں کے پاس نہ بیٹھو، یہ الله تعالیٰ کی آیات میں عیب نکالتے ہیں (یا عیب جوئی کرتے ہیں)۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف ليث بن أبي سليم، [مكتبه الشامله نمبر: 221]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے، اور اس اثر کو ابن بطہ نے [الإبانة 383، 384] میں ذکر کیا ہے۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 218 سے 221) گرچہ اس اثر کی سند میں ضعف ہے لیکن یہ بات سورة انعام کی آیت نمبر (68) کے عین مطابق ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (ترجمہ: ”اور آپ جب ان لوگوں کو دیکھیں جو ہماری آیات میں عیب جوئی کر رہے ہیں، تو ان لوگوں سے کنارہ کش ہو جائیں یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں لگ جائیں، اور اگر آپ کو شیطان بھلا دے تو یاد آنے کے بعد پھر ایسے ظالموں کے پاس نہ بیٹھیں“)۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف ليث بن أبي سليم
حسن رحمہ اللہ نے کہا: اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں تمہاری سنت (کی پیروی) غلو کرنے والے یا اعراض کرنے والے کے مابین ہے، پس تم اس درمیانی راستے کو اپناؤ اللہ تم پر رحم فرمائے، پچھلے زمانے میں بھی سنت کے شیدائی لوگوں میں سب سے کم تھے اور آنے والے باقی زمانے میں بھی سب سے کم ہوں گے، جنہوں نے سرکش لوگوں کی ان کی سرکشتی میں، اور بدعتیوں کی ان کی بدعت میں پیروی نہیں کی، اور اپنے سنت طریقے پر جمے رہے یہاں تک کہ اپنے رب سے جا ملے، سو تم بھی اللہ کے حکم سے انہیں کی طرح ہو جاؤ۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف المبارك بن فضالة يدلس ويسوي وقد عنعن، [مكتبه الشامله نمبر: 222]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [الباعث لأبي شامة ص: 26] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف المبارك بن فضالة يدلس ويسوي وقد عنعن
سیدنا عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: سنت کی میانہ روی بدعت میں مشقت برداشت کرنے سے بہتر ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 223]»
اس روایت کی سند جید ہے، اور بہت سے محدثین نے اسے ذکر کیا ہے۔ دیکھئے: [شرح اعتقاد أهل السنة 14، 114]، [المستدرك 103/1]، [الفقيه 148/1]، [السنة للمروزي 88] و [جامع بيان العلم 2334] وضاحت:
(تشریح احادیث 221 سے 223) ان تمام آثار و احادیث سے ثابت ہوا کہ: سنّت کو لازم پکڑنا چاہئے اور بدعت سے، بدعتی سے، نیز رائے زنی اور قیاس آرائی سے بچنا چاہئے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
|