سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
مقدمه
مقدمہ
19. باب مَنْ هَابَ الْفُتْيَا وَكَرِهَ التَّنَطُّعَ وَالتَّبَدُّعَ:
ان لوگوں کا بیان جنہوں نے فتوی دینے سے خوف کھایا اور غلو و زیادتی یا بدعت ایجاد کرنے کو برا سمجھا
حدیث نمبر: 132
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا سلم بن جنادة، حدثنا ابن إدريس، عن عمه، قال: "خرجت من عند إبراهيم، فاستقبلني حماد، فحملني ثمانية ابواب، مسائل، فسالته، فاجابني عن اربع وترك اربعا".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا سَلْمُ بْنُ جُنَادَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ عَمِّهِ، قَالَ: "خَرَجْتُ مِنْ عِنْدِ إِبْرَاهِيمَ، فَاسْتَقْبَلَنِي حَمَّادٌ، فَحَمَّلَنِي ثَمَانِيَةَ أَبْوَابٍ، مَسَائِلَ، فَسَأَلْتُهُ، فَأَجَابَنِي عَنْ أَرْبَعٍ وَتَرَكَ أَرْبَعًا".
عبدالله بن ادریس نے اپنے چچا سے بیان کیا کہ میں ابراہیم النخعی کے پاس سے نکلا تو حماد رحمہ اللہ نے میرا استقبال کیا اور مجھے آٹھ قسم کے مسائل پوچھنے کو کہا، میں نے ابراہیم سے ان کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے چار مسائل کا جواب دیا اور چار قسم کے سوالات کا جواب نہیں دیا۔

تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 132]»
اس روایت میں عبداللہ بن ادریس کے چچا داؤد بن یزید ضعیف ہیں، لہٰذا یہ سند ضعیف ہے اور صرف امام دارمی نے اسے روایت کیا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
حدیث نمبر: 133
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا قبيصة، اخبرنا سفيان، عن عبد الملك بن ابجر، عن زبيد، قال: "ما سالت إبراهيم، عن شيء إلا عرفت الكراهية في وجهه".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا قَبِيصَةُ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبْجَرَ، عَنْ زُبَيْدٍ، قَالَ: "مَا سَأَلْتُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ شَيْءٍ إِلَّا عَرَفْتُ الْكَرَاهِيَةَ فِي وَجْهِهِ".
زبید الیامی نے کہا: میں نے ابراہیم سے جب بھی کسی بارے میں مسئلہ دریافت کیا تو ان کے چہرے پر ناپسندیدگی محسوس کی۔

تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 133]»
اس روایت کی سند صحیح ہے، اور اس روایت کو ابویعلیٰ نے اپنی [مسند 7327] میں، اور فسوی نے [المعرفة والتاريخ 605/2] میں، اور ابونعیم نے [حلية الأولياء 220/4] میں ذکر کیا ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 131 سے 133)
ان روایات میں ابراہیم سے مراد ابراہیم بن یزید النخعی ہیں جو اپنے وقت کے امام وفقیہ اور ثقہ تھے۔
دیکھئے: [تقريب التهذيب 301] ۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
حدیث نمبر: 134
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا محمد بن احمد، حدثنا إسحاق بن منصور، عن عمر بن ابي زائدة، قال: "ما رايت احدا اكثر ان يقول إذا سئل عن شيء: لا علم لي به من الشعبي".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، قَالَ: "مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَكْثَرَ أَنْ يَقُولَ إِذَا سُئِلَ عَنْ شَيْءٍ: لَا عِلْمَ لِي بِهِ مِنْ الشَّعْبِيِّ".
عمر بن ابی زائدہ نے کہا میں نے امام شعبی رحمہ اللہ سے زیادہ کسی کو یہ کہتے نہیں سنا: «لا علم لي به» مجھے اس کا علم نہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 134]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [طبقات ابن سعد 174/6]۔ امام شعبی رحمہ اللہ کا نام عامر بن شراحیل ہے جو اپنے وقت کے امام و فقیہ اور کبار تابعین میں سے تھے، خود فرماتے ہیں: میں نے پانچ سو صحابہ کو پایا۔ ابومجلز نے کہا: میں نے ان سے زیادہ (اس زمانے میں) کسی کو فقیہ نہیں پایا۔ [الخلاصة ص: 184]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 135
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا ابو عاصم، عن ابن عون، قال: سمعته يذكر، قال: كان الشعبي إذا جاءه شيء اتقى، وكان إبراهيم يقول، ويقول، ويقول، قال ابو عاصم: "كان الشعبي في هذا احسن حالا عند ابن عون من إبراهيم".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ، قَالَ: سَمِعْتُهُ يَذْكُرُ، قَالَ: كَانَ الشَّعْبِيُّ إِذَا جَاءَهُ شَيْءٌ اتَّقَى، وَكَانَ إِبْرَاهِيمُ يَقُولُ، وَيَقُولُ، وَيَقُولُ، قَالَ أَبُو عَاصِمٍ: "كَانَ الشَّعْبِيُّ فِي هَذَا أَحْسَنَ حَالًا عِنْدَ ابْنِ عَوْنٍ مِنْ إِبْرَاهِيمَ".
ابوعاصم نے عبداللہ بن عون کو کہتے سنا کہ شعبی سے کوئی مسئلہ پوچھا جاتا تو پرہیز کرتے اور ابراہیم (النخعی) فتوی دیدیتے تھے۔ ابوعاصم نے کہا: شعبی اس سلسلے میں ابن عون کے نزدیک (اپنے احتیاط کی وجہ سے) ابراہیم سے زیادہ اچھے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 135]»
اس قول کی سند صحیح ہے، اور ابوزرعہ نے اس روایت کو اپنی [تاريخ 2004] میں ذکر کیا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 136
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا عبد الله بن سعيد، اخبرنا احمد بن بشير، حدثنا شعبة، عن جعفر بن إياس، قال: قلت لسعيد بن جبير: ما لك لا تقول في الطلاق شيئا؟، قال: "ما منه شيء إلا قد سالت عنه، ولكني اكره ان احل حراما، او احرم حلالا".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ بَشِيرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ إِيَاسٍ، قَالَ: قُلْتُ لِسَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ: مَا لَكَ لَا تَقُولُ فِي الطَّلَاقِ شَيْئًا؟، قَالَ: "مَا مِنْهُ شَيْءٌ إِلَّا قَدْ سَأَلْتُ عَنْهُ، وَلَكِنِّي أَكْرَهُ أَنْ أُحِلَّ حَرَامًا، أَوْ أُحَرِّمَ حَلَالًا".
جعفر بن ایاس نے کہا: میں نے سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے کہا: کیا بات ہے آپ طلاق کے مسئلے میں کچھ لب کشائی نہیں کرتے؟ انہوں نے کہا: طلاق سے متعلق کوئی بات ایسی نہیں جس کا میں نے سوال نہ کیا (یعنی اس کا علم حاصل نہ کیا ہو) لیکن مجھے یہ پسند نہیں کہ حرام کو حلال اور حلال کو حرام قرار دیدوں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 136]»
اس روایت کی سند صحیح ہے، امام دارمی کے علاوہ کسی نے اسے روایت نہیں کیا۔ سعید بن جبیر رحمہ اللہ کبار تابعین میں سے ہیں جو اپنے وقت کے امام و فقیہ تھے۔ [الخلاصة ص: 136]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 137
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا ابو نعيم، حدثنا سفيان، عن عطاء بن السائب، قال: سمعت عبد الرحمن بن ابي ليلى، يقول: "لقد ادركت في هذا المسجد عشرين ومائة من الانصار، وما منهم من احد يحدث بحديث إلا ود ان اخاه كفاه الحديث، ولا يسال عن فتيا إلا ود ان اخاه كفاه الفتيا".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي لَيْلَى، يَقُولُ: "لَقَدْ أَدْرَكْتُ فِي هَذَا الْمَسْجِدِ عِشْرِينَ وَمِائَةً مِنْ الْأَنْصَارِ، وَمَا مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ يُحَدِّثُ بِحَدِيثٍ إِلَّا وَدَّ أَنَّ أَخَاهُ كَفَاهُ الْحَدِيثَ، وَلَا يُسْأَلُ عَنْ فُتْيَا إِلَّا وَدَّ أَنَّ أَخَاهُ كَفَاهُ الْفُتْيَا".
عطاء بن السائب نے کہا: میں نے عبداللہ بن ابی یعلی کو کہتے سنا، انہوں نے کہا: میں نے اس مسجد (نبوی) میں ایک سو بیس انصاری صحابہ کو پایا، ان میں سے جو کوئی بھی حدیث بیان کرتا تو اس کی آرزو رہتی کاش ان کا ساتھی حدیث بیان کرے اور ان میں سے کسی سے بھی کوئی فتویٰ پوچھا جاتا تو وہ پسند کرتے کہ ان کا کوئی اور ساتھی اس کام کو سر انجام دے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 137]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [طبقات ابن سعد 74/6]، [التاريخ لأبي زرعة 2031]، [كتاب الزهد لابن مبارك 58]، [جامع بيان العلم 1944]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 138
Save to word اعراب
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا يوسف بن يعقوب الصفار، حدثنا ابو بكر، عن داود، قال: سالت الشعبي، كيف كنتم تصنعون إذا سئلتم؟، قال: "على الخبير وقعت، كان إذا سئل الرجل، قال لصاحبه: افتهم، فلا يزال حتى يرجع إلى الاول".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ يَعْقُوبَ الصَّفَّارُ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، عَنْ دَاوُدَ، قَالَ: سَأَلْتُ الشَّعْبِيَّ، كَيْفَ كُنْتُمْ تَصْنَعُونَ إِذَا سُئِلْتُمْ؟، قَالَ: "عَلَى الْخَبِيرِ وَقَعْتَ، كَانَ إِذَا سُئِلَ الرَّجُلُ، قَالَ لِصَاحِبِهِ: أَفْتِهِمْ، فَلَا يَزَالُ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَى الْأَوَّلِ".
داؤد بن ابی ہند نے کہا: میں نے شعبی سے پوچھا: جب آپ سے مسئلہ پوچھا جاتا تو کیا کرتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا: تم نے اس کا تجربہ رکھنے والے سے سوال کیا ہے۔ جب کسی سے مسئلہ دریافت کیا جاتا تو وہ اپنے ساتھی سے کہتا کہ جواب دو، اور وہ ساتھی کہتا آپ جواب دیں، حتی کہ تکرار کے بعد سوال کی نوبت پہلے آدمی کے پاس ہی آ جاتی۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل أبي بكر بن عياش وداود هو ابن أبي هند، [مكتبه الشامله نمبر: 138]»
اس روایت کی سند حسن ہے، «وانفرد به الدارمي» ۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 133 سے 138)
اس روایت سے فتویٰ دینے میں احتیاط ثابت ہوتی ہے، نیز یہ کہ ان کے ساتھی اور جلساء انہیں جیسے ہوتے تھے اور اس میں صحبتِ صالح تر اصالح کند کی تعلیم ملتی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل أبي بكر بن عياش وداود هو ابن أبي هند
حدیث نمبر: 139
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا احمد بن الحجاج، قال: سمعت سفيان، عن ابن المنكدر، قال: "إن العالم يدخل فيما بين الله وبين عباده، فليطلب لنفسه المخرج".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَجَّاجِ، قَالَ: سَمِعْتُ سُفْيَانَ، عَنْ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ، قَالَ: "إِنَّ الْعَالِمَ يَدْخُلُ فِيمَا بَيْنَ اللَّهِ وَبَيْنَ عِبَادِهِ، فَلْيَطْلُبْ لِنَفْسِهِ الْمَخْرَجَ".
ابن المنکدر نے کہا: عالم (فتوے کے ذریعے) اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے درمیان مداخلت کرتا ہے، اس لئے اسے اپنے نکلنے کا راستہ تلاش کرنا چاہیے (یعنی: فتویٰ سازی سے احتراز کرنا چاہئے)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى ابن المنكدر، [مكتبه الشامله نمبر: 139]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ ابونعیم نے [الحلية 152/3] میں اور خطیب نے [الفقيه والمتفقه 1088، 1089] میں صحیح سند سے ذکر کیا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى ابن المنكدر
حدیث نمبر: 140
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا محمد بن قدامة، حدثنا ابو اسامة، عن مسعر، قال: اخرج إلي معن بن عبد الرحمن كتابا، فحلف لي بالله انه خط ابيه، فإذا فيه: قال عبد الله: "والذي لا إله إلا هو ما رايت احدا كان اشد على المتنطعين من رسول الله صلى الله عليه وسلم، وما رايت احدا كان اشد عليهم من ابي بكر رضي الله عنه، وإني لارى عمر رضي الله عنه كان اشد خوفا عليهم او لهم".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ مِسْعَرٍ، قَالَ: أَخْرَجَ إِلَيَّ مَعْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ كِتَابًا، فَحَلَفَ لِي بِاللَّهِ أَنَّهُ خَطُّ أَبِيه، فَإِذَا فِيهِ: قَال عَبْدُ اللَّهِ: "وَالَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ مَا رَأَيْتُ أَحَدًا كَانَ أَشَدَّ عَلَى الْمُتَنَطِّعِينَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا رَأَيْتُ أَحَدًا كَانَ أَشَدَّ عَلَيْهِمْ مِنْ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، وَإِنِّي لَأَرَى عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ كَانَ أَشَدَّ خَوْفًا عَلَيْهِمْ أَوْ لَهُمْ".
مسعر نے کہا: معن بن عبدالرحمن نے میرے لئے ایک کتاب نکالی اور قسم کھا کر کہا کہ وہ ان کے والد کے خط سے لکھی ہوئی ہے، دیکھا تو اس میں لکھا ہے عبداللہ سے مروی ہے انہوں نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں، میں نے غلو کرنے والوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کسی کو اتنا شدید و سخت نہیں دیکھا، پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے زیادہ ان پر کسی کو اتنا سختی کرنے والا نہیں دیکھا، اور اب میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھ رہا ہوں کہ ان (متنطعين) سے ڈرنے یا ان پر ڈرنے والا اُن سے زیادہ کوئی نہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 140]»
اس روایت کی اسناد صحیح ہے، اور اسے [ابوبكر بن ابي شيبه 6480] اور انہیں کی سند سے [أبويعلی 5022] اور [طبراني 10367] نے ذکر کیا ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 138 سے 140)
اس روایت میں دین میں غلو کرنے والوں سے بچنے اور ان کا گھیرا تنگ کرنے کی ترغیب ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 141
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا ابو نعيم، حدثنا زمعة بن صالح، عن عثمان بن حاضر الازدي، قال: دخلت على ابن عباس رضي الله عنه، فقلت: اوصني، فقال: نعم، "عليك بتقوى الله، والاستقامة، اتبع ولا تبتدع".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا زَمْعَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حَاضِرٍ الْأَزْدِيِّ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَقُلْتُ: أَوْصِنِي، فَقَالَ: نَعَمْ، "عَلَيْكَ بِتَقْوَى اللَّهِ، وَالِاسْتِقَامَةِ، اتَّبِعْ وَلَا تَبْتَدِعْ".
عثمان بن حاضر ازدی نے کہا: میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس گیا اور عرض کیا کہ مجھے وصیت کیجئے، کہا: سنو! الله کا تقویٰ اختیار کرو اور اس پر قائم رہو۔ اتباع کرو ابتداع سے بچو۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف زمعة، [مكتبه الشامله نمبر: 141]»
یہ اثر اس سند سے ضعیف ہے۔ دیکھئے: [الإبانة 200]، [الفقيه والمتفقه 173/1]، [البدع والنهى عنها ص:25] میں اسی سند سے مذکور ہے، لیکن مروزی نے [السنة 83] میں بسند حسن ذکر کیا ہے۔

وضاحت:
(تشریح حدیث 140)
اس اثر میں تقویٰ کی وصیت اور استقامت کا درس ہے، نیز یہ کہ انسان بدعت سے پرہیز کرے اور صرف اتباع و اطاعت پر اکتفا کرے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف زمعة
حدیث نمبر: 142
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا مخلد بن مالك بن جابر، اخبرنا النضر بن شميل، عن ابن عون، عن ابن سيرين، قال: "كانوا يرون انه على الطريق ما كان على الاثر".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مَخْلَدُ بْنُ مَالِكٍ بن جابر، أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، قَالَ: "كَانُوا يَرَوْنَ أَنَّهُ عَلَى الطَّرِيقِ مَا كَانَ عَلَى الْأَثَرِ".
امام ابن سیرین رحمہ اللہ نے فرمایا: لوگوں کا خیال تھا آدمی جب تک حدیث پر عامل ہے صراط مستقیم پر ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 142]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [جامع بيان العلم لابن عبدالبر 1778، 1779]، محمد بن سیرین اپنے وقت کے امام، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے خاص شاگرد، کبار تابعین میں سے تھے۔ 110 ہجری میں ان کا انتقال ہوا۔ دیکھئے: [الخلاصة ص: 340]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 143
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا يوسف بن موسى، حدثنا ازهر، عن ابن عون، عن ابن سيرين، قال: "ما دام على الاثر، فهو على الطريق".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا أَزْهَرُ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، قَالَ: "مَا دَامَ عَلَى الْأَثَرِ، فَهُوَ عَلَى الطَّرِيقِ".
امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے فرمایا: انسان جب تک عامل بالحدیث ہے وہ صحیح راستے پر ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 143]»
اس روایت کی یہ سند صحیح ہے، مذکورہ بالا حوالہ دیکھئے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 141 سے 143)
مفہوم یہ کہ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہٹ کر عمل کرنا ضلالت و گمراہی ہے۔
مسلکِ سنّت پر اے سالک چلا جا بے ڈھرک
جنت الفردوس کو سیدھی گئی ہے یہ سڑک

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 144
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو المغيرة، حدثنا الاوزاعي، عن يحيى بن ابي كثير، عن ابي قلابة، قال: قال عبد الله بن مسعود رضي الله عنه: "تعلموا العلم قبل ان يقبض، وقبضه ان يذهب اهله، الا وإياكم، والتنطع، والتعمق، والبدع، وعليكم بالعتيق".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: "تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ قَبْلَ أَنْ يُقْبَضَ، وَقَبْضُهُ أَنْ يَذْهَبَ أَهْلُهُ، أَلَا وَإِيَّاكُمْ، وَالتَّنَطُّعَ، وَالتَّعَمُّقَ، وَالْبِدَعَ، وَعَلَيْكُمْ بِالْعَتِيقِ".
ابوقلابہ سے مروی ہے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: علم حاصل کرو اس کے پہلے کہ وہ قبض کر لیا جائے، اور علم کا قبض کیا جانا یہ ہے کہ اہل علم ختم ہو جائیں۔ خبردار! اپنے آپ کو غلو، بہت زیادہ غور و خوض (تعمق) اور نئی عبادتیں ایجاد کرنے سے بچانا، اور (طریق) قدیم کو مضبوطی سے تھامے رکھنا۔ (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب رضوان اللہ علیہم کے طریق کو پکڑے رہنا)۔

تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أنه منقطع أبو قلابة: عبد الله بن زيد الجرمي لم يدرك عبد الله بن مسعود، [مكتبه الشامله نمبر: 144]»
اس روایت کے رواۃ ثقات ہیں لیکن سند میں انقطاع ہے کیونکہ ابوقلابہ کا لقاء سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں۔ نیز یہ اثر [إبانة 168]، [مفتاح الجنة ص:30]، [الفردوس 2236] و [كنز العمال 28865] وغیرہ میں موجود ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أنه منقطع أبو قلابة: عبد الله بن زيد الجرمي لم يدرك عبد الله بن مسعود
حدیث نمبر: 145
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا سليمان بن حرب، وابو النعمان، عن حماد بن زيد، عن ايوب، عن ابي قلابة، قال: قال ابن مسعود رضي الله عنه: "عليكم بالعلم قبل ان يقبض، وقبضه ان يذهب باصحابه، عليكم بالعلم، فإن احدكم لا يدري متى يفتقر إليه او يفتقر إلى ما عنده، إنكم ستجدون اقواما يزعمون انهم يدعونكم إلى كتاب الله وقد نبذوه وراء ظهورهم، فعليكم بالعلم، وإياكم والتبدع، وإياكم والتنطع، وإياكم والتعمق، وعليكم بالعتيق".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، وَأَبُو النُّعْمَانِ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، قَالَ: قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: "عَلَيْكُمْ بِالْعِلْمِ قَبْلَ أَنْ يُقْبَضَ، وَقَبْضُهُ أَنْ يُذْهَبَ بِأَصْحَابِهِ، عَلَيْكُمْ بِالْعِلْمِ، فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَا يَدْرِي مَتَى يُفْتَقَرُ إِلَيْهِ أَوْ يُفْتَقَرُ إِلَى مَا عِنْدَهُ، إِنَّكُمْ سَتَجِدُونَ أَقْوَامًا يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ يَدْعُونَكُمْ إِلَى كِتَابِ اللَّهِ وَقَدْ نَبَذُوهُ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ، فَعَلَيْكُمْ بِالْعِلْمِ، وَإِيَّاكُمْ وَالتَّبَدُّعَ، وَإِيَّاكُمْ وَالتَّنَطُّعَ، وَإِيَّاكُمْ وَالتَّعَمُّقَ، وَعَلَيْكُمْ بِالْعَتِيقِ".
ابوقلابہ سے مروی ہے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: علم حاصل کرو اس سے پہلے کہ وہ سمیٹ لیا جائے، اور اس کا سمٹ جانا یہ ہے کہ اہل علم اٹھا لئے جائیں، علم کو لازم پکڑو (کیونکہ) تم میں سے کوئی نہیں جانتا کب اس کی ضرورت پڑ جائے، یا اس شخص کی ضرورت پڑ جائے جس کے پاس علم ہو، تم کو ایسے بہت سے لوگ ملیں گے جن کا گمان ہو گا کہ وہ کتاب اللہ کی طرف بلاتے ہیں، حالانکہ انہوں نے اسے (کتاب اللہ کو) پس پشت ڈال رکھا ہو گا، علم کو تھامے رکھو اور نئی عبادتیں ایجاد کرنے (بدعت) سے بچو، غلو سے دور رہو، تعمق و گہرائی سے پرہیز کرو، اور اسلاف کے نقش قدم پر چلو۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لانقطاعه أبو قلابة لم يدرك ابن مسعود، [مكتبه الشامله نمبر: 145]»
اس اثر کی سند بھی مذکورہ بالا اثر کی طرح ضعیف ہے۔ مزید اطلاع کے لئے دیکھئے: [طبراني 8845] و [شرح اعتقاد أهل السنة 108]

وضاحت:
(تشریح احادیث 143 سے 145)
لیکن یہ اثر ضعیف ہونے کے باوجود اقوالِ زریں کا نمونہ ہے اور اس میں علم حاصل کرنے کی ترغیب، غلو، تعمق اور بدعت سے پرہیز کی تلقین اور اسلافِ کرام کے نقشِ قدم پر چلنے کی بات کہی گئی ہے جو بالکل درست اور ضروری ہے، الله تعالیٰ سب کو اس کی توفیق بخشے۔
آمین

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لانقطاعه أبو قلابة لم يدرك ابن مسعود
حدیث نمبر: 146
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا ابو النعمان، حدثنا حماد بن زيد، حدثنا يزيد بن حازم، عن سليمان بن يسار، ان رجلا يقال له: صبيغ قدم المدينة فجعل يسال عن متشابه القرآن، فارسل إليه عمر رضي الله عنه وقد اعد له عراجين النخل، فقال: "من انت؟، قال: انا عبد الله صبيغ، فاخذ عمر عرجونا من تلك العراجين، فضربه وقال: انا عبد الله عمر فجعل له ضربا حتى دمي راسه، فقال: يا امير المؤمنين، حسبك، قد ذهب الذي كنت اجد في راسي".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّ رَجُلًا يُقَالُ لَهُ: صَبِيغٌ قَدِمَ الْمَدِينَةَ فَجَعَلَ يَسْأَلُ عَنْ مُتَشَابِهِ الْقُرْآنِ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ عُمَرُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ وَقَدْ أَعَدَّ لَهُ عَرَاجِينَ النَّخْلِ، فَقَالَ: "مَنْ أَنْتَ؟، قَالَ: أَنَا عَبْدُ اللَّهِ صَبِيغٌ، فَأَخَذَ عُمَرُ عُرْجُونًا مِنْ تِلْكَ الْعَرَاجِينِ، فَضَرَبَهُ وَقَالَ: أَنَا عَبْدُ اللَّهِ عُمَرُ فَجَعَلَ لَهُ ضَرْبًا حَتَّى دَمِيَ رَأْسُهُ، فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، حَسْبُكَ، قَدْ ذَهَبَ الَّذِي كُنْتُ أَجِدُ فِي رَأْسِي".
سلیمان بن یسار نے کہا: ایک شخص جس کا نام صبیغ تھا، مدینہ آ کر قرآن کی آیات متشابہات کے بارے میں پوچھنے لگا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کھجور کی ٹہنیاں منگائیں اور اسے بلا بھیجا، پوچھا تم کون ہو؟ جواب دیا میں اللہ کا بندہ صبیغ ہوں، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان ٹہنیوں میں سے ایک ٹہنی اٹھائی اور کہا: میں اللہ کا بندہ عمر ہوں اور اس کی پٹائی شروع کر دی، یہاں تک کہ اس کا سر لہولہان ہو گیا تو اس نے کہا: بس کیجئے امیر المومنین، میرے سر میں جو شبہات در آئے تھے ختم ہو گئے۔

تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أنه منقطع سليمان بن يسار لم يدرك عمر بن الخطاب، [مكتبه الشامله نمبر: 146]»
سلیمان بن یسار نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو نہیں دیکھا اس لئے یہ روایت منقطع ہے، اور اس کو آجری نے [الشرعية ص: 75] میں ذکر کیا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أنه منقطع سليمان بن يسار لم يدرك عمر بن الخطاب
حدیث نمبر: 147
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد الطيالسي، حدثنا حماد بن سلمة، ويزيد بن إبراهيم، عن عبد الله بن ابي مليكة، عن القاسم، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: تلا رسول الله صلى الله عليه وسلم: هو الذي انزل عليك الكتاب منه آيات محكمات هن ام الكتاب واخر متشابهات سورة آل عمران آية 7 فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذا رايتم الذين يتبعون ما تشابه منه، فاحذروهم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، وَيَزِيدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ الْقَاسِمِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، قَالَتْ: تَلَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ سورة آل عمران آية 7 فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا رَأَيْتُمْ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ، فَاحْذَرُوهُمْ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: «﴿هُوَ الَّذِيْ أَنْزَلَ ...﴾» (آل عمران: 7/3) اور فرمایا: جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو آیات متشابہات کی تلاش میں رہتے ہوں تو ان سے بچو۔

تخریج الحدیث: «حديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 147]»
یہ متفق علیہ صحیح حدیث ہے۔ دیکھئے: [البخاري 4547]، [مسلم 2665]

وضاحت:
(تشریح احادیث 145 سے 147)
محکم سے مراد وہ آیات ہیں جن کا معنی ومفہوم واضح اور صریح امر یا نہی کی صورت میں ہو، اور اس کا حکم اٹل ہو، اور متشابہ اس کے برعکس ہے۔
ان دونوں روایات سے معلوم ہوا کہ متشابہات میں خوض سے بچنا چاہیے، جیسا کہ دوسری متفق علیہ حدیث سے واضح ہوتا ہے۔
ترجمہ آیتِ مذکورہ بالا: وہی اللہ تعالیٰ ہے جس نے آپ پر کتاب اتاری جس میں بعض آیات محکم (مضبوط) ہیں جو اصل کتاب ہیں، اور بعض متشابہ آیات ہیں۔
جن کے دلوں میں کجی ہے وہ متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: حديث متفق عليه
حدیث نمبر: 148
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا عبد الله بن محمد، حدثنا حفص، عن الاعمش، عن شقيق، قال: سئل عبد الله عن شيء، فقال: "إني لاكره ان احل لك شيئا حرمه الله عليك، او احرم ما احله الله لك".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ، قَالَ: سُئِلَ عَبْدُ اللَّه عَنْ شَيْءٍ، فَقَالَ: "إِنِّي لَأَكْرَهُ أَنْ أُحِلَّ لَكَ شَيْئًا حَرَّمَهُ اللَّهُ عَلَيْكَ، أَوْ أُحَرِّمَ مَا أَحَلَّهُ اللَّهُ لَكَ".
شقیق نے کہا کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کسی چیز کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا: میں یہ ناپسند کرتا ہوں کہ کوئی ایسی چیز تمہارے لئے حلال کر دوں جو اللہ تعالیٰ نے تم پر حرام کر رکھی ہو یا جو اللہ تعالیٰ نے حلال کر دیا ہے وہ حرام قرار دیدوں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 148]»
اس روایت کی سند صحیح ہے، لیکن امام دارمی کے علاوہ اور کسی نے روایت نہیں کیا۔ اس روایت سے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا فتویٰ دینے میں تامل اور شدت احتیاط کا پتہ لگتا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 149
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا محمد بن عيينة، عن ابي إسحاق الفزاري، عن ابن عون، عن ابن سيرين، عن حميد بن عبد الرحمن، قال: "لان ارده بعيه احب إلي من ان اتكلف له ما لا اعلم".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق الْفَزَارِيِّ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: "لَأَنْ أَرُدَّهُ بِعِيِّهِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَتَكَلَّفَ لَهُ مَا لَا أَعْلَمُ".
حمید بن عبدالرحمٰن نے کہا کہ کسی چیز کے علم سے عاجز آ کر اس کا جواب نہ دینا میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ و محبوب ہے اس چیز سے کہ جس کا مجھے علم نہیں ہے اس میں تکلف سے کام لوں۔ (یعنی اپنی کم علمی کا اظہار بےجا تکلف سے بہتر ہے)۔

تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 149]»
اس روایت کی سند جید ہے، اور [المعرفة والتاريخ 68/2] میں یہ اثر موجود ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 147 سے 149)
ان دونوں روایات میں بنا علم کچھ کہنے سے پرہیز اور علم نہ رکھتے ہوئے تکلف سے بچنے کی ترغیب ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
حدیث نمبر: 150
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا عبد الله بن صالح، حدثني الليث، اخبرني ابن عجلان، عن نافع مولى عبد الله، ان صبيغا العراقي، جعل يسال عن اشياء من القرآن في اجناد المسلمين حتى قدم مصر، فبعث به عمرو بن العاص رضي الله عنه إلى عمر بن الخطاب رضي الله عنه، فلما اتاه الرسول بالكتاب فقراه، فقال: اين الرجل؟، قال: في الرحل، قال عمر: "ابصر ان يكون ذهب فتصيبك مني به العقوبة الموجعة، فاتاه به، فقال عمر: تسال محدثة، فارسل عمر إلى رطائب من جريد، فضربه بها حتى ترك ظهره دبرة، ثم تركه حتى برا، ثم عاد له، ثم تركه حتى برا، فدعا به ليعود له، قال: فقال صبيغ: إن كنت تريد قتلي، فاقتلني قتلا جميلا، وإن كنت تريد ان تداويني، فقد والله برئت، فاذن له إلى ارضه، وكتب إلى ابي موسى الاشعري رضي الله عنه، ان لا يجالسه احد من المسلمين، فاشتد ذلك على الرجل، فكتب ابو موسى إلى عمر: ان قد حسنت توبته، فكتب عمر: ان ائذن للناس بمجالسته".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، أَخْبَرَنِي ابْنُ عَجْلَانَ، عَنْ نَافِعٍ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ صَبِيغًا الْعِرَاقِيَّ، جَعَلَ يَسْأَلُ عَنْ أَشْيَاءَ مِنْ الْقُرْآنِ فِي أَجْنَادِ الْمُسْلِمِينَ حَتَّى قَدِمَ مِصْرَ، فَبَعَثَ بِهِ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَلَمَّا أَتَاهُ الرَّسُولُ بِالْكِتَابِ فَقَرَأَهُ، فَقَالَ: أَيْنَ الرَّجُلُ؟، قَالَ: فِي الرَّحْلِ، قَالَ عُمَرُ: "أَبْصِرْ أَنْ يَكُونُ ذَهَبَ فَتُصِيبَكَ مِنِّي بِهِ الْعُقُوبَةُ الْمُوجِعَةُ، فَأَتَاهُ بِهِ، فَقَالَ عُمَرُ: تَسْأَلُ مُحْدَثَةً، فَأَرْسَلَ عُمَرُ إِلَى رَطَائِبَ مِنْ جَرِيدٍ، فَضَرَبَهُ بِهَا حَتَّى تَرَكَ ظَهْرَهُ دَبِرَةً، ثُمَّ تَرَكَهُ حَتَّى بَرَأَ، ثُمَّ عَادَ لَهُ، ثُمَّ تَرَكَهُ حَتَّى بَرَأَ، فَدَعَا بِهِ لِيَعُودَ لَهُ، قَالَ: فَقَالَ صَبِيغٌ: إِنْ كُنْتَ تُرِيدُ قَتْلِي، فَاقْتُلْنِي قَتْلًا جَمِيلًا، وَإِنْ كُنْتَ تُرِيدُ أَنْ تُدَاوِيَنِي، فَقَدْ وَاللَّهِ بَرِئْتُ، فَأَذِنَ لَهُ إِلَى أَرْضِهِ، وَكَتَبَ إِلَى أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنْ لَا يُجَالِسَهُ أَحَدٌ مِنْ الْمُسْلِمِينَ، فَاشْتَدَّ ذَلِكَ عَلَى الرَّجُلِ، فَكَتَبَ أَبُو مُوسَى إِلَى عُمَرَ: أَنْ قَدْ حَسُنَتْ تَوْبَتُهُ، فَكَتَبَ عُمَرُ: أَنْ ائْذَنْ لِلنَّاسِ بِمُجَالَسَتِهِ".
سیدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما کے آزاد کردہ غلام نافع نے کہا کہ صبیغ (ابن غسل) عراقی مسلمانوں کے لشکر میں کچھ آیتوں کے بارے میں سوالات کرتے ہوئے مصر پہنچے تو سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے انہیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا، جب قاصد ان کے پاس پیغام لایا تو انہوں نے پوچھا: وہ آدمی کہاں ہے؟ کہا: خیمہ میں ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: جا کر دیکھو، اگر بھاگ گیا تو تمہیں دردناک سزا دوں گا، چنانچہ قاصد اسے (صبیغ کو) لے کر حاضر خدمت ہوا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نئی باتیں نکالتے ہو؟ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سرسبز ٹہنیاں منگائیں اور اس کی اتنی پٹائی لگائی کہ وہ لہولہان ہو گیا، پھر اسے چھوڑ دیا، جب وہ اور اس کے زخم اچھے ہو گئے تو پھر مار لگائی، پھر مہلت دیدی، پھر اس کو بلایا تاکہ مزہ چکھائیں، تو صبیغ نے کہا: اگر آپ مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں تو ایک بارگی مار ڈالئے، اور اگر میرا علاج کرنا چاہتے ہیں تو الله کی قسم میں اب اچھا ہو گیا ہوں، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسے اس کے وطن جانے کی اجازت دیدی، اور سیدنا ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کو لکھ بھیجا کہ اس کے پاس کوئی مسلمان نہ بیٹھے، اور یہ چیز اس صبیغ پر بہت گراں گزری، چنانچہ سیدنا ابوموسی رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس لکھا کہ اس نے اچھی طرح سچی توبہ کر لی ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جواب میں لکھا کہ اب لوگوں کو اس سے ملنے جلنے اور بیٹھنے کی اجازت دیدو۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح، [مكتبه الشامله نمبر: 150]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے، کیونکہ اس میں ایک راوی عبدالله بن صالح ضعیف ہیں، نیز اسے ابن وضاح نے [البدعة ص: 56] میں اور آجری نے [الشريعة ص:75] میں ذکر کیا ہے، لیکن ان دونوں طرق میں انقطاع ہے، جیسا کہ حدیث رقم (146) میں گزر چکا ہے۔

وضاحت:
(تشریح حدیث 149)
بدعتی کے پاس بیٹھنا بھی درست نہیں جیسا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا تھا، نیز اس اثر میں بدعتی کی سزا اور عقوبت کا بیان بھی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح
حدیث نمبر: 151
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا احمد بن عبد الله بن يونس، حدثنا زهير، حدثنا إسماعيل بن ابي خالد، قال: سمعت عامرا، يقول: استفتى رجل ابي بن كعب، فقال: يا ابا المنذر، ما تقول في كذا وكذا؟، قال: يا بني، اكان الذي سالتني عنه؟، قال: لا، قال: "اما لا، فاجلني حتى يكون، فنعالج انفسنا حتى نخبرك".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي خَالِدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَامِرًا، يَقُولُ: اسْتَفْتَى رَجُلٌ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ، فَقَالَ: يَا أَبَا الْمُنْذِرِ، مَا تَقُولُ فِي كَذَا وَكَذَا؟، قَالَ: يَا بُنَيَّ، أَكَانَ الَّذِي سَأَلْتَنِي عَنْهُ؟، قَالَ: لَا، قَالَ: "أَمَّا لَا، فَأَجِّلْنِي حَتَّى يَكُونَ، فَنُعَالِجَ أَنْفُسَنَا حَتَّى نُخْبِرَكَ".
اسماعیل بن ابی خالد نے کہا میں نے عامر (الشعبی) کو کہتے ہوئے سنا کہ ایک آدمی نے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے فتویٰ پوچھتے ہوئے کہا: اے ابوالمنذر! آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: بیٹے! جس بارے میں تم فتویٰ پوچھ رہے ہو، کیا وہ وقوع پذیر ہو چکا ہے؟ عرض کیا: نہیں۔ انہوں نے جواب دیا جب نہیں تو مجھے اس وقت تک مہلت دو جب ایسا ہو جائے، پھر ہم غور کریں گے اور تمہیں فتویٰ دیں گے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لانقطاعه عامر الشعبي لم يدرك أبي بن كعب، [مكتبه الشامله نمبر: 151]»
یہ منقطع روایت ہے، «وانفرد به الدارمي» ، لیکن اس طرح کی متعدد روایات [باب كراهة الفتيا اثر رقم 125-128] میں بسند صحیح گزر چکی ہیں اور آگے اس کی تفصیل بھی آرہی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لانقطاعه عامر الشعبي لم يدرك أبي بن كعب
حدیث نمبر: 152
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا يحيى بن حماد، اخبرنا ابو عوانة، قال: اخبرنا عن فراس، عن عامر، عن مسروق، قال: كنت امشي مع ابي بن كعب رضي الله عنه، فقال فتى: ما تقول يا عماه في كذا وكذا؟، قال: يا ابن اخي، اكان هذا؟، قال: لا، قال: "فاعفنا حتى يكون".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو عَوَانَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَنْ فِرَاسٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَقَالَ فَتًى: مَا تَقُولُ يَا عَمَّاهُ فِي كَذَا وَكَذَا؟، قَالَ: يَا ابْنَ أَخِي، أَكَانَ هَذَا؟، قَالَ: لَا، قَالَ: "فَأَعْفِنَا حَتَّى يَكُونَ".
مسروق نے کہا: میں سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے ہمراہ چل رہا تھا کہ ایک جوان نے کہا: چچا جان! آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟ کہا بھتیجے! کیا ایسا (معاملہ) ہو چکا ہے؟ عرض کیا: نہیں، تو انہوں نے جواب دیا: اگر نہیں ہوا تو ہمیں معاف رکھو، یہاں تک کہ ایسا معاملہ وقوع پذیر ہو جائے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 152]»
یہ روایت صحیح ہے۔ دیکھئے: [العلم لأبي خيثمه 76]، [الفقيه والمتفقه 8/2]، [الإبانة 315]، [جامع بيان العلم 1604]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 153
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) حدثنا عبد الله بن سعيد، حدثنا ابو اسامة، عن الاعمش، قال: "كان إبراهيم إذا سئل عن شيء لم يجب فيه إلا جواب الذي سئل عنه".(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، قَالَ: "كَانَ إِبْرَاهِيمُ إِذَا سُئِلَ عَنْ شَيْءٍ لَمْ يُجِبْ فِيهِ إِلَّا جَوَابَ الَّذِي سُئِلَ عَنْهُ".
اعمش (سلیمان بن مہران) نے کہا: امام ابراہیم النخعی رحمہ اللہ سے جب مسائل دریافت کئے جاتے تو صرف انہیں مسائل کا جواب دیتے جو پہلے آپ سے پوچھے جا چکے ہوتے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 153]»
اس اثر کی سند صحیح ہے، اور یہ [حلية الأولياء 219/4] میں موجود ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 154
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا الحسين بن منصور، حدثنا الحسين بن الوليد، عن وهيب، عن هشام، عن محمد بن سيرين"انه كان لا يفتي في الفرج بشيء فيه اختلاف".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنْ وُهَيْبٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ"أَنَّهُ كَانَ لَا يُفْتِي فِي الْفَرْجِ بِشَيْءٍ فِيهِ اخْتِلَافٌ".
ہشام بن حسان نے کہا: امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ شرم گاہ سے متعلق مختلف فیہ مسائل میں فتویٰ نہیں دیتے تھے۔ (یعنی نکاح و طلاق کے مختلف فیہ مسائل میں۔ واللہ اعلم)

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 154]»
اس روایت کی سند صحیح ہے، لیکن اس کو امام دارمی کے علاوہ کسی نے نقل نہیں کیا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 155
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا حماد بن زيد، حدثنا الصلت بن راشد، قال: سالت طاوسا عن مسالة، فقال لي: كان هذا؟، قلت: نعم، قال: آلله، قلت: آلله، ثم قال: إن اصحابنا اخبرونا عن معاذ بن جبل رضي الله عنه، انه قال:"يا ايها الناس، لا تعجلوا بالبلاء قبل نزوله , فيذهب بكم ههنا وههنا، فإنكم إن لم تعجلوا بالبلاء قبل نزوله، لم ينفك المسلمون ان يكون فيهم من إذا سئل، سدد، وإذا قال , وفق".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا الصَّلْتُ بْنُ رَاشِدٍ، قَالَ: سَأَلْتُ طَاوُسًا عَنْ مَسْأَلَةٍ، فَقَالَ لِي: كَانَ هَذَا؟، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: آللَّهِ، قُلْتُ: آللَّهِ، ثُمّ قَالَ: إِنَّ أَصْحَابَنَا أَخْبَرُونَا عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنَّهُ قَالَ:"يَا أَيُّهَا النَّاسُ، لَا تَعْجَلُوا بِالْبَلَاءِ قَبْلَ نُزُولِهِ , فَيُذْهَبُ بِكُمْ هَهُنَا وَهَهُنَا، فَإِنَّكُمْ إِنْ لَمْ تَعْجَلُوا بِالْبَلَاءِ قَبْلَ نُزُولِهِ، لَمْ يَنْفَكَّ الْمُسْلِمُونَ أَنْ يَكُونَ فِيهِمْ مَنْ إِذَا سُئِلَ، سُدَّدَ، وَإِذَا قَالَ , وُفِّقَ".
صلت بن راشد نے کہا: میں نے امام طاؤوس رحمہ اللہ سے کسی مسئلہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے دریافت کیا: کیا یہ مسئلہ وقوع پذیر ہوا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، تو کہا: قسم کھاؤ ایسا ہو چکا ہے، میں نے عرض کیا: اللہ کی قسم ایسا ہو چکا ہے، پھر انہوں نے کہا: ہمارے ساتھیوں نے ہمیں سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے یہ خبر دی ہے کہ انہوں نے کہا: بلاء و مصیبت کے سلسلہ میں اس کے نزول سے پہلے جلد بازی نہ کرو، ہو سکتا ہے وہ تمہیں ادھر ادھر بھٹکا لے جائے، اگر تم مصیبت کے نزول سے پہلے جلد بازی نہ کرو گے تو اس سے بچ نہ سکو گے جب ایسے لوگ رہیں گے جن سے پوچھا جائے تو صحیح جواب دیں اور جب کہیں تو صحیح کہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 155]»
اس اثر کی سند صحیح ہے، اور اثر رقم (118) میں گزر چکی ہے۔ نیز دیکھئے: [الإبانة لابن بطة 293]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 156
Save to word اعراب
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا بشر بن الحكم، حدثنا عبد العزيز بن محمد، عن عمرو بن ميمون، عن ابيه، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: سالته عن رجل ادركه رمضانان، فقال: اكان او لم يكن؟، قال: لم يكن بعد، فقال: اترك بليته حتى تنزل، قال: فدلسنا له رجلا، فقال: قد كان، فقال "يطعم عن الاول منهما ثلاثين مسكينا، لكل يوم مسكين".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْحَكَمِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، قَالَ: سَأَلْتُهُ عَنْ رَجُلٍ أَدْرَكَهُ رَمَضَانَانِ، فَقَالَ: أَكَانَ أَوْ لَمْ يَكُنْ؟، قَالَ: لَمْ يَكُنْ بَعْدُ، فَقَالَ: اتْرُكْ بَلِيَّتَهُ حَتَّى تَنْزِلَ، قَالَ: فَدَلَسْنَا لَهُ رَجُلًا، فَقَالَ: قَدْ كَانَ، فَقَالَ "يُطْعِمُ عَنْ الْأَوَّلِ مِنْهُمَا ثَلَاثِينَ مِسْكِينًا، لِكُلِّ يَوْمٍ مِسْكِينٌ".
عمرو بن میمون نے اپنے والد سے انہوں نے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہوئے کہا کہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایسے شخص کے بارے میں دریافت کیا جو دو مرتبہ رمضان کے مہینے پائے اور (روزہ نہ رکھے)، انہوں نے کہا: کیا ایسا ہو چکا ہے یا نہیں؟ میمون نے کہا: نہیں، تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: ایسی نزول سے پہلی بلا کو جانے دو (یعنی جو چیز واقع نہیں ہوئی اس کے بارے میں سوال نہ کرو)، لہٰذا ہم نے ایک شخص کے بارے میں جھوٹ موٹ کہا کہ اسے یہ مسئلہ درپیش ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ پہلے رمضان کے تیس روزوں کے بدلے میں مسکینوں کو کھانا کھلائے ہر دن ایک مسکین کو کھانا کھلائے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 156]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [سنن البيهقي 253/4]، [مصنف عبدالرزاق 7628]، [سنن دارقطني 196/2]، [المجموع 363/6]، [معرفة السنن والآثار 306/6]

وضاحت:
(تشریح احادیث 150 سے 156)
ان تمام آثار سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلاف کرام فرضی مسائل میں نہیں الجھتے تھے اور صرف پیش آمده مسائل ہی کا جواب دیتے تھے اور اختلافی مسائل میں فتویٰ دینے سے بھی گریز کرتے تھے، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ کے نیک، راست باز، توفیق و صحیح سوجھ بوجھ والے بندے ہمیشہ موجود رہیں گے۔
( «جعلنا اللّٰه واياكم منهم.» آمین)
ایسا شخص جس نے بلا عذرِ شرعی دو بار رمضان کے روزے نہیں رکھے اس پر کفارہ اور قضا دونوں ہے، یعنی ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے اور ساٹھ دن کے روزے رکھے۔
دیکھئے: [المغني لابن قدامة 401/4] ۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 157
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا عبد الله بن عمران، حدثنا إسحاق بن سليمان، حدثنا العمري، عن عبيد بن جريج، قال: كنت اجلس بمكة إلى ابن عمر يوما، وإلى ابن عباس رضي الله عنهما يوما، فما يقول ابن عمر فيما يسال "لا علم لي، اكثر مما يفتي به".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عِمْرَانَ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا الْعُمَرِيُّ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: كُنْتُ أَجْلِسُ بِمَكَّةَ إِلَى ابْنِ عُمَرَ يَوْمًا، وَإِلَى ابْنِ عَبَّاس رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا يَوْمًا، فَمَا يَقُولُ ابْنُ عُمَرَ فِيمَا يُسْأَلُ "لَا عِلْمَ لِي، أَكْثَرُ مِمَّا يُفْتِي بِهِ".
عبید بن جریج نے کہا کہ میں مکہ میں ایک دن سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس اور ایک دن سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھا تھا، میں نے دیکھا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فتوی دینے سے زیادہ اکثر مسائل میں کہتے رہے: «لاعلم لي» کہ مجھے اس بارے میں علم نہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 157]»
اس روایت کی سند حسن کے درجہ کو پہنچتی ہے۔ دیکھئے: [الفقيه والمتفقه 172/2]، اور العمری کا نام عبداللہ بن عمر بن حفص ہے۔

وضاحت:
(تشریح حدیث 156)
اس حدیث سے ان دونوں جلیل القدر صحابہ کرام کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے، نیز یہ کہ مسائل اور فتویٰ دینے میں جلد بازی یا یہ ثابت کرنے سے کہ مسئول عنہ بہت ذی علم ہے گریز کرنا چاہیے، جیسا کہ اسلاف کرام کے طریق سے ثابت ہوتا ہے، اور «لا علم لي» یا «لا أعلم» کہنے سے کسی کی عزت اور اس کے مرتبے میں کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ بعض اسلاف نے یہ کہنا بھی نصف علم کہا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
حدیث نمبر: 158
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا محمد بن يوسف، عن سفيان، عن الاعمش، عن ابي وائل، قال: قال عبد الله: "تعلموا، فإن احدكم لا يدري متى يختلف إليه".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: "تَعَلَّمُوا، فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَا يَدْرِي مَتَى يُخْتَلفُ إِلَيْهِ".
ابووائل سے مروی ہے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: علم حاصل کرو، تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ کب اس کے پاس سوال و فتوے کے لئے لوگ آئیں گے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 158]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: حديث رقم (144)۔ نیز اس روایت کو ابن عبدالبر نے [جامع بيان العلم 510] میں، ابوخيثمہ نے [العلم 8] میں اسی سند سے ذکر کیا ہے۔

وضاحت:
(تشریح حدیث 157)
اس میں علم کی اہمیت و ضرورت بیان کی گئی ہے۔
ابووائل، شقیق بن سلمہ ہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.