مقدمه مقدمہ 14. باب في وَفَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان
سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا میں ضرور معلوم کروں گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کب تک حیات رہیں گے؟ چنانچہ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں جانتا ہوں کہ نہ صرف لوگوں نے آپ کو اذیت پہنچائی، بلکہ ان کے غبار تک نے آپ کو اذیت دی، اگر آپ ایک تخت بنا لیں جس سے آپ ان سے گفتگو کر سکیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اب تک موجود ہوں، وہ میری ایڑیاں کچلتے رہیں، مری چادر کھینچتے رہیں، بس اللہ ہی مجھے ان سے راحت دے گا۔“ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: بس میں نے سمجھ لیا کہ اب آپ تھوڑے ہی دن ہمارے درمیان حیات رہیں گے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لانقطاعه عكرمة لم يدرك العباس، [مكتبه الشامله نمبر: 76]»
اس روایت کی یہ سند ضعیف ہے کیونکہ عکرمہ کا لقاء حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں، اس کو [ابن ابي شيبه 16273] اور بزار نے روایت کیا ہے۔ دیکھئے: [كشف الاستار 2466] لیکن مسند بزار ہی میں اس کا صحیح شاہد موجود ہے۔ دیکھئے: [مسند بزار 2467] اور [مصنف عبدالرزاق 434/5] میں بھی، لہٰذا حدیث صحیح ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لانقطاعه عكرمة لم يدرك العباس
داود بن علی نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا ہم آپ کے لئے آڑ بنا دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، انہیں چھوڑو اور میری ایڑیاں مسلنے دو، میں ان کے قدم روند ڈالوں گا یہاں تک کہ اللہ تعالی مجھے ان سے راحت اور نجات دے دے گا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده معضل، [مكتبه الشامله نمبر: 77]»
اس روایت کی سند میں کئی راوی ساقط ہیں لہٰذا معصل ضعیف ہے لیکن اس کا شاہد پچھلی روایت میں ذکر کیا جا چکا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده معضل
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مرض الموت میں ہمارے پاس باہر تشریف لائے، آپ کے سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی، آپ منبر تک پہنچے اور اس پر بیٹھ گئے، ہم بھی آپ کے پیچھے ہو لئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں اس مقام سے حوض (کوثر) کا مشاہدہ کر رہا ہوں“، پھر فرمایا: ”ایک بندے پر دنیا اور اس کی زینت پیش کی گئی تو اس نے آخرت کو اختیار کر لیا“، راوی نے کہا: کہ اس بات کو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے علاوہ کوئی نہیں سمجھ سکا، چنانچہ ان کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں، وہ رو پڑے اور کہا: اے اللہ کے رسول، ہم آپ پر اپنے ماں باپ جان و مال فدا کر دیں گے۔ راوی نے کہا: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نیچے اترے اور پھر وفات تک اس پر کھڑے نہیں ہوئے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 78]»
یہ روایت صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 466]، [مسلم 2382]، [ترمذي 3661]، [مسند أحمد 91/3]، [ابويعلى 1155] و [ابن حبان 6593] وضاحت:
(تشریح احادیث 75 سے 78) اس روایت سے ثابت ہوتا ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انسان و بشر کی طرح مرض میں مبتلا ہونا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کی حالت میں بھی اُمّت کو نصیحت کی حرص رکھنا۔ نبی و رسول کا وفات سے پہلے اختیار دیا جانا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت اور زود فہمی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے انتہا محبت کہ جان و مال سب کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے قربان کرنے کی تمنا رکھتے ہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا ابومویہبہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ ”مجھے حکم دیا گیا ہے بقیع میں مدفون لوگوں کے لئے استغفار کروں، لہٰذا تم میرے ساتھ چلو“، آدھی رات میں میں آپ کے ساتھ نکلا، اور جب آپ ان کی قبروں کے پاس کھڑے ہوئے تو فرمایا: ”اے قبر والو! تمہارے اوپر سلامتی ہو، تم جس حال میں ہو وہ تمہیں مبارک ہو اس کے مقابلے میں جس میں لوگ اب مبتلا ہو گئے ہیں (کاش تمہیں معلوم ہو جائے کہ تمہیں الله تعالی نے کس چیز سے نجات دے دی ہے)۔ فتنے اندھیری رات کے گوشوں کی طرح یکے بعد دیگرے ابل پڑے ہیں، آخری فتنہ پہلے سے زیادہ برا ہے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف متوجہ ہوئے، فرمایا: ”ابومویہبہ! مجھے دنیا کے خزانوں کی چابیاں اور دنیا میں ہمیشہ رہنا یا جنت دی گئی اور مجھے دنیا یا اپنے رب سے ملاقات کا اختیار دیا گیا ہے“، میں نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان دنیا کے خزانے اور اس میں ہمیشگی کو لے لیجئے پھر جنت اختیار فرما لیجئے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، اللہ کی قسم اے ابومویہبہ! نہیں، میں نے اپنے رب کی ملا قات کو اختیار کر لیا ہے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل بقیع کے لئے مغفرت کی دعا کی اور لوٹ آئے، تب ہی سے وہ درد شروع ہو گیا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انتقال فرمایا۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 79]»
اس حدیث کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [مسند أحمد 489/3]، [المعجم الكبير 871]، [المستدرك 56/2]، [الدلائل للبيهقي 163/6 بهذا الإسناد] وضاحت:
(تشریح حدیث 78) اس حدیث سے مندرجہ ذیل مسائل معلوم ہوتے ہیں: تصدیقِ رسالت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو احکامات الله تعالیٰ کی طرف سے ملتے تھے۔ حکمِ الٰہی کی پیروی میں آدھی رات میں گھر سے نکل پڑتے ہیں۔ مقبرے میں داخلے کا طریقہ: «السَّلَامُ عَلَيْكُمْ يَا أَهْلَ الْمَقَابِرِ» کہنا۔ دن اور زمانے سے متعلق حقیقتِ حال ذکر کرنا برا نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کے خزانے اور خلد عطا کیا گیا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رب ذوالجلال سے ملاقات کو ترجیح دی۔ مُردوں کے لئے دعاءِ استغفار کرنے کی مشروعیت وغیرہ اس حدیث سے ثابت ہوتی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب «﴿إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ﴾» (سورة النصر: 1/110) نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بلایا اور فرمایا: ”مجھے موت کی خبر دی گئی ہے“، وہ رونے لگیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”روؤو نہیں، میرے اہل و عیال میں سب سے پہلے تم ہی مجھ سے ملو گی“، تو وہ خوش ہو گئیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ بیویوں نے انہیں دیکھا اور پوچھا: اے فاطمہ! ہم نے تمہیں روتے دیکھا، پھر تم ہنس پڑیں؟ جواب دیا کہ آپ نے مجھے بتایا کہ آپ کو موت کی خبر دی گئی ہے لہٰذا میں رو پڑی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”روؤو نہیں میرے اہل میں تم ہی سب سے پہلے مجھ سے ملو گی“ یہ سن کر میں خوش ہو گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی مدد اور فتح آ گئی، اہل یمن بھی آ گئے“، ایک شخص نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اہل یمن کون ہیں؟ فرمایا: ”وہ نرم دل کے لوگ ہیں اور ایمان تو یمن والوں کا ہے اور حکمت بھی یمانی ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 80]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے اور اسے طبرانی نے [المعجم الكبير 11903] اور [الاوسط 887] میں ذکر کیا ہے۔ نیز دیکھئے: [مجمع البحرين 1221]، [دلائل النبوة للبيهقي 167/7] وضاحت:
(تشریح حدیث 79) اس حدیث سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنی موت کی خبر دینا، اور فتح و نصرت اور یمن کی خوشخبری و فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
روایت کیا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم بقیع کے ایک جنازے سے واپس تشریف لائے، مجھے دیکھا کہ سر درد میں مبتلا ہوں اور ہائے رے سر پکار رہی ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلکہ میرا سر اے عائشہ! تمہیں کیا پریشانی ہے، اگر تم مجھ سے پہلے فوت ہوئیں تو میں تمہیں غسل دوں، کفن پہناؤں اورتمہاری نماز پڑھوں اور میں تمہیں دفن کروں، میں نے کہا: اگر میں مر جاؤں تو آپ کو کیا، آپ تو میرے گھر میں کسی دوسری بیوی کے ساتھ ہوں گے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ مرض شروع ہو گیا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أن ابن إسحاق مدلس وقد عنعن ولكنه صرح بالتحديث في رواية البيهقي فانتفت شبه التدليس، [مكتبه الشامله نمبر: 81]»
اس حدیث کے رواة ثقات ہیں، اور [امام بخاري 5666] و [أحمد 228/6]، [دارقطني 12،11، 13]، [ابن ماجه 1465] وامام بیہقی نے [سنن 396/3] میں اسے ذکر کیا ہے۔ وضاحت:
(تشریح حدیث 80) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جنازے میں شریک ہونا ثابت ہوتا ہے۔ تکلیف کی شدت سے بلا گلے اور شکوے کے ایسا لفظ زبان سے نکل جانا باعثِ مواخذہ نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بیویوں کے ساتھ اخلاقِ کریمانہ کا پتہ چلتا ہے۔ نیز اس تنک مزاجی پر بجائے ناراض ہونے کے تبسم فرماتے ہیں، نیز یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ شوہر اپنی بیوی کی میت کو غسل دے سکتا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أن ابن إسحاق مدلس وقد عنعن ولكنه صرح بالتحديث في رواية البيهقي فانتفت شبه التدليس
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض الموت میں فرمایا: ”میرے اوپر سات مختلف کنوؤں سے سات مشکیزے پانی ڈالو تاکہ باہر جا کر لوگوں سے عہد لوں“، راوی نے کہا: ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے نہانے کے ٹب میں بٹھایا اور آپ کے اوپر پانی ڈالا۔ محمد بن اسحاق کو شک ہے کہ راوی نے «صب» کہا یا «شن» کہا (دونوں کے معانی ایک ہیں)، آپ کو کچھ راحت ملی تو آپ باہر تشریف لائے، منبر پر چڑھے، الله تعالی کی حمد و ثنا کی، شہدائے احد کے لئے دعائے مغفرت کی، پھر فرمایا: ”أما بعد، انصار میرا وہ گھر ہیں جہاں میں نے پناہ لی، پس تم ان کے شریف کی عزت کرنا اور جو برے ہیں ان سے بھی جہاں تک ہو سکے درگزر کرنا، سنو لوگو! اللہ کے بندوں میں سے ایک بندے کو دنیا اور جو اللہ تعالی کے پاس ہے اس کے درمیان اختیار دیا گیا تو اس نے جو اللہ کے پاس ہے اسے چن لیا“ (یہ سن کر) سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ رو پڑے اور یقین کر لیا کہ اس سے مراد خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ٹھہرو ابوبکر جلدی نہ کرو۔ لوگو! سڑک کی طرف سے مسجد کے سارے دروازے بند کر دینا سوائے باب ابی بکر کے، مجھے یاد نہیں پڑتا کہ ابوبکر سے زیادہ کسی آدمی نے میری صحبت میں اتنا میرے ساتھ احسان کیا ہو۔“
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أن محمد بن إسحاق مدلس وقد عنعن، [مكتبه الشامله نمبر: 82]»
اس حدیث کی سند میں عنعنۃ ابن اسحاق ہے اور ایک راوی ابراہیم بن مختار متکلم فیہ ہے، باقی رواة ثقات ہیں، اس حدیث کو [ابويعلي 4478] و [ابن حبان 6600، 6601] نے بھی ذکر کیا ہے اور اس کی اصل [صحيح بخاري 3654 باب سدوا الأبواب إلا باب أبى بكر]، كتاب المناقب میں ہے۔ وضاحت:
(تشریح حدیث 81) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بیماری کی شدت برداشت کرنا ثابت ہوا۔ نیز یہ کہ پانی ڈالنے سے (گرمی کے) بخار میں کمی آتی ہے۔ رواۃِ حدیث کا حدیث بیان کرنے میں شدید احتیاط ثابت ہوتا ہے۔ نیز اس حدیث سے انصار کی فضیلت معلوم ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو موت کا اختیار دیا جانا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رب سے ملاقات کو ترجیح دینا ثابت ہوتا ہے۔ اس سے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کی صداقت اور وصیت کہ آج تک باب ابی بکر موجود ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تواضع، احسان مندی اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے احسان کا اعتراف۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أن محمد بن إسحاق مدلس وقد عنعن
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے مرض الموت میں نماز کی اطلاع دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوبکر سے کہو نماز پڑھائیں“، پھر آپ پر غشی طاری ہو گئی، پھر جب آپ کو افاقہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ازواج مطہرات سے) فرمایا: ”کیا تم نے ابوبکر سے نماز پڑھانے کے لئے کہا؟“ (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں) میں نے عرض کیا: ابوبکر نرم دل کے ہیں کاش آپ عمر کو (امامت کا) حکم دیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم صواحب یوسف کی طرح ہو، ابوبکر سے کہو لوگوں کی امامت کرائیں، ورنہ کئی لوگ اس کے خواہش مند ہوں گے اور باتیں کریں گے لیکن اللہ تعالی اور مومن (اس سے) انکار کرتے ہیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل فليح بن سليمان، [مكتبه الشامله نمبر: 83]»
اس حدیث کی سند حسن ہے لیکن اصل صحیح ہے جو صحیح بخاری میں سوائے آخری کلے کے اسی سیاق و سباق کے ساتھ مروی ہے۔ دیکھئے: [بخاري 679، 683]، [ترمذي 3672]، ابویعلی نے بھی امام دارمی کے مثل روایت کیا ہے۔ دیکھئے: [مسند ابي يعلى 4478] وضاحت:
(تشریح حدیث 82) اس روایت سے معلوم ہوا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا امامت کے لئے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو متعین کرنا، ان کے افضل الأمۃ اور خلیفۂ اوّل ہونے کی دلیل ہے۔ بیوی کی بات نامناسب ہو تو رد کر دینی چاہیے، اور یہ کہ فطرت میں سب عورتیں ایک جیسی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت کہ حالتِ نزع میں بھی ہوش و حواس قائم اور صحیح فیصلہ صادر فرماتے ہیں۔ والله اعلم قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل فليح بن سليمان
سیدنا عکرمہ رضی اللہ عنہ نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیر کے روز وفات پائی اور آپ (کا جسد خاکی) پیر کے دن اور رات، منگل کے دن تک رکھا رہا، بدھ کی رات کو آپ کو دفن کیا گیا، (کچھ) لوگوں نے کہا آپ مرے نہیں ہیں آپ کی روح کو (آسمان پر) لے جایا گیا ہے جس طرح موسیٰ علیہ السلام کو لے جایا گیا، چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرے نہیں بلکہ آپ کی روح کو ویسے ہی اوپر لے جایا گیا ہے جیسے موسٰی کی روح کو آسمان پر لے جایا گیا، والله رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان تمام قوموں کے جب تک ہاتھ اور زبانیں کاٹ نہ دیں آپ مر ہی نہیں سکتے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ گفتگو کرتے رہے یہاں تک کہ شدت ولولہ سے آپ کے منہ سے جھاگ نکلنے لگے، پھر سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو چکے ہیں، بیشک آپ بشر ہیں اور بوڑھے ہوئے، جس طرح انسان بشر بوڑھا ہوتا ہے، اے لوگو! اپنے صاحب کو دفن کر دو، آپ اللہ تعالی کے نزدیک بڑے مکرم ہیں، آپ کو اللہ تعالی دو بار موت نہیں دے گا، تم سب تو ایک بار مارے جاؤ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو دو بار موت آئے؟ (یہ نہیں ہو سکتا) آپ تو اللہ کے نزدیک بڑے معزز و مکرم ہیں۔ لوگو! اپنے صاحب کو دفن کر دو، اور جیسا کہ تم کہتے ہو (کہ آپ کو موت نہیں آئی) اگر ویسا ہی ہے تو الله تعالی کے لئے کوئی مشکل و دشوار نہیں ہے کہ مٹی خود آپ کو تلاش کر لے۔ قسم اللہ کی! رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت انتقال فرمایا ہے جب کہ آپ سارا راستہ واضح کر چکے، حلال کو حلال اور حرام کو حرام کر دیا، نکاح کیا، طلاق دی، جنگ کی، اور مصالحت بھی کی۔ کوئی بھی (چرواہا) بکریوں کی دیکھ بھال کرنے والا، جو اپنے ریوڑ کو لے کر پہاڑوں کی چوٹیوں پر جا کر ان کے لئے اپنی چھڑی سے درخت سے پتے گرائے، انہیں پانی کے لئے حوض (تالاب) پر لے جائے، تم میں سے ایسا کوئی بھی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ جفاکش اور محنتی تھکنے والا نہ ہو گا، اٹھو لوگو! اپنے صاحب کو دفن کر دو۔ راوی نے کہا: سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا رو پڑی تھیں، پوچھا گیا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر روتی ہو؟کہا: اللہ کی قسم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نہیں رو رہی، کیا مجھے معلوم نہیں کہ آپ ایسی جگہ تشریف لے گئے ہیں جو آپ کے لئے دنیا سے بدرجہا بہتر ہے، مجھے تو رونا اس بات پر آ رہا ہے کہ آسمان سے وحی کا نزول منقطع ہو گیا۔ راوی حدیث حماد کا کہنا ہے کہ ایوب جب اس مقام تک پہنچے تو آنسوؤں سے ان کی آواز رُندھ گئی۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أنه مرسل، [مكتبه الشامله نمبر: 84]»
یہ روایت مرسل ہے لیکن اس کے رواة ثقات ہیں اور اسے ابن سعد نے ذکر کیا ہے اور سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا کا رونا [مسلم شريف 2454] میں موجود ہے۔ وضاحت:
(تشریح حدیث 83) اس روایت سے معلوم ہوا: اختلافِ رائے طبیعی امر ہے، لیکن حق واضح ہو جائے تو مان لینا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انسان (بشر) ہونا اور انسانوں کے سے کام کرنا، جیسا کہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا۔ میت پر رونا لیکن واویلا سے گریز ثابت ہوتا ہے۔ نیز یہ کہ دنیا سے آخرت بہترین آرام گاہ ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے انتہا محبت و عقیدت کا ثبوت ملتا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أنه مرسل
مکحول رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی پریشانی میں مبتلا ہو تو میری مصیبت یاد کر لے جو سارے مصائب سے بڑھ کر تھی۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو مرسل، [مكتبه الشامله نمبر: 85]»
اس روایت کی یہ سند صحیح لیکن مرسل ہے، اور شاہد بھی موجود ہے۔ دیکھئے: [مجمع الزوائد 4005] و [كشف الخفاء 202] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو مرسل
عطاء رحمہ اللہ نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی پر مصیبت آئے تو وہ میری مصیبت یاد کر لے جو سارے مصائب سے زیادہ شدید تھی۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو مرسل، [مكتبه الشامله نمبر: 86]»
اس روایت کی سند بھی صحیح لیکن مرسل ہے اور ابن السنی نے [عمل اليوم والليلة 583] میں اسے ذکر کیا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو مرسل
عمر بن محمد نے اپنے والد سے روایت کیا کہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے سنا (دیکھا) وہ رو پڑتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 87]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [طبقات ابن سعد 84/2/2] و [المعرفة والتاريخ للفسوي 493/1] وضاحت:
(تشریح احادیث 84 سے 87) اس روایت سے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے انتہا محبت و خلوص کا اندازہ ہوتا ہے کہ جب بھی ذکرِ حبیب ہوتا آنکھ چھلک پڑتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی کی یاد میں رونا قابلِ مواخذہ نہیں، جیسا کہ آگے آنے والی احادیث سے بھی ثابت ہوتا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اے انس! تمہارے دلوں نے کیسے گوارہ کر لیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مٹی ڈالو، کہنے لگیں: اے ابا جان! آپ اپنے رب سے کتنے قریب ہیں، ابا جان! جنت الفردوس آپ کا ٹھکانا ہے، اے ابا جان! جبریل کو ہم آپ کی موت کی خبر دیتے ہیں، اے ابا جان! آپ نے اپنے رب کی دعوت قبول فرما لی۔ حماد نے کہا: جب ثابت نے یہ الفاظ بیان کئے، رو پڑے اور ثابت نے کہا: جب سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے یہ بیان کیا تو رو پڑے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 88]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسند ابي يعلی 2769]، [صحيح ابن حبان 6613] و [سنن الكبرى للنسائي 1971] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جس وقت آپ مدینہ تشریف لائے میں حاضر تھا، کوئی دن اتنا روشن اس دن سے اچھا نہیں تھا جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے۔ اور میں آپ کی وفات کے دن بھی حاضر تھا، اس دن سے زیادہ برا اور تاریک دن کوئی نہیں دیکھا جس دن میں آپ کی موت واقع ہوئی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 89]»
اس روایت کی اسناد صحیح ہے اور اسے [ابويعلى 3296] اور [ابن حبان 6634] نے روایت کیا ہے۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 87 سے 89) اس روایت سے: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے قدومِ مبارک سے مدینہ منورہ کا روشن و منور ہو جانا ثابت ہوتا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے سناٹا، ویرانی اور تاریکی کا وقوع پذیر ہونا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی مرسل اور مقرب الی اللہ ہونے کی دلیل ہے۔ اللہ کے نیک بندوں کے ساتھ یہ کرامات ظہور پذیر ہوتی ہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اے اللہ کے پیغمبر! ہم قیامت کے دن آپ کو آپ کے رب کے نزدیک بوجھل سرخ پلکوں کے ساتھ رب سے شرمسار کھڑا پائیں گے ان افعال کی وجہ سے جو آپ کے بعد آپ کی امت ایجاد کر لے گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن ميسرة أبي عبد الجليل وهو موقوف على عبد الله بن سلام وباقي رجاله ثقات، [مكتبه الشامله نمبر: 90]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے لیکن اس کا شاہد [مسند الموصلي 6502] میں موجود ہے۔ وضاحت:
(تشریح حدیث 89) اس روایت سے معلوم ہوا: بدعت کے ایجاد سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رب کے حضور شرمسار ہوں گے۔ نیک آدمی کی فراست۔ اثباتِ یوم القیامہ اور رب کے سامنے حاضری کا اس سے ثبوت ملتا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن ميسرة أبي عبد الجليل وهو موقوف على عبد الله بن سلام وباقي رجاله ثقات
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی الله صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا کہ یہ سورة «﴿إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ ٭ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا ﴾» (النصر: 1،2/110) جب نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ ”جس طرح فوج در فوج لوگ اس (دین میں) داخل ہوئے ہیں اسی طرح یقیناً فوج در فوج نکل بھی جائیں گے۔“
تخریج الحدیث: «لم يحكم عليه المحقق، [مكتبه الشامله نمبر: 91]»
اس حدیث کی سند جید ہے اور اسے [امام حاكم 496/4] نے روایت کیا اور کہا کہ اس کی سند صحیح ہے لیکن بخاری ومسلم نے اس کو روایت نہیں کیا، ذہبی نے بھی اس کی تائید کی ہے۔ وضاحت:
(تشریح حدیث 90) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی جو مرورِ زمانہ میں ثابت ہوتی رہی ہے، کتنے فرقے قدریہ، معتزلہ، رافضہ، باطنیہ، منکرینِ حدیث، خوارج ایسے پیدا ہوتے رہے ہیں جو دین سے اسی طرح فوج در فوج نکل گئے، لہٰذا دین میں نئی باتیں ایجاد کرنے، ان کو رواج دینے، اور ایسے برے عمل سے بچنا اور ہوشیار رہنا چاہے۔ « ﴿فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾ [النور: 63] » ترجمہ: ”سنو! جو لوگ حکمِ رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آ پڑے، یا انہیں دردناک عذاب نہ پہنچے۔ “ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: لم يحكم عليه المحقق
خالد بن معدان نے کہا کہ عبداللہ بن الاہتم عام لوگوں کے ساتھ عمر بن عبدالعزیز کے پاس داخل ہوئے۔ اچانک عمر بن عبدالعزیز نے انہیں گفتگو کرتے ہوئے اپنے سامنے دیکھا، انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کی اور امابعد کے بعد کہا: اللہ تعالی نے مخلوق کو پیدا فرمایا ان کی اطاعت سے مستغنی ہو کر اور ان کی نافرمانی سے مامون ہو کر، اس وقت لوگ اپنے گھر اور رائے میں مختلف تھے، اور عرب تو ان منازل میں اور بری حالت میں تھے، وہ پتھروں اور صوف (اون) والے اور دیہاتی تھے جن سے دنیا بھر کی اچھی چیزیں کترا کر نکل جاتی تھیں، نہ وہ اللہ تعالی سے مل جل کر دعا کرتے اور نہ اس کی کوئی کتاب تلاوت کرتے، ان میں سے مرنے والا جہنمی اور زندہ رہنے والا اندها و گندا تھا اور برائیوں کا کوئی حساب نہ تھا، پھر جب اللہ تعالی نے اپنی رحمت سے انہیں نوازنے کا ارادہ فرمایا تو انہیں میں سے ایک رسول مبعوث فرمایا جن پر تمہاری پریشانی بہت گراں گزرتی ہے، وہ تمہاری منفعت کے بڑے ہی حریص و خواہش مند اور ایمان داروں کے ساتھ بڑے ہی شفیق و مہربان ہیں۔ اللہ کا ان پر درود و سلام اور اس کی رحمتیں برکتیں نازل ہوں۔ اس کے باوجود لوگوں نے آپ کو لہولہان کیا اور طرح طرح کے لقب دیئے۔ حالانکہ آپ کے ساتھ اللہ کی طرف سے بولتی ہوئی کتاب تھی، آپ جس کو لے کر کھڑے ہوئے اور اسی کے اذن سے سفر کیا، اور جب آپ کو حق بات کہنے کا حکم ہوا اور جہاد پر ابھارا گیا تو آپ کا رُواں رُواں خوش ہو گیا (امر الٰہی کے سامنے آپ کی قوت و سختی میں جرأت آ گئی)، چنانچہ اللہ تعالی نے آپ کی دلیل کو غالب فرمایا، آپ کے کلمے کو جاری کیا، آپ کی دعوت کو غالب کر دیا، اس طرح آپ دنیا سے پاک صاف رخصت ہوئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کا مشن لے کر اٹھے اور آپ ہی کے نقش قدم پر چلے اور (اس وقت) عرب (کے کچھ قبلے) مرتد ہو گئے اور زکاة دینے سے انکار کر دیا تو انہوں نے صرف وہی چیز قبول کی جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول کیا تھا۔ میانوں سے تلوار نکالی اور آگ بھڑکا دی پھر حق والوں کے ساتھ مل کر باطل پرستوں کی سرکوبی کی اور ان کے جوڑوں کو توڑتے الگ کرتے رہے اور ان کے خون سے زمین کو سیراب کرتے رہے یہاں تک کہ انہیں وہیں واپس ہونے پر مجبور کر دیا جہاں سے وہ نکل بھاگے تھے اور اسی چیز پر واپس لے آئے جس سے وہ بھاگ نکلے تھے (یعنی منکرین زکاة تائب ہو گئے)۔ انہیں الله تعالی کے مال سے جوان اونٹ (یا گائے) ملے جن پر وہ پانی لاتے اور ایک حبشی لونڈی نصیب ہوئی جس نے ان کی اولاد کو دودھ پلایا، وفات سے پہلے اس کی گردن میں ایک گلوبند دیکھا، جس سے وہ بے چین ہو گئے اور وہ آپ کے بعد آنے والے خلیفہ کے سپرد کر دیا اور اپنے ساتھی و دوست (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کے منہاج و طریقے پر پاک و صاف دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ان کے بعد سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ برسر اقتدار آئے اور شہر بسائے، سختی و نرمی کا امتزاج ہوا، آستین و ازار چڑھا کر میدان میں آئے اور تمام امور کے لئے افراد کو تیار کیا، جنگ کے لئے آلات مہیا کئے، اور جب مغیرہ بن شعبہ کے غلام نے انہیں زخمی کر دیا تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو حکم دیا کہ پتہ لگائیں، انہوں نے بتایا کہ آپ کا قاتل مغیرہ بن شعبہ کا غلام ہے، تو الله کا شکر ادا کیا کہ کوئی ایسا صاحب حق ان کا قاتل نہیں جو کہہ سکے کہ غنیمت کے مال میں اس کے ساتھ نا انصافی کی گئی تھی اس کی وجہ سے اس نے قتل کا اقدام کیا، انہیں بھی اللہ کے مال (میں سے) اسّی ہزار سے زیادہ نصیب ملا، اور انہوں نے اللہ کے راستے میں خوب خرچ کیا، اور اپنی اولاد کی کفالت اس مال سے نامناسب سمجھی، اور اپنے بعد آنے والے خلیفہ کے سپرد اس کو کر دیا اور اپنے دونوں ساتھیوں کی طرح پاک و صاف دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ان کے بعد اے عمر (ابن عبدالعزيز) تم جیسے دنیا دار قسم کے لوگ آئے جس کو دنیا کے بادشاہوں نے جنم دیا اور اپنے سینے سے تمہارا منہ بھر دیا، جس میں تم پلے بڑھے اور اسی بادشاہی کی تلاش میں رہے۔ پھر جب تمہیں اس کی ولایت ملی تو تم نے اسے وہیں پہنچا دیا جہاں تک اللہ نے پہنچایا۔ تم نے اس سے دوری اختیار کی، اس پر ستم ڈھایا اور برا سمجھا سوائے اس چیز کے جو اپنے لئے زاد راہ بنائی۔ تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے تمہارے ذر یعہ ہماری مصیبتیں دور فرمائیں اور تمہارے ذر یعہ ہمارے کرب کو دور کر دیا، اس لئے اپنے کام میں لگے رہیے، ادھر ادھر نہ دیکھئے، حق سے بڑھ کر کوئی چیز اچھی (قابل عزت) نہیں، اور باطل سے بڑھ کر کوئی چیز بری اور ذلیل نہیں۔ میں یہ بات کہتا ہوں اور اپنے تمام مومن مرد وعورتوں کے لئے مغفرت کا طالب ہوں۔ ابوایوب نے کہا: عمر بن عبدالعزیز اس چیز کے بارے میں کہتے تھے: میرے لئے ابن الاہتم نے کہا: «امض ولا تلتفت» چلتے رہئے، ادھر ادھر نہ دیکھئے۔
تخریج الحدیث: «إسناده فيه مجهولان. وهو موقوف على ابن الأهتم، [مكتبه الشامله نمبر: 92]»
امام دارمی کے علاوہ کسی اور محدث نے یہ روایت ذکر نہیں کی اور اس میں دو راوی مجہول ہیں۔ اس روایت کو جاحظ نے [البيان والتبيين 117/2-120] میں ذکر کیا ہے۔ وضاحت:
(تشریح حدیث 91) عبداللہ بن الأھتم اس وقت کے بڑے عالم و واعظ تھے، ان کی اس تقریر میں حقیقت بیانی اور حکمت و موعظت ہے، مودت سے بھرپور اس وعظ میں برائی کی نشاندہی اور اچھائی کی ترغیب و تعلیم اور اس پر خلیفۂ خامس سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی تشجیع اور مدح بھی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده فيه مجهولان. وهو موقوف على ابن الأهتم
|