مقدمه مقدمہ 22. باب تَغَيُّرِ الزَّمَانِ وَمَا يَحْدُثُ فِيهِ: زمانے کے تغیر اور اس میں رونما ہونے والے حادثات کا بیان
شقیق (بن سلمہ) سے مروی ہے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم اس وقت کیا کرو گے جب تم ایسے فتنوں میں گھرے ہو گے جس میں جوان تو بوڑھا اور بچہ جوان ہو جائے گا، اور لوگ ان فتنوں (بدعتوں) کو ہی سنت بنا لیں گے، اور جب انہیں بدلنے کی کوشش کی جائے گی تو لوگ کہیں گے: سنت بدل دی گئی، لوگوں نے پوچھا: ابوعبدالرحمٰن! ایسا کب ہوگا؟ فرمایا: جب تمہارے قراء (علماء) بہت ہوں گے اور فقہاء کم ہو جائیں گے، امراء بہت ہوں گے لیکن امانت دار کم ہوں گے، عمل آخرت کے بجائے دنیا کی تلاش ہو گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 191]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [المستدرك 514/4]، [مصنف ابن أبى شيبه 19003]، [البدعة لابن وضاح ص: 78 رقم: 80] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
علقمہ سے مروی ہے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم فتنوں کے وقت میں کیا کرو گے جب ان فتنوں میں بڑا بوڑھا اور بچہ بڑا ہو جائے گا؟ جب ان فتنوں میں کوئی چیز (بدعت) ترک کی جائے گی تو کہا جائے گا سنت ترک کر دی گئی، لوگوں نے کہا ایسا کب ہو گا؟ فرمایا: جب تمہارے علماء ختم ہو جائیں گے اور جاہلوں کی کثرت ہو گی، قراء بہت ہوں گے فقہاء کی قلت ہو گی، امراء بہت ہوں گے امین لوگوں کی قلت ہو گی، آخرت کے (لئے) عمل کرنے کے بجائے دنیا کی تلاش ہو گی، اور دین کو چھوڑ کر دوسری چیزیں سیکھی جائیں گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف يزيد بن أبي زياد ولكن الحديث صحيح بما سبقه، [مكتبه الشامله نمبر: 192]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [البدع ص: 89] و [جامع بيان العلم 1135]۔ لیکن صحیح سند سے یہ روایت پیچھے گزر چکی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف يزيد بن أبي زياد ولكن الحديث صحيح بما سبقه
امام اوزاعی رحمہ اللہ نے کہا: مجھے خبر دی گئی ہے کہ کہا جاتا تھا: ہلاکت ہے عبادت کے علاوہ کسی اور امر میں فقہ حاصل کرنے والے کے لئے اور شبہات کے ذریعہ حرمات کو حلال سمجھنے والوں کے لئے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 193]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [اقتضاء العلم والعمل مع تحقيق الشيخ الباني 119] و [شعب الإيمان 1924، 1925] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف
مسروق سے مروی ہے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تمہارے اوپر جو (وقت) سال آئے گا وہ پچھلے سال (وقت) سے زیادہ برا ہو گا، میرا مقصد یہ نہیں کہ ایک سال دوسرے سے زیادہ سرسبز و شادابی کا سال ہو گا، اور نہ یہ مقصد ہے کہ ایک امیر دوسرے سے زیادہ بہتر ہو گا، مطلب یہ ہے کہ تمہارے علماء اخیار (اچھے لوگ) اور فقہاء رخصت ہو جائیں گے، اور تمہیں ان کا جانشین نہیں مل پائے گا، اور ایسے لوگ آئیں گے جو معاملات و امور کو اپنی رائے کی کسوٹی پر قیاس کریں گے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف مجالد بن سعيد، [مكتبه الشامله نمبر: 194]»
اس اثر کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [البدع 78، 248]، [الفقيه 182/1]، [جامع بيان العلم 2007] لیکن امر واقع یہی ہے اور حدیث صحیح «(إن الله لا يقبض العلم...)» سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 190 سے 194) حدیث میں ہے: الله تعالیٰ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے، بلکہ وہ (پختہ کار) علماء کو اٹھا لے گا حتیٰ کہ جب کوئی عالم نہ رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے، ان سے سوالات کئے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب (و فتوے) دیں گے، اس لئے خود بھی گمراہ ہوں گے اور دیگر لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔ دیکھئے: حدیث نمبر (245) و بخاری (100) مسلم (2673)۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف مجالد بن سعيد
امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے فرمایا: سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس ہے اور قیاس کی ہی بدولت سورج و چاند کی عبادت کی گئی۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 195]»
اس روایت کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [جامع بيان العلم 1675]، [تفسير الطبري 131/8]، [الفقيه والمتفقه 506]، [الإحكام لابن حزم 1381/8] وضاحت:
(تشریح حدیث 194) شیطان کا قیاس یہ تھا کہ مجھے آگ سے پیدا کیا گیا اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں افضل ہوں، اور افضل مفضول کو کیسے سجدہ کرے، جیسا کہ آگے آرہا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
مطر (الوراق) سے مروی ہے کہ حسن رحمہ اللہ نے یہ آیت شریفہ تلاوت فرمائی: «﴿خَلَقْتَنِي مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ﴾» [الأعراف: 12/7] اور کہا ابلیس نے قیاس کیا اور وہ پہلا ہے جس نے قیاس کیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف من أجل محمد بن كثير ومطر، [مكتبه الشامله نمبر: 196]»
اس روایت کی سند میں دو راوی محمد بن کثیر اور مطر الوراق ضعیف ہیں۔ دیکھئے: [تفسير الطبري 131/8]، [الفقيه 506]، [الإحكام 1381/8] وضاحت:
(تشریح حدیث 195) ابلیس نے آیتِ شریفہ کے مطابق قیاس یہ کیا کہ: اے رب! مجھے تو نے آگ سے پیدا کیا اور ان کو (آدم علیہ السلام کو) مٹی سے پیدا فرمایا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف من أجل محمد بن كثير ومطر
مسروق نے کہا: میں ڈرتا ہوں قیاس کروں اور میرا قدم پھسل جائے۔ (یعنی گمراہی میں مبتلا ہو جاؤں)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 197]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [جامع بيان العلم 1676] و [الفقيه 489] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
امام شعبی رحمہ اللہ نے فرمایا: اللہ کی قسم اگر تم قیاس کو معیار بناؤ گے تو حلال کو حرام اور حرام کو حلال کر ڈالو گے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 198]»
اس روایت کی سند بھی صحیح ہے۔ دیکھئے: [جامع بيان العلم 1679] و [الفقيه 183/1] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
امام عامر شعبی رحمہ اللہ کہا کرتے تھے: میرے نزدیک یہ کہنا ”آپ کی کیا رائے ہے“ مبغوض ترین ہے، تمہارا کیا خیال ہے آدمی اپنے ساتھی سے پوچھے تو وہ کہے تمہاری کیا رائے ہے؟ اور عامر قیاس نہیں کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «لم يحكم عليه المحقق، [مكتبه الشامله نمبر: 199]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [الإبانة لابن بطه 605] و [جامع بيان العلم 2095] وضاحت:
(تشریح احادیث 196 سے 199) مذکورہ بالا تمام آثار میں قیاس کی مذمت بیان کی گئی ہے اور قیاس کرنے سے پرہیز و احتیاط کی تلقین ہے، کیونکہ قیاس سے گمراہی اور ضلالت میں پڑنے کا خطرہ ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: لم يحكم عليه المحقق
زبرقان نے کہا: ابووائل نے مجھے اصحاب الرائے (رائے اور قیاس والے) کے پاس بیٹھنے سے منع کیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 200]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [الإبانة 415، 416، 604]، [جامع بيان العلم 2094] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
امام شعبی رحمہ اللہ نے فرمایا: اگر یہ اصحاب الرائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوتے تو قرآن پاک میں عمومی طور پر یہ پایا جاتا: «يسألونك، يسألونك» (یعنی اسی صیغے سے آیات نازل ہوتیں)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 201]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [الإبانه 419/1] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
ابوحمزه میمون سے مروی ہے کہ امام ابراہیم النخعی رحمہ اللہ نے مجھ سے کہا: اے ابوحمزه! میں نے کلام کیا ہے اور اگر کوئی چارہ ہوتا تو میں لب کشائی نہ کرتا، بیشک یہ وقت جس میں، میں کوفہ والوں کا فقیہ ہو گیا ہوں برا وقت ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف ميمون أبي حمزة القصاب، [مكتبه الشامله نمبر: 202]»
اس روایت میں ابوحمزہ ضعیف ہیں، اور یہ اثر [حلية الأولياء 223/4] میں بھی موجود ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف ميمون أبي حمزة القصاب
مجاہد سے مروی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: خبردار! قول و فعل میں قیاس و کلام (فلسفے) سے بچو۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف من أجل ليث وهو: ابن أبي سليم، [مكتبه الشامله نمبر: 203]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ حوالے کے لئے دیکھئے: [العلم لأبي خيثمه 65]، [الفقيه والمتفقه 182/1]، [الإحكام لابن حزم 1278/7] وضاحت:
(تشریح احادیث 199 سے 203) مکایلہ یہ ہے کہ جیسا کوئی کہے تم بھی ویسا ہی کہنے لگو، کوئی جیسا کام کرے تم بھی ویسا ہی کرنے لگو۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف من أجل ليث وهو: ابن أبي سليم
امام شعبی رحمہ اللہ نے کہا: میں (قاضی) شریح رحمہ اللہ کے پاس حاضر ہوا، ان کے پاس (قبیلہ) مراد کا ایک شخص آیا اور پوچھا: ابواميۃ! انگلیوں کی دیت کتنی ہے؟ جواب دیا: ہر انگلی کے بدلے دس اونٹ، اس نے انگوٹھا اور چھوٹی انگلی کو ملایا اور کہا: سبحان اللہ! یہ دونوں برابر ہیں؟ قاضی شریح رحمہ اللہ نے کہا: سبحان اللہ! کیا تمہارا کان اور ہاتھ برابر ہیں؟ کان تو بال یا عمامے سے ڈھک جاتا ہے تو اس میں (آدمی کی) نصف دیت ہے، اور ہاتھ میں (ایسا نہیں) اس میں بھی نصف دیت ہے۔ تمہارا برا ہو، سنت تمہارے قیاس پر مقدم ہے، سو سنت کی اتباع کرو بدعت نہ ایجاد کرو، اور جب تک تم حدیث کو پکڑے رکھو گے گمراہ نہ ہو گے۔ ابوبکر الہذلی (راوی) نے کہا: امام شعبی رحمہ اللہ نے مجھ سے کہا: اے ہذلی! اگر تمہارا کوئی لولا لنگڑا آدمی قتل کر دیا جائے، یا گہوارے میں (دودھ پیتا) بچہ مار ڈالا جائے تو کیا دونوں کی دیت برابر نہ ہو گی؟ میں نے کہا: جی ہاں! دونوں کی دیت برابر ہے، کہا: پھر قیاس کہاں گیا؟
تخریج الحدیث: «في إسناده أبو بكر الهذلي وهو متروك، [مكتبه الشامله نمبر: 204]»
اس روایت کی سند میں ابوبکر الہذلی متروک ہیں۔ اس اثر کو عبدالرزاق نے مصنف میں بہت مختصر ذکر کیا ہے۔ دیکھئے: [المصنف 17703] و [جامع بيان العلم 2024] وضاحت:
(تشریح حدیث 203) اگرچہ اس قول کی نسبت قاضی شریح کی طرف صحیح نہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ حدود الله تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہیں، قیاس کی ان میں گنجائش ہی نہیں۔ « ﴿تِلْكَ حُدُودُ اللّٰهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا﴾ [البقرة: 229] » قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: في إسناده أبو بكر الهذلي وهو متروك
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے کہا: قرآن کریم لوگوں پر آسان ہو جائے گا یہاں تک کہ عورت بچے اور مرد سب اس کو پڑھیں گے، آدمی کہے گا میں نے قرآن پاک پڑھا لیکن میری پیروی نہیں کی جاتی، قسم اللہ کی میں پھر اس کو (لے کر کھڑا ہوں گا) ضرور پڑھوں گا، شاید میری اتباع کی جائے، چنانچہ پھر پڑھے گا اور پھر بھی کوئی اس کی پیروی نہ کرے گا، تو وہ کہے گا: میں نے قرآن پڑھا لیکن میری پیروی نہیں کی گئی، میں اسے لے کر ان میں کھڑا ہوا، پھر بھی کوئی فائدہ نہ ہوا، اب میں اپنے گھر میں مسجد بناؤں گا شاید میری پیروی کی جائے، چنانچہ وہ اپنے گھر میں مسجد بنائے گا، پھر بھی اس کی پیروی نہ کی جائے گی تو وہ کہے گا: میں نے قرآن پڑھا لیکن میری پیروی نہ کی گئی، اسے لے کر کھڑا ہوا پھر بھی اتباع نہ کی گئی، اپنے گھر میں مسجد بنائی پھر بھی اتباع نہ کی گئی۔ قسم اللہ کی اب میں ایسی باتیں ان کے لئے لاوں گا جسے وہ اللہ عزوجل کی کتاب میں پائیں گے اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوں گی شاید اس وقت میری پیروی کی جائے۔ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: خبردار! جو وہ بتائے اس سے بچنا (وہ قرآن و سنت کے علاوہ) جو کچھ لائے گا وہ گمراہی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 205]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [سنن أبى داؤد 4611 بغير هذا السياق]، [البدع 59، 63]، [الإبانه 143]، [الشريعة ص: 54، 55]، [المعرفة والتاريخ 321/2]، [شرح أصول اعتقاد أهل السنة 116، 117 بعدة طرق] وضاحت:
(تشریح حدیث 204) اس اثر میں صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتایا ہے کہ جب فتنے رونما ہوں گے تو لوگ قرآن پاک کی پیروی کی طرف دھیان نہ دیں گے تو قرآن پڑھنے والے اپنی طرف سے مسائل گھڑ لیں گے، جن کا قرآن و حدیث سے کوئی ثبوت نہ ہوگا، سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے ایسے لوگوں سے بچنے اور ان کی باتیں سننے اور عمل کرنے سے منع کیا اور بتایا ہے کہ قرآن و حدیث کے علاوہ سب کچھ سراسر گمراہی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|