مقدمه مقدمہ 30. باب في اجْتِنَابِ الأَهْوَاءِ: خواہشات سے پرہیز کرنے کا بیان
امام اوزاعی رحمہ اللہ نے کہا: عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے فرمایا: تم لوگوں کو جب کسی بارے میں دوسرے عام لوگوں سے کانا پھوسی کرتے دیکھو تو سمجھ لو کہ وہ گمراہی کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده منقطع الأوزاعي لم يدرك ابن عبد العزيز، [مكتبه الشامله نمبر: 315]»
اس روایت کی سند منقطع ہے۔ دیکھئے: [الزهد لأحمد ص: 289]، [شرح أصول اعتقاد أهل السنة 251]، [جامع بيان العلم 1774] وضاحت:
(تشریح حدیث 313) کانا پھوسی یا سرگوشی نصِ قرآنی سے منع ہے: « ﴿فَلَا تَتَنَاجَوْا بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ﴾ [المجادلة: 9] » یعنی گناه و سرکشی میں کانا پھوسی نہ کرو۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده منقطع الأوزاعي لم يدرك ابن عبد العزيز
امام اوزاعی رحمہ اللہ نے فرمایا: ابلیس نے اپنے احباب سے کہا کہ تم انسان کو کیسے پھسلاتے (گمراہ کرتے) ہو؟ انہوں نے کہا: ہم ہر طرح سے اسے پھسلاتے ہیں، ابلیس نے کہا: کیا تم استغفار کے ذریعہ ان پر حاوی ہوتے ہو؟ (یعنی استغفار سے روک کر)، انہوں نے کہا: ہائے افسوس استغفار تو توحید سے جڑا ہے، اس سے کیسے روکیں؟ ابلیس نے کہا: میں ان کے درمیان ایسی چیزیں رائج کر دوں گا کہ وہ اس کی مغفرت طلب نہیں کریں گے، چنانچہ اس نے وہ چیزیں خواہشات کی صورت میں پھیلا دیں (یعنی خواہشات نفسانی میں انہیں الجھا کر استغفار سے بھی دور کر دیا)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 316]»
اس روایت کی یہ سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [شرح اعتقاد 237]، [العلم 389/3] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
مجاہد رحمہ اللہ نے فرمایا: مجھے پتہ نہیں دو میں سے کون سی نعمت میرے لئے عظیم تر ہے، مجھے الله تعالیٰ نے اسلام کی روشنی بخشی یا ان خواہشات سے محفوظ رکھا یہ عظیم نعمت ہے۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات ولكن عبد الرحمن بن محمد المحاربي مدلس وقد عنعن، [مكتبه الشامله نمبر: 317]»
اس روایت کی سند میں عبدالرحمٰن مدلس ہیں اور ”عن“ سے روایت کیا ہے۔ یہ روایت [حلية الأولياء 392/3] میں موجود ہے، اور اس کی سند بھی ضعیف ہے، لیکن اس کا شاہد [شرح اعتقاد أهل السنة 230] اور [حلية الأولياء 218/2] میں موجود ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات ولكن عبد الرحمن بن محمد المحاربي مدلس وقد عنعن
حبہ بن جوین نے کہا: میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا یا یہ کہا: سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: کوئی آدمی پوری زندگی روزے رکھے اور قیام کرے، پھر رکن یمانی اور مقام ابراہیم کے پاس قتل کر دیا جائے تو بھی اس کو الله تعالیٰ قیامت کے دن ان لوگوں کے ساتھ اٹھائے گا جن کو وہ ہدایت پر سمجھتا تھا۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 318]»
اس اثر کی سند میں مسلم بن کیسان اعور ضعیف ہیں، اور دارمی کے علاوہ کسی نے اسے روایت نہیں کیا، اس کی تائید آنے والی روایات سے ہوتی ہے۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 314 سے 317) یعنی ہمیشہ روزہ رکھنے اور قیام کرنے والا اور شہید بھی ان لوگوں کے ساتھ نیت کے مطابق اٹھایا جائے گا جن کو وہ محبوب رکھتا تھا، جیسا کہ آگے صحیح روایت میں آ رہا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
ابوصادق سے مروی ہے کہ سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر کوئی آدمی اپنا سر حجر اسود پر رکھے اور دن کو روزہ رات کو قیام کرے تب بھی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو اس کی نیت کے مطابق اٹھائے گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف محمد بن حميد، [مكتبه الشامله نمبر: 319]»
اس روایت کی سند میں محمد بن حمید ضعیف ہیں، اور صرف امام دارمی کی روایت ہے، لیکن حدیث: «يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى نِيَّاتِهِمْ» سے اس کی تائید ہوتی ہے جو متفق علیہ حدیث ہے۔ دیکھئے: [بخاري: 2118]، [مسلم: 2882] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف محمد بن حميد
ابوصادق نے ربیعہ بن ناجذ سے روایت کیا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم لوگوں کے درمیان ایسے رہو جیسے پرندوں میں شہد کی مکھی رہتی ہے کہ ہر پرندہ اسے ضعیف و ناتواں سمجھتا ہے، اور اگر پرندے یہ جان لیں کہ اس کے پیٹ میں کیسی برکت ہے تو وہ اس کو حقیر نہ جانیں، لوگوں سے اپنی زبان، اجسام کے ساتھ میل ملاپ رکھو اور اپنے اعمال و قلوب کے ساتھ علاحدگی رکھو کیونکہ آدمی کے لئے وہی ہے جو اس نے کمایا، اور وہ قیامت کے دن اس کے ساتھ ہو گا جس سے اس نے محبت کی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو موقوف على علي، [مكتبه الشامله نمبر: 320]»
اس اثر کی سند صحیح ہے، لیکن سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر موقوف ہے، اس لئے ہوسکتا ہے انہیں کا قول ہو، اور یہ بہترین اقوال زرین کا مجموعہ ہے، آخری جملہ «المرء مع من أحب» کے مطابق ہے۔ اس روایت کو صرف امام دارمی نے روایت کیا ہے۔ ابوصادق عبداللہ بن ناجذ الازدی ہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو موقوف على علي
امام زہری رحمہ اللہ نے فرمایا: اچھی رائے علم کا بہترین وزیر ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 321]»
اس قول کی سند صحیح ہے، اور یہ اثر [جامع بيان العلم 1615] میں موجود ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
مسروق رحمہ اللہ نے فرمایا: آدمی کے عالم ہونے کے لیے کافی ہے کہ وہ اللہ سے ڈرے اور جاہل کے لئے کافی ہے کہ وہ اپنے علم پر گھمنڈ کرے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح موقوفا، [مكتبه الشامله نمبر: 322]»
اس روایت کی سند موقوف ہے۔ دیکھئے: [حلية الأولياء 95/2]، [شعب الإيمان 746، 848]، [جامع بيان العلم 962]، [الزهد لأحمد 158]۔ اس کی سند میں زائدہ: ابن قدامہ اور مسلم: ابن صبیح ہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح موقوفا
مسلم بن صبیح نے کہا: مسروق رحمہ اللہ نے فرمایا: آدمی کو چاہیے کہ اس کے لئے ایسے اوقات و مجالس ہوں جن میں وہ اپنے گناہوں کو یاد کرے اور اللہ تعالیٰ سے ان کی مغفرت طلب کرے۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 323]»
اس روایت کی سند بھی موقوف ہے، لیکن اس روایت کو ابن ابی شیبہ نے [مصنف 16720] میں صحیح سند سے ذکر کیا ہے۔ نیز دیکھئے: [حلية الأولياء 97/2] وضاحت:
(تشریح احادیث 317 سے 322) ان روایات میں نفس کی پیروی سے بچنے، نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنے اور اچھے عمل کرنے کی ترغیب ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
|