مقدمه مقدمہ 24. باب الاِقْتِدَاءِ بِالْعُلَمَاءِ: علماء کی اقتداء کرنے کا بیان
امام ابراہیم النخعی رحمہ اللہ نے فرمایا: میں نے اسلاف کو پایا، اگر ان میں سے کوئی ناخن کے برابر تجاوز نہ کرتا تو میں بھی اس سے آگے نہ بڑھتا (یعنی تجاوز نہ کرتا)۔ کسی قوم کی رسوائی کے لئے کافی ہے کہ تم ان کے افعال کی مخالفت کرو۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف أبي حمزة وهو: ميمون القصاب، [مكتبه الشامله نمبر: 224]»
اس اثر کی سند ابوحمزه میمون القصاب کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن [حلية الأولياء 227/4] میں اسی کے ہم معنی روایت دوسری صحیح سند سے موجود ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف أبي حمزة وهو: ميمون القصاب
عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ نے آیت «﴿أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ ....﴾» [النسا: 59/4] کی تفسیر میں کہا «اولي الامر» اہل علم و فقہ ہیں اور «طاعة الرسول» کتاب و سنت کی اتباع ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 225]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [تفسير الطبري 147/5]، [الفقيه 101]، [الدر المنثور 176/2] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
ابراہیم بن ادھم نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن شبرمۃ سے کسی چیز کے بارے میں پوچھا جس کا مسئلہ میرے لئے بہت اہم تھا، میں نے عرض کیا: اللہ آپ پر رحم فرمائے اس بارے میں غور کیجئے، انہوں نے کہا: اگر میری سمجھ میں آ گیا اور حدیث میں مجھے مل گیا تو قطعاً توقف نہیں کروں گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 226]»
اس اثر کی سند صحیح ہے اور یہ اثر کہیں اور نہ مل سکا۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”علم سیکھو اور اسے لوگوں کو سکھاؤ، علم فرائض سیکھو اور اسے لوگوں کو سکھلاؤ، قرآن سیکھو اور اسے لوگوں کو سکھاؤ، یقیناً میں وفات پانے والا ہوں اور علم بھی سکڑتا جائے گا، فتنے ظاہر ہوں گے یہاں تک کہ دو آدمی کسی فریضے کے بارے میں اختلاف کریں گے تو کوئی ایسا نہیں ملے گا جو ان کے درمیان فیصلہ کر دے۔“
تخریج الحدیث: «في إسناده ثلاث علل: ضعف عثمان بن الهيثم والانقطاع وجهالة سليمان، [مكتبه الشامله نمبر: 227]»
اس روایت کی سند میں کئی علل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے، گرچہ بہت سے محدثین نے اسے ذکر کیا ہے۔ دیکھئے: [ترمذي2092]، [نسائي 6306]، [المستدرك 333/4]، [دارقطني 82/4]، [بيهقي 208/6] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: في إسناده ثلاث علل: ضعف عثمان بن الهيثم والانقطاع وجهالة سليمان
روایت کیا سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ بن جبل اور سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما کو یمن کی طرف بھیجا تو فرمایا: تم دونوں اعتماد رکھنا، اور ایک دوسرے کی بات ماننا، آسانی کرنا اور نفرت نہ پھیلانا، چنانچہ یہ دونوں حضرات یمن پہنچے تو سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا اور لوگوں کو اسلام پر ابھارا اور انہیں قرآن کو سمجھنے کا حکم دیا اور کہا: جب تم نے ایسا کر لیا تو پھر مجھ سے پوچھنا، میں تمہیں جنت و جہنم والے لوگوں کے بارے میں بتاؤں گا، لہٰذا جب تک اللہ کی مشیت رہی وہ لوگ خاموش رہے، پھر سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے کہا: آپ نے ہمیں حکم دیا تھا کہ اگر ہم نے قرآن کو سمجھ لیا تو آپ سے سوال کریں گے تو آپ ہمیں جنتی اور جہنمی لوگوں کے بارے میں بتائیں گے، چنانچہ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: جب آدمی کو بھلائی کے ساتھ یاد کیا جائے تو وہ جنتی لوگوں میں سے ہے، اور برائی کے ساتھ یاد کیا جائے تو جہنمیوں میں سے ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لانقطاعه: زياد بن مخراق لم يسمع من ابن عمر فيما نعلم، [مكتبه الشامله نمبر: 228]»
اس روایت کی سند میں انقطاع ہے، لیکن «تساندا....» مرفوع صحیح ہے۔ دیکھئے: [مجمع الزوائد 765] و [مسند أبي يعلی 7319] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لانقطاعه: زياد بن مخراق لم يسمع من ابن عمر فيما نعلم
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! سب سے زیادہ شریف کون ہے؟ فرمایا: ”جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہو“، عرض کیا کہ ہم اس کے متعلق نہیں پوچھ رہے ہیں، فرمایا: ”پھر اللہ کے نبی یوسف بن نبی اللہ بن نبی اللہ بن خلیل اللہ (سب سے زیادہ شریف ہیں)“، صحابہ نے عرض کیا: ہم اس کے متعلق بھی نہیں پوچھتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا عرب کے خاندانوں کے بارے میں پوچھتے ہو؟ سنو جو جاہلیت میں شریف ہیں اسلام میں بھی شریف ہیں جب کہ دین کی سمجھ انہیں آ جائے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 229]»
یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3374]، [مسلم 2378]، [ابويعلی 6070]، [ابن حبان 92] و [مسند الحميدي 1076] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو متفق عليه
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا: اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی چاہتا ہے اس کو دین کی سمجھ دے دیتا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح كاتب الليث ولكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 230]»
یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 71، 7312]، [مسلم 1037]، [أبويعلی 7381]، [ابن حبان 89] و [الفقيه والمتفقه 9] وضاحت:
(تشریح احادیث 223 سے 230) اس حدیث میں علم حاصل کرنے کی اور عالم و فقیہ کی فضیلت ہے، نیز اس میں علومِ دینیہ حاصل کرنے والوں کے لئے بشارت بھی ہے کہ ان کی یہ رہنمائی باری تعالیٰ کی خاص عنایت سے ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح كاتب الليث ولكن الحديث متفق عليه
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بہتری چاہتا ہے تو اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 231]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسند أحمد 306/1]، [ترمذي 2647]، [الفقيه 4] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے سنا: ”اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ دے دیتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 232]»
اس روایت کی بھی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسند أحمد 92/4] و [مشكل الآثار 280/2] وضاحت:
(تشریح احادیث 230 سے 232) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ الله تعالیٰ جس کو علمِ دین سے نواز دے وہ بڑا ہی خوش قسمت ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
محمد بن جبیر بن مطعم نے اپنے والد سے روایت کیا، انہوں نے حجۃ الوداع میں عرفہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ میں سنا: ”اے لوگو! بیشک میں نہیں جانتا کہ آج کے بعد اس مقام پر پھر تم سے ملاقات کر سکوں گا، پس اللہ تعالیٰ رحم کرے اس شخص پر جس نے آج میری بات سنی اور اسے یاد کر لیا، کچھ فقہ کو سیکھنے والے (خود فقیہ نہیں) جان نہیں پاتے، اور بہت سے حامل فقہ لیجاتے ہیں فقہ کو اپنے سے زیادہ فقیہ کے پاس۔ اور اے لوگو! جان لو کہ تمہارے مال اور خون آج کے دن کی، اس مہینے، اور اس شہر کی حرمت کی طرح ایک دوسرے پر حرام ہیں۔ اور سنو! دل تین چیزوں پر خیانت نہ کریں گے، اللہ کے لئے عمل خالص، حکام کے ساتھ خیر خواہی، اور مسلمانوں کی جماعت کو لازم پکڑنے میں، بیشک ان کی دعا ان کو گھیرے میں لئے ہوئے ہے۔ (یعنی دعا آفات وبلیات سے حفاظت کے لیے ان کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔)“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن والحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 233]»
اس حدیث کی سند حسن اور متن صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1739]، [مسلم 1218]، [أبويعلی 7413]، [مجمع الزوائد 598]، [المحدث الفاصل 3، 4] وضاحت:
(تشریح حدیث 232) اس میں اہلِ حدیث کے لئے دعائے خیر ہے۔ علامہ بدیع الزماں نے کہا: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فقہ نام ہے حدیث کا، اس کی جانکاری اور تحقیق سے آدمی عند الله فقیہ ہوتا ہے، اور بشارت ہے اس میں کہ بعد زمانۂ صحابہ کے تابعین میں بکثرت فقہاء ہوں گے اور احادیث جمع کریں گے۔ دیکھئے شرح آگے آنے والی حدیث «نَضَّرَ اللّٰهُ إِمْرَأً سَمِعَ مِنَّا شَيْئًا.» قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن والحديث صحيح
محمد بن جبیر بن مطعم نے اپنے والد سے روایت کیا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں مقام خیف کے پاس کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”تروتازہ رکھے اللہ تعالیٰ اس شخص کو جس نے میری بات سنی اور اسے حفظ کر لیا، پھر جس نے نہیں سنا اس تک اس بات کو پہنچا دیا، کچھ حامل فقہ و حدیث فقیہ نہیں ہوتے اور بہت سے حامل فقہ و حدیث لیجاتے ہیں فقہ کو اپنے سے زیادہ فقیہ کے پاس۔“ تین چیزیں جن پر کسی مومن کا دل خیانت نہیں کرے گا (یا حِقد نہیں رکھے گا) اللہ کے لئے عمل خالص، حکام و امراء کی اطاعت، اور لزوم الجماعۃ، ان کی دعا ان کو گھیرے میں لئے ہوئے ہوتی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 234]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے لیکن معنی صحیح ہے، جیسا کہ پچھلی حدیث کی تخریج میں گزرا۔ مزید تخریج کے لئے دیکھئے: [مسند أبي يعلی 7413]، [ترمذي 2658]، [ابن ماجه 232]، [أبوداؤد 3660] و [مجمع الزوائد 598] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح
عبدالرحمٰن بن ابان بن عثمان نے اپنے والد ابان سے روایت کیا کہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ دوپہر کے وقت مروان بن الحکم کے پاس سے نکلے، میں نے کہا کہ اس وقت مروان کے پاس سے ان کے نکلنے کا مطلب یہ ہے کہ اس (مروان) نے آپ سے کسی چیز کی بابت سوال کیا ہے۔ چنانچہ میں زید کے پاس آیا اور میں نے ان سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا: ہاں انہوں (مروان) نے مجھ سے اس حدیث کے بارے میں سوال کیا جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تروتازہ رکھے اللہ تعالیٰ اس شخص کو جس نے ہم سے کوئی حدیث سنی اور اس کو یاد کر لیا اور جو اس سے زیاده یاد رکھنے والا ہو اس تک پہنچا دیا، کیونکہ کچھ حامل فقہ فقیہ نہیں ہوتے اور کچھ حامل فقہ اس حدیث کو اپنے سے زیادہ یاد رکھنے والے کے پاس لے جاتے ہیں، کسی بھی مسلمان کا دل تین خصلتوں پر اعتقاد رکھے تو جنت میں داخل ہو گا“، ابان نے کہا: میں نے دریافت کیا وہ تین خصلتیں کیا ہیں؟ فرمایا: ”اللہ کے لئے عمل خالص کرنے میں، دوسرے مسلمان حکام کی خیر خواہی کرنے میں، تیسرے مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ ملے رہنے میں، اس لئے کہ مسلمانوں کی دعا ان کو پیچھے سے گھیر لیتی ہے۔ اور جس کی نیت آخرت کی ہو اللہ تعالیٰ اس کے دل کو مستغنی کر دیتا ہے اور الله تعالیٰ ان کے بکھرے کاموں کو جمع کر دیتا ہے اور دنیا اس کے پاس خوشی خوشی آتی ہے۔ اور جس کی نیت دنیا کی ہو اللہ اس کے کاموں میں تفریق ڈال دیتا ہے اور غریبی و محتاجگی کو اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کر دیتا ہے اور دنیا سے اس کو اتنا ہی ملتا ہے جتنا اس کے لئے مقدر کر دیا گیا ہے۔“ ابان نے کہا میں نے آپ سے دریافت کیا کہ صلاة الوسطیٰ کون سی ہے تو بتایا ظہر کی نماز۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 235]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [صحيح ابن حبان 67، 680] و [مجمع الزوائد 587، 598] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے خطبہ دیا اور فرمایا: ”تروتازہ رکھے اللہ تعالیٰ اس شخص کو جس نے ہم سے کوئی حدیث سنی اور جیسے سنی ویسے ہی (دوسروں) تک پہنچا دی، کیونکہ بعض وہ لوگ جن کو حدیث پہنچائی گئی سننے والے سے زیاده یاد رکھنے والے ہوتے ہیں۔ تین چیزیں ہیں جن پر کسی مسلمان کا دل خیانت نہیں کرے گا: اللہ کے لئے عمل خالص، ہر مسلمان کے لئے خیر خواہی اور مسلمانوں کی جماعت کا لازم پکڑنا، کیونکہ ان کی دعائیں ان کو پیچھے سے گھیر لیتی ہیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف غير أن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 236]»
اس حدیث کی سند ضعیف ہے، لیکن دوسری سند سے حدیث صحیح ہے، جیسا کہ پچھلی احادیث اور تخریج میں گزر چکا ہے۔ نیز دیکھئے: [مجمع الزوائد 588] وضاحت:
(تشریح احادیث 233 سے 236) ان تمام احادیث میں علم حاصل کرنے والوں کے لئے بشارت ہے کہ ان کے چہرے دنیا و آخرت میں تر و تازہ رہیں گے، اور یہ حقیقت ہے ہم نے کتنے ایسے عالم اور محدّث دیکھے ہیں جن کے نورانی چہرے علم و عرفان کی نعمت سے جگمگاتے تھے «(جعلنا اللّٰه منهم)» نیز ان احادیث میں طلابِ علم کی درجہ بندی ہے، جس میں سے یقیناً کچھ مجتہد اور سمجھدار ہوتے ہیں اور کچھ کم سمجھ ہوتے ہیں۔ ان احادیث میں خلوص وللّٰہیت، وعظ و نصیحت اور اتفاق و اتحاد کی ترغیب بھی ہے اور انتشار و افتراق سے بچنے کی تاکید بھی۔ واللہ علم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف غير أن الحديث صحيح
|