سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
مقدمه
مقدمہ
24. باب الاِقْتِدَاءِ بِالْعُلَمَاءِ:
علماء کی اقتداء کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 224
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا منصور بن سلمة الخزاعي، عن شريك، عن ابي حمزة، عن إبراهيم، قال: "لقد ادركت اقواما لو لم يجاوز احدهم ظفرا، لما جاوزته، كفى إزراء على قوم ان تخالف افعالهم".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مَنْصُورُ بْنُ سَلَمَةَ الْخُزَاعِيُّ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: "لَقَدْ أَدْرَكْتُ أَقْوَامًا لَوْ لَمْ يُجَاوِزْ أَحَدُهُمْ ظِفْرًا، لَمَا جَاوَزْتُهُ، كَفَى إِزْرَاءً عَلَى قَوْمٍ أَنْ تُخَالَفَ أَفْعَالُهُمْ".
امام ابراہیم النخعی رحمہ اللہ نے فرمایا: میں نے اسلاف کو پایا، اگر ان میں سے کوئی ناخن کے برابر تجاوز نہ کرتا تو میں بھی اس سے آگے نہ بڑھتا (یعنی تجاوز نہ کرتا)۔ کسی قوم کی رسوائی کے لئے کافی ہے کہ تم ان کے افعال کی مخالفت کرو۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف أبي حمزة وهو: ميمون القصاب، [مكتبه الشامله نمبر: 224]»
اس اثر کی سند ابوحمزه میمون القصاب کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن [حلية الأولياء 227/4] میں اسی کے ہم معنی روایت دوسری صحیح سند سے موجود ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف أبي حمزة وهو: ميمون القصاب
حدیث نمبر: 225
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا يعلى، حدثنا عبد الملك، عن عطاء: اطيعوا الله واطيعوا الرسول واولي الامر منكم سورة النساء آية 59، قال: "اولو العلم والفقه، وطاعة الرسول: اتباع الكتاب والسنة".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا يَعْلَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ، عَنْ عَطَاءٍ: أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الأَمْرِ مِنْكُمْ سورة النساء آية 59، قَالَ: "أُولُو الْعِلْمِ وَالْفِقْهِ، وَطَاعَةُ الرَّسُولِ: اتِّبَاعُ الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ".
عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ نے آیت «﴿أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ ....﴾» [النسا: 59/4] کی تفسیر میں کہا «اولي الامر» اہل علم و فقہ ہیں اور «طاعة الرسول» کتاب و سنت کی اتباع ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 225]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [تفسير الطبري 147/5]، [الفقيه 101]، [الدر المنثور 176/2]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 226
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا محمد بن يوسف، حدثنا إبراهيم بن ادهم، قال: سالت ابن شبرمة عن شيء، وكانت عندي مسالة شديدة، فقلت: رحمك الله، انظر فيها، قال: "إذا وضح لي الطريق، ووجدت الاثر، لم احبس".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَدْهَمَ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ شُبْرُمَةَ عَنْ شَيْءٍ، وَكَانَتْ عِنْدِي مَسْأَلَةٌ شَدِيدَةٌ، فَقُلْتُ: رَحِمَكَ اللَّهُ، انْظُرْ فِيهَا، قَالَ: "إِذَا وَضَحَ لِيَ الطَّرِيقُ، وَوَجَدْتُ الْأَثَرَ، لَمْ أَحْبَسْ".
ابراہیم بن ادھم نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن شبرمۃ سے کسی چیز کے بارے میں پوچھا جس کا مسئلہ میرے لئے بہت اہم تھا، میں نے عرض کیا: اللہ آپ پر رحم فرمائے اس بارے میں غور کیجئے، انہوں نے کہا: اگر میری سمجھ میں آ گیا اور حدیث میں مجھے مل گیا تو قطعاً توقف نہیں کروں گا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 226]»
اس اثر کی سند صحیح ہے اور یہ اثر کہیں اور نہ مل سکا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 227
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عثمان بن الهيثم، حدثنا عوف، عن رجل يقال له سليمان بن جابر من اهل هجر، قال: قال ابن مسعود، قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: "تعلموا العلم وعلموه الناس، تعلموا الفرائض وعلموه الناس، تعلموا القرآن وعلموه الناس، فإني امرؤ مقبوض، والعلم سينقص وتظهر الفتن حتى يختلف اثنان في فريضة لا يجدان احدا يفصل بينهما".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ الْهَيْثَمِ، حَدَّثَنَا عَوْفٌ، عَنْ رَجُلٍ يُقَالُ لَهُ سُلَيْمَانُ بْنُ جَابِرٍ مِنْ أَهْلِ هَجَرَ، قَالَ: قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ وَعَلِّمُوهُ النَّاسَ، تَعَلَّمُوا الْفَرَائِضَ وَعَلِّمُوهُ النَّاسَ، تَعَلَّمُوا الْقُرْآنَ وَعَلِّمُوهُ النَّاسَ، فَإِنِّي امْرُؤٌ مَقْبُوضٌ، وَالْعِلْمُ سَيُنْقَصُ وَتَظْهَرُ الْفِتَنُ حَتَّى يَخْتَلِفَ اثْنَانِ فِي فَرِيضَةٍ لَا يَجِدَانِ أَحَدًا يَفْصِلُ بَيْنَهُمَا".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: علم سیکھو اور اسے لوگوں کو سکھاؤ، علم فرائض سیکھو اور اسے لوگوں کو سکھلاؤ، قرآن سیکھو اور اسے لوگوں کو سکھاؤ، یقیناً میں وفات پانے والا ہوں اور علم بھی سکڑتا جائے گا، فتنے ظاہر ہوں گے یہاں تک کہ دو آدمی کسی فریضے کے بارے میں اختلاف کریں گے تو کوئی ایسا نہیں ملے گا جو ان کے درمیان فیصلہ کر دے۔

تخریج الحدیث: «في إسناده ثلاث علل: ضعف عثمان بن الهيثم والانقطاع وجهالة سليمان، [مكتبه الشامله نمبر: 227]»
اس روایت کی سند میں کئی علل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے، گرچہ بہت سے محدثین نے اسے ذکر کیا ہے۔ دیکھئے: [ترمذي2092]، [نسائي 6306]، [المستدرك 333/4]، [دارقطني 82/4]، [بيهقي 208/6]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: في إسناده ثلاث علل: ضعف عثمان بن الهيثم والانقطاع وجهالة سليمان
حدیث نمبر: 228
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يعقوب بن إبراهيم، حدثنا عمر بن ابي خليفة، قال: سمعت زياد بن مخراق ذكر، عن عبد الله بن عمر رضي الله عنه، قال: ارسل رسول الله صلى الله عليه وسلم معاذ بن جبل، وابا موسى إلى اليمن , قال: "تساندا وتطاوعا، وبشرا ولا تنفرا"، فقدما اليمن، فخطب الناس معاذ فحضهم على الإسلام، وامرهم بالتفقه في القرآن، وقال: إذا فعلتم ذلك، فاسالوني اخبركم عن اهل الجنة من اهل النار، فمكثوا ما شاء الله ان يمكثوا، فقالوا لمعاذ: قد كنت امرتنا إذا نحن تفقهنا وقرانا ان نسالك فتخبرنا باهل الجنة من اهل النار، فقال لهم معاذ: إذا ذكر الرجل بخير، فهو من اهل الجنة، وإذا ذكر بشر فهو من اهل النار.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ أَبِي خَلِيفَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ زِيَادَ بْنَ مِخْرَاقٍ ذَكَرَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: أَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، وَأَبَا مُوسَى إِلَى الْيَمَنِ , قَالَ: "تَسَانَدَا وَتَطَاوَعَا، وَبَشِّرَا وَلَا تُنَفِّرَا"، فَقَدِمَا الْيَمَنَ، فَخَطَبَ النَّاسَ مُعَاذٌ فَحَضَّهُمْ عَلَى الْإِسْلَامِ، وَأَمَرَهُمْ بِالتَّفَقُّهِ فِي الْقُرْآنِ، وَقَالَ: إِذَا فَعَلْتُمْ ذَلِكَ، فَاسْأَلُونِي أُخْبِرْكُمْ عَنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، فَمَكَثُوا مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَمْكُثُوا، فَقَالُوا لِمُعَاذٍ: قَدْ كُنْتَ أَمَرْتَنَا إِذَا نَحْنُ تَفَقَّهْنَا وَقَرَأْنَا أَنْ نَسْأَلَكَ فَتُخْبِرَنَا بِأَهْلِ الْجَنَّةِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، فَقَالَ لَهُمْ مُعَاذٌ: إِذَا ذُكِرَ الرَّجُلُ بِخَيْرٍ، فَهُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَإِذَا ذُكِرَ بِشَرٍّ فَهُوَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ.
روایت کیا سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ بن جبل اور سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما کو یمن کی طرف بھیجا تو فرمایا: تم دونوں اعتماد رکھنا، اور ایک دوسرے کی بات ماننا، آسانی کرنا اور نفرت نہ پھیلانا، چنانچہ یہ دونوں حضرات یمن پہنچے تو سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا اور لوگوں کو اسلام پر ابھارا اور انہیں قرآن کو سمجھنے کا حکم دیا اور کہا: جب تم نے ایسا کر لیا تو پھر مجھ سے پوچھنا، میں تمہیں جنت و جہنم والے لوگوں کے بارے میں بتاؤں گا، لہٰذا جب تک اللہ کی مشیت رہی وہ لوگ خاموش رہے، پھر سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے کہا: آپ نے ہمیں حکم دیا تھا کہ اگر ہم نے قرآن کو سمجھ لیا تو آپ سے سوال کریں گے تو آپ ہمیں جنتی اور جہنمی لوگوں کے بارے میں بتائیں گے، چنانچہ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: جب آدمی کو بھلائی کے ساتھ یاد کیا جائے تو وہ جنتی لوگوں میں سے ہے، اور برائی کے ساتھ یاد کیا جائے تو جہنمیوں میں سے ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لانقطاعه: زياد بن مخراق لم يسمع من ابن عمر فيما نعلم، [مكتبه الشامله نمبر: 228]»
اس روایت کی سند میں انقطاع ہے، لیکن «تساندا....» مرفوع صحیح ہے۔ دیکھئے: [مجمع الزوائد 765] و [مسند أبي يعلی 7319]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لانقطاعه: زياد بن مخراق لم يسمع من ابن عمر فيما نعلم
حدیث نمبر: 229
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب بن إبراهيم، حدثنا يحيى بن سعيد القطان، عن عبيد الله، قال: سمعت سعيد بن ابي سعيد يحدث، عن ابيه، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: قيل: يا رسول الله، اي الناس اكرم؟، قال: "اتقاهم"، قالوا: ليس عن هذا نسالك، قال:"فيوسف بن يعقوب نبي الله بن نبي الله بن خليل الله"، قالوا: ليس عن هذا نسالك، قال:"فعن معادن العرب تسالوني؟ خيارهم في الجاهلية خيارهم في الإسلام إذا فقهوا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ أَبِي سَعِيدٍ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ النَّاسِ أَكْرَمُ؟، قَالَ: "أَتْقَاهُمْ"، قَالُوا: لَيْسَ عَنْ هَذَا نَسْأَلُكَ، قَالَ:"فَيُوسُفُ بْنُ يَعْقُوبَ نَبِيُّ اللَّهِ بْنُ نَبِيِّ اللَّهِ بْنِ خَلِيلِ اللَّهِ"، قَالُوا: لَيْسَ عَنْ هَذَا نَسْأَلُكَ، قَالَ:"فَعَنْ مَعَادِنِ الْعَرَبِ تَسْأَلُونِي؟ خِيَارُهُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ خِيَارُهُمْ فِي الْإِسْلَامِ إِذَا فَقُهُوا".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! سب سے زیادہ شریف کون ہے؟ فرمایا: جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہو، عرض کیا کہ ہم اس کے متعلق نہیں پوچھ رہے ہیں، فرمایا: پھر اللہ کے نبی یوسف بن نبی اللہ بن نبی اللہ بن خلیل اللہ (سب سے زیادہ شریف ہیں)، صحابہ نے عرض کیا: ہم اس کے متعلق بھی نہیں پوچھتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا عرب کے خاندانوں کے بارے میں پوچھتے ہو؟ سنو جو جاہلیت میں شریف ہیں اسلام میں بھی شریف ہیں جب کہ دین کی سمجھ انہیں آ جائے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 229]»
یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3374]، [مسلم 2378]، [ابويعلی 6070]، [ابن حبان 92] و [مسند الحميدي 1076]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو متفق عليه
حدیث نمبر: 230
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله هو ابن صالح، حدثني الليث، عن يزيد بن عبد الله بن اسامة بن الهادي، عن عبد الوهاب، عن ابن شهاب، عن حميد بن عبد الرحمن، عن معاوية رضي الله عنه، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "من يرد الله به خيرا، يفقهه في الدين".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ هُوَ ابْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُسَامَةَ بْنِ الْهَاديِ، عَنْ عَبْدِ الْوَهَّابِ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ مُعَاوِيَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "مَنْ يُرِدْ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا، يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ".
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا: اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی چاہتا ہے اس کو دین کی سمجھ دے دیتا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح كاتب الليث ولكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 230]»
یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 71، 7312]، [مسلم 1037]، [أبويعلی 7381]، [ابن حبان 89] و [الفقيه والمتفقه 9]

وضاحت:
(تشریح احادیث 223 سے 230)
اس حدیث میں علم حاصل کرنے کی اور عالم و فقیہ کی فضیلت ہے، نیز اس میں علومِ دینیہ حاصل کرنے والوں کے لئے بشارت بھی ہے کہ ان کی یہ رہنمائی باری تعالیٰ کی خاص عنایت سے ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح كاتب الليث ولكن الحديث متفق عليه
حدیث نمبر: 231
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا سعيد بن سليمان، عن إسماعيل بن جعفر، عن عبد الله بن سعيد بن ابي هند، عن ابيه، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من يرد الله به خيرا، يفقهه في الدين".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ جَعْفَرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ يُرِدْ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا، يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بہتری چاہتا ہے تو اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 231]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسند أحمد 306/1]، [ترمذي 2647]، [الفقيه 4]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 232
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا حماد بن سلمة، عن جبلة بن عطية، عن ابن محيريز، عن معاوية، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "من يرد الله به خيرا، يفقهه في الدين".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ جَبَلَةَ بْنِ عَطِيَّةَ، عَنْ ابْنِ مُحَيْرِيزٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "مَنْ يُرِدْ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا، يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ".
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے سنا: اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ دے دیتا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 232]»
اس روایت کی بھی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسند أحمد 92/4] و [مشكل الآثار 280/2]

وضاحت:
(تشریح احادیث 230 سے 232)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ الله تعالیٰ جس کو علمِ دین سے نواز دے وہ بڑا ہی خوش قسمت ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 233
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا سليمان بن داود الزهراني، اخبرنا إسماعيل هو ابن جعفر، حدثنا عمرو بن ابي عمرو، عن عبد الرحمن بن الحويرث، عن محمد بن جبير بن مطعم، عن ابيه رضي الله عنه، انه شهد خطبة رسول الله صلى الله عليه وسلم في يوم عرفة في حجة الوداع:"ايها الناس، إني والله لا ادري لعلي لا القاكم بعد يومي هذا بمكاني هذا، فرحم الله من سمع مقالتي اليوم فوعاها، فرب حامل فقه ولا فقه له، ورب حامل فقه إلى من هو افقه منه، واعلموا ان اموالكم ودماءكم حرام عليكم كحرمة هذا اليوم، في هذا الشهر، في هذا البلد، واعلموا ان القلوب لا تغل على ثلاث: إخلاص العمل لله، ومناصحة اولي الامر، وعلى لزوم جماعة المسلمين، فإن دعوتهم تحيط من ورائهم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الزَّهْرَانِيُّ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل هُوَ ابْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنَّهُ شَهِدَ خُطْبَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي يَوْمِ عَرَفَةَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ:"أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي وَاللَّهِ لَا أَدْرِي لَعَلِّي لَا أَلْقَاكُمْ بَعْدَ يَوْمِي هَذَا بِمَكَانِي هَذَا، فَرَحِمَ اللَّهُ مَنْ سَمِعَ مَقَالَتِي الْيَوْمَ فَوَعَاهَا، فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ وَلَا فِقْهَ لَهُ، وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ، وَاعْلَمُوا أَنَّ أَمْوَالَكُمْ وَدِمَاءَكُمْ حَرَامٌ عَلَيْكُمْ كَحُرْمَةِ هَذَا الْيَوْمِ، فِي هَذَا الشَّهْرِ، فِي هَذَا الْبَلَدِ، وَاعْلَمُوا أَنَّ الْقُلُوبَ لَا تُغِلُّ عَلَى ثَلَاثٍ: إِخْلَاصِ الْعَمَلِ لِلَّهِ، وَمُنَاصَحَةِ أُولِي الْأَمْرِ، وَعَلَى لُزُومِ جَمَاعَةِ الْمُسْلِمِينَ، فَإِنَّ دَعْوَتَهُمْ تُحِيطُ مِنْ وَرَائِهِمْ".
محمد بن جبیر بن مطعم نے اپنے والد سے روایت کیا، انہوں نے حجۃ الوداع میں عرفہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ میں سنا: اے لوگو! بیشک میں نہیں جانتا کہ آج کے بعد اس مقام پر پھر تم سے ملاقات کر سکوں گا، پس اللہ تعالیٰ رحم کرے اس شخص پر جس نے آج میری بات سنی اور اسے یاد کر لیا، کچھ فقہ کو سیکھنے والے (خود فقیہ نہیں) جان نہیں پاتے، اور بہت سے حامل فقہ لیجاتے ہیں فقہ کو اپنے سے زیادہ فقیہ کے پاس۔ اور اے لوگو! جان لو کہ تمہارے مال اور خون آج کے دن کی، اس مہینے، اور اس شہر کی حرمت کی طرح ایک دوسرے پر حرام ہیں۔ اور سنو! دل تین چیزوں پر خیانت نہ کریں گے، اللہ کے لئے عمل خالص، حکام کے ساتھ خیر خواہی، اور مسلمانوں کی جماعت کو لازم پکڑنے میں، بیشک ان کی دعا ان کو گھیرے میں لئے ہوئے ہے۔ (یعنی دعا آفات وبلیات سے حفاظت کے لیے ان کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔)

تخریج الحدیث: «إسناده حسن والحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 233]»
اس حدیث کی سند حسن اور متن صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1739]، [مسلم 1218]، [أبويعلی 7413]، [مجمع الزوائد 598]، [المحدث الفاصل 3، 4]

وضاحت:
(تشریح حدیث 232)
اس میں اہلِ حدیث کے لئے دعائے خیر ہے۔
علامہ بدیع الزماں نے کہا: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فقہ نام ہے حدیث کا، اس کی جانکاری اور تحقیق سے آدمی عند الله فقیہ ہوتا ہے، اور بشارت ہے اس میں کہ بعد زمانۂ صحابہ کے تابعین میں بکثرت فقہاء ہوں گے اور احادیث جمع کریں گے۔
دیکھئے شرح آگے آنے والی حدیث «نَضَّرَ اللّٰهُ إِمْرَأً سَمِعَ مِنَّا شَيْئًا.»

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن والحديث صحيح
حدیث نمبر: 234
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا احمد بن خالد، حدثنا محمد هو ابن إسحاق، عن الزهري، عن محمد بن جبير بن مطعم، عن ابيه، قال: قام رسول الله صلى الله عليه وسلم بالخيف من منى، فقال: "نضر الله عبدا سمع مقالتي فوعاها، ثم اداها إلى من لم يسمعها، فرب حامل فقه لا فقه له، ورب حامل فقه إلى من هو افقه منه ثلاث لا يغل عليهن قلب المؤمن: إخلاص العمل لله، وطاعة ذوي الامر، ولزوم الجماعة، فإن دعوتهم تكون من ورائهم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ هُوَ ابْنُ إِسْحَاق، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْخَيْفِ مِنْ مِنًى، فَقَالَ: "نَضَّرَ اللَّهُ عَبْدًا سَمِعَ مَقَالَتِي فَوَعَاهَا، ثُمَّ أَدَّاهَا إِلَى مَنْ لَمْ يَسْمَعْهَا، فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ لَا فِقْهَ لَهُ، وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ ثَلَاثٌ لَا يُغِلُّ عَلَيْهِنَّ قَلْبُ الْمُؤْمِنِ: إِخْلَاصُ الْعَمَلِ لِلَّهِ، وَطَاعَةُ ذَوِي الْأَمْرِ، وَلُزُومُ الْجَمَاعَةِ، فَإِنَّ دَعْوَتَهُمْ تَكُونُ مِنْ وَرَائِهِمْ".
محمد بن جبیر بن مطعم نے اپنے والد سے روایت کیا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں مقام خیف کے پاس کھڑے ہوئے اور فرمایا: تروتازہ رکھے اللہ تعالیٰ اس شخص کو جس نے میری بات سنی اور اسے حفظ کر لیا، پھر جس نے نہیں سنا اس تک اس بات کو پہنچا دیا، کچھ حامل فقہ و حدیث فقیہ نہیں ہوتے اور بہت سے حامل فقہ و حدیث لیجاتے ہیں فقہ کو اپنے سے زیادہ فقیہ کے پاس۔ تین چیزیں جن پر کسی مومن کا دل خیانت نہیں کرے گا (یا حِقد نہیں رکھے گا) اللہ کے لئے عمل خالص، حکام و امراء کی اطاعت، اور لزوم الجماعۃ، ان کی دعا ان کو گھیرے میں لئے ہوئے ہوتی ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 234]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے لیکن معنی صحیح ہے، جیسا کہ پچھلی حدیث کی تخریج میں گزرا۔ مزید تخریج کے لئے دیکھئے: [مسند أبي يعلی 7413]، [ترمذي 2658]، [ابن ماجه 232]، [أبوداؤد 3660] و [مجمع الزوائد 598]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح
حدیث نمبر: 235
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عصمة بن الفضل، حدثنا حرمي بن عمارة، عن شعبة، عن عمر بن سليمان، عن عبد الرحمن بن ابان بن عثمان، عن ابيه، قال: خرج زيد بن ثابت من عند مروان بن الحكم، بنصف النهار، قال: فقلت ما خرج هذه الساعة من عند مروان إلا وقد ساله عن شيء، فاتيته، فسالته، فقال: نعم، سالني عن حديث سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "نضر الله امرا سمع منا حديثا فحفظه، فاداه إلى من هو احفظ منه، فرب حامل فقه ليس بفقيه، ورب حامل فقه إلى من هو افقه منه، لا يعتقد قلب مسلم على ثلاث خصال إلا دخل الجنة"، قال: قلت: ما هن؟، قال: إخلاص العمل لله، والنصيحة لولاة الامر، ولزوم الجماعة، فإن دعوتهم تحيط من ورائهم، ومن كانت الآخرة نيته، جعل الله غناه في قلبه، وجمع له شمله، واتته الدنيا وهي راغمة، ومن كانت الدنيا نيته، فرق الله عليه شمله، وجعل فقره بين عينيه، ولم ياته من الدنيا إلا ما قدر له"، قال: وسالته عن صلاة الوسطى، قال: هي الظهر.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عِصْمَةُ بْنُ الْفَضْلِ، حَدَّثَنَا حَرَمِيُّ بْنُ عُمَارَةَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: خَرَجَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ مِنْ عِنْدِ مَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ، بِنِصْفِ النَّهَارِ، قَالَ: فَقُلْتُ مَا خَرَجَ هَذِهِ السَّاعَةَ مِنْ عِنْدِ مَرْوَانَ إِلَّا وَقَدْ سَأَلَهُ عَنْ شَيْءٍ، فَأَتَيْتُهُ، فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: نَعَمْ، سَأَلَنِي عَنْ حَدِيثٍ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِيثًا فَحَفِظَهُ، فَأَدَّاهُ إِلَى مَنْ هُوَ أَحْفَظُ مِنْهُ، فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ لَيْسَ بِفَقِيهٍ، وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ، لَا يَعْتَقِدُ قَلْبُ مُسْلِمٍ عَلَى ثَلَاثِ خِصَالٍ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ"، قَالَ: قُلْتُ: مَا هُنَّ؟، قَالَ: إِخْلَاصُ الْعَمَلِ لِلَّهِ، وَالنَّصِيحَةُ لِوُلَاةِ الْأَمْرِ، وَلُزُومُ الْجَمَاعَةِ، فَإِنَّ دَعْوَتَهُمْ تُحِيطُ مِنْ وَرَائِهِمْ، وَمَنْ كَانَتْ الْآخِرَةُ نِيَّتَهُ، جَعَلَ اللَّهُ غِنَاهُ فِي قَلْبِهِ، وَجَمَعَ لَهُ شَمْلَهُ، وَأَتَتْهُ الدُّنْيَا وَهِيَ رَاغِمَةٌ، وَمَنْ كَانَتْ الدُّنْيَا نِيَّتَهُ، فَرَّقَ اللَّهُ عَلَيْهِ شَمْلَهُ، وَجَعَلَ فَقْرَهُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ، وَلَمْ يَأْتِهِ مِنْ الدُّنْيَا إِلَّا مَا قُدِّرَ لَهُ"، قَالَ: وَسَأَلْتُهُ عَنْ صَلَاةِ الْوُسْطَى، قَالَ: هِيَ الظُّهْرُ.
عبدالرحمٰن بن ابان بن عثمان نے اپنے والد ابان سے روایت کیا کہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ دوپہر کے وقت مروان بن الحکم کے پاس سے نکلے، میں نے کہا کہ اس وقت مروان کے پاس سے ان کے نکلنے کا مطلب یہ ہے کہ اس (مروان) نے آپ سے کسی چیز کی بابت سوال کیا ہے۔ چنانچہ میں زید کے پاس آیا اور میں نے ان سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا: ہاں انہوں (مروان) نے مجھ سے اس حدیث کے بارے میں سوال کیا جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تروتازہ رکھے اللہ تعالیٰ اس شخص کو جس نے ہم سے کوئی حدیث سنی اور اس کو یاد کر لیا اور جو اس سے زیاده یاد رکھنے والا ہو اس تک پہنچا دیا، کیونکہ کچھ حامل فقہ فقیہ نہیں ہوتے اور کچھ حامل فقہ اس حدیث کو اپنے سے زیادہ یاد رکھنے والے کے پاس لے جاتے ہیں، کسی بھی مسلمان کا دل تین خصلتوں پر اعتقاد رکھے تو جنت میں داخل ہو گا، ابان نے کہا: میں نے دریافت کیا وہ تین خصلتیں کیا ہیں؟ فرمایا: اللہ کے لئے عمل خالص کرنے میں، دوسرے مسلمان حکام کی خیر خواہی کرنے میں، تیسرے مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ ملے رہنے میں، اس لئے کہ مسلمانوں کی دعا ان کو پیچھے سے گھیر لیتی ہے۔ اور جس کی نیت آخرت کی ہو اللہ تعالیٰ اس کے دل کو مستغنی کر دیتا ہے اور الله تعالیٰ ان کے بکھرے کاموں کو جمع کر دیتا ہے اور دنیا اس کے پاس خوشی خوشی آتی ہے۔ اور جس کی نیت دنیا کی ہو اللہ اس کے کاموں میں تفریق ڈال دیتا ہے اور غریبی و محتاجگی کو اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کر دیتا ہے اور دنیا سے اس کو اتنا ہی ملتا ہے جتنا اس کے لئے مقدر کر دیا گیا ہے۔ ابان نے کہا میں نے آپ سے دریافت کیا کہ صلاة الوسطیٰ کون سی ہے تو بتایا ظہر کی نماز۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 235]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [صحيح ابن حبان 67، 680] و [مجمع الزوائد 587، 598]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 236
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يحيى بن موسى، حدثنا عمرو بن محمد القرشي، اخبرنا إسرائيل، عن عبد الرحمن بن زبيد اليامي، عن ابي العجلان، عن ابي الدرداء رضي الله عنه، قال: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: "نضر الله امرءا سمع منا حديثا فبلغه كما سمعه، فرب مبلغ اوعى من سامع، ثلاث لا يغل عليهن قلب امرئ مسلم: إخلاص العمل لله، والنصيحة لكل مسلم، ولزوم جماعة المسلمين، فإن دعاءهم يحيط من ورائهم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ الْقُرَشِيُّ، أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زُبَيْدٍ الْيَامِيِّ، عَنْ أَبِي الْعَجْلَانِ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "نَضَّرَ اللَّهُ امْرَءًا سَمِعَ مِنَّا حَدِيثًا فَبَلَّغَهُ كَمَا سَمِعَهُ، فَرُبَّ مُبَلَّغٍ أَوْعَى مِنْ سَامِعٍ، ثَلَاثٌ لَا يَغِلُّ عَلَيْهِنَّ قَلْبُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ: إِخْلَاصُ الْعَمَلِ لِلَّهِ، وَالنَّصِيحَةُ لِكُلِّ مُسْلِمٍ، وَلُزُومُ جَمَاعَةِ الْمُسْلِمِينَ، فَإِنَّ دُعَاءَهُمْ يُحِيطُ مِنْ وَرَائِهِمْ".
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے خطبہ دیا اور فرمایا: تروتازہ رکھے اللہ تعالیٰ اس شخص کو جس نے ہم سے کوئی حدیث سنی اور جیسے سنی ویسے ہی (دوسروں) تک پہنچا دی، کیونکہ بعض وہ لوگ جن کو حدیث پہنچائی گئی سننے والے سے زیاده یاد رکھنے والے ہوتے ہیں۔ تین چیزیں ہیں جن پر کسی مسلمان کا دل خیانت نہیں کرے گا: اللہ کے لئے عمل خالص، ہر مسلمان کے لئے خیر خواہی اور مسلمانوں کی جماعت کا لازم پکڑنا، کیونکہ ان کی دعائیں ان کو پیچھے سے گھیر لیتی ہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف غير أن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 236]»
اس حدیث کی سند ضعیف ہے، لیکن دوسری سند سے حدیث صحیح ہے، جیسا کہ پچھلی احادیث اور تخریج میں گزر چکا ہے۔ نیز دیکھئے: [مجمع الزوائد 588]

وضاحت:
(تشریح احادیث 233 سے 236)
ان تمام احادیث میں علم حاصل کرنے والوں کے لئے بشارت ہے کہ ان کے چہرے دنیا و آخرت میں تر و تازہ رہیں گے، اور یہ حقیقت ہے ہم نے کتنے ایسے عالم اور محدّث دیکھے ہیں جن کے نورانی چہرے علم و عرفان کی نعمت سے جگمگاتے تھے «(جعلنا اللّٰه منهم)» نیز ان احادیث میں طلابِ علم کی درجہ بندی ہے، جس میں سے یقیناً کچھ مجتہد اور سمجھدار ہوتے ہیں اور کچھ کم سمجھ ہوتے ہیں۔
ان احادیث میں خلوص وللّٰہیت، وعظ و نصیحت اور اتفاق و اتحاد کی ترغیب بھی ہے اور انتشار و افتراق سے بچنے کی تاکید بھی۔
واللہ علم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف غير أن الحديث صحيح

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.