مقدمه مقدمہ 4. باب مَا أَكْرَمَ اللَّهُ بِهِ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ إِيمَانِ الشَّجَرِ بِهِ وَالْبَهَائِمِ وَالْجِنِّ: اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو درخت اور چوپائے نیز جنوں کے ان پر ایمان لانے سے جو عزت بخشی اس کا بیان
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ ایک بدوی آیا اور جب آپ سے وہ قریب ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہاں کا ارادہ ہے“، عرض کیا: اپنے گھر والوں کی طرف جانے کا ارادہ ہے۔ فرمایا: ”بہتری چاہتے ہو؟“ عرض کیا: وہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(وہ یہ ہے کہ) تم اس بات کی شہادت دو کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول و پیغمبر ہیں“، اس نے کہا: آپ جو فرماتے ہیں اس کی شہادت کون دیتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کانٹے دار درخت (جھاڑی) ہے (جو اس کی شہادت دیتا ہے)“، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آواز دی جو گرچہ وادی کے ایک کنارے پر واقع تھا لیکن زمین پھاڑتا ہوا آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو کھڑا ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے گواہی دینے کو کہا اور اس درخت نے تین مرتبہ شہادت دی کہ آپ وہی ہیں جیسا کہ آپ نے دعوی کیا ہے۔ پھر وہ اپنی جگہ واپس چلا گیا اور وہ اعرابی یہ کہتے ہوئے اپنے قبیلے میں واپس چلا گیا کہ اگر انہوں نے میری بات مانی تو انہیں لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاؤں گا ورنہ بذات خود واپس آ کر آپ کے ساتھ رہوں گا۔
تخریج الحدیث: «حديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 16]»
یہ حدیث صحیح ہے جس کو [أبويعلی 5662] اور [ابن حبان 6505] نے روایت کیا ہے۔ دیکھئے: [موارد الظمآن 2110] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: حديث صحيح
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر پر روانہ ہوا۔ آپ قضائے حاجت کے لئے اتنی دور غائب ہو جاتے کہ دکھائی بھی نہ دیتے۔ ہم نے ایسے چٹیل میدان میں پڑاؤ ڈالا جہاں نہ کوئی درخت تھا اور نہ کوئی پہاڑ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جابر! اپنی ڈولچی میں پانی بھرو اور ہمارے ساتھ چلو“، سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم چل پڑے اور لوگوں کی آنکھوں سے اوجھل ہو گئے اور دو درختوں کے پاس پہنچے جن کا درمیانی فاصلہ چار ہاتھ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے جابر درخت کے پاس جاؤ اور کہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم سے یہ کہتے ہیں کہ دوسرے ساتھی درخت سے مل جاؤ تاکہ میں تمہاری آڑ میں بیٹھ جاؤں“، انہوں نے جا کر ایسے ہی کہا، چنانچہ وہ درخت دوسرے سے جا کر مل گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پیچھے (قضائے حاجت کے لئے) جا کر بیٹھ گئے، پھر وہ درخت اپنی اپنی جگہ واپس لوٹ گئے، اس کے بعد ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سوار ہوئے اور آپ ہمارے ہی درمیان تشریف فرما تھے، ایسا لگتا تھا جیسے ہم پر پرندے سایہ کئے ہوئے ہیں، پھر آپ کے پاس ایک عورت آئی اس کے ساتھ اس کا بچہ بھی تھا، عرض کیا اے اللہ کے رسول! میرے اس بچے کو شیطان دن میں تین بار اٹھا لے جاتا ہے، سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچے کو لے کر اپنے اور کجاونے کے درمیان بٹھا لیا اور فرمایا: ”اے اللہ کے دشمن دور ہو جا میں اللہ کا رسول ہوں، دور ہو جا اللہ کے دشمن میں اللہ کا رسول ہوں“ اسی طرح تین بار فرمایا پھر اس بچے کو اس کی ماں کو واپس دے دیا، پھر اپنے سفر سے جب ہم واپس لوٹے تو اسی جگہ سے گزر ہوا اور وہی عورت اپنے بچے کے ساتھ دو مینڈھوں کو ہنکاتی ہوئی سامنے آئی اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرا یہ تحفہ قبول فرمائے، قسم ہے اس ذات باری تعالی کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے اس کے بعد سے وہ شیطان پھر نہیں آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک مینڈھا لے لو اور دوسرا اسے واپس لوٹا دو۔“ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس کے بعد ہم چل پڑے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان ہمارے ساتھ تھے ایسا لگتا تھا کہ ہمارے اوپر پرندے سایہ کئے ہوئے ہیں اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بدکا ہوا اونٹ ہے جب وہ راستے کے دو پہلوؤں کے درمیان آیا تو سجدے میں گر پڑا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور فرمایا: ”لوگوں کو بلاؤ اس اونٹ کا مالک کون ہے؟“ انصار کے کچھ جوانوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ ہمارا اونٹ ہے، فرمایا: ”اس کا کیا معاملہ ہے؟“ انہوں نے عرض کیا: ہم اس سے بیس سال سے پانی نکلوا رہے ہیں، اس کے جسم میں چربی کا ایک ٹکڑا ہے جس کی وجہ سے ہمارا ارادہ تھا کہ اسے ذبح کر کے اپنے غلاموں میں تقسیم کر دیں تو یہ بھڑک کر ہمارے پاس سے بھاگ آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے میرے ہاتھ بیچ دو“، انہوں نے عرض کیا: نہیں یا رسول اللہ، یہ آپ ویسے ہی لے لیجئے، فرمایا: ”اگر بیچتے نہیں ہو تو اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو یہاں تک کہ اس کی موت آ جائے“، اس وقت مسلمانوں نے کہا: اے اللہ کے رسول ہم ان چوپائیوں سے زیادہ آپ کو سجدہ کرنے کے حق دار ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی بھی (انسان) کے لئے کسی غیر کا سجدہ کرنا جائز نہیں ہے، اگر یہ جائز ہوتا تو عورتوں کا اپنے شوہروں کو سجدہ کرنا جائز ہوتا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف إسماعيل بن عبد الملك. ولكن الحديث صحيح بشواهده، [مكتبه الشامله نمبر: 17]»
یہ حدیث اس سیاق و سند سے ضعیف ہے، بعض جملوں کے شواہد [أبوداؤد 1۔2] اور [سنن ابن ماجه 335]، و [مصنف ابن ابي شيبة 11803] وغیرہ میں موجود ہیں لیکن سب کی سند ضعیف ہے۔ والله اعلم قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف إسماعيل بن عبد الملك. ولكن الحديث صحيح بشواهده
سیدنا جابر بن عبدالله رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ہم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بنونجار کے باغ میں گئے، ناگہاں اس میں ایک اونٹ ملا جو باغ میں داخل ہونے والے ہر شخص پر ٹوٹ پڑتا تھا، لوگوں نے اس کا تذکرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس گئے اور اسے پکارا تو وہ اپنا ہونٹ لٹکائے آیا اور آپ کے سامنے بیٹھ گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لگام لاؤ“، چنانچہ آپ نے اسے لگام لگادی اور اس کے مالک کے حوالے کر دیا پھر (لوگوں کی طرف) متوجہ ہو کر فرمایا: ”جن و انسان کے نافرمانوں کے علاوہ زمین و آسمان میں کوئی ایسا نہیں جو یہ نہ جانتا ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 18]»
اس حدیث کی سند جید ہے اور اسے [عبد بن حميد 1122]، و [امام أحمد 310/3] اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔ دیکھئے: [حديث رقم 11168] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک عورت اپنا بیٹا لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئی اور عرض کیا: میرے بیٹے کو پاگل پن کا مرض ہے جس کی وجہ سے وہ ہمارا دوپہر اور شام کا کھانا لے جاتا ہے اور اسے گندا و خراب کر دیتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (لڑکے) کے سینے کو سہلایا اور دعا فرمائی تو اس نے قے کر دی اور اس کے پیٹ سے ایک چھوٹا سا (پتلا) بچہ نکلا اور دوڑا چلا گیا، ایک روایت میں ہے اور وہ لڑکا شفایاب ہو گیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف من أجل فرقد السبخي، [مكتبه الشامله نمبر: 19]»
یہ روایت ضعیف ہے اور اسی سند سے اس کو [امام احمد 239/1] اور [طبراني 12460] اور بیہقی نے [دلائل النبوة 182/2] میں ذکر کیا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف من أجل فرقد السبخي
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اس پتھر کو پہچانتا ہوں جو مکہ میں نبوت سے پہلے مجھے سلام کیا کرتا تھا میں اب بھی اس پتھر کو پہچانتا ہوں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 20]»
یہ حدیث صحيح ہے۔ دیکھئے: [مسند أحمد 89/5]، [مسلم 2277]، [ترمذي 3628]، [الطيالسي 2450]، [والطبراني 1907، 220/2] وغیرہم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بعض نواحی مکہ میں نکلے تو جو پہاڑ اور درخت بھی سامنے آیا اس نے کہا: اے اللہ کے رسول آپ پر سلامتی ہو۔
تخریج الحدیث: «إسناده فيه علتان: ضعف الوليد بن أبي ثور وجهالة عباد أبي يزيد وهو عباد بن أبي يزيد، [مكتبه الشامله نمبر: 21]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 3630]، [دلائل النبوة 153/2] لیکن اس کا شاہد [المعجم الاوسط 5428] میں ہے جو حسن ہے۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 16 سے 21) ❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ عظمت وتوقیر ہے کہ پتھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتے ہیں، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہے، الله تعالیٰ جمادات کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے قوت گویائی عطا فرماتا ہے، نیز یہ کہ نبوت کے ملنے سے پہلے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم معزز و مکرم تھے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده فيه علتان: ضعف الوليد بن أبي ثور وجهالة عباد أبي يزيد وهو عباد بن أبي يزيد
شمر بن عطیہ سے روایت ہے کہ مزینہ یا جہینہ کے ایک شخص نے کہا: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر ادا کی، اچانک سو کے قریب بھیڑئیے نمودار ہوئے اور اپنی مخصوص نشست کی طرح بیٹھ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (صحابہ کرام سے) فرمایا: ”اپنے کھانے میں سے کچھ انہیں دے دو تاکہ ان کے شر سے مامون و محفوظ ہو جاؤ“، ان بھیڑیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھوک کی شکایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں اپنی مجبوری سے آگاہ کرو“، لوگوں نے ایسا ہی کیا، چنانچہ وہ سب بھیٹرئیے آوازیں نکالتے ہوئے واپس چلے گئے۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات ولكن قيل: أخطأ محمد بن يوسف في مئة وخمسين حديثا من حديث سفيان، [مكتبه الشامله نمبر: 22]»
اس روایت کے سارے راوی ثقات ہیں۔ دیکھئے: [البداية والنهاية 146/6]، و [مصنف ابن ابي شيبه 11785] وضاحت:
(تشریح حدیث 22) اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ شجر و حجر، حیوانات و جمادات میں سے جسے چاہے گویائی بخش دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور آپ کا معجزہ کہ درندے بھی آپ کے پاس آتے ہیں، ان کی فریاد کو سننا اور حاجت رفع کرنا ساری مخلوق پر شفقت و رحمت کی دلیل ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: « ﴿وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ﴾ » ۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات ولكن قيل: أخطأ محمد بن يوسف في مئة وخمسين حديثا من حديث سفيان
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جبرئیل علیہ السلام، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، آپ اہل مکہ قریش کے ستائے ہوئے، خون سے لت پت، اداس و غمگین بیٹھے ہوئے تھے، جبرئیل علیہ السلام نے کہا: اے اللہ کے پیغمبر! کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں آپ کو (اللہ کی قدرت کی) ایک نشانی دکھاؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں دکھلاؤ“، چنانچہ جبرئیل علیہ السلام نے ایک درخت کی طرف دیکھا جو ان کے پیچھے تھا اور کہا اسے بلائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس درخت کو بلایا پس وہ آیا اور آپ کے سامنے کھڑا ہو گیا، جبریل علیہ السلام نے کہا: اسے حکم دیجئے کہ واپس چلا جائے، چنانچہ وہ لوٹ گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بس بس“ (یعنی یہ نشانی میرے لئے کافی ہے)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 23]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے اور اس کو [امام أحمد 113/3]، [ابن ابي شيبة 11781]، [ابن ماجه 4028]، [وابويعلي 3685] نے روایت کیا ہے۔ وضاحت:
(تشریح حدیث 23) اس حدیث سے ثابت ہوا: ❀ نبی ہونے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اذیتیں برداشت کرنا، صبر کرنا اور ثابت قدم رہنا۔ ❀ جبریل علیہ السلام کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنا اور پیغام رسانی کا کام سرانجام دینا۔ ❀ درخت کا چل کر آنا بہت بڑا معجزہ ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے نبی ہونے کی واضح دلیل ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ بنوعامر کا ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں ایک نشانی دکھاؤں؟“ اس نے کہا دکھائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ”جاؤ اس کھجور کے درخت کو بلاؤ“، چنانچہ وہ شخص گیا اور اس درخت کو بلایا تو وہ (درخت) ان سے آگے آگے کودتا ہوا چلا آیا، اس شخص نے کہا (اس سے کہئے) لوٹ جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوٹ جاؤ“، چنانچہ وہ درخت اپنی جگہ واپس چلا گیا تو بنوعامر کے اس آدمی نے کہا: اے بنی عامر میں نے آج تک ان سے بڑا جادوگر دیکھا ہی نہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 24]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسند أحمد 223/1]، [ترمذي 3632]، [معجم كبير 12622]، [مستدرك حاكم 620/2] وضاحت:
(تشریح حدیث 24) ❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ کہ درخت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتے اور حکم بجا لاتے ہیں۔ کفار و مشرکین کا عناد کہ اطاعت و صداقت قبول کرنے کے بجائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جادوگر گردانتے ہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|