مقدمه مقدمہ 33. باب مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ بِغَيْرِ نِيَّةٍ فَرَدَّهُ الْعِلْمُ إِلَى النِّيَّةِ: جو بنا سوچے بغیر نیت کے علم طلب کرے تو بھی علم اس کی نیت درست کر دیتا ہے
یحییٰ بن یمان نے کہا: میں نے سفیان رحمہ اللہ کو چالیس سال سے کہتے سنا: آج سے زیادہ طلب حدیث کبھی اتنی افضل نہ تھی۔ لوگوں نے سفیان رحمہ اللہ سے دریافت کیا: لوگ بنا نیت کے حدیث طلب کرتے ہیں، کہا: ان کا طلب کرنا ہی نیت ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 370]»
اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [الجامع لأخلاق الراوي 778، 779]، [المحدث الفاصل 40] و [جامع بيان العلم 1382] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
مجاہد رحمہ اللہ نے فرمایا: ہم نے اس علم کو بلا کسی بڑی نیت کے ڈھونڈا، پھر الله تعالیٰ نے بعد کو نیت (صالح) عطاء فرما دی۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 371]»
اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [المعرفة والتاريخ للفسوي 712/1] و [المحدث الفاصل 39] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
امام حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا: لوگوں نے علم تلاش کیا حالانکہ وہ اس کے ذریعہ نہ اللہ کا اور نہ جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اس کا ارادہ رکھتے تھے، فرمایا: وہ علم حاصل کرتے رہے یہاں تک کہ ان کی نیت خالص ہو گئی، اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی اور جو اللہ کے پاس ہے اس کی نیت کر لی۔
تخریج الحدیث: «حسان بن مسلم ما وجدت له ترجمة وباقي رجاله ثقات. وما وجدته مسندا في غير هذا الموضع، [مكتبه الشامله نمبر: 372]»
اس روایت میں حسان بن مسلم کے بارے میں معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کون ہیں، باقی رواة معروفين وثقات ہیں۔ دیکھئے: [جامع بيان العلم 1383 ذكره بدون سند] وضاحت:
(تشریح احادیث 368 سے 371) ان آثار سے ثابت ہوا کہ شروع میں حصولِ علم کے لئے کوئی مقصد اور نیّت نہ بھی ہو تو علم کی روشنی خلوصِ وللّٰہیت پیدا کر دیتی ہے۔ واضح ہو کہ علم سے مراد علمِ کتاب و سنّت ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: حسان بن مسلم ما وجدت له ترجمة وباقي رجاله ثقات. وما وجدته مسندا في غير هذا الموضع
|