سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
مقدمه
مقدمہ
1. بَابُ مَا كَانَ عَلَيْهِ النَّاسُ قَبْلَ مَبْعَثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْجَهْلِ وَالضَّلَالَةِ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے لوگ جس جہالت و گمراہی میں مبتلا تھے اس کا بیان
حدیث نمبر: 1
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن يوسف، عن سفيان، عن الاعمش، عن ابي وائل، عن عبد الله رضي الله عنه، قال: قال رجل: يا رسول الله صلي الله عليه وسلم: ايؤاخذ الرجل بما عمل في الجاهلية؟، قال: "من احسن في الإسلام لم يؤاخذ بما كان عمل في الجاهلية، ومن اساء في الإسلام، اخذ بالاول والآخر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُؤَاخَذُ الرَّجُلُ بِمَا عَمِلَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ؟، قَالَ: "مَنْ أَحْسَنَ فِي الْإِسْلَامِ لَمْ يُؤَاخَذْ بِمَا كَانَ عَمِلَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَمَنْ أَسَاءَ فِي الْإِسْلَامِ، أُخِذَ بِالْأَوَّلِ وَالْآخِرِ".
سیدنا عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، ایک شخص نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کسی آدمی نے (اسلام لانے سے پہلے زمانہ) جاہلیت میں کوئی گناہ کیا، کیا اس کا مواخذہ کیا جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے اسلام لانے کے بعد اچھے کام کئے اس کے دور جاہلیت کے گناہوں (پر بھی) گرفت نہیں کی جائے گی اور جس نے اسلام لانے کے بعد (بھی) برے کام کئے اس کا اگلے اور پچھلے ہر دور کا مواخذہ اور گرفت ہو گی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1]»
یہ حدیث متفق علیہ ہے، دیکھئے: [بخاری 6921]، [مسلم 318، 319]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
حدیث نمبر: 2
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا الوليد بن النضر الرملي، عن مسرة بن معبد من بني الحارث بن ابي الحرام من لخم، عن الوضين، ان رجلا اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إنا كنا اهل جاهلية وعبادة اوثان، فكنا نقتل الاولاد، وكانت عندي ابنة لي فلما اجابت، وكانت مسرورة بدعائي إذا دعوتها، فدعوتها يوما، فاتبعتني فمررت حتى اتيت بئرا من اهلي غير بعيد، فاخذت بيدها فرديت بها في البئر، وكان آخر عهدي بها ان تقول: يا ابتاه! يا ابتاه! فبكى رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى وكف دمع عينيه، فقال له رجل من جلساء رسول الله صلى الله عليه وسلم: احزنت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال له:"كف فإنه يسال عما اهمه"، ثم قال له:"اعد علي حديثك"فاعاده، فبكى حتى وكف الدمع من عينيه على لحيته، ثم قال له: "إن الله قد وضع عن الجاهلية ما عملوا، فاستانف عملك".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ النَّضْرِ الرَّمْلِيُّ، عَنْ مَسَرَّةَ بْنِ مَعْبَدٍ مِنْ بَنِي الْحَارِثِ بْنِ أَبِي الْحَرَامِ مِنْ لَخْمٍ، عَنْ الْوَضِينِ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا كُنَّا أَهْلَ جَاهِلِيَّةٍ وَعِبَادَةِ أَوْثَانٍ، فَكُنَّا نَقْتُلُ الْأَوْلَادَ، وَكَانَتْ عِنْدِي ابْنَةُ لِي فَلَمَّا أَجَابَتْ، وَكَانَتْ مَسْرُورَةً بِدُعَائِي إِذَا دَعَوْتُهَا، فَدَعَوْتُهَا يَوْمًا، فَاتَّبَعَتْنِي فَمَرَرْتُ حَتَّى أَتَيْتُ بِئْرًا مِنْ أَهْلِي غَيْرَ بَعِيدٍ، فَأَخَذْتُ بِيَدِهَا فَرَدَّيْتُ بِهَا فِي الْبِئْرِ، وَكَانَ آخِرَ عَهْدِي بِهَا أَنْ تَقُولَ: يَا أَبَتَاهُ! يَا أَبَتَاهُ! فَبَكَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى وَكَفَ دَمْعُ عَيْنَيْهِ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ مِنْ جُلَسَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَحْزَنْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ:"كُفَّ فَإِنَّهُ يَسْأَلُ عَمَّا أَهَمَّهُ"، ثُمَّ قَالَ لَهُ:"أَعِدْ عَلَيَّ حَدِيثَكَ"فَأَعَادَهُ، فَبَكَى حَتَّى وَكَفَ الدَّمْعُ مِنْ عَيْنَيْهِ عَلَى لِحْيَتِهِ، ثُمَّ قَالَ لَهُ: "إِنَّ اللَّهَ قَدْ وَضَعَ عَنْ الْجَاهِلِيَّةِ مَا عَمِلُوا، فَاسْتَأْنِفْ عَمَلَكَ".
وضین بن عطاء خزاعی نے روایت کیا کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم دور جاہلیت میں تھے اور بتوں کی پوجا کرتے تھے، اولاد کوقتل کر دیا کرتے تھے، میری ایک بیٹی تھی، جب وہ بات سمجھنے لگی اور میری پکار سے خوش ہونے لگی تو ایک دن میں نے اسے بلایا، وہ میرے پیچھے پیچھے چلنے لگی، میں چلتے ہوئے اپنے عزیز کے ایک کنویں کے پاس آیا جو قریب ہی تھا، میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے کنویں میں دھکا دے دیا، وہ ابا جان، ابا جان پکارتی رہی، یہی اس کے آخری کلمات تھے، (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں اشک بار ہو گئیں، آنسو بہنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم نشین حضرات میں سے ایک نے کہا: تم نے اللہ کے رسول کو رنجیدہ کر دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ٹھہرو، انہوں نے وہی چیز معلوم کی ہے جو ان کے لئے اہم ہے، پھر ان سے کہا: اپنا قصہ دوبارہ سناؤ، انہوں نے پھر کہہ سنایا یہاں تک کہ آپ کے آنسو جاری ہو کر ریش مبارک کو تر کر گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے فرمایا: بیشک اللہ تعالی نے دور جاہلیت کے گناہ معاف فرما دیئے ہیں اس لئے اب اچھے کام شروع کر دو۔

تخریج الحدیث: «إسناده رجاله ثقات غير أنه مرسل وقد تفرد بروايته الدارمي، [مكتبه الشامله نمبر: 2]»
اس حدیث کو امام دارمی کے علاوہ کسی محدث نے روایت نہیں کیا، یہ مرسل ہے اور وضین صدوق سئی الحفظ ہیں لیکن حدیث کا آخری جملہ «إن الله قد وضع...» صحیح ہے۔ والله أعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده رجاله ثقات غير أنه مرسل وقد تفرد بروايته الدارمي
حدیث نمبر: 3
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا هارون بن معاوية، عن إبراهيم بن سليمان المؤدب، عن الاعمش، عن مجاهد، قال: حدثني مولاي: "ان اهله بعثوا معه بقدح فيه زبد ولبن إلى آلهتهم، قال: فمنعني ان آكل الزبد لمخافتها، قال: فجاء كلب فاكل الزبد وشرب اللبن، ثم بال على الصنم وهو: اساف ونائلة، قال هارون: كان الرجل في الجاهلية إذا سافر، حمل معه اربعة احجار: ثلاثة لقدره والرابع يعبده ويربي كلبه، ويقتل ولده".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سُلَيْمَانَ الْمُؤَدِّبِ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَوْلَايَ: "أَنَّ أَهْلَهُ بَعَثُوا مَعَهُ بِقَدَحٍ فِيهِ زُبْدٌ وَلَبَنٌ إِلَى آلِهَتِهِمْ، قَالَ: فَمَنَعَنِي أَنْ آكُلَ الزُّبْدَ لِمَخَافَتِهَا، قَالَ: فَجَاءَ كَلْبٌ فَأَكَلَ الزُّبْدَ وَشَرِبَ اللَّبَنَ، ثُمَّ بَالَ عَلَى الصَّنَمِ وَهُوَ: أُسَافٌ وَنَائِلَةُ، قَالَ هَارُونُ: كَانَ الرَّجُلُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ إِذَا سَافَرَ، حَمَلَ مَعَهُ أَرْبَعَةَ أَحْجَارٍ: ثَلَاثَةً لِقِدْرِهِ وَالرَّابِعَ يَعْبُدُهُ وَيُرَبِّي كَلْبَهُ، وَيَقْتُلُ وَلَدَهُ".
مجاہد سے مروی ہے کہ میرے آزاد کردہ غلام سائب بن ابی سائب نے بیان کیا کہ ان کے گھر والوں نے انہیں دودھ و مکھن کا ایک پیالہ دے کر اپنے بتوں کے پاس بھیجا، سائب نے کہا: بتوں کے خوف نے مجھے مکھن کھانے سے باز رکھا، لیکن ایک کتا آیا اور دودھ و مکھن کو چٹ کر گیا، پھر اساف و نائلہ بتوں پر پیشاب بھی کر گیا۔ راوی ہارون نے کہا: دور جاہلیت میں حالت یہ تھی کہ کوئی آدمی سفر پر جاتا تو اپنے ساتھ (مکہ سے) چار پتھر بھی لے جاتا، تین پتھر چولہا بنانے کے لئے اور چوتھا پتھر پوجا کے لئے، (ان کی حالت یہ تھی) وہ اپنے کتے کی تو پرورش کرتے لیکن اپنی اولاد کو مار ڈالتے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 3]»
اس روایت کی تخریج صرف امام دارمی نے کی ہے اور اس کی سند حسن ہے امام احمد نے اسی سے ملتی جلتی روایت ذکر کی ہے جو صحیح ہے، دیکھئے: [المسند 425/2]۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
حدیث نمبر: 4
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) حدثنا مجاهد بن موسى، حدثنا ريحان هو ابن سعيد السامي، حدثنا عباد هو ابن منصور، عن ابي رجاء، قال: "كنا في الجاهلية إذا اصبنا حجرا حسنا، عبدناه، وإن لم نصب حجرا، جمعنا كثبة من رمل، ثم جئنا بالناقة الصفي فتفاج عليها، فنحلبها على الكثبة حتى نرويها، ثم نعبد تلك الكثبة ما اقمنا بذلك المكان"، قال ابو محمد الصفي: الكثيرة الالبان.(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا مُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا رَيْحَانُ هُوَ ابْنُ سَعِيدٍ السَّامِيُّ، حَدَّثَنَا عَبَّادٌ هُوَ ابْنُ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي رَجَاءٍ، قَالَ: "كُنَّا فِي الْجَاهِلِيَّةِ إِذَا أَصَبْنَا حَجَرًا حَسَنًا، عَبَدْنَاهُ، وَإِنْ لَمْ نُصِبْ حَجَرًا، جَمَعْنَا كُثْبَةً مِنْ رَمْلٍ، ثُمَّ جِئْنَا بِالنَّاقَةِ الصَّفِيِّ فَتَفَاجَّ عَلَيْهَا، فَنَحْلُبُهَا عَلَى الْكُثْبَةِ حَتَّى نَرْوِيَهَا، ثُمَّ نَعْبُدُ تِلْكَ الْكُثْبَةَ مَا أَقَمْنَا بِذَلِكَ الْمَكَانِ"، قَالَ أَبُو مُحَمَّد الصَّفِيُّ: الْكَثِيرَةُ الْأَلْبَانِ.
ابورجاء سے روایت ہے کہ ہم دور جاہلیت میں کوئی اچھا پتھر پا جاتے تو اسی کی پوجا کرنے لگ جاتے تھے اور اگر کوئی اچھا سا پتھر نہ ملتا تو تھوڑی سی ریت جمع کرتے، پھر خوب دودھ والی اونٹنی لاتے اور اس کے پیر چوڑا کر کے اس ریت کے ڈھیر پر اس کا دودھ نکالتے اور اسے خوب سیراب کر دیتے تھے، پھر جب تک اس جگہ رہتے اس ڈھیر کی پوجا کرتے رہتے تھے۔
امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: «صفي» بہت زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی کو کہتے ہیں، «فتفاج» کا مطلب ہے اونٹنی کی وہ صورت جب دودھ نکالنے کے لئے وہ اپنے پیر چوڑا دے، اسی لئے «فج» چوڑے راستے کو کہتے ہیں جس کی جمع «فجاج» ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف عباد بن منصور كان يدلس وقد تغير بأخرة وهو موقوف على أبي رجاء عمران بن ملحان، [مكتبه الشامله نمبر: 4]»
یہ روایت بھی انفرادات امام دارمی سے ہے جو موقوف ہے اور اس کے راوی عباد بن منصور مدلس ہیں۔ ابورجاء کا نام عمران بن ملحان العطاردی ہے۔ اس معنی کی روایت ابونعیم اصبہانی نے ذکر کی ہے جس کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [حلية الأولياء: 306/2]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1 سے 4)
ان روایات (حدیث 1 سے 4) میں دور جاہلیت میں بچوں کو قتل کرنے، پتھروں کی پوجا کرنے، کتوں کی پرورش کرنے جیسے اعمال کا تذکرہ ہے، جن سے اسلام نے یک قلم روک دیا ہے۔
پہلی حدیث سے «الاسلام يهدم ماقبله» کی تائید ہوتی ہے، یعنی اسلام لانے کے بعد ماقبل اسلام کئے گئے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت وشفقت کہ دردناک قصہ سن کر رو پڑے۔
تیسری روایت میں معبودان باطلہ کی بے کسی و بے بسی ظاہر ہوتی ہے جو اپنے دفاع میں خود کچھ نہیں کر سکتے کسی کی مدد کیا کریں گے؟ (والله اعلم)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف عباد بن منصور كان يدلس وقد تغير بأخرة وهو موقوف على أبي رجاء عمران بن ملحان

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.