مقدمه مقدمہ 52. باب اخْتِلاَفِ الْفُقَهَاءِ: فقہاء (کرام) کے اختلاف کا بیان
حمید نے کہا: میں نے عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کیا: کاش آپ سارے لوگوں کو ایک چیز پر جمع کر دیتے، انہوں نے جواب دیا: اگر وہ اختلاف نہ کرتے تو مجھے مسرت نہ ہوتی، حمید نے کہا: پھر عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے تمام شہروں اور صوبوں میں لکھ بھیجا کہ ہر جماعت اس کے مطابق فیصلہ کرے جس پر اس کے فقہاء کا اجماع ہو۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 652]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ ان الفاظ میں یہ روایت نہیں مل سکی، لیکن اس کے ہم معنی روایات موجود ہیں۔ دیکھئے: [الفقيه والمتفقه 743، 744، 745] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
عون بن عبداللہ نے کہا: مجھے پسند نہیں کہ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اختلاف نہ کریں، اس لئے کہ اگر انہوں نے کسی چیز پر اجماع کر لیا اور وہ چیز کسی آدمی نے ترک کی تو گویا اس نے سنت ترک کر دی، اور اگر وہ اختلاف کریں اور کوئی آدمی ان صحابہ میں سے کسی کے بھی قول پر عمل پیرا ہوا تو (گویا) اس نے سنت ہی پر عمل کیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف عبد الرحمن بن عبد الله بن عتبة المسعودي، [مكتبه الشامله نمبر: 653]»
اس روایت کی سند عبدالرحمٰن المسعودی کی وجہ سے ضعیف ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف عبد الرحمن بن عبد الله بن عتبة المسعودي
لیث (ابن ابی سلیم) سے مروی ہے کہ امام طاؤوس رحمہ اللہ نے فرمایا: کبھی کبھی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ایک رائے قائم کی پھر اسے ترک کر دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف الليث وهو ابن أبي سليم، [مكتبه الشامله نمبر: 654]»
لیث کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف الليث وهو ابن أبي سليم
مروان بن حکم نے کہا: مجھ سے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کہ مجھ سے سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: دادا کی میراث میں میری ایک رائے ہے، اگر تم مناسب سمجھو تو اتباع کرو، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر ہم آپ کی اتباع کریں تو یہ رشد و ہدایت ہے، اور اگر ہم آپ سے پہلے شیخ کی اتباع کریں جو بڑی اچھی رائے رکھتے تھے، راوی نے کہا: (وہ شیخ یعنی) سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ دادا کو باپ کے درجے میں رکھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 655]»
اس روایت کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [المستدرك 340/4]، نیز اثر رقم (2960) وضاحت:
(تشریح احادیث 649 سے 653) یہ تمام آثار و اقوال اور سلف صالحین کی آراء ہیں، اور ان کی نسبت میں بھی کلام ہے، اس سلسلہ میں «إِخْتَلَافُ أُمَّتِي رَحْمَةٌ» بھی حدیث کے طور پر بیان کی جاتی ہے لیکن وہ بھی صحیح نہیں ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
|