مقدمه مقدمہ 51. باب مُذَاكَرَةِ الْعِلْمِ: علمی گفتگو کرنے کا بیان
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حدیث کا مذاکره کرو، اس لئے کہ حدیث سے حدیث یاد آتی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 617]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ اس میں ابونضرة کا نام: منذر بن مالک ہے۔ تخریج آگے آرہی ہے۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 611 سے 615) مذاکرہ: گفتگو کرنے، یاد کرنے اور دہرانے کو کہتے ہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
دوسری سند سے سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی مذکورہ بالا روایت۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 618]»
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
ابونضرة بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: حدیث میں گفتگو کرو، کیونکہ ایک حدیث دوسری حدیث کو یاد دلاتی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده رجاله ثقات غير أن هشيما قد عنعن وهو مدلس، [مكتبه الشامله نمبر: 619]»
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده رجاله ثقات غير أن هشيما قد عنعن وهو مدلس
ابونضرة، سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں اور اس میں اس سے زیادہ کلام ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 620]»
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 621]»
دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 6184]، [المحدث الفاصل 723]، [الجامع لأخلاق الراوي 470، 1882] و [جامع بيان العلم 626، 706]، اور سب کی سند صحیح ہے۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 615 سے 619) یہ تمام روایات سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں۔ معنی اوپر ذکر کیا جا چکا ہے، اور اس میں حدیث یاد کرنے اور دہراتے رہنے کی ترغیب ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
ابوسلمۃ ابونضرة کے طریق سے سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے یہی قول روایت کرتے ہیں، اس میں اُس سے زیادہ کلام ہے۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 622]»
وضاحت:
(تشریح حدیث 619) یہ روایت بھی بالکل مذکور بالا الفاظ میں مروی ہے اور اس میں کچھ زیادہ کلام ہے۔ اور اس کی بھی سند صحیح ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
عمرو بن مسلم سے مروی ہے کہ امام طاؤوس رحمہ اللہ نے مجھ سے کہا: ہمیں لے چلو لوگوں کے پاس بیٹھیں گے (یعنی مذاکرہ حدیث کے لئے)۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 623]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دوسری جگہ نہیں مل سکی۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے مروی ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: حدیث دہرا لیا کرو تاکہ تم بھول نہ جاؤ، کیونکہ حدیث قرآن کی طرح مجموع و محفوظ نہیں ہے، اگر تم اس کا مذاکرہ نہیں کرو گے تو بھول جاؤ گے۔ نیز تم میں سے کوئی یہ نہ کہے کہ میں نے کل تو حدیث بیان کی ہے لہٰذا آج بیان نہیں کروں، بلکہ گزشتہ كل حدیث بیان کی ہو تو آج بھی بیان کرو اور آنے والے کل بھی بیان کرو۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات، [مكتبه الشامله نمبر: 624]»
اس سند کے رواة ثقات ہیں، صرف جعفر بن ابی المغیرۃ کے بارے میں ابن مندہ نے کہا ہے کہ وہ سعید بن جبیر سے روایت کرنے میں قوی نہیں۔ دیکھئے: [المحدث الفاصل 729] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات
سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے ہی مروی ہے، سیدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: حدیث کو دہراؤ اور یاد کرو، اگر یاد نہ کرو گے تو بھول جاؤ گے، اور کوئی آدمی کسی حدیث کو بیان کرنے کے بعد یہ نہ کہے کہ میں نے ایک بار بیان کر دی، کیونکہ جس نے پہلے حدیث سنی اس کے علم میں اضافہ ہو گا اور جس نے نہیں سنی وہ اب سن لے گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف مندل بن علي، [مكتبه الشامله نمبر: 625]»
مندل بن علی کی وجہ سے اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ مذکورہ بالا تخریج ملاحظہ فرمائیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف مندل بن علي
یزید بن ابی زیاد سے مروی ہے عبدالرحمٰن بن ابی لیلی نے کہا: مذاکرہ کرو، حدیث کو زندہ رکھنے کا طریقہ اس کا دہرانا و مذاکرہ کرنا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 626]»
اس قول کی سند بھی ضعیف ہے۔ دیکھئے: [المحدث الفاصل 727] نیز آنے والا اثر رقم (641)۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف
ابراہیم سے مروی ہے علقمہ نے کہا: حدیث کا مذاکره کرو، اس کا یاد کرنا ہی اس کی زندگی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 627]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [الجامع لأخلاق الراوي 1884]، [العلم 71]، [المحدث الفاصل 725]، [حلية الأولياء 101/2] و [جامع بيان العلم 627] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سفیان بن عیینہ سے مروی ہے زیاد بن سعد نے کہا: ابن شہاب الزہری دیہاتیوں کو بھی حدیث سنایا کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 628]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [الجامع لأخلاق الراوي 1888] وضاحت:
(تشریح احادیث 620 سے 626) یہ بھی مذاکرۂ حدیث کا ایک طریقہ ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
اعمش (سلیمان بن مہران) نے کہا: اسماعیل بن رجاء منشیوں کے بچوں کو جمع کر کے انہیں حدیث سنایا کرتے تھے، وہ اسی طرح یاد کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 629]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [جامع بيان العلم 712]، [الجامع لأخلاق الراوي 680]، [مصنف ابن أبى شيبه 6187، ومن طريقه أخرجه ابن عبدالبر فى جامع بيان العلم 729، 738] و [العلم لأبي خيثمه 73] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
ابوعبدالله الشقری سے مروی ہے ابراہیم رحمہ اللہ نے فرمایا: اپنی حدیث ہر کسی کو سناؤ چاہے وہ اس کو سننے کی خواہش رکھے یا نہ رکھے، اس لئے کہ وہی تمہارے لئے اصل ہو جائیں گے گو کہ تم اصل کو دیکھ کر پڑھ رہے ہو۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 630]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ ابوالنعمان کا نام محمد بن الفضل اور ابوعبدالله الشقری کا نام سلمہ بن تمام ہے۔ تخریج کے لئے دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 6188]، [الجامع لأخلاق الراوي 1885، 1886]، [جامع بيان العلم وفضله 630] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
عطاء (ابن ابی رباح) سے مروی ہے: سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: جب تم ہم سے کوئی حدیث سنو تو آپس میں اس کا مذاکرہ کر لیا کرو۔
تخریج الحدیث: «حجاج بن أرطاة ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 631]»
اس روایت میں حجاج بن ارطاۃ ضعیف ہیں، ابومعمر کا نام اسماعیل بن ابراہیم بن معمر ہے اور عبدالسلام: ابن حرب ہیں۔ تخریج دیکھئے: [الجامع 469] و [المحدث الفاصل 728] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: حجاج بن أرطاة ضعيف
ہشیم نے کہا: یونس بن عبید نے خبر دی کہ ہم حسن رحمہ اللہ کے پاس جاتے تھے اور جب ان کے پاس سے لوٹتے تو آپس میں مذاکرہ کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 632]»
اس روایت کی سند صحیح ہے، لیکن کہیں اور یہ روایت نہیں مل سکی۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی حدیث بیان کرنا چاہے تو اس حدیث کو تین بار دہرا لے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 633]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [الجامع لأخلاق الراوي 640] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
عبدالرحمٰن بن ابی لیلی نے کہا: حدیث کو زندہ رکھنے کا طریقہ اس کا مذاکرہ کرنا ہے، عبداللہ بن شداد نے ان سے کہا: اللہ آپ پر رحم فرمائے، کتنی احادیث ہیں جو مٹ گئی تھیں، آپ نے انہیں میرے دل میں زندہ کر دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف يزيد بن أبي زياد، [مكتبه الشامله نمبر: 634]»
یہ روایت یزید بن ابی زیادہ کی وجہ سے ضعیف ہے۔ دیکھئے: [الجامع 472، 1895]، [مصنف ابن أبى شيبه 6189]، [جامع بيان العلم 631، 707]، [العلم 72]۔ نیز دیکھئے اثر رقم (626)۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف يزيد بن أبي زياد
محمد بن فضیل نے بیان کیا، ان کے والد نے کہا: حارث بن یزید عکلی، ابن شبرمہ اور قعقاع بن یزید و مغیرہ جب عشاء کی نماز پڑھ لیتے، فقہ (کے مذاکرے) میں بیٹھ جاتے، اور پھر صبح کی اذان ہی انہیں جدا کرتی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 635]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [العلم لأبي خيثمه 108]، [المعرفة للفسوي 614/2]، [الفقيه والمتفقه 956، 957]۔ نیز اثر رقم (642)۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
مالک بن اسماعیل نے خبر دی کہ میں نے شریک کو کہتے سنا، انہوں نے لیث کے طریق سے کہا، عطاء و طاؤوس و مجاہد میں سے دو نے کہا: فقہی امور میں رات جاگنے میں کوئی حرج نہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف ليث وهو: ابن أبي سليم، [مكتبه الشامله نمبر: 636]»
لیث بن ابی سلیم کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف ليث وهو: ابن أبي سليم
لیث سے مروی ہے مجاہد نے کہا: فقہی مذاکرہ میں جاگنے سے کوئی حرج نہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 637]»
اس روایت کی سند میں بھی لیث بن ابی سلیم ہیں جن کی وجہ سے ضعیف ہے۔ دیکھئے: [العلم لأبي خيثمه 110]، [الفقيه و المتفقه 955] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف
ابن جریج سے مروی ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ایک گھڑی مل جل کر پڑھنا پوری رات کی عبادت سے بہتر ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف ابن جريج لم يدرك ابن عباس، [مكتبه الشامله نمبر: 638]»
اس اثر کی سند ضعیف ہے۔ ابن حجر نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو پایا ہی نہیں۔ دیکھئے: [مصنف عبدالرزاق 20469]، [جامع بيان العلم 107]، نیز یہ روایت (270) میں گزر چکی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف ابن جريج لم يدرك ابن عباس
عطاء نے کہا: ہم سیدنا جابر بن عبدالله رضی اللہ عنہما کے پاس جاتے تھے، اور جب ان کے پاس سے واپس آتے تو آپس میں مذاکرہ کرتے، نیز ابوالزبیر ہم میں سب سے زیادہ حافظ حدیث تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف حجاج وهو: ابن أبي أرطاة، [مكتبه الشامله نمبر: 639]»
حجاج بن ارطاة کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے۔ [العلم 79] و [الجامع 471] میں بھی یہ روایت موجود ہے، لیکن سند سب کی ضعیف ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف حجاج وهو: ابن أبي أرطاة
مروان بن محمد نے خبر دی کہ میں نے لیث بن سعد سے سنا، انہوں نے کہا: ابن شہاب (زہری) ایک رات عشاء کے بعد بیٹھے وضو کر رہے تھے کہ حدیث یاد کرنے لگے، پھر بیٹھے یاد ہی کرتے رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ مروان نے کہا: حدیث کا مذاکرہ کرتے رہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 640]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [تاريخ ابن عساكر 95، 96] زہری میں دیکھئے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
محمد بن اسحاق سے مروی ہے، زہری نے کہا: میں جب عبیداللہ بن عتبہ سے ملاقات کرتا تو ایسا لگتا کہ گویا میں نے سمندر کو چیر دیا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 641]»
اس روایت کی سند میں محمد بن اسحاق مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت کی ہے۔ دیکھئے [مصنف ابن أبى شيبه 6108، 15783]، [المعرفة والتاريخ 561/1، 552، 622] و [تاريخ دمشق 227] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
عثمان بن عبداللہ نے کہا: حارث عکلی اور ان کے ساتھی رات میں بیٹھ کر فقہی مسائل یاد کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 642]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے، اور رقم (633) میں گذر چکی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف
ابوالأحوص سے مروی ہے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حدیث یاد کرو، کیونکہ اس کی زندگی اس کا یاد کرنا یا مذاکرہ کرنا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف أبي إسرائيل وهو: إسماعيل بن خليفة لكن الأثر صحيح بشواهده، [مكتبه الشامله نمبر: 643]»
اس اثر کی سند ابواسرائیل اسماعیل بن خلیفہ کی وجہ سے ضعیف ہے۔ دیکھئے: [المحدث الفاصل 726] لیکن اس کے شواہد موجود ہیں۔ دیکھئے اثر رقم (617، 626، 627)۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف أبي إسرائيل وهو: إسماعيل بن خليفة لكن الأثر صحيح بشواهده
عون بن عبداللہ سے مروی ہے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگرد ان کے پاس آئے تو انہوں نے ان سے کہا: کیا تم مجلس جماتے ہو؟ جواب دیا: اسے تو ہم چھوڑتے ہی نہیں، فرمایا: کیا تم ایک دوسرے کی زیارت کرتے ہو؟ جواب دیا: جی ہاں اے ابوعبدالرحمٰن! ہم میں سے کوئی شخص اگر اپنے ساتھی کو نہ دیکھے تو کوفے کے آخری کنارے تک اس کو دیکھنے جاتا ہے۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم جب تک ایسا کرتے رہو گے خیر سے رہو گے۔
تخریج الحدیث: «في إسناده علتان: ضعف عبد الرحمن بن عبد الله المسعودي والإنقطاع، [مكتبه الشامله نمبر: 644]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [المعجم الكبير 8979] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: في إسناده علتان: ضعف عبد الرحمن بن عبد الله المسعودي والإنقطاع
امام اوزاعی رحمہ اللہ سے مروی ہے، امام زہری رحمہ اللہ نے فرمایا: علم کی آفت نسیان اور ترک مذاکرہ ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف الوليد هو: ابن مسلم مدلس وقد عنعن، [مكتبه الشامله نمبر: 645]»
اس قول کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [تاريخ دمشق 235] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف الوليد هو: ابن مسلم مدلس وقد عنعن
قاسم بن عبدالرحمٰن مسعودی سے مروی ہے، سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حدیث کی آفت نسیان ہے (یعنی بھلا دینا)۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لانقطاعه القاسم بن عبد الرحمن المسعودي لم يسمع عبد الله بن مسعود، [مكتبه الشامله نمبر: 646]»
اس روایت کی سند میں انقطاع ہے۔ ابوعمیس کا نام عتبہ بن عبداللہ بن عتبہ ہے۔ تخریج دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 6191]، [جامع بيان العلم 691] اس کے دیگر اسانید سے شواہد موجود ہیں «كما سيأتي» ۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لانقطاعه القاسم بن عبد الرحمن المسعودي لم يسمع عبد الله بن مسعود
حکیم بن جابر سے مروی ہے، سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہر چیز کی ایک آفت ہوتی ہے، علم کی آفت نسیان ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 647]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ کہیں اور یہ روایت نہیں مل سکی۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
اعمش سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”علم کی آفت نسیان ہے، اور اس کا ضیاع یہ ہے کہ تم نااہل کو اس کی تعلیم دو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده معضل، [مكتبه الشامله نمبر: 648]»
اس حدیث کی سند سے دو راوی ساقط ہیں، لہٰذا یہ روایت معضل، ضعیف ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 6190]، [جامع بيان العلم 690]، [المحدث الفاصل 793] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده معضل
ابوحمزه التمار سے مروی ہے، حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا: علم کی برائی نسیان ہے۔
تخریج الحدیث: «الأثر صحيح بشواهده، [مكتبه الشامله نمبر: 649]»
اس روایت میں ابوحمزہ کو شیخ کہا گیا ہے، باقی رجال ثقات ہیں۔ دیکھئے: [جامع بيان العلم 689] اس کے شواہد صحیحہ موجود ہیں لہٰذا صحیح ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: الأثر صحيح بشواهده
ابن بريدة سے مروی ہے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس (علم) حدیث کو یاد کرو (دہراؤ)، ایک دوسرے کی زیارت کرو، اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو یہ (علم) مٹ جائے گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 650]»
اس اثر کی سند صحیح ہے اور یہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 6185]، [جامع بيان العلم وفضله 624]، [المحدث الفاصل 721] و [الجامع لأخلاق الراوي 468،467] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سفیان رحمہ اللہ سے مروی ہے، امام زہری رحمہ اللہ نے فرمایا: میں سمجھتا تھا کہ میں نے علم کی تکمیل کر لی، لیکن جب عبیداللہ (بن عبدالله بن مسعود) کی مجالست اختیار کی تو لگا کہ میں تو علم کی بہت ساری گھاٹی یا وادیوں میں سے صرف ایک وادی میں تھا (یعنی ان کے مقابلہ میں میرا علم بہت تھوڑا تھا)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 651]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [تاريخ أبى زرعة 1395] وضاحت:
(تشریح احادیث 626 سے 649) ان تمام آثار سے علماء کی قدر و منزلت، ان کی زیارت کی اہمیت و فضیلت، اور علمی مذاکرۂ احادیث و اصول یاد کرنے کی ضرورت ثابت ہوتی ہے، نیز یہ کہ احادیث کا یاد کرنا دہرانا سمر میں داخل نہیں جس سے احادیث میں روکا گیا ہے اور علمی مذاکره رات بھر تہجد پڑھنے سے بہتر ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|