مقدمه مقدمہ 20. باب الْفُتْيَا وَمَا فِيهِ مِنَ الشِّدَّةِ: فتویٰ کے خطرناک ہونے کا بیان
عبیداللہ بن ابی جعفر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جو فتویٰ دینے میں سب سے جری ہے، وہی سب سے زیادہ جہنم میں جانے کے لئے جرأت کرنے والا ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده معضل عبيد الله بن أبي جعفر ما عرفنا له رواية عن الصحابة فيما نعلم، [مكتبه الشامله نمبر: 159]»
اس روایت کی سند سے دو راوی ساقط ہیں، لہٰذا یہ روایت معضل ہے۔ دیکھئے: [كشف الخفاء 113]، [أسنی المطالب 54]، [جامع بيان العلم 1525] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده معضل عبيد الله بن أبي جعفر ما عرفنا له رواية عن الصحابة فيما نعلم
سیدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ جو بات کتاب اللہ میں نہیں اور کسی نے اپنی رائے سے کہی، اور وہ احادیث رسول میں سے بھی نہیں، تو اسے معلوم نہیں کہ جب وہ اللہ عزوجل سے ملاقات کرے گا تو اسے اس کا کتنا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إذا كان عبدة سمعه من ابن عباس، [مكتبه الشامله نمبر: 160]»
یہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے جس کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [البدع 94]، [الأحكام 782/6]، [المدخل 190]، [الفقيه 183/1] وضاحت:
(تشریح احادیث 158 سے 160) قرآن و حدیث کو دیکھے بغیر بلا دلیل کے فتویٰ دینا حرام کو حلال اور حلال کو حرام کر دینے کے مترادف ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إذا كان عبدة سمعه من ابن عباس
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا: کسی آدمی کو بنا دلیل و برہان کے فتویٰ دیا گیا تو اس کا گناہ فتویٰ دینے والے پر ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن إذا كان بكر بن عمرو سمعه من أبي عثمان، [مكتبه الشامله نمبر: 161]»
اس روایت کی سند حسن کے درجہ میں ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 3657]، [الأدب المفرد 259]، [مشكل الآثار 171/1]، [المستدرك 126/1]، [الفقيه 155/1]، [آداب القاضي 112/10] وغيرهم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن إذا كان بكر بن عمرو سمعه من أبي عثمان
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: جو شخص بنا جانے بوجھے کوئی فتویٰ دیدے تو اس کا گناہ اسی (فتویٰ دینے والے) پر ہو گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 162]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [جامع بيان العلم 1626]، [الفقيه والمتفقه 155/2]۔ ابوسنان کا نام ضرار بن مرة ہے۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 160 سے 162) ان دونوں روایات میں بلا سوچے سمجھے اور بنا جانے بوجھے فتویٰ دینے اور بغیر دلیل و برہان کے مسائل بتانے سے احتیاط اور پرہیز کی ترغیب و ترہیب ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
میمون بن مہران سے مروی ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس جب کوئی جھگڑا آتا تو قرآن پاک کی طرف رجوع کرتے، اور اس کا حل اس میں پاتے تو اسی کے مطابق فیصلہ کر دیتے، اور اگر وہ معاملہ کتاب الٰہی میں نہ ملتا اور انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس معاملے میں کوئی علم ہوتا تو اس کے مطابق فیصلہ کرتے، اور اگر خود کچھ یاد نہ آتا تو نکل کھڑے ہوتے اور دیگر صحابہ کرام سے کہتے میرے پاس ایسا ایسا معاملہ آیا ہے، کیا تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس معاملے کے بارے میں کچھ معلوم ہے؟ تو کبھی تو کچھ لوگ بالاجماع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے کا فیصلہ بتا دیتے۔ اس پر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کہتے: اس ذات کا شکر ہے جس نے ہم میں سے ایسے لوگ پیدا کئے جو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو یاد رکھتے ہیں، اور اگر ان کے پاس بھی کوئی سنت رسول نہیں ملتی تو چنیدہ بزرگ اشخاص کو جمع کر کے ان سے مشورہ کرتے اور جس امر پر سب کا اتفاق ہوتا اسی کے مطابق فیصلہ صادر کر دیتے۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أن ميمون بن مهران لم يدرك أبا بكر فالإسناد منقطع، [مكتبه الشامله نمبر: 163]»
اس روایت کے رجال تو ثقات ہیں لیکن سند میں انقطاع ہے، کیونکہ میمون بن مہران نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نہیں پایا۔ اس اثر کو بیہقی نے [آداب القاضي 114/10] میں اسی سند سے ذکر کیا ہے۔ وضاحت:
(تشریح حدیث 162) اس اثر کی سند میں گرچہ انقطاع ہے، لیکن صحابہ کرام کا طریقہ یہی تھا، جو بھی مسئلہ درپیش آتا پہلے کتاب اللہ پھر سنّتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرتے پھر آپس میں بیٹھ کر مشورہ کرتے، اسی کو اجماع کہتے ہیں اور اسی کی تعلیم قرآن پاک نے دی ہے: « ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللّٰهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا﴾ [النساء: 59] » ”اے مومنو! اللہ کی اور اس کے رسول کی اطاعت وفرماں برداری کرو اور تم میں سے جو اختیار والے ہیں ان کی (اطاعت کرو)، پھر اگر کسی چیز میں اختلاف ہوجائے تو اسے لوٹاؤ اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف اگر تمہیں الله تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے، یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے۔ “ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أن ميمون بن مهران لم يدرك أبا بكر فالإسناد منقطع
ابوسہل (نافع بن مالک الاصبحی) نے کہا کہ میری بیوی پر مسجد الحرام میں تین دن کے اعتکاف کی نذر تھی، میں نے عمر بن عبدالعزیز سے اس بارے میں دریافت کیا، اس وقت ان کے پاس ابن شہاب الزہری بھی موجود تھے، میں نے کہا کہ کیا اس کے اوپر روزہ بھی ہے؟ ابن شہاب نے کہا: بغیر روزے کے اعتکاف ہوتا ہی نہیں، عمر بن عبدالعزیز نے ان سے کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا کچھ مروی ہے؟ زہری نے کہا: نہیں، کہا: سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایسا کچھ کہا ہے؟ کہا: نہیں، کہا: تو کیا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایسا کہا: انہوں نے کہا: نہیں، کہا: سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ایسا کہا؟ جواب دیا: نہیں، تو عمر بن عبدالعزیز نے کہا: میرے خیال میں اس پر روزہ نہیں ہے، اس کے بعد میں وہاں سے نکلا تو طاؤس اور عطاء بن ابی رباح سے ملاقات ہوئی تو میں نے ان سے بھی یہ مسئلہ پوچھا، چنانچہ طاؤس نے جواب دیا کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ایسی صورت میں (یعنی نذر کے اعتکاف میں) روزہ ضروری نہیں سمجھتے تھے الا یہ کہ وہ روزے کی بھی نیت رکھے، عطاء نے کہا میری بھی یہی رائے ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 164]»
اس اثر کی سند صحیح ہے لیکن اس سیاق سے امام دارمی کے علاوہ اس اثر کو کسی نے روایت نہیں کیا ہے۔ اعتکاف کے ساتھ روزے کا بیان [مصنف ابن ابي شيبه 87/3] اور [مصنف عبدالرزاق 353/4] و [معرفة السنن والآثار 395/6] میں موجود ہے، جس میں کچھ صحابہ و تابعین کی رائے میں بلا صوم اعتکاف نہیں ہے، اور کچھ اس کے برعکس کہتے ہیں، مذکورہ بالا اثر زیادہ قرین قیاس ہے اور یہی ناچیز نے شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے بھی سنا ہے۔ وضاحت:
(تشریح حدیث 163) عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے جنہیں خامس الخلفاء کا رتبہ ملا اور جو بڑے ہی عابد و زاہد اور مخیّر عالم تھے۔ «عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ إلخ» کے مطابق امام زہری سے پوچھا: کیا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا ان کے خلفائے راشدین سے ایسا کچھ مروی ہے کہ بنا روزے کے اعتکاف نہیں؟ جب یقین ہوگیا کہ کسی سے ایسا مروی نہیں تو پھر اپنے اجتہاد و رائے سے آگاہ کیا اور دوسرے فقہائے عظام نے ان کی تائید کی، یعنی نذر کے ساتھ روزے کی بھی نیت کی ہے تو روزہ رکھنا ہوگا ورنہ نہیں۔ واللہ اعلم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
ابونضره (منذر بن مالک) سے مروی ہے کہ جب ابوسلمہ بصرہ تشریف لائے تو میں اور سیدنا حسن رضی اللہ عنہ ان کے پاس گئے، انہوں نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا تم ہی حسن ہو؟ بصرہ میں تم سے زیادہ کسی اور سے ملاقات کی مجھے چاہت نہیں، اور یہ اس لئے کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم اپنی رائے سے فتویٰ دیتے ہو (اس لئے سنو) اپنی رائے سے کوئی فتویٰ نہ دو، اگر سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا قرآن پاک میں کوئی بات ہے تو وہی بتا دو۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أن أبا عقيل بشير بن عقبة لم يذكر فيمن سمعوا سعيد بن إياس الجريري قبل الاختلاط، [مكتبه الشامله نمبر: 165]»
اس روایت کے رجال ثقہ ہیں اور اسے خطیب بغدادی نے [الفقيه والمتفقه 1071] میں صحیح سند سے ذکر کیا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أن أبا عقيل بشير بن عقبة لم يذكر فيمن سمعوا سعيد بن إياس الجريري قبل الاختلاط
جابر بن زید سے مروی ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما طواف کرتے ہوئے ان سے ملے تو انہوں نے کہا: ابوالشعثاء! تم بصرہ کے فقہاء میں سے ہو، پس قرآن کے منطوق اور گزری ہوئی سنت سے ہی فتویٰ دینا، اگر تم نے اس کے خلاف کیا تو خود ہلاک و برباد ہو گے اور دوسروں کو برباد کرو گے۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 166]»
اس روایت کی سند حسن ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس اثر کو [التاريخ الكبير 204/3] اور خطیب نے [الفقيه 183/1] اور ابونعیم نے [الحلية 86/3] میں ذکر کیا ہے۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 164 سے 166) ان دونوں روایات میں رائے کی ممانعت اور قرآن و حدیث کی روشنی میں فتویٰ دینے کی ترغیب ہے، اور کتاب و سنّت کو چھوڑ کر رائے سے فتویٰ دینا مہلک بتایا گیا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ طواف کے دوران بات کی جا سکتی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: ہمارے اوپر ایسا وقت گزرا ہے کہ نہ ہم فتویٰ دیتے اور نہ اس کے اہل تھے، لیکن الله تعالیٰ نے مقدر فرمایا اور تم دیکھتے ہو ہم کس حال کو پہنچے ہیں، آج کے بعد جس کے پاس بھی کوئی معاملہ آئے تو وہ اس کے مطابق فیصلہ کرے جو اللہ عزوجل کی کتاب میں موجود ہے۔ اور اگر ایسا معاملہ درپیش ہو جو کتاب اللہ میں نہ ملے تو ویسا ہی فیصلہ کرے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا، پھر اگر ایسا کوئی مسئلہ سامنے آئے جو کتاب اللہ میں نہ ہو اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کوئی فیصلہ کیا ہو تو اس کو وہی فیصلہ کرنا چاہیے جو اسلاف کرام نے کیا ہے، اور یہ نہ کہے کہ مجھے ڈر ہے یا میری یہ رائے ہے، اس لئے کہ حرام واضح اور حلال بھی ظاہر ہے اور حرام و حلال کے درمیان کچھ امور متشابہ ہیں، پس تم کو جس میں شبہ ہو اسے چھوڑ دو اور جس میں شک وشبہ نہیں اسے اپنا لو۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 167]»
اس قول کی سند جید ہے۔ امام نسائی نے اسے [آداب القضاة 230/8]، اور بیہقی نے [آداب القاضي 115/10]، اور ابن عبدالبر نے [جامع بيان العلم 1595، 1596] میں ذکر کیا ہے۔ وضاحت:
(تشریح حدیث 166) اس اثر میں صحابی جلیل مفسر قرآن سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا فتویٰ دینے سے احتراز اور ضرورت کے تحت کتاب اللہ اور سنّتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع، اس کے بعد اسلاف کے اقوال کے مطابق فتویٰ دینے کی ترغیب اور ابتداع یا نئی بات کہنے سے گریز کی تعلیم ہے، متشابہات سے بچنے اور محکمات پر عمل کا حکم ہے جو اسلامی تعلیمات کے عین موافق و مطابق ہے، اسلام کے یہی مآخذ ہیں قرآن و سنّت اور اجماعِ امت۔ بعض علماء نے قیاس کو چوتھا مآخد قرار دیا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
عبیداللہ بن ابی یزید سے مروی ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے جب کسی معاملے میں مسئلہ دریافت کیا جاتا تو اگر وہ قرآن پاک میں مذکور ہوتا تو بتا دیتے، اگر قرآن کریم میں نہ ہوتا، اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں مل جاتا تو بتا دیتے، اور اگر حدیث میں بھی نہ ہوتا تو سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے فتاوے پر نظر ڈالتے، اگر ان کے یہاں بھی وہ مسئلہ نہ ملتا تو پھر اس بارے میں اپنی رائے ظاہر فرماتے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 168]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [المستدرك 127/1]، [الفقيه 203/1]، [آداب القاضي 115/10] وضاحت:
(تشریح حدیث 167) «عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ» کی کتنی بہترین یہ اتباع، تفسیر و عمل اور مثال ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
قاضی شریح سے مروی ہے کہ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے انہیں لکھا: اگر تمہارے پاس ایسا معاملہ آئے جو قرآن کریم میں موجود ہو تو اسی کے مطابق فیصلہ کرنا، اور لوگوں کی (آراء) کی طرف مت جانا، اور اگر تمہارے پاس ایسا معاملہ آئے جو کتاب اللہ میں نہیں ہے تو پھر سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنا اور اس کے مطابق فیصلہ کرنا، اور اگر ایسا معاملہ تمہارے سامنے آئے جس میں کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اس سے متعلق ہدایت نہ ملے تو اس بارے میں لوگوں کا اجتماع دیکھ کر اس کو اپنا لینا، اور اگر ایسا مسئلہ پیش آئے جو نہ کتاب اللہ میں ہو اور نہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اور نہ تم سے پہلے اس بارے میں کسی نے کچھ کہا تو دو میں سے کوئی ایک بات اختیار کر لینا، اگر چاہو تو اجتہاد کر کے اپنی رائے ظاہر کر دینا، اور چاہو تو توقف اختیار کرنا، اور میں توقف کو ہی تمہارے لئے بہتر سمجھتا ہوں۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 169]»
اس اثر کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [آداب القاضي 115/10]، [الإحكام لابن حزم 1006/6]، [آداب القضاة 321/8]، [الفقيه 166/1] وغیرہ۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یمن کی طرف بھیجا تو پوچھا کہ ”اگر تمہارے پاس کوئی مقدمہ آئے تو کس طرح فیصلہ کرو گے؟“ انہوں نے کہا: اللہ کی کتاب کے موافق فیصلہ کروں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر وہ مسئلہ کتاب اللہ میں نہ ہو تو کیا کرو گے؟“ عرض کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا، فرمایا: ”اگر وہ مسئلہ سنت رسول اللہ میں بھی نہ ہو تو کیا کرو گے؟“ عرض کیا: غور و فکر سے اجتہاد کروں گا اور کوتاہی نہ کروں گا، راوی نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کا سینہ تھپکایا (شاباشی کے طور پر) اور فرمایا: ”سب طرح کی تعریف اللہ تعالیٰ ہی کو لائق ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد کو اس چیز کی توفیق بخشی جس سے اللہ کا رسول راضی اور خوش ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لانقطاعه، [مكتبه الشامله نمبر: 170]»
اس حدیث کو [أبوداؤد 3592]، [ترمذي 1327]، [أحمد 230/5]، [البغوي 116/10]، [ابن أبى شيبه 292/7]، [ابن الجوزي فى العلل 1264] وغیرہ نے ذکر کیا ہے۔ نیز دیکھئے: [آداب القاضي 114/10]، [الفقيه 188/1]، [جامع بيان العلم 1592] و [العلل للدارقطني 1001] لیکن اس کی سند ضعیف ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے [الأحاديث الضعيفة 273/2] میں اس کو ذکر کیا ہے۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 168 سے 170) گرچہ یہ حدیث سنداً صحیح نہیں ہے، لیکن اسلاف کرام کا عمل اسی طرح کا رہا ہے، جیسا کہ پچھلے آثار اور آنے والے نصوص سے ثابت ہوتا ہے، آگے اس کا شاہد بھی آرہا ہے۔ واللہ اعلم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لانقطاعه
حریث بن ظہیر نے کہا: میرا گمان ہے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: ہمارے اوپر ایسا وقت گزرا ہے کہ ہم کوئی سوال نہیں کرتے تھے، گویا کہ ہم اس زمانے میں تھے ہی نہیں، اور اللہ تعالیٰ نے مقدر کر دیا کہ اب میں اس حال کو پہنچ گیا ہوں جیسا کہ تم دیکھتے ہو، سو تم سے جب کسی چیز کا مسئلہ پوچھا جائے تو اسے کتاب اللہ میں تلاش کرو، اگر وہ چیز کتاب اللہ میں نہ ملے تو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں تلاش کرو، اور اگر سنت رسول میں بھی نہ پاؤ تو مسلمانوں نے جس پر اتفاق رائے کیا ہو وہ دیکھو، اگر اجماع المسلمین میں بھی وہ مسئلہ نہ پاؤ تو پھر غور و فکر اور اجتہاد کرو، اور یہ نہ کہو کہ میں ڈرتا ہوں یا خوف آتا ہے، بیشک حلال ظاہر ہے اور حرام بھی واضح ہے، ان دونوں کے درمیان کچھ امور مشتبہ ہیں، تو تم شک شبہ والی چیز چھوڑ کر یقین والی چیز کو اپنا لو۔
تخریج الحدیث: «[ص: 270]، [مكتبه الشامله نمبر: 171]»
اس روایت کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [الفقيه 201/1]، یہ اثر انہیں الفاظ میں دوسرے طریق سے گزر چکی ہے۔ نیز دیکھئے: اثر رقم (167) قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: [ص: 270]
عبدالرحمن بن یزید نے بھی سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مذکورہ بالا اثر بیان کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 172]»
اس اثر کی سند صحیح ہے، لیکن اس سند کو امام دارمی کے علاوہ کسی نے نقل نہیں کیا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
قاسم بن عبدالرحمٰن نے اپنے باپ سے، انہوں نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اسی طرح روایت کی ہے۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 173]»
یہ سند بھی صحیح ہے، لیکن «انفرد به الدارمي» ۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
اعمش (سلیمان بن مہران) نے بیان کیا کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: لوگو! تم نئی چیزیں ایجاد کرو گے اور تمہارے لئے نئی نئی باتیں ایجاد کی جائیں گی، پس جب تم کوئی نئی بات دیکھو تو پہلے ہی کام کو لازم پکڑنا۔ راوی حفص بن غیاث نے کہا: پہلے میں اس اثر کو حبیب (بن ثابت) عن ابی عبدالرحمٰن السلمی کے طریق سے روایت کیا کرتا تھا، لیکن پھر مجھے اس بارے میں شک پڑ گیا، (اور انہوں نے یہ روایت اعمش کے طریق سے سیدنا عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے جس میں انقطاع ہے)۔
تخریج الحدیث: «إسناده منقطع لم يسمع الأعمش من ابن مسعود، [مكتبه الشامله نمبر: 174]»
اس روایت کی سند میں انقطاع ہے۔ دیکھے: [السنة للمروزي 80]، [الإبانة 180 و 182] جو دوسری سند سے مروی ہے، اور حفص کے قول کو خطیب نے [الفقيه والمتفقه 182/1] میں ذکر کیا اور «لابأس به» کہا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده منقطع لم يسمع الأعمش من ابن مسعود
امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے کہا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہا: مجھے خبر لگی ہے کہ تم فتوے دیتے ہو حالانکہ تم امیر بھی نہیں ہو، جو چیز جس کے لائق ہے اس کے لئے ہی رہنے دو۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 175]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے، کیونکہ محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کونہیں پایا۔ اسے ابن عبدالبر نے [جامع بيان العلم 2064] میں ذکر کیا ہے۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 170 سے 175) «وَلِّ حَارَّهَا مَنْ تَوَلَّي قَارَهَا» یہ عربی کہاوت ہے جس کے معنی ہیں کہ جو اچھی چیز کا والی بنا بری چیزوں کو بھی وہی (جھیلے) برداشت کرے۔ مطلب یہ کہ جو جس چیز کا اہل ہے وہ اسی کے لئے چھوڑ دو، اور فتویٰ دینے میں احتیاط کرو۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
|