مقدمه مقدمہ 40. باب تَعْجِيلِ عُقُوبَةِ مَنْ بَلَغَهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثٌ فَلَمْ يُعَظِّمْهُ وَلَمْ يُوَقِّرْهُ: حدیث رسول کی توہین و تحقیر پر فوری سزا کا بیان
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک شخص اپنی دو چادروں میں اترا رہا تھا تو الله تعالیٰ نے اسے زمین میں دھنسا دیا، لہٰذا وہ قیامت تک دھنستا رہے گا۔“ ایک نوجوان نے کہا: جس کا نام انہوں نے بتایا جو اپنے لباس (حلۃ) میں تھا، اے ابوہریرہ! کیا وہ جوان جو چلتے ہوئے دھنسا دیا گیا اس طرح چلتا تھا؟ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ مارا تو وہ لڑکھڑا کر گرا، قریب تھا کہ چور چور ہو جائے، پھر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ اسے اس کے چہرے کے بل گرائے اور پڑھا: «﴿إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ﴾» [الحجر: 95/15] یعنی آپ سے جو لوگ استہزاء کرتے ہیں ان کی سزا کے لئے ہم کافی ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف غير أن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 451]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن زمین میں دھنسائے جانے کا واقعہ صحیح ہے، اور متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3485]، [مسلم 2088] نیز اس روایت کے شواہد بھی ہیں۔ دیکھئے: [مسند أبى يعلی 4302] و [فتح الباري 261/10] وضاحت:
(تشریح حدیث 450) حدیث پاک کے ساتھ ہنسی مذاق پر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس شخص کو سخت سرزنش کی اور یہ پیغام دیا کہ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توقیر و عظمت نہ کرنے والے کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جائے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف غير أن الحديث متفق عليه
خراش بن جبیر نے کہا: میں نے مسجد میں ایک جوان کو دیکھا جو کنکری پھینک رہا تھا، ایک شیخ نے اس سے کہا: کنکری نہ پھینکو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کنکری پھینکنے سے منع کرتے سنا ہے۔ اس جوان نے غفلت برتی اور سمجھا کہ شیخ اس کو دیکھ نہیں رہے ہیں، چنانچہ پھر کنکری پھینکنے لگا تو شیخ نے اس سے کہا: میں تمہیں حدیث بتاتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کنکری پھینکنے سے منع فرماتے سنا پھر بھی تم وہی کر رہے ہو؟ قسم خدا کی میں نہ تمہارے جنازے میں آؤں گا نہ بیمار ہوئے تو تمہاری عیادت کروں گا، اور نہ کبھی تم سے بات کروں گا۔ میں نے اپنے ساتھی سے جس کا نام مہاجر تھا کہا: خراش کے پاس جاؤ اور پوچھو، چنانچہ وہ ان کے پاس گئے اور اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے یہ حدیث ان سے بھی بیان کی۔ (یعنی اس کی تصدیق کر دی)۔
تخریج الحدیث: «في إسناده علتان: ضعف محمد بن حميد وجهالة خراش بن جبير إن كان محفوظا. ولكنه صحيح بما بعده، [مكتبه الشامله نمبر: 452]»
اس روایت کی سند میں محمد بن حمید ضعیف اور خراش مجہول ہیں، لیکن حدیث الخذف صحیح ہے، جیسا کہ آگے آرہا ہے، دیکھئے رقم: (453، 454)۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: في إسناده علتان: ضعف محمد بن حميد وجهالة خراش بن جبير إن كان محفوظا. ولكنه صحيح بما بعده
سیدنا عبدالله بن مغفل رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکری پھینکنے سے منع فرمایا اور فرمایا: ”یہ کنکری نہ پرند کا شکار کر سکتی ہے اور نہ دشمن کو نقصان پہنچا سکتی ہے سوائے اس کے کہ دانت توڑ د ے گی یا آنکھ پھوڑ دے گی۔“ پھر سعید بن جبیر اور وہ شخص جس کے درمیان رشتے داری تھی اس نے زمین سے کوئی چیز اٹھائی اور کہا: یہ اس کی کیا اہمیت ہو سکتی ہے؟ سعید بن جبیر نے کہا: کیا تم دیکھتے نہیں میں تمہیں حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سناتا ہوں، پھر تم اس کو معمولی سمجھتے ہو؟ تم سے میں کبھی بات نہیں کروں گا۔
تخریج الحدیث: «وهكذا جاءت عند البخاري ومسلم إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 453]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ [امام بخاري 5479] اور [امام مسلم 1954] و [امام أحمد 86/4] نے اسے ذکر کیا ہے اور اصحاب السنن نے بھی اسے روایت کیا ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 5270]، [نسائي 47/8]، [ابن ماجه 217، 3226] وضاحت:
(تشریح احادیث 451 سے 453) مولانا داؤد راز رحمہ اللہ نے فرمایا: اس سے معلوم ہوا حدیث پر چلنا اور اس کے سامنے رائے قیاس کو چھوڑنا ایمان کا تقاضا ہے اور یہ ہی صراط مستقیم ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا: اس سے ان لوگوں سے ترکِ سلام و کلام جائز ثابت ہوا جو سنّت کی مخالفت کریں، اور یہ عمل اس حدیث کے خلاف نہ ہوگا جس میں تین دن سے زیادہ ترکِ کلام کی مخالفت آئی ہے، اس لئے کہ وہ اپنے نفس کے لئے ہے اور یہ محبتِ سنّتِ نبوی کے لئے ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: وهكذا جاءت عند البخاري ومسلم إسناده صحيح
عبداللہ بن بریدہ نے کہا: سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے اپنے اصحاب میں سے ایک آدمی کو کنکری پھینکتے دیکھا. تو فرمایا: کنکری نہ پھینکو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کنکری پھینکنے سے منع فرماتے تھے، (دوسری روایت میں ہے) کنکری پھینکنے کو پسند نہیں کرتے تھے، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے ذریعہ نہ دشمن کو کوئی نقصان پہنچایا جا سکتا ہے اور نہ شکار کیا جا سکتا ہے، البتہ یہ کبھی آنکھ پھوڑ دیتی ہے اور دانت توڑ دیتی ہے۔“ اس کے بعد پھر اسے کنکری پھینکتے دیکھا تو فرمایا: کیا میں نے تمہیں بتایا نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے منع فرماتے تھے؟ اس کے باوجود بھی میں تمہیں کنکری پھینکتے دیکھ رہا ہوں، قسم الله کی اب میں تم سے کبھی بات نہیں کروں گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 454]»
اس روایت کی سند بھی صحیح ہے اور تخریج اوپر گزرچکی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
قتادہ نے کہا: امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے ایک آدمی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کی تو اس آدمی نے کہا: فلاں نے تو اس طرح کہا ہے؟ امام ابن سیرین رحمہ اللہ نے فرمایا: میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سناتا ہوں اور تم کہتے ہو کہ فلاں فلاں نے یہ کہا ہے؟ میں تم سے کبھی بات نہ کروں گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل سعيد بن بشير، [مكتبه الشامله نمبر: 455]»
اس اثر کی سند حسن ہے، اور یہ روایت [مجمع الزوائد 1442] میں مذکور ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل سعيد بن بشير
سیدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کسی کی بیوی اگر مسجد جانے کی اجازت مانگے تو اسے روکے نہیں۔“ عبداللہ کے ایک بیٹے نے کہا: میں تو الله کی قسم اس وقت اسے روکوں گا، سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس کی طرف متوجہ ہوئے اور اتنا برا بھلا کہا کہ میں نے اس سے پہلے انہیں کبھی کسی کو اتنا برا بھلا کہتے نہیں سنا، پھر فرمایا: میں تمہیں حدیث رسول سناتا ہوں، پھر بھی تم کہتے ہو ہم اس وقت واللہ اسے روکیں گے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف محمد بن كثير وهو الثقفي الصنعاني لكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 456]»
اس اثر کی سند ضعیف ہے، لیکن عورت کا مسجد جانے کی اجازت والی حدیث دوسری سند سے صحیح و متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: تخریج حدیث نمبر (459)۔ اور مذکورہ بالا حدیث کے لئے دیکھئے: [بخاري 873]، [مسلم 442]، [مسند أبي يعلی 5426]، [صحيح ابن حبان 2208]، [مسند الحميدي 625] وضاحت:
(تشریح احادیث 453 سے 456) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت اگر مسجد جانے کی اجازت مانگے تو اسے مسجد جانے سے روکنا نہیں چاہئے بشرطیکہ فتنے میں پڑنے کا ڈر نہ ہو، اور مکان آمن ہو، راستہ محفوظ ہو، اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اتنی شدت سے ان کو ڈانٹا تو اس کا سبب ان کے بیٹے کا طرزِ کلام تھا، اور قسم کھا کر یہ کہنا کہ واللہ ہم روکیں گے حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صریح مخالفت ہے۔ جس کے بارے میں آیا: « ﴿فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾ [النور: 63] » یعنی ”جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت کریں انھیں ڈرنا چاہیے کہ فتنہ میں نہ پڑ جائیں یا درد ناک عذاب میں مبتلا ہو جائیں۔ “ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف محمد بن كثير وهو الثقفي الصنعاني لكن الحديث متفق عليه
ابوالمخارق نے کہا کہ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے ذکر کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک درہم کے بدلے دو درہم لینے سے منع فرمایا ہے، ایک آدمی نے کہا کہ جب نقداً (لین دین) ہو تو میں اس میں کوئی برائی نہیں سمجھتا، اس پر سیدنا عباده رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا اور تم کہتے ہو کہ میں اس میں کوئی برائی نہیں سمجھتا، قسم الله کی میں کبھی تمہارے ساتھ ایک چھت کے نیچے نہ بیٹھوں گا۔
تخریج الحدیث: «لم يحكم عليه المحقق، [مكتبه الشامله نمبر: 457]»
یہ روایت ضعیف ہے، کیوں کہ ابوالمخارق اور معروف مجہول ہیں اور محمد بن حمید ضعیف ہیں، لیکن اس طرح کے شواہد موجود ہیں جیسا کہ گذر چکا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: لم يحكم عليه المحقق
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عورتوں کے پاس رات میں نہ جاؤ۔“ راوی نے کہا: اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے لوٹے تھے، دو آدمی چپکے سے اپنے گھر والوں کے پاس چلے گئے اور دونوں نے اپنی بیویوں کے پاس آدمی پایا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف زمعة، [مكتبه الشامله نمبر: 458]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن حدیث (عورتوں کے پاس رات میں نہ جاؤ) صحیح ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے: [كشف الأستار 1487] و [معجم الكبير 245/11، 11626] وضاحت:
(تشریح احادیث 456 سے 458) اگر یہ روایت صحیح ہے تو یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی کی سزا تھی جو دنیا ہی میں مل گئی۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف زمعة
سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر سے واپس آئے تو معرّس میں نزول فرمایا، پھر حکم دیا: ”عورتوں کے پاس رات میں نہ جانا۔“ لیکن دوآدمی جنہوں نے آپ کا فرمان سنا تھا، نکل گئے اور اپنے گھر کا دروازہ جا کھٹکھٹایا اور ان میں سے دونوں نے اپنی بیوی کے ساتھ ایک آدمی پایا۔
تخریج الحدیث: «مرسل وإسناده حسن من أجل عبد الرحمن بن حرملة، [مكتبه الشامله نمبر: 459]»
یہ روایت مرسل ہے، لیکن اس کی سند صحیح ہے، اور خرائطی نے اسے [مساوي الأخلاق 846] میں ذکر کیا ہے، اور حدیث «(لا تطرقوا النساء ليلا)» حاکم نے [مستدرك 7798] اور طبرانی نے [المعجم الكبير 245/11] اور ہیثمی نے [مجمع الزوائد 330/4] میں ذکر کی ہے۔ وضاحت:
(تشریح حدیث 458) یہ « ﴿فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾ [النور: 63] » ترجمہ: ”جو لوگ حکمِ رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہئے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آ پڑے یا وہ دردناک عذاب میں مبتلا کر دیے جائیں۔ “ کی تفسیر اور عقوبتِ عاجلہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہ ماننے کی سزا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: مرسل وإسناده حسن من أجل عبد الرحمن بن حرملة
عبدالرحمٰن بن حرملۃ نے کہا کہ سعید بن المسيب رحمہ اللہ کے پاس ایک آدمی انہیں حج یا عمرے کے لئے رخصت کرنے آیا تو سعید بن المسیب رحمہ اللہ نے کہا: مسجد سے بنا نماز پڑھے نہ نکلنا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اذان کے بعد مسجد سے صرف منافق نکل بھاگتا ہے، سوائے اس آدمی کے جو کسی ضرورت سے مسجد سے نکلا اور مسجد واپس آنے کا ارادہ رکھتا ہے۔“ اس شخص نے کہا: میرے ساتھی حرہ میں ہیں، اور وہ نکل گیا۔ سعید رحمہ اللہ بڑی فکر سے اس کو پوچھتے رہے یہاں تک کہ انہیں بتایا گیا کہ وہ آدمی اپنی سواری سے گرا اور اس کی ران ٹوٹ گئی۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 460]»
اس روایت کی سند حسن ہے اور حدیث «لا يخرج بعد النداء إلا منافق» کو امام بیہقی نے [السنن الكبري 56/3] میں ذکر کیا ہے۔ نیز دیکھئے: [مصنف عبدالرزاق 1945]، [مراسيل أبى داؤد 25]، [مجمع الزوائد 5/2] و [الكامل لابن عدي 1962/5] وضاحت:
(تشریح حدیث 459) اذان سن کر مسجد سے نکلنے کے ممانعت کی حدیث آگے (1239) نمبر پر بھی آرہی ہے اور سعید بن المسیب رحمہ اللہ کا بار بار اس شخص کے بارے میں پوچھنا ظاہر کرتا ہے کہ انہیں یقین تھا کہ سنّت کی مخالفت پر اللہ تعالیٰ اس شخص کو ضرور کوئی سزا دے گا جو ثابت ہو کر رہی اور دنیا ہی میں اسے سنّت کی مخالفت پر سزا مل گئی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو مخالفتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بچائے، اللہ تعالیٰ نے فرعون کے بارے میں فرمایا: « ﴿فَعَصَى فِرْعَوْنُ الرَّسُولَ فَأَخَذْنَاهُ أَخْذًا وَبِيلًا﴾ [المزمل: 16] » ترجمہ: ”تو فرعون نے اس رسول کی نافرمانی کی جس کی وجہ سے ہم نے اسے سخت وبال کی پکڑ میں جکڑ لیا۔ “ یعنی موسیٰ علیہ السلام کی مخالفت کے جرم میں اسے غرق کر دیا۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
|