مقدمه مقدمہ 35. باب اجْتِنَابِ أَهْلِ الأَهْوَاءِ وَالْبِدَعِ وَالْخُصُومَةِ: اہل ہوس بدعتی اور متکلمین سے بچنے کا بیان
ابوقلابہ نے کہا: خواہشات کے بندوں (اہل ہوس) کے پاس نہ بیٹھو، اور نہ ان سے تکرار کرو، کیونکہ میں تم کو ان سے محفوظ نہیں سمجھتا کہ وہ تمہیں گمراہی میں ڈبو دیں گے، یا جس چیز کی تم معرفت رکھتے ہو اس میں بھی خلط ملط کر دیں گے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 405]»
اس قول کی سند صحیح ہے، اور یہ روایت [إبانة 363]، [طبقات ابن سعد 134/7] و [شرح أصول اعتقاد أهل السنة 243] میں اسی سند سے مروی ہے۔ نیز [إبانة 610]، [البدع لابن وضاح 132]، [الشريعة ص: 67] میں دوسری سند سے بھی مروی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
ایوب نے کہا: سعید بن جبیر نے مجھے طلق بن حبیب کے پاس بیٹھے دیکھا تو مجھ سے کہا: کیا میں نے تمہیں طلق بن حبیب کے پاس بیٹھے نہیں دیکھا؟ تم (ہرگز) ان کے پاس نہ بیٹھو۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 406]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [البدع 145] و [الإبانة 413] وضاحت:
(تشریح احادیث 404 سے 406) سعید بن جبیر نے اس لئے طلق بن حبیب کے پاس بیٹھنے سے منع کیا کیونکہ وہ مرجئہ میں سے تھے اور انہوں نے دین میں نئی باتیں ایجاد کر لی تھیں۔ کلام اور فلسفہ میں ٹامک ٹویاں مارتے تھے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
نافع سے مروی ہے کہ سیدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا: کہ فلاں آدمی آپ کو سلام کہتا ہے، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس نے بدعت ایجاد کی ہے، اگر اس نے ایسا کیا ہے تو میرا سلام اسے نہ کہنا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 407]»
اس اثر کی سند صحیح ہے، لیکن یہ اثر کہیں اور نہیں مل سکی۔ ابوعاصم کا نام: ضحاک بن مخلد اور ابوصخر: حمید بن زیاد ہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
اعمش نے کہا: امام ابراہیم نخعی بدعتی کے بارے میں کچھ کہنے کو غیبت میں شمار نہیں کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات وهذا إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 408]»
اس روایت کے رجال ثقات ہیں، لیکن عبدالرحمن بن مغراء کی اعمش سے روایت میں کلام ہے۔ نیز [شرح اصول اعتقاد أهل السنة 276] میں لالکائی نے اِسے بسند صحیح روایت کیا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات وهذا إسناده صحيح
امام شعبی رحمہ اللہ نے فرمایا: خواہش نفس کا نام «هويٰ» اس لئے رکھا گیا کیونکہ وہ صاحب ھویٰ کو لے کر (جہنم میں) گرتی چلی جاتی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف محمد بن حميد، [مكتبه الشامله نمبر: 409]»
اس روایت کی سند محمد بن حمید کی وجہ سے ضعیف ہے۔ دیکھئے: [شرح اصول 229]، [حلية الأولياء 320/3] وضاحت:
(تشریح احادیث 406 سے 409) «هَوَيٰ يَهْوِي» کے معنی گرنے کے ہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف محمد بن حميد
محمد بن واسع نے کہا کہ مسلم بن یسار فرماتے تھے: اپنے کو مراء (دکھاوے) سے بچاؤ کیونکہ یہ عالم کی نادانی کی گھڑی ہوتی ہے اور شیطان ایسی لغزش کی تلاش میں رہتا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 410]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [الشريعة ص: 61]، [الحلية 294/2]، [الإبانة 547، 548] اس روایت کی سند میں عفان: ابن مسلم ہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
اسماء بن عبید نے کہا کہ اہل ہوس (متکلمین و فلاسفہ) میں سے دو آدمی امام ابن سیرین رحمہ اللہ کے پاس آئے اور کہنے لگے: اے ابوبکر! ہم آپ کے لئے حدیث بیان کرتے ہیں، انہوں نے کہا: نہیں (اس کی ضرورت نہیں)، انہوں نے کہا: پھر ہم آپ کو قرآن پاک کی کوئی آیت سناتے ہیں، فرمایا: نہیں، یا تم میرے پاس سے اٹھ کر چلے جاؤ یا میں خود چلا جاؤں گا۔ راوی نے کہا: لہٰذا وہ دونوں نکل گئے، اہل مجلس میں سے کسی نے کہا: اے ابوبکر! کیا برائی تھی اگر وہ قرآن پاک کی کوئی آیت سنا دیتے؟ فرمایا: مجھے ڈر تھا کہ وہ کوئی آیت سنائیں اور اس میں تحریف کر دیں اور وہ میرے دل میں بیٹھ جائے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 411]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [الإبانة 398]، [شرح أصول 242]، [الشريعة ص: 64] و [البدع 150] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سلام بن ابی مطیع سے مروی ہے کہ «أهل الأهواء» (بدعتیوں) میں سے ایک آدمی نے ایوب (السختیانی رحمہ اللہ) سے کہا: اے ابوبکر! میں آپ سے ایک بات پوچھتا ہوں، راوی نے کہا: ایوب رحمہ اللہ نے پیٹھ پھیر لی اور انگلی سے اشارہ کیا کہ آدھی بات بھی نہیں۔ سعید بن عامر نے سیدھے ہاتھ کی چھوٹی انگلی سے اشارہ کر کے بتایا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 412]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [الإبانة 402]، [شرح أصول اعتقاد أهل السنة 291]، [الحلية 9/3] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
کلثوم بن جبر سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے کسی چیز کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے اس کا جواب نہیں دیا، جب ان سے اس (اعراض) کا سبب پوچھا گیا تو فرمایا: یہ انہیں میں سے ہے (یعنی بدعتی ہے)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 413]»
اس قول کی سند صحیح ہے، «وانفرد به الدارمي» ۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 409 سے 413) «أَزِيشَان»: یہ کلمہ فارسی زبان کا ہے جس کے معنی ہیں: انہیں (یعنی بدعتیوں) میں سے ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
ابوجعفر محمد بن علی سے مروی ہے، انہوں نے کہا: اہل کلام (منطق و فلسفہ والے) کے ساتھ نہ بیٹھو کیونکہ یہ وہی لوگ ہیں جو الله تعالیٰ کی آیات میں کلام کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف الليث هو: ابن أبي سليم، [مكتبه الشامله نمبر: 414]»
اس روایت میں لیث بن ابی سلیم ضعیف ہیں۔ دیکھئے: [الإبانة 383، 405، 543، 808] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف الليث هو: ابن أبي سليم
امام حسن اور امام محمد بن سیرین رحمہم اللہ نے فرمایا: اہل کلام کے ساتھ نہ بیٹھو، نہ ان سے بحث مباحثہ کرو، اور نہ ان سے سماع کرو۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 415]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [الإبانة 395، 458]، [جامع بيان العلم 1803]، [شرح اعتقاد أهل السنة 240] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
امام شعبی رحمہ اللہ نے فرمایا: ہویٰ و ہوس اور نفس کے بندے یہ اس لئے نام زد کئے گئے کیونکہ یہ جہنم میں ڈالے جائیں گے۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل شريك، [مكتبه الشامله نمبر: 416]»
اس قول کی سند حسن ہے، احمد سے مراد: احمد بن عبدالله بن یونس، اور امی: ابن ربیعہ ہیں، اس روایت کو لالکائی نے [شرح اصول اعتقاد أهل السنة 229] میں ذکر کیا ہے، نیز اس معنی کی روایت (409) میں گذر چکی ہے۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 413 سے 416) «الأهواء: هَوَي» کی جمع ہے اور «هَوَيٰ يَهْوِي» کے معنی نیچے گرنا، پس اصحاب الاہواء خواہشِ نفس کے سامنے گر جاتے ہیں اور اسی طرح جہنم میں گر جائیں گے، جیسا کہ مثل مشہور ہے: «الجزاء من جنس العمل» (جیسی کرنی ویسی بھرنی)۔ ان تمام آثار سے یہ ثابت ہوا کہ اہلِ بدعت، فلسفی، نفس پرست، خواہشات کے اسیر لوگوں کے پاس نہ بیٹھنا چاہیے اور نہ ان کی بات سننی چاہیے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل شريك
|