سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
مقدمه
مقدمہ
32. باب في فَضْلِ الْعِلْمِ وَالْعَالِمِ:
علم اور عالم کی فضیلت کا بیان
حدیث نمبر: 329
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا بشر بن الحكم، حدثنا سفيان، عن إبراهيم بن ميسرة، قال: راى مجاهد طاوسا في المنام، كانه في الكعبة يصلي متقنعا، والنبي صلى الله عليه وسلم على باب الكعبة، فقال له:"يا عبد الله، اكشف قناعك واظهر قراءتك"، قال: فكانه عبره على العلم، فانبسط بعد ذلك في الحديث.(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ الْحَكَمِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ، قَالَ: رَأَى مُجَاهِدٌ طَاوُسًا فِي الْمَنَامِ، كَأَنَّهُ فِي الْكَعْبَةِ يُصَلِّي مُتَقَنِّعًا، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى بَابِ الْكَعْبَةِ، فَقَالَ لَهُ:"يَا عَبْدَ اللَّهِ، اكْشِفْ قِنَاعَكَ وَأَظْهِرْ قِرَاءَتَكَ"، قَالَ: فَكَأَنَّهُ عَبَّرَهُ عَلَى الْعِلْمِ، فَانْبَسَطَ بَعْدَ ذَلِكَ فِي الْحَدِيثِ.
ابراہیم بن میسرہ نے کہا کہ مجاہد نے طاؤوس رحمہ اللہ کو خواب میں دیکھا کہ وہ کعبہ میں نقاب لگائے نماز پڑھ رہے ہیں، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہیں اور فرما رہے ہیں: اے اللہ کے بندے! اپنا نقاب ہٹا دے، اور آواز سے پڑھ (یعنی اعلانیہ حدیث بیان کر)، ابراہیم نے کہا: اس کی تعبير انہوں نے علم سے کی، اور اس کے بعد مسرور ہو کر حدیث بیان کرنے لگے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح غير أنه مرسل، [مكتبه الشامله نمبر: 330]»
یہ روایت مرسل ہے، اور [حلية الأولياء 5/4] میں بھی اسی طرح منقول ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح غير أنه مرسل
حدیث نمبر: 330
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا عبد الله بن محمد، حدثنا ابن يمان، عن ابن ثوبان، عن ابيه، عن عبد الله بن ضمرة، عن كعب، قال: "الدنيا ملعونة، ملعون ما فيها، إلا متعلم خيرا، او معلمه".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ يَمَانٍ، عَنْ ابْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ضَمْرَةَ، عَنْ كَعْبٍ، قَالَ: "الدُّنْيَا مَلْعُونَةٌ، مَلْعُونٌ مَا فِيهَا، إِلَّا مُتَعَلِّمَ خَيْرًا، أَوْ مُعَلِّمُهُ".
کعب نے کہا: دنیا ملعونہ ہے اور جو اس میں ہے وہ بھی ملعون ہے سوائے خیر کے سیکھنے اور سکھانے والے کے۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن يحيى بن يمان حسن الحديث فيما لم يخالف فيه، [مكتبه الشامله نمبر: 331]»
اس روایت کی سند حسن، اور کعب پر موقوف ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 2322]، [ابن ماجه 4112]، [مصنف ابن أبى شيبه 7277]، [شعب الإيمان 1708] وغیرہم، لیکن یہ روایت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً بھی مروی ہے، اور امام ترمذی نے اس کو حسن کہا ہے، الفاظ یہ ہیں: «الدُّنْيَا مَلْعُوْنَةٌ، مَلْعُوْنٌ مَا فَيْهَا إِلَّا ذِكْرِ اللهِ وَمَا وَالَاهُ وَعَالِمٌ أَوْ مُتَعَلِّم» ۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 328 سے 330)
ملعون سے مراد یہ ہے کہ عالم و متعلم کے علاوہ سب اللہ کی رحمت سے دور ہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن يحيى بن يمان حسن الحديث فيما لم يخالف فيه
حدیث نمبر: 331
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا محمد بن كثير، عن الاوزاعي، عن بحير بن سعد، عن خالد بن معدان، قال: "الناس عالم ومتعلم، وما بين ذلك همج لا خير فيه".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ بَحِيرٍ بن سعد، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، قَالَ: "النَّاسُ عَالِمٌ وَمُتَعَلِّمٌ، وَمَا بَيْنَ ذَلِكَ هَمَجٌ لَا خَيْرَ فِيهِ".
خالد بن معدان نے فرمایا: لوگ یا تو عالم ہیں یا متعلم، اور ان دونوں کے درمیان جو ہیں وہ رذیل لوگ ہیں، جن میں کوئی خیر نہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف محمد بن كثير بن أبي عطاء، [مكتبه الشامله نمبر: 332]»
اس اثر کی سند میں محمد بن کثیر بن ابی عطاء ضعیف ہیں، لیکن اس کا شاہد موجود ہے اس لئے معنی صحیح، اور اس کی نسبت معدان کی طرف درست ہے۔ دیکھے: [الزهد لأحمد ص: 136]، [جامع بيان العلم 114]، [مجمع الزوائد 503، 505]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف محمد بن كثير بن أبي عطاء
حدیث نمبر: 332
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا بشر بن الحكم، حدثنا عبد الله بن رجاء، عن هشام، عن الحسن، قال: كانوا يقولون: "موت العالم ثلمة في الإسلام، لا يسدها شيء ما اختلف الليل والنهار".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ الْحَكَمِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَجَاءٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ الْحَسَنِ، قَالَ: كَانُوا يَقُولُونَ: "مَوْتُ الْعَالِمِ ثُلْمَةٌ فِي الْإِسْلَامِ، لَا يَسُدُّهَا شَيْءٌ مَا اخْتَلَفَ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ".
ہشام نے روایت کیا کہ حسن رحمہ اللہ نے فرمایا: لوگ کہتے تھے کہ عالم کی موت اسلام میں ایک شگاف ہے، جس کو رہتی دنیا تک کوئی چیز بند نہ کر سکے گی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 333]»
اس روایت کی سند صحیح ہے، لیکن یہ حسن رحمہ اللہ کا قول ہے حدیث نہیں ہے۔ سیدہ عائشہ اور سیدنا جابر رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً بھی مروی ہے، لیکن سنداً ضعیف ہے۔ دیکھئے: [الزهد لأحمد ص: 262]، [جامع بيان العلم 1021]، [شعب الإيمان 1719]، [المقاصد الحسنه 79]، [كشف الخفاء 273] وغيرهم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 333
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا يوسف بن موسى، حدثنا إبراهيم بن موسى، اخبرنا محمد بن الحسن الصنعاني، حدثنا منذر هو ابن النعمان، عن وهب بن منبه، قال: "مجلس يتنازع فيه العلم، احب إلي من قدره صلاة، لعل احدهم يسمع الكلمة فينتفع بها سنة، او ما بقي من عمره".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الصَّنْعَانِيُّ، حَدَّثَنَا مُنْذِرٌ هُوَ ابْنُ النُّعْمَانِ، عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ، قَالَ: "مَجْلِسٌ يُتَنَازَعُ فِيهِ الْعِلْمُ، أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ قَدْرِهِ صَلَاةً، لَعَلَّ أَحَدَهُمْ يَسْمَعُ الْكَلِمَةَ فَيَنْتَفِعُ بِهَا سَنَةً، أَوْ مَا بَقِيَ مِنْ عُمُرِهِ".
وہب بن منبہ نے فرمایا: میرے نزدیک ایسی مجلس جس میں علم کے بارے میں مناقشہ ہو، اسی قدر نماز سے زیادہ پسندیدہ و محبوب ہے، اس لئے کہ شاید ان میں سے کوئی ایسا کلمہ سن لے جو اس کو سال بھر یا باقی ماندہ عمر میں فائدہ دے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 334]»
اس اثر کی سند صحیح ہے «وانفرد به الدارمي» ۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 330 سے 333)
اس کا مطلب یہ ہے کہ علم سیکھنا اور سکھانا نفلی نماز سے بہتر ہے جس کا فائدہ دوسرے لوگوں تک ممتد ہے اور نماز صرف اپنے لئے فائدہ مند ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 334
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا يعقوب بن إبراهيم، اخبرنا وكيع، قال: قال سفيان: "ما اعلم عملا افضل من طلب العلم وحفظه لمن اراد الله تعالي به خيرا"..(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: قَالَ سُفْيَانُ: "مَا أَعْلَمُ عَمَلًا أَفْضَلَ مِنْ طَلَبِ الْعِلْمِ وَحِفْظِهِ لِمَنْ أَرَادَ اللَّهَ تعَالَي بِهِ خَيْرًا"..
سفیان ثوری رحمہ اللہ نے فرمایا: جس شخص کے ساتھ الله تعالیٰ بھلائی چاہے اس کے لئے علم حاصل کرنے اور اس کے حفظ سے بہتر کوئی عمل نہیں جانتا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 335]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [حلية الأولياء 363/6]، [جامع بيان العلم 99، 100] اس میں ہے: «لَيْسَ عَمَلَ بَعْدَ الْفَرَائِضِ أَفْضَلَ مِنْ طَلَبِ الْعِلْمِ» یعنی فرائض کے بعد طلب علم سے بہتر کوئی عمل نہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 335
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا يعقوب بن إبراهيم، انا وكيع، وقال: قال الحسن بن صالح:"إن الناس يحتاجون إلى هذا العلم في دينهم، كما يحتاجون إلى الطعام والشراب في دنياهم"..(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَنَا وَكِيعٌ، وَقَالَ: قَالَ الْحَسَنُ بْنُ صَالِحٍ:"إِنَّ النَّاسَ يَحْتَاجُونَ إِلَى هَذَا الْعِلْمِ فِي دِينِهِمْ، كَمَا يَحْتَاجُونَ إِلَى الطَّعَامِ وَالشَّرَابِ فِي دُنْيَاهُمْ"..
حسن بن صالح نے فرمایا: لوگ یقیناً اپنے دینی معاملات میں اسی طرح اس علم کے محتاج ہوں گے جس طرح اپنی دنیا میں کھانے پینے کے محتاج ہوتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 336]»
اس کی سند صحیح مثل سابق ہے۔ نیز دیکھئے: [شرف أصحاب الحديث 178]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
حدیث نمبر: 336
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو نعيم، وجعفر بن عون، قالا: حدثنا مسعر، عن عمرو بن مرة، عن سالم بن ابي الجعد، قال: قال ابو الدرداء رضي الله عنه: "تعلموا قبل ان يقبض العلم، فإن قبض العلم قبض العلماء، وإن العالم والمتعلم في الاجر سواء".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، وَجَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، قَالَ: قَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: "تَعَلَّمُوا قَبْلَ أَنْ يُقْبَضَ الْعِلْمُ، فَإِنَّ قَبْضَ الْعِلْمِ قَبْضُ الْعُلَمَاءِ، وَإِنَّ الْعَالِمَ وَالْمُتَعَلِّمَ فِي الْأَجْرِ سَوَاءٌ".
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا: علم حاصل کرو، اس سے قبل کہ وہ سمیٹ لیا جائے، بیشک علم کا سمٹنا علماء کا سمٹ جانا (ختم ہو جانا) ہے، یقیناً عالم اور متعلم (طالب علم) اجر میں برابر ہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لانقطاعه، [مكتبه الشامله نمبر: 337]»
اس اثر کی سند میں انقطاع ہے، لیکن شاہد موجود ہے، جیسا کہ رقم (251، 252) میں گزر چکا ہے۔ نیز دیکھئے: [ابن أبى شيبه 6172]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لانقطاعه
حدیث نمبر: 337
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا هارون بن معاوية، عن حفص بن غياث، عن ابي عبد الله الخراساني، عن الضحاك: ولكن كونوا ربانيين بما كنتم تعلمون الكتاب سورة آل عمران آية 79، قال: "حق على كل من قرا القرآن ان يكون فقيها".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، عَنْ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْخُرَاسَانِيِّ، عَنْ الضَّحَّاكِ: وَلَكِنْ كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ سورة آل عمران آية 79، قَالَ: "حَقٌّ عَلَى كُلِّ مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ أَنْ يَكُونَ فَقِيهًا".
ضحاک رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ آیت شریفہ: «﴿وَلَكِنْ كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ ....﴾» [آل عمران: 79/3] کا مطلب ہے کہ جو بھی قرآن پڑھے اس پر واجب ہے کہ وہ فقیہ (یعنی عالم ربانی) بنے۔

تخریج الحدیث: «لم يحكم عليه المحقق، [مكتبه الشامله نمبر: 338]»
اس اثر کے رواۃ ثقات ہیں۔ دیکھئے: [تفسير ابن كثير 55/2]، [الدر المنثور 47/2]، [تفسير الطبري 325/3]، [الفقيه 51/1] و [تهذيب الكمال 296/13]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: لم يحكم عليه المحقق
حدیث نمبر: 338
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا هارون بن معاوية، عن حفص، عن اشعث بن سوار، عن الحسن: لولا ينهاهم الربانيون والاحبار سورة المائدة آية 63، قال: "الحكماء العلماء".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، عَنْ حَفْصٍ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ سَوَّارٍ، عَنْ الْحَسَنِ: لَوْلا يَنْهَاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالأَحْبَارُ سورة المائدة آية 63، قَالَ: "الْحُكَمَاءُ الْعُلَمَاءُ".
امام حسن بصری رحمہ اللہ نے اس آیت: «﴿لَوْلَا يَنْهَاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ ....﴾» [المائدة: 63/5] انہیں ان کے عابد و عالم کیوں نہیں روکتے ہیں کی تفسیر میں فرمایا کہ «الربانيون» سے مراد حکماء اور علماء ہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف أشعث بن سوار، [مكتبه الشامله نمبر: 339]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے، اور اس کو امام دارمی کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کیا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف أشعث بن سوار
حدیث نمبر: 339
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا محمد بن عيينة، عن ابي إسحاق الفزاري، عن عطاء بن السائب، عن سعيد بن جبير، قال: كونوا ربانيين سورة آل عمران آية 79، قال: "علماء فقهاء".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق الْفَزَارِيِّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: كُونُوا رَبَّانِيِّينَ سورة آل عمران آية 79، قَالَ: "عُلَمَاءُ فُقَهَاءُ".
سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے «كونوا ربانيين» (تم سب رب کے ہو جاؤ) کے بارے میں کہا «ربانيين» سے مراد علماء و فقہاء ہیں۔

تخریج الحدیث: «إلى قوله عليه الصلاة والسلام علماء فقهاء رجاله ثقات غير أن أبا إسحاق إبراهيم بن محمد ابن الحارث ليس مذكورا فيمن سمعوا من عطاء قبل اختلاطه. وإلى قوله عليه الصلاة والسلام " والنشر " اسناده صحيح. وإلى نهاية الحديث الشريف " أخشعهم لله عز وجل " إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 340]»
اس روایت کے رواۃ ثقات ہیں۔ دیکھئے: [تفسير طبري 327/3]، [شعب الإيمان 1856] و [الفقيه والمتفقه 51/1]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إلى قوله عليه الصلاة والسلام علماء فقهاء رجاله ثقات غير أن أبا إسحاق إبراهيم بن محمد ابن الحارث ليس مذكورا فيمن سمعوا من عطاء قبل اختلاطه. وإلى قوله عليه الصلاة والسلام " والنشر " اسناده صحيح. وإلى نهاية الحديث الشريف " أخشعهم لله عز وجل " إسناده صحيح
حدیث نمبر: 340
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا عبيد الله بن سعيد، قال: سمعت سفيان بن عيينة، يقول: "يراد للعلم الحفظ، والعمل، والاستماع، والإنصات، والنشر".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ، يَقُولُ: "يُرَادُ لِلْعِلْمِ الْحِفْظُ، وَالْعَمَلُ، وَالِاسْتِمَاعُ، وَالْإِنْصَاتُ، وَالنَّشْرُ".
عبیدالله بن سعید نے کہا: میں نے سفیان بن عیینہ کو کہتے ہوئے سنا: علم سے مراد حفظ، عمل، استماع، خاموشی اور تبلیغ ہے۔

تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 341]»
اس کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [شعب الإيمان 1797]، [الحلية 274/7]، [الإلماع ص: 221]، [جامع بيان العلم 760، 761]

وضاحت:
(تشریح احادیث 333 سے 340)
یعنی جو علم حاصل کرے اسے حفظ کر لے، اس پر عمل پیرا ہو، خاموشی سے سنے پھر اس کو دوسروں تک پہنچائے، تب عالم کہلائے گا ورنہ نہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
حدیث نمبر: 341
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) قال: واخبرني احمد بن محمد ابو عبد الله، عن سفيان بن عيينة، قال: "اجهل الناس من ترك ما يعلم، واعلم الناس من عمل بما يعلم، وافضل الناس اخشعهم لله عز وجل".(حديث مقطوع) قَالَ: وأَخْبَرَنِي أحمد بن مُحَمَّدٌ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ، قَالَ: "أَجْهَلُ النَّاسِ مَنْ تَرَكَ مَا يَعْلَمُ، وَأَعْلَمُ النَّاسِ مَنْ عَمِلَ بِمَا يَعْلَمُ، وَأَفْضَلُ النَّاسِ أَخْشَعَهُمْ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".
سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ نے فرمایا: لوگوں میں سب سے بڑا جاہل وہ ہے جو علم ہوتے ہوئے اسے چھوڑ دے (یعنی نہ عمل کرے نہ تبلیغ) اور سب سے بڑا عالم وہ ہے جو علم کے مطابق عمل کرے، اور لوگوں میں سب سے زیادہ اچھا وہ ہے جو الله عزوجل سے سب سے زیادہ خشیت والا ہو۔

تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 342]»
اس اثر کی سند صحیح ہے، لیکن دوسری جگہ نہیں مل سکی۔

وضاحت:
(تشریح حدیث 340)
اس قول میں « ﴿إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ أَتْقَاكُمْ﴾ » کی تفسیر ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
حدیث نمبر: 342
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا عبد الله بن جعفر الرقي، عن عبيد الله بن عمرو، عن زيد هو ابن ابي انيسة، عن سيار، عن الحسن، قال: "منهومان لا يشبعان: منهوم في العلم لا يشبع منه، ومنهوم في الدنيا لا يشبع منها، فمن تكن الآخرة همه، وبثه، وسدمه، يكفي الله ضيعته، ويجعل غناه في قلبه، ومن تكن الدنيا همه، وبثه، وسدمه، يفشي الله عليه ضيعته، ويجعل فقره بين عينيه، ثم لا يصبح إلا فقيرا، ولا يمسي إلا فقيرا".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّقِّيُّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ زَيْدٍ هُوَ ابْنُ أَبِي أُنَيْسَةَ، عَنْ سَيَّارٍ، عَنْ الْحَسَنِ، قَالَ: "مَنْهُومَانِ لَا يَشْبَعَانِ: مَنْهُومٌ فِي الْعِلْمِ لَا يَشْبَعُ مِنْهُ، وَمَنْهُومٌ فِي الدُّنْيَا لَا يَشْبَعُ مِنْهَا، فَمَنْ تَكُنِ الْآخِرَةُ هَمَّهُ، وَبَثَّهُ، وَسَدَمَهُ، يَكْفِي اللَّهُ ضَيْعَتَهُ، وَيَجْعَلُ غِنَاهُ فِي قَلْبِهِ، وَمَنْ تَكُنِ الدُّنْيَا هَمَّهُ، وَبَثَّهُ، وَسَدَمَهُ، يُفْشِي اللَّهُ عَلَيْهِ ضَيْعَتَهُ، وَيَجْعَلُ فَقْرَهُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ، ثُمَّ لَا يُصْبِحُ إِلَّا فَقِيرًا، وَلَا يُمْسِي إِلَّا فَقِيرًا".
امام حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا: دو حرص کرنے والے کبھی اکتاتے نہیں، ایک تو علم کا حریص جو علم سے کبھی اکتاتا نہیں، دوسرا دنیا کی چاہت رکھنے والا جو دنیا سے نہیں اکتاتا، پس جس آدمی کا ہم و ارادہ، اوڑھنا بچھونا اور چاہت و ذکر سب کچھ آخرت ہی ہو، اللہ اس کے ہر کام و کاروبار میں کافی ہو گا، اور اس کا غنیٰ اس کے دل میں ڈال دے گا، اور جس کا ہم و چاہت و محبت دنیا ہو اللہ اس کے کاروبار کو منتشر کر دے گا، اور اس کی غریبی و محتاجی کو اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھ دے گا، پھر وہ صبح بھی فقیر ہو گا اور شام کو بھی فقیر ہو گا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى الحسن، [مكتبه الشامله نمبر: 343]»
اس روایت کی سند حسن بصری تک صحیح ہے۔ نیز ابن عدی نے اس مرسل کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے موصولاً روایت کیا ہے۔ دیکھئے: [الكامل 2298/6]، نیز اگلی روایت ملاحظہ فرمائیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى الحسن
حدیث نمبر: 343
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا جعفر بن عون، اخبرنا ابو عميس، عن عون، قال: قال عبد الله رضي الله عنه: "منهومان لا يشبعان: صاحب العلم، وصاحب الدنيا، ولا يستويان، اما صاحب العلم، فيزداد رضى للرحمن، واما صاحب الدنيا، فيتمادى في الطغيان"، ثم قرا عبد الله: كلا إن الإنسان ليطغى {6} ان رآه استغنى {7} سورة العلق آية 6-7، قال: وقال الآخر: إنما يخشى الله من عباده العلماء سورة فاطر آية 28.(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو عُمَيْسٍ، عَنْ عَوْنٍ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: "مَنْهُومَانِ لَا يَشْبَعَانِ: صَاحِبُ الْعِلْمِ، وَصَاحِبُ الدُّنْيَا، وَلَا يَسْتَوِيَانِ، أَمَّا صَاحِبُ الْعِلْمِ، فَيَزْدَادُ رِضًى لِلرَّحْمَنِ، وَأَمَّا صَاحِبُ الدُّنْيَا، فَيَتَمَادَى فِي الطُّغْيَانِ"، ثُمَّ قَرَأَ عَبْدُ اللَّهِ: كَلَّا إِنَّ الإِنْسَانَ لَيَطْغَى {6} أَنْ رَآهُ اسْتَغْنَى {7} سورة العلق آية 6-7، قَالَ: وَقَالَ الْآخَرُ: إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ سورة فاطر آية 28.
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: دو حریص آدمی کبھی اکتاتے نہیں، ایک صاحب علم، دوسرا طالب دنیا اور دونوں برابر نہیں ہو سکتے، صاحب علم اللہ کی خوشنودی میں اضافہ کرتا ہے اور صاحب دنیا سرکشی و طغیانی میں پڑا ٹامک ٹوئیاں مارتا رہتا ہے۔ پھر سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے یہ آیت پڑھی: «‏‏‏‏﴿كَلَّا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَيَطْغَى ٭ أَنْ رَآهُ اسْتَغْنَى﴾» ‏‏‏‏ [العلق: 6/96، 7] سچ مچ انسان تو آپے سے باہر ہو جاتا ہے، وہ اس لئے کہ وہ اپنے آپ کو بےپروا (یا تونگر) سمجھتا ہے۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: کسی اور نے کہا: «﴿إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ ...﴾» [فاطر: 28/35] بیشک الله تعالیٰ سے اس کے عالم بندے ہی ڈرتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده منقطع: عون بن عبد الله بن عتبة أرسل عن ابن مسعود وهو مرسل، [مكتبه الشامله نمبر: 344]»
اس اثر کی سند منقطع ہے، اور [معجم طبراني 223/10، 10388] میں موصولاً مذکور ہے۔ لیکن وہ بھی سنداً ضعیف ہے۔ [معجم طبراني 76/11-77، 11095] میں ایک اور شاہد ہے لیکن وہ بھی ضعیف ہے، لیکن دوسرے شواہد بھی ہیں۔ دیکھئے: [حديث ابن عباس رقم 346]، [مصنف ابن أبى شيبه 6169]، [جامع بيان العلم 583]، [العلم لأبي خيثمه 141]، [المقاصد 1206] وغيرها۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده منقطع: عون بن عبد الله بن عتبة أرسل عن ابن مسعود وهو مرسل
حدیث نمبر: 344
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا محمد بن حميد، حدثنا إبراهيم بن مختار، حدثنا عن سماك بن حرب، عن عكرمة، عن ابن عباس رضي الله عنهما: إنما يخشى الله من عباده العلماء سورة فاطر آية 28، قال: "من خشي الله فهو عالم".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُخْتَارٍ، حَدَّثَنَا عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا: إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ سورة فاطر آية 28، قَالَ: "مَنْ خَشِيَ اللَّهَ فَهُوَ عَالِمٌ".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: «﴿إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ﴾» [فاطر: 28/35] جو اللہ سے ڈرے وہ عالم ہے۔ دو حریص آدمی کبھی آسودہ نہیں ہو سکتے، طالب علم اور طالب دنیا۔

تخریج الحدیث: «في إسناد هذا الأثر علتان: ضعف محمد بن حميد واضطراب رواية سماك عن عكرمة، [مكتبه الشامله نمبر: 345]»
اس اثر کی سند ضعیف ہے، لیکن معنی بالکل صحیح ہے۔ دیکھئے: [تفسير طبري 132/22]، [الدر المنثور 250/5] جس میں اس کے بہت سے شواہد مذکور ہیں۔ نیز دیکھئے: [جامع بيان العلم 1195، 1544، 1545]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: في إسناد هذا الأثر علتان: ضعف محمد بن حميد واضطراب رواية سماك عن عكرمة
حدیث نمبر: 345
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا إسماعيل بن ابان، حدثنا عبد الله بن إدريس، عن ليث، عن طاوس، عن ابن عباس رضي الله عنه، قال: "منهومان لا يشبعان: طالب علم، وطالب دنيا".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَال: "مَنْهُومَانِ لَا يَشْبَعَانِ: طَالِبُ عِلْمٍ، وَطَالِبُ دُنْيَا".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: دو مشتاق (حریص) آدمی کبھی اکتاتے نہیں، طالب علم اور طالب دنیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 346]»
اس اثر کی سند ضعیف ہے، اس کی تخریج اثر رقم (344) میں گزر چکی ہے۔ نیز دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 6169]، [جامع بيان العلم 583]، [العلم 141]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف
حدیث نمبر: 346
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا مروان بن محمد، حدثنا يزيد بن ربيعة الصنعاني، حدثنا ربيعة بن يزيد، قال: سمعت واثلة بن الاسقع رضي الله عنه، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من طلب العلم فادركه، كان له كفلان من الاجر، فإن لم يدركه، كان له كفل من الاجر".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ رَبِيعَةَ الصَّنْعَانِيُّ، حَدَّثَنَا رَبِيعَةُ بْنُ يَزِيدَ، قَالَ: سَمِعْتُ وَاثِلَةَ بْنَ الْأَسْقَعِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ فَأَدْرَكَهُ، كَانَ لَهُ كِفْلَانِ مِنْ الْأَجْرِ، فَإِنْ لَمْ يُدْرِكْهُ، كَانَ لَهُ كِفْلٌ مِنْ الْأَجْرِ".
سیدنا واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے علم طلب کیا اور اسے حاصل بھی کر لیا، تو اس کے لئے دو گنا اجر ہے، اور اگر علم حاصل نہ کر سکا تو بھی اس کے لئے ایک حصہ اجر ہے۔

تخریج الحدیث: «يزيد بن ربيعة الصنعاني قال أبو حاتم: منكر الحديث واهي الحديث، [مكتبه الشامله نمبر: 347]»
اس حدیث کی سند میں یزید بن ربیعہ متروک و منکر الحدیث ہیں، گرچہ یہ روایت [معجم الطبراني: 68/22، 165]، [جامع بيان العلم 213]، [الفقيه 85/2]، [مسند الشهاب 481]، [فوائد تمام 1513] وغیرہ میں موجود ہے، لیکن سب کے طرق ضعیف ہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: يزيد بن ربيعة الصنعاني قال أبو حاتم: منكر الحديث واهي الحديث
حدیث نمبر: 347
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا عبد الله بن محمد بن ابي شيبة، حدثنا مروان بن معاوية، عن عوف، عن عباس العمي، قال: بلغني ان داود النبي صلى الله عليه وسلم كان يقول في دعائه: "سبحانك اللهم، انت ربي تعاليت فوق عرشك، وجعلت خشيتك على من في السموات والارض، فاقرب خلقك منك منزلة اشدهم لك خشية، وما علم من لم يخشك؟ وما حكمة من لم يطع امرك؟!".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، عَنْ عَوْفٍ، عَنْ عَبَّاسٍ الْعَمِّيِّ، قَالَ: بَلَغَنِي أَنَّ دَاوُدَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ فِي دُعَائِهِ: "سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ، أَنْتَ رَبِّي تَعَالَيْتَ فَوْقَ عَرْشِكَ، وَجَعَلْتَ خَشْيَتَكَ عَلَى مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ، فَأَقْرَبُ خَلْقِكَ مِنْكَ مَنْزِلَةً أَشَدُّهُمْ لَكَ خَشْيَةً، وَمَا عِلْمُ مَنْ لَمْ يَخْشَكَ؟ وَمَا حِكْمَةُ مَنْ لَمْ يُطِعْ أَمْرَكَ؟!".
عباس العمي نے کہا: مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ نبی داؤد علیہ السلام اپنی دعا میں کہا کرتے تھے: اے اللہ! تو پاک ہے (ہر عیب سے)، تو میرا رب ہے، عرش کے اوپر جلوہ افروز ہے، اور تو نے اپنی خشیت ان لوگوں میں پیدا کر دی ہے جو زمین و آسمان میں ہیں، پس مقام و مرتبے میں تیری مخلوق میں تیرے قریب ترین وہ ہے جو سب سے زیادہ تیری خشیت و خوف والا ہے، اور وہ علم ہی کیا جو تجھ سے نہ ڈرے، اور وہ حکمت کیسی جو تیرے حکم کی پیروی نہ کرے۔

تخریج الحدیث: «عباس العمي مجهول وباقي رجاله ثقات، [مكتبه الشامله نمبر: 348]»
اس روایت کی سند میں عباس العمي مجہول ہیں، باقی رجال ثقات ہیں۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 9430]، [الدر المنثور 250/5]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: عباس العمي مجهول وباقي رجاله ثقات
حدیث نمبر: 348
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا المعلى بن اسد، حدثنا سلام هو ابن ابي مطيع، قال: سمعت ابا الهزهاز يحدث، عن الضحاك، قال: قال عبد الله بن مسعود رضي الله عنه: "اغد عالما، او متعلما، ولا خير فيما سواهما".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْمُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ، حَدَّثَنَا سَلَّامٌ هُوَ ابْنُ أَبِي مُطِيعٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْهَزْهَازِ يُحَدِّثُ، عَنْ الضَّحَّاكِ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: "اغْدُ عَالِمًا، أَوْ مُتَعَلِّمًا، وَلَا خَيْرَ فِيمَا سِوَاهُمَا".
ضحاک رحمہ اللہ سے مروی ہے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یا تو عالم بنو یا متعلم، اور ان دونوں کے علاوہ کسی میں خیر نہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده منقطع لم يسمع الضحاك بن مزاحم من ابن مسعود ورجاله ثقات: أبو الهزهاز هو نصر بن زياد العجلي، [مكتبه الشامله نمبر: 349]»
اس اثر کی سند میں انقطاع ہے، ضحاک بن مزاحم نے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے کچھ نہیں سنا، باقی رجال ثقات ہیں، اور یہ اثر شاہد کی بنا پر صحیح ہے جو رقم (254) میں گزر چکا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده منقطع لم يسمع الضحاك بن مزاحم من ابن مسعود ورجاله ثقات: أبو الهزهاز هو نصر بن زياد العجلي
حدیث نمبر: 349
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا الحكم بن المبارك، اخبرنا الوليد بن مسلم، اخبرنا الوليد بن سليمان، عن علي بن يزيد، عن القاسم ابي عبد الرحمن، عن ابي امامة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "ستكون فتن يصبح الرجل فيها مؤمنا، ويمسي كافرا، إلا من احياه الله بالعلم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ الْقَاسِمِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "سَتَكُونُ فِتَنٌ يُصْبِحُ الرَّجُلُ فِيهَا مُؤْمِنًا، وَيُمْسِي كَافِرًا، إِلَّا مَنْ أَحْيَاهُ اللَّهُ بِالْعِلْمِ".
سیدنا ابوامامۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عنقریب اتنے فتنے رونما ہوں گے جس میں صبح کو آدمی مومن ہو گا تو شام میں کافر ہو جائے گا، سوائے اس کے جسے اللہ تعالیٰ علم کے ساتھ زندہ رکھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف علي بن يزيد، [مكتبه الشامله نمبر: 350]»
اس روایت کی سند علی بن یزید کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن اس کے شواہد موجود ہیں۔ دیکھئے: [ابن ماجه 3954]، [المعجم الكبير 278/8، 7910]، [كنز العمال 30883]

وضاحت:
(تشریح احادیث 341 سے 349)
یعنی علم کی وجہ سے انسان فتنوں سے محفوظ رہے گا، اور فتنوں سے مراد ہر قسم کے فتنے ہیں جو دین، ایمان اور عقیدے سے بھی تعلق رکھتے ہیں، لہٰذا انسان کو کتاب و سنّت کا علم ضرور حاصل کرنا چاہئے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف علي بن يزيد
حدیث نمبر: 350
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو المغيرة، حدثنا الاوزاعي، حدثني هارون بن رئاب، عن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه، انه كان يقول: "اغد عالما او متعلما، ولا تغد فيما بين ذلك، فإن ما بين ذلك جاهل، وإن الملائكة تبسط اجنحتها للرجل غدا يبتغي العلم من الرضاء بما يصنع".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ رِئَابٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: "اغْدُ عَالِمًا أَوْ مُتَعَلِّمًا، وَلَا تَغْدُ فِيمَا بَيْنَ ذَلِكَ، فَإِنَّ مَا بَيْنَ ذَلِكَ جَاهِلٌ، وَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ تَبْسُطُ أَجْنِحَتَهَا لِلرَّجُلِ غَدَا يَبْتَغِي الْعِلْمَ مِنْ الرِّضَاءِ بِمَا يَصْنَعُ".
ہارون بن رباب نے کہا سیدنا عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: یا عالم بنو یا متعلم، ان دونوں کے درمیانی نہ بنو اس لئے کہ ان دونوں کے درمیان (کے لوگ) جاہل ہیں۔ بیشک فرشتے ایسے آدمی کے فعل سے خوش ہو کر اس کے لئے اپنے پر بچھاتے ہیں جو علم حاصل کرنے کے لئے نکلتا ہے۔

تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أنه منقطع هارون بن رئاب لم يدرك ابن مسعود، [مكتبه الشامله نمبر: 351]»
اس اثر کی سند کے سب رواة ثقات ہیں، لیکن ہارون بن رباب نے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے نہیں سنا، اس لیے یہ روایت منقطع ہے۔ دیکھئے: [المعرفة والتاريخ 399/3]، [جامع بيان العلم 146] اس کا شاہد صحیح موجود ہے۔ دیکھئے: اثر رقم (254)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أنه منقطع هارون بن رئاب لم يدرك ابن مسعود
حدیث نمبر: 351
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو المغيرة، حدثنا الاوزاعي، عن الحسن، قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم، عن رجلين كانا في بني إسرائيل: احدهما كان عالما يصلي المكتوبة، ثم يجلس فيعلم الناس الخير، والآخر يصوم النهار ويقوم الليل، ايهما افضل؟، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "فضل هذا العالم الذي يصلي المكتوبة ثم يجلس فيعلم الناس الخير، على العابد الذي يصوم النهار ويقوم الليل، كفضلي على ادناكم رجلا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ الْحَسَنِ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ رَجُلَيْنِ كَانَا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ: أَحَدُهُمَا كَانَ عَالِمًا يُصَلِّي الْمَكْتُوبَةَ، ثُمَّ يَجْلِسُ فَيُعَلِّمُ النَّاسَ الْخَيْرَ، وَالْآخَرُ يَصُومُ النَّهَارَ وَيَقُومُ اللَّيْلَ، أَيُّهُمَا أَفْضَلُ؟، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "فَضْلُ هَذَا الْعَالِمِ الَّذِي يُصَلِّي الْمَكْتُوبَةَ ثُمَّ يَجْلِسُ فَيُعَلِّمُ النَّاسَ الْخَيْرَ، عَلَى الْعَابِدِ الَّذِي يَصُومُ النَّهَارَ وَيَقُومُ اللَّيْلَ، كَفَضْلِي عَلَى أَدْنَاكُمْ رَجُلًا".
امام حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بنی اسرائیل کے دو آدمیوں کے بارے میں دریافت کیا گیا، ایک ان میں سے عالم تھا جو نماز پڑھتا اور پھر بیٹھ کر لوگوں کو بھلائی کی تعلیم دیتا، دوسرا آدمی دن کو روزے رکھتا اور رات میں قیام کرتا، ان دونوں میں سے کون افضل ہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس عالم کی فضیلت جو نماز پڑھتا ہے اور پھر بیٹھ کر لوگوں کو بھلائی کی تعلیم دیتا ہے، اس عابد پر جو دن کو روزہ رکھتا اور رات میں تہجد پڑھتا ہے، ایسی ہی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے ایک ادنیٰ آدمی پر ہے۔

تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أنه منقطع: ما عرفنا للأوزاعي رواية عن الحسن وهو مرسل أيضا، [مكتبه الشامله نمبر: 352]»
اس روایت کی سند میں انقطاع اور ارسال ہے، اوزاعی کا لقاء حسن بصری سے ثابت نہیں، اور حسن بصری نے اسے مرسلاً روایت کیا ہے۔ «وانفرد به الدارمي» ۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 349 سے 351)
یہ حسن بصری کا قول ہے، اس سے معلوم ہوا کہ عبادت کے ساتھ تعلیم دینا بہت کارِ فضیلت ہے، اور ایسا معلم عابد سے بہت زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أنه منقطع: ما عرفنا للأوزاعي رواية عن الحسن وهو مرسل أيضا
حدیث نمبر: 352
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا الحسن بن الربيع، عن عبد الله بن عبيد الله، عن الحسن بن ذكوان، عن ابن سيرين، قال: "دخلت المسجد، فإذا الاسود بن سريع يقص، وحميد بن عبد الرحمن يذكر العلم في ناحية المسجد، فميلت إلى ايهما اجلس، فنعست، فاتاني آت، فقال: ميلت إلى ايهما تجلس؟ إن شئت اريتك مكان جبرائيل عليه السلام من حميد بن عبد الرحمن".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ ذَكْوَانَ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، قَالَ: "دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ، فَإِذَا الأَسْودَ بْنُ سَرِيع يَقُصُّ، وَحُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ يَذْكُرُ الْعِلْمَ فِي نَاحِيَةِ الْمَسْجِدِ، فَمَيَّلْتُ إِلَى أَيِّهِمَا أَجْلِسُ، فَنَعَسْتُ، فَأَتَانِي آتٍ، فَقَالَ: مَيَّلْتَ إِلَى أَيِّهِمَا تَجْلِسُ؟ إِنْ شِئْتَ أَرَيْتُكَ مَكَانَ جِبْرَائِيلَ عَلَيْهِ السَّلامُ مِنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ".
امام ابن سیرین رحمہ اللہ نے کہا: میں مسجد میں داخل ہوا (تو دیکھا) اسود بن سریع قصہ بیان کر رہے ہیں، اور حمید بن عبدالرحمٰن مسجد کے ایک گوشے میں علمی گفتگو کر رہے ہیں، مجھے تردد ہوا کہ کون سے حلقے میں جا کر بیٹھوں؟ مجھے اونگھ آ گئی اور ایک آنے والا آیا اور اس نے کہا: تمہیں تردد ہے کہ کہاں بیٹھو؟ اگر تم چاہو تو میں تمہیں حمید بن عبدالرحمٰن کے حلقے میں جبریل علیہ السلام کے بیٹھنے کی جگہ بتاؤں؟

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف الحسن بن ذكوان متهم بالتدليس وقد عنعن وباقي رجاله ثقات، [مكتبه الشامله نمبر: 353]»
اس روایت میں حسن بن ذکوان مدلس ہیں، اور روایت معنعن ہے، ابن عبدالبر نے [جامع بيان العلم 219] میں اسے ذکر کیا ہے۔

وضاحت:
(تشریح حدیث 351)
اس سے معلوم ہوا علمی مجالس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں، گرچہ یہ ابن سیرین کا قول ہے لیکن حدیث: «مَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ» سے اس کی تائید ہوتی ہے جو رقم (367) پرآگے آرہی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف الحسن بن ذكوان متهم بالتدليس وقد عنعن وباقي رجاله ثقات
حدیث نمبر: 353
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا نصر بن علي، حدثنا عبد الله بن داود، عن عاصم بن رجاء بن حيوة، عن داود بن جميل، عن كثير بن قيس، قال: كنت جالسا مع ابي الدرداء رضي الله عنه في مسجد دمشق، فاتاه رجل، فقال: يا ابا الدرداء، إني اتيتك من المدينة، مدينة الرسول صلى الله عليه وسلم لحديث بلغني عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فما جاء بك تجارة؟، قال: لا، قال: ولا جاء بك غيره؟، قال: لا، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "من سلك طريقا يلتمس به علما، سهل الله به طريقا من طرق الجنة، وإن الملائكة لتضع اجنحتها رضا لطالب العلم، وإن طالب العلم، ليستغفر له من في السماء والارض حتى الحيتان في الماء، وإن فضل العالم على العابد كفضل القمر على سائر النجوم، إن العلماء هم ورثة الانبياء، إن الانبياء لم يورثوا دينارا، ولا درهما، وإنما ورثوا العلم، فمن اخذ به اخذ بحظه، او بحظ وافر".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ رَجَاءِ بْنِ حَيْوَةَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ جَمِيلٍ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ قَيْسٍ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا مَعَ أَبِي الدَّرْدَاءِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ فِي مَسْجِدِ دِمَشْقَ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا أَبَا الدَّرْدَاءِ، إِنِّي أَتَيْتُكَ مِنْ الْمَدِينَةِ، مَدِينَةِ الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِحَدِيثٍ بَلَغَنِي عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَمَا جَاءَ بِكَ تِجَارَةٌ؟، قَالَ: لَا، قَالَ: وَلَا جَاءَ بِكَ غَيْرُهُ؟، قَالَ: لَا، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ بِهِ عِلْمًا، سَهَّلَ اللَّهُ بِهِ طَرِيقًا مِنْ طُرُقِ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا رِضًا لِطَالِبِ الْعِلْمِ، وَإِنَّ طَالِبَ الْعِلْمِ، لَيَسْتَغْفِرُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ حَتَّى الْحِيتَانُ فِي الْمَاءِ، وَإِنَّ فَضْلَ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِ الْقَمَرِ عَلَى سَائِرِ النُّجُومِ، إِنَّ الْعُلَمَاءَ هُمْ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ، إِنَّ الْأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا، وَلَا دِرْهَمًا، وَإِنَّمَا وَرَّثُوا الْعِلْمَ، فَمَنْ أَخَذَ بِهِ أَخَذَ بِحَظِّهِ، أَوْ بِحَظٍّ وَافِرٍ".
کثیر بن قیس نے کہا: میں سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ کے پاس دمشق کی مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ ان کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا: اے ابودرداء! میں آپ کے پاس مدينۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آیا ہوں اس حدیث کے لئے جس کے بارے میں مجھے اطلاع ملی ہے کہ آپ (اسے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں۔ سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے کہا: تم تجارت کے واسطے آئے ہو؟ کہا: نہیں۔ فرمایا: اور کوئی چیز بھی تمہیں یہاں نہیں لائی؟ کہا: نہیں، فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرماتے ہیں: جو شخص کسی راستے میں علم کی تلاش میں نکلا تو الله تعالیٰ اس کے لئے اس کے ذریعہ جنت کے راستوں میں سے ایک راستہ آسان فرما دیتا ہے، اور بیشک فرشتے طالب علم سے خوش ہو کر اس کے لئے اپنے پر بچھاتے ہیں، اور بیشک طالب علم کے لئے جو زمین آسمان میں ہیں مغفرت طلب کرتے ہیں یہاں تک کہ مچھلیاں بھی پانی میں (طالب علم کے لئے مغفرت طلب کرتی ہیں) اور بیشک عالم کی فضیلت عابد پر ایسے ہی ہے جیسے چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر، بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں، انبیاء نے یقیناً دینار و درہم کا ورثہ نہیں چھوڑا بلکہ علم کا ورثہ چھوڑا ہے، پس جس نے علم حاصل کیا اس نے اپنا نصیب یا وافر نصیب حاصل کر لیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 354]»
اس سند سے یہ حدیث ضعیف ہے، لیکن اس کے شواہد موجود ہیں۔ دیکھئے: [أبوداؤد 3641]، [ترمذي 2682]، [ابن ماجه 223]، [مسند أحمد 196/5]، [مشكل الآثار 429/1]، [جامع بيان العلم 173، 174]، [سنن البيهقي 1697]، [الترغيب والترهيب 94/1] وغيرهم۔

وضاحت:
(تشریح حدیث 352)
اس حدیث میں علم اور عالم اور متعلم کی فضیلت بیان کی گئی ہے جس کے لئے زمین و آسمان کی تمام مخلوق استغفار کرتی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف
حدیث نمبر: 354
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا محمد بن عيينة، عن ابي إسحاق الفزاري، عن الاعمش، عن شمر بن عطية، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: "معلم الخير يستغفر له كل شيء، حتى الحوت في البحر".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق الْفَزَارِيِّ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ شِمْرِ بْنِ عَطِيَّةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، قَالَ: "مُعَلِّمُ الْخَيْرِ يَسْتَغْفِرُ لَهُ كُلُّ شَيْءٍ، حَتَّى الْحُوتُ فِي الْبَحْرِ".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: بھلائی کی تعلیم دینے والے کے لئے ہر چیز مغفرت طلب کرتی ہے، حتی کہ سمندر کی مچھلیاں بھی۔

تخریج الحدیث: «إسناده جيد وهو موقوف على ابن عباس، [مكتبه الشامله نمبر: 355]»
یہ سیدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے اور اُن تک سند جید ہے، مرفوع روایت بھی موجود ہے جیسا کہ گذر چکا ہے، حوالہ کے لئے دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 6164] و [جامع بيان العلم 796]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد وهو موقوف على ابن عباس
حدیث نمبر: 355
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا احمد بن عبد الله بن يونس، حدثنا زائدة، عن الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ما من رجل يسلك طريقا يطلب فيه علما، إلا سهل الله له به طريقا إلى الجنة، ومن ابطا به عمله، لم يسرع به نسبه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا مِنْ رَجُلٍ يَسْلُكُ طَرِيقًا يَطْلُبُ فِيهِ عِلْمًا، إِلَّا سَهَّلَ اللَّهُ لَهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ، وَمَنْ أَبْطَأَ بِهِ عَمَلُهُ، لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نَسَبُهُ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو بھی آدمی علم کی طلب میں کسی راستے میں چلتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے اس ذریعہ سے جنت کا راستہ آسان فرما دیتا ہے، اور جس کے ساتھ اس کے عمل نے دیر لگائی تو اس کے ساتھ اس کا نسب کچھ جلدی نہیں کرے گا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 356]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [صحيح مسلم 2999]، [أبوداؤد 3643]، [ترمذي 2648]، [مصنف ابن أبى شيبه 6168]

وضاحت:
(تشریح احادیث 353 سے 355)
یعنی عملِ صالح کے بغیر نسب کام نہ آئے گا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 356
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا إسماعيل بن ابان، عن يعقوب هو القمي، عن هارون بن عنترة عن ابيه، عن ابن عباس رضي الله عنه، قال: "ما سلك رجل طريقا يبتغي فيه العلم، إلا سهل الله له به طريقا إلى الجنة، ومن يبطئ به عمله، لم يسرع به نسبه".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبَانَ، عَنْ يَعْقُوبَ هُوَ الْقُّمِّيُّ، عَنْ هَارُونَ بْنِ عَنْتَرَةَ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: "مَا سَلَكَ رَجُلٌ طَرِيقًا يَبْتَغِي فِيهِ الْعِلْمَ، إِلَّا سَهَّلَ اللَّهُ لَهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ، وَمَنْ يُبْطِئْ بِهِ عَمَلُهُ، لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نَسَبُهُ".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: نہیں چلا کوئی آدمی علم کی تلاش میں کوئی راستہ مگر اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعہ جنت کا راستہ اس کے لئے آسان فرما دیا، اور جس کے ساتھ اس کے عمل نے تاخیر کی، اس کا عمل اس کے لئے جلدی نہ کرے گا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 357]»
اس اثر کی سند صحیح ہے جیسا کہ اوپر گذر چکا ہے۔ مزید دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 6165]، [شعب الإيمان 671]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 357
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا محمد بن كثير، عن ابن شوذب، عن مطر: ولقد يسرنا القرءان للذكر فهل من مدكر سورة القمر آية 17، قال: "هل من طالب خير فيعان عليه؟"..(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ ابْنِ شَوْذَبٍ، عَنْ مُطَر: وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْءَانَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ سورة القمر آية 17، قَالَ: "هَلْ مِنْ طَالِبِ خَيْرٍ فَيُعَانَ عَلَيْهِ؟"..
مطر الوراق نے کہا: آیت شریفہ: «﴿وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ﴾» [القمر: 17/54] کا مطلب ہے: کوئی طالب خیر ہے جس کی اعانت و مدد کی جائے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف محمد بن كثير بن أبي عطاء، [مكتبه الشامله نمبر: 358]»
اس کی سند میں محمد بن کثير ضعیف ہے۔ دیکھئے [تفسير طبري 96/27]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف محمد بن كثير بن أبي عطاء
حدیث نمبر: 358
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) واخبرنا مروان، عن ضمرة، قال:"طالب علم"..(حديث مقطوع) وأَخْبَرَنَا مَرْوَانُ، عَنْ ضَمْرَةَ، قَالَ:"طَالِبُ عِلْمٍ"..
مروان سے روایت ہے ضمرة نے کہا: اس «(مُدَّكِّر)» سے مراد طالب علم ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 359]»
اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [تفسير ابن كثير 453/7]، [تفسير الطبري 97/27]، [الدر المنثور 135/6] وغيرهم۔ نیز امام بخاری نے [بخاري 7551] سے قبل بھی اس اثر کو تعليقاً ذکر کیا ہے، حافظ ابن حجر نے [فتح الباري 521/13] میں کہا کہ فریابی نے اسے موصولاً ذکر کیا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
حدیث نمبر: 359
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا إسماعيل بن ابان، حدثنا يعقوب هو القمي، عن عامر بن إبراهيم، قال: كان ابو الدرداء رضي الله عنه إذا راى طلبة العلم، قال: "مرحبا بطلبة العلم، وكان يقول: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم اوصى بكم".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبَانَ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ هُوَ الْقُمِّيُّ، عَنْ عَامِرِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: كَانَ أَبُو الدَّرْدَاءِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ إِذَا رَأَى طَلَبَةَ الْعِلْمِ، قَالَ: "مَرْحَبًا بِطَلَبَةِ الْعِلْمِ، وَكَانَ يَقُولُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْصَى بِكُمْ".
عامر بن ابراہیم سے مروی ہے کہ سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ جب طلاب العلم کو دیکھتے تو فرماتے «مرحبا بطلبة العلم» طلاب العلم کو مرحبا (خوش آمدید) کہتے اور فرماتے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارے بارے میں وصیت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أنه معضل، [مكتبه الشامله نمبر: 360]»
یہ روایت معضل ہے، اور اس کے دو شاہد ہیں۔ دیکھئے: [المحدث الفاصل 20] و [شعب الايمان 1729] اس لئے قابل حجت ہوسکتی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أنه معضل
حدیث نمبر: 360
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن يزيد، حدثنا عبد الرحمن بن زياد بن انعم، عن عبد الرحمن بن رافع، عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، مر بمجلسين في مسجده، فقال: "كلاهما على خير، واحدهما افضل من صاحبه، اما هؤلاء فيدعون الله، ويرغبون إليه، فإن شاء اعطاهم، وإن شاء منعهم، واما هؤلاء فيتعلمون الفقه والعلم، ويعلمون الجاهل، فهم افضل، وإنما بعثت معلما"، قال: ثم جلس فيهم.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زِيَادِ بْنِ أَنْعُمَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَرَّ بِمَجْلِسَيْنِ فِي مَسْجِدِهِ، فَقَالَ: "كِلَاهُمَا عَلَى خَيْرٍ، وَأَحَدُهُمَا أَفْضَلُ مِنْ صَاحِبِهِ، أَمَّا هَؤُلَاءِ فَيَدْعُونَ اللَّهَ، وَيَرْغَبُونَ إِلَيْهِ، فَإِنْ شَاءَ أَعْطَاهُمْ، وَإِنْ شَاءَ مَنَعَهُمْ، وَأَمَّا هَؤُلَاءِ فَيَتَعَلَّمُونَ الْفِقْهَ وَالْعِلْمَ، وَيُعَلِّمُونَ الْجَاهِلَ، فَهُمْ أَفْضَلُ، وَإِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا"، قَالَ: ثُمَّ جَلَسَ فِيهِمْ.
سیدنا عبدالله بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مسجد میں دو حلقوں کے پاس سے گزرے تو فرمایا: دونوں ہی خیر پر ہیں لیکن ایک مجلس دوسری مجلس سے افضل ہے، ایک مجلس کے لوگ اللہ تعالیٰ سے دعائیں اور التجائیں کر رہے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ چاہے تو عطاء فرما دے اور چاہے تو محروم رکھے، دوسری مجلس کے لوگ علم و فقہ سیکھ رہے ہیں اور جاہل کو سکھا رہے ہیں، اس لئے یہ افضل ہیں، اور میں بھی تو معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ راوی نے کہا پھر آپ بھی ان کے ساتھ تشریف فرما ہوئے۔

تخریج الحدیث: «في إسناده ضعيفان: عبد الرحمن بن زياد وعبد الرحمن بن رافع، [مكتبه الشامله نمبر: 361]»
اس حدیث کی سند میں عبدالرحمٰن بن زیاد اور عبدالرحمٰن بن رافع ضعیف ہیں، اس روایت کو ابن المبارک نے [الزهد 1389] میں اور انہیں کے طریق سے طیالسی نے [المسند 82] میں اور خطیب نے [الفقيه والمتفقه 10/1] میں ذکر کیا ہے، ابن ماجہ نے بھی [سنن 229] میں اس کو ذکر کیا ہے، لیکن اس کی سند بھی ضعیف ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: في إسناده ضعيفان: عبد الرحمن بن زياد وعبد الرحمن بن رافع
حدیث نمبر: 361
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا عبد الله بن يزيد، حدثنا المسعودي، عن عون بن عبد الله، عن مطرف بن عبد الله بن الشخير، انه قال لابنه: "يا بني، إن العلم خير من العمل".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ، عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِ، أَنَّهُ قَالَ لِابْنِهِ: "يَا بُنَيَّ، إِنَّ الْعِلْمَ خَيْرٌ مِنْ الْعَمَلِ".
مطرف بن عبداللہ الشخیر نے اپنے بیٹے سے کہا: بیٹے! علم عمل سے بہتر ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده فيه علتان: ضعف عبد الرحمن بن عبد الله المسعودي والانقطاع عون بن عبد الله لا نعلم له رواية عن مطرف، [مكتبه الشامله نمبر: 362]»
عبدالرحمٰن بن عبدالله المسعودی اس روایت میں ضعیف ہیں، اور عون کا لقاء مطرف سے ثابت نہیں، لیکن [حلية الأولياء 209/2] میں اس کا صحیح شاہد موجود ہے، جس سے مطرف کے اس کلام کو تقویت ملتی ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 355 سے 361)
یعنی عمل و عبادت اگر علم و بصیرت کے ساتھ ہو تو اس میں چار چاند لگ جاتے ہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده فيه علتان: ضعف عبد الرحمن بن عبد الله المسعودي والانقطاع عون بن عبد الله لا نعلم له رواية عن مطرف
حدیث نمبر: 362
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن يزيد، حدثنا حيوة، اخبرنا شرحبيل بن شريك، انه سمع ابا عبد الرحمن الحبلي، يقول: "ليس هدية افضل من كلمة حكمة، تهديها لاخيك".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ، أَخْبَرَنَا شُرَحْبِيلُ بْنُ شَرِيكٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيَّ، يَقُولُ: "لَيْسَ هَدِيَّةٌ أَفْضَلَ مِنْ كَلِمَةِ حِكْمَةٍ، تُهْدِيهَا لِأَخِيكَ".
شرحبیل بن شریک نے ابوعبدالرحمٰن حبلی کو کہتے ہوئے سنا: تم اپنے بھائی کو حکمت کی بات کا جو ہدیہ دیتے ہو اس سے بہتر کوئی ہدیہ نہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 363]»
اس قول کی سند صحیح ہے لیکن کہیں اور نہ مل سکی، نیز اس کے شواہد ملتے ہیں لیکن وہ بھی ضعف سے خالی نہیں۔ دیکھئے: [شعب الايمان 1764]، [جامع بيان العلم 323]، [المقاصد الحسنة 938]، [كشف الخفاء 2182]، [معجم الطبراني الكبير 43/12، 12420]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 363
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا عبد الله بن عمران، حدثنا يحيى بن يمان، حدثنا محمد بن عجلان، عن الزهري، قال: "فضل العالم على المجتهد مئة درجة، ما بين الدرجتين خمس مئة سنة، حضر الفرس المضمر السريع".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عِمْرَانَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَمَانٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: "فَضْلُ الْعَالِمِ عَلَى الْمُجْتَهِدِ مِئَةُ دَرَجَةٍ، مَا بَيْنَ الدَّرَجَتَيْنِ خَمْسُ مِئَةِ سَنَةٍ، حُضْرِ الْفَرَسِ الْمُضَمَّرِ السَّرِيعِ".
امام زہری رحمہ اللہ نے فرمایا: عالم کی مجتہد پر فضیلت سو درجہ زیادہ ہے، اور ہر دو درجوں کے درمیان تیز دوڑنے والے مضمّر گھوڑوں کی پانچ سو سال کی مسافت ہے۔ (مضمّر وہ گھوڑا جس کو (ریسں) دوڑ کے لئے تیار کیا جائے)۔

تخریج الحدیث: «إسناده إلى الزهري ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 364]»
یہ امام زہری رحمہ اللہ کا قول ہے جو سند کے لحاظ سے ضعیف ہے۔ [حلية الأولياء 365/3] میں مذکور ہے لیکن اس کی سند بھی کمزور ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده إلى الزهري ضعيف
حدیث نمبر: 364
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا عبد الله بن يزيد، حدثنا حيوة، قال: اخبرني السكن بن ابي كريمة، عن عكرمة مولى ابن عباس، عن ابن عباس: يرفع الله الذين آمنوا منكم والذين اوتوا العلم درجات سورة المجادلة آية 11، قال: "يرفع الله الذين اوتوا العلم على الذين آمنوا بدرجات".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي السَّكَنُ بْنُ أَبِي كَرِيمَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ: يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ سورة المجادلة آية 11، قَالَ: "يَرْفَعُ اللَّهُ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا بِدَرَجَاتٍ".
سیدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: «﴿يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ ....﴾» [المجادلة: 11/58] سے مراد وہ اہل علم ہیں جن کے درجات اللہ تعالیٰ اہل ایمان پر بلند فرمائے گا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 365]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [المستدرك 481/2 وقال الحاكم: هذا حديث صحيح الاسناد ولم يخرجاه]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 365
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا بشر بن ثابت البزار، حدثنا نصر بن القاسم، عن محمد بن إسماعيل، عن عمرو بن كثير، عن الحسن، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من جاءه الموت وهو يطلب العلم ليحيي به الإسلام، فبينه وبين النبيين درجة واحدة في الجنة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ ثَابِتٍ الْبَزَّارُ، حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيل، عَنْ عَمْرِو بْنِ كَثِيرٍ، عَنْ الْحَسَنِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ جَاءَهُ الْمَوْتُ وَهُوَ يَطْلُبُ الْعِلْمَ لِيُحْيِيَ بِهِ الْإِسْلَامَ، فَبَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّبِيِّينَ دَرَجَةٌ وَاحِدَةٌ فِي الْجَنَّةِ".
حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس آدمی کی موت اس حال میں آئے کہ وہ احیائے اسلام کے لئے علم کی تلاش میں ہو تو انبیاء اور اس کے درمیان صرف ایک درجہ کا فرق ہو گا۔

تخریج الحدیث: «إسناده مسلسل بالمجاهيل، [مكتبه الشامله نمبر: 366]»
حسن بصری رحمہ اللہ کی طرف منسوب اس قول میں کئی راوی مجہول ہیں، اور دیگر کتب میں بھی یہ اثر منقول ہے، لیکن سب کے طرق ضعیف ہیں۔ دیکھے: [المعجم الأوسط 9450]، [تاريخ بغداد 78/3] و [مجمع الزوائد 511]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده مسلسل بالمجاهيل
حدیث نمبر: 366
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا محمد بن حميد، حدثنا مهران، حدثنا ابو سنان، عن ابي إسحاق، عن عمرو بن ميمون، قال: "ذهب عمر بثلثي العلم"، فذكرت لإبراهيم، فقال:"ذهب عمر بتسعة اعشار العلم".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا مِهْرَانُ، حَدَّثَنَا أَبُو سِنَانٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، قَالَ: "ذَهَبَ عُمَرُ بِثُلُثَيْ الْعِلْمِ"، فَذَكَرْتُ لِإِبْرَاهِيمَ، فَقَالَ:"ذَهَبَ عُمَرُ بِتِسْعَةِ أَعْشَارِ الْعِلْمِ".
عمرو بن میمون رحمہ اللہ نے کہا: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ علم کے دو ثلث لے گئے، عمرو نے کہا یہ بات ابراہیم نخعی سے ذکر کی گئی تو انہوں نے فرمایا: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ علم کے دس میں سے نو حصے لے گئے۔

تخریج الحدیث: «في إسناده علتان: ضعف محمد بن حميد وأبو سنان سعيد بن سنان متأخر السماع من أبي إسحاق السبيعي، [مكتبه الشامله نمبر: 367]»
اس روایت میں محمد بن حمید ضعیف اور ابوسنان سعید بن سنان کا ابواسحاق سبیعی سے سماع مؤخر ہے، اور اس روایت کو امام دارمی کے علاوہ کسی محدث نے ذکر نہیں کیا، البتہ ابراہیم نخعی کا قول ابوخیثمہ کی کتاب [العلم 61] میں مذکور ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: في إسناده علتان: ضعف محمد بن حميد وأبو سنان سعيد بن سنان متأخر السماع من أبي إسحاق السبيعي
حدیث نمبر: 367
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا بشر بن ثابت، اخبرنا شعبة، عن يزيد بن ابي خالد، عن هارون، عن ابيه، عن ابن عباس رضي الله عنه، قال: "ما اجتمع قوم في بيت من بيوت الله، يتذاكرون كتاب الله ويتدارسونه بينهم، إلا اظلتهم الملائكة باجنحتها، حتى يخوضوا في حديث غيره، ومن سلك طريقا يبتغي به العلم، سهل الله طريقه إلى الجنة، ومن ابطا به عمله، لم يسرع به نسبه".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ ثَابِتٍ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ هَارُونَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: "مَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِي بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِ اللَّهِ، يَتَذَاكَرُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَيَتَدَارَسُونَهُ بَيْنَهُمْ، إِلَّا أَظَلَّتْهُمْ الْمَلَائِكَةُ بِأَجْنِحَتِهَا، حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ، وَمَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَبْتَغِي بِهِ الْعِلْمَ، سَهَّلَ اللَّهُ طَرِيقَهُ إِلَى الْجَنَّةِ، وَمَنْ أَبْطَأَ بِهِ عَمَلُهُ، لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نَسَبُهُ".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: جو لوگ اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں جمع ہوں، اللہ کی کتاب پڑھیں (دہرائیں) اور دوسروں کو پڑھائیں تو فرشتے ان کو اپنے پروں کے سایہ میں لے لیتے ہیں یہاں تک کہ وہ دوسری باتوں میں لگ جائیں۔ اور جو شخص علم حاصل کرنے کی راہ چلے، الله تعالیٰ اس کے لئے جنت کا راستہ سہل کر دے گا، اور جس کا عمل کوتاہی کرے تو اس کا نسب (خاندان) کچھ کام نہ آوے گا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 368]»
اس اثر کی سند صحیح ہے، اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے موصولاً بھی مروی ہے۔ دیکھئے: [صحيح مسلم 2699]، [ابوداؤد 1455]، [ترمذي 2945]، [شعب الإيمان 671]۔ نیز دیکھئے: اثر رقم (357)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 368
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عمرو بن عاصم، حدثنا حماد هو ابن سلمة، عن عاصم، عن زر، قال: غدوت على صفوان بن عسال المرادي، وانا اريد ان اساله عن المسح على الخفين، فقال: ما جاء بك؟، قلت: ابتغاء العلم، قال: الا ابشرك؟، قلت: بلى، فقال: رفع الحديث إلى النبي صلى الله عليه وسلم، وقال: "إن الملائكة لتضع اجنحتها لطالب العلم، رضا بما يطلب".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ هُوَ ابْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زرٍّ، قَالَ: غَدَوْتُ عَلَى صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ الْمُرَادِيِّ، وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَهُ عَنْ الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ، فَقَالَ: مَا جَاءَ بِكَ؟، قُلْتُ: ابْتِغَاءُ الْعِلْمِ، قَالَ: أَلَا أُبَشِّرُكَ؟، قُلْتُ: بَلَى، فَقَالَ: رَفَعَ الْحَدِيثَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: "إِنَّ الْمَلَائِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا لِطَالِبِ الْعِلْمِ، رِضًا بِمَا يَطْلُبُ".
ذِرّ سے مروی ہے کہ میں صفوان بن عسال مرادی کے پاس گیا (کیونکہ) میں ان سے جرابوں پر مسح کے بارے میں پوچھنا چاہتا تھا، انہوں نے فرمایا: تمہیں میرے پاس کیا چیز لائی ہے؟ میں نے کہا: علم کی تلاش، انہوں نے فرمایا: کیا میں تمہیں خوشخبری نہ سنا دوں؟ میں نے عرض کیا: ضرور سنایئے، تو انہوں نے مرفوعاً بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک فرشتے علم طلب کرنے والے کے لئے اپنے پر بچھا دیتے ہیں، جو وہ طلب کر رہا ہے اس سے پسندیدگی کے طور پر۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 369]»
اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [صحيح ابن حبان 1319]، [مسند الحميدي 906]، [العلم لأبي خيثمه 5]

وضاحت:
(تشریح احادیث 361 سے 368)
ان تمام روایات سے علم حاصل کرنے کی ترغیب اور عالمِ دین کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.