مقدمه مقدمہ 48. باب صِيَانَةِ الْعِلْمِ: علم کی حفاظت کا بیان
عبدالاعلی سے مروی ہے امام حسن بصری رحمہ اللہ بازار میں داخل ہوئے، ایک آدمی سے کسی کپڑے کا بھاؤ کیا تو اس نے کہا: آپ کے لئے اتنے کا ہے، قسم اللہ کی آپ کے علاوہ کوئی اور ہوتا تو اتنی قیمت پر نہ دیتا، امام حسن رحمہ اللہ نے فرمایا: تم نے ایسا کیوں کیا؟ اس کے بعد ان کو بازار میں خرید و فروخت کرتے نہ دیکھا گیا یہاں تک کہ الله تعالیٰ سے جا ملے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 592]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ اور اس کو صرف امام دارمی نے ذکر کیا ہے۔ وضاحت:
(تشریح حدیث 590) حسن رحمہ اللہ کا تقویٰ و پرہیزگاری دیکھئے، ان کو یہ گوارہ نہ تھا کہ ان کے علم اور مقام ومرتبے کی وجہ سے کوئی ان کے ساتھ رعایت کرے اور علم کی قیمت لگائی جائے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
ابومعشر (زیاد بن کلیب) نے کہا: امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ جس سے جان پہچان ہوتی اس سے خرید نہ کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف جدا حسام بن مصك كاد أن يترك، [مكتبه الشامله نمبر: 593]»
اس روایت کی سند حسام بن مصک کی وجہ سے ضعیف ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف جدا حسام بن مصك كاد أن يترك
عبید بن الحسن سے مروی ہے کہ مصعب بن زبیر نے رمضان شروع ہوتے وقت کچھ مال کوفہ کے قراء میں تقسیم کیا، اور عبدالرحمٰن بن معقل کے پاس دو ہزار درہم بھیجے اور کہا کہ اس ماہ مبارک میں اس مال سے مدد لیجئے، لیکن عبدالرحمٰن بن معقل نے وہ درہم واپس کر دیئے اور کہا: ہم قرآن اس کے لئے نہیں پڑھتے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 594]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ اور عبدالسلام: ابن حرب ہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
عبیداللہ بن عمر نے بیان کیا کہ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے سیدنا عبدالله بن سلام رضی اللہ عنہ سے دریافت فرمایا: اہل علم کون ہیں؟ عرض کیا: جو علم کے مطابق عمل کریں، پوچھا: لوگوں کے دلوں سے کون سی چیز علم کو دور کر دیتی ہے؟ فرمایا: لالچ۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات وإسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 595]»
اس اثر کی سند صحیح ہے، اور مذکورہ بالا تینوں روایات کہیں اور نہیں مل سکیں۔ نیز دیکھئے: رقم (604)۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 591 سے 594) اس قول سے معلوم ہوا کہ عمل کے ذریعہ اور لالچ سے دور رہتے ہوئے علم محفوظ رہ سکتا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات وإسناده صحيح
زید سے مروی ہے کوئی چیز کسی چیز سے زیادہ اچھی نہیں جتنا کہ حلم سے لے کر علم تک ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 596]»
اس قول کی سند صحیح ہے، اور تمام رجال ثقات ہیں، لیکن امام دارمی کے علاوہ کسی نے ذکر نہیں کیا۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
عاصم الأحول سے مروی ہے: عامر شعبی نے فرمایا: علم کی زینت اہل علم کی برد باری ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 597]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [العلم لأبي خيثمه 81]، [جامع بيان العلم 806، 807]، [شعب الايمان 8520] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سلمہ بن وہرام سے مروی ہے امام طاؤوس رحمہ اللہ نے کہا: برد باری کی تھیلی کی طرح کسی چیز میں علم نہیں اٹھایا گیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف من أجل زمعة بن صالح، [مكتبه الشامله نمبر: 598]»
اس قول کی سند زمعۃ بن صالح کی وجہ سے ضعیف ہے۔ دیکھئے [مصنف ابن أبى شيبه 5675]، [حلية الأولياء 24/9]، [شعب الايمان 8531]، نیز اس کا شاہد [مصنف ابن أبى شيبه 5676] میں موجود ہے، جس سے روایت کو تقویت ملتی ہے۔ نیز رقم (598) بھی اس کی شاہد ہے جو صحیح ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف من أجل زمعة بن صالح
ابن شبرمہ سے مروی ہے: شعبی نے کہا: علم کی زینت اہل علم کی برد باری ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف من أجل محمد بن حميد، [مكتبه الشامله نمبر: 599]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 5673]، [الحلية 318/4]، [شعب الايمان 8530] وضاحت:
(تشریح احادیث 594 سے 598) اس کا مطلب یہ ہے کہ علم پر عمل کرتے ہوئے حلم و بردباری اختیار کرنا علم کو آرائش و زینت عطا کرتا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف من أجل محمد بن حميد
یعلی بن مقسم سے مروی ہے: وہب بن منبہ نے فرمایا: حكمت حلیم و بردبار اور مطمئن دل میں رہتی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف من أجل مطرف بن مازن، [مكتبه الشامله نمبر: 600]»
اس قول کی سند ضعیف لیکن معنی صحیح ہے۔ دیکھئے الاثر السابق۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف من أجل مطرف بن مازن
سفیان کہتے تھے: عبید اللہ (ابن عمر) نے فرمایا: تم نے علم کو دھبہ لگایا اور اس کے نور کو ضائع کر دیا ہے، اگر مجھے اور تم کو سیدنا عمر (رضی اللہ عنہم اجمعین) پا لیتے تو مار لگاتے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 601]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [شرف أصحاب الحديث 284] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
اُمی المرادی سے مروی ہے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: علم سیکھو، اور جب علم حاصل کر چکو تو اس کی حفاظت کرو، ہنسی مذاق، کھیل کود سے اسے خلط ملط نہ کرو کہ دل اسے نکال پھینکیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 602]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [حلية الأولياء 300/7]، [الجامع 213] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
فضیل بن غزوان سے مروی ہے: علی بن حسین رحمہ اللہ نے فرمایا: جو ایک بار ہنسا اس نے علم کی ایک بار کلی کر دی۔ یعنی ہنسنا اور قہقہے لگانا عالم کی شان نہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف من أجل محمد بن حميد، [مكتبه الشامله نمبر: 603]»
اس قول کی سند محمد بن حمید کی وجہ سے ضعیف ہے۔ دیکھئے: [زوائد عبدالله على زهد الإمام أحمد 166]، لیکن [حلية الأولياء 133/3] اور [شعب الايمان 1830] میں یہ روایت صحیح سند سے موجود ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف من أجل محمد بن حميد
سفیان سے مروی ہے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا کعب رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اہل علم کون لوگ ہیں؟ کہا: جو علم کے مطابق عمل کرتے ہیں، فرمایا: اور علماء کے دل سے علم کو کس چیز نے خارج کر دیا؟ جواب دیا: (طمع) لالچ نے۔
تخریج الحدیث: «إسناده معضل، [مكتبه الشامله نمبر: 604]»
اس روایت کی سند سے دو راوی ساقط ہیں، لہٰذا یہ روایت معضل ہے، دیگر کسی محدث نے اسے روایت نہیں کیا، لیکن عبداللہ بن سلام سے صحیح سند کے ساتھ یہ روایت (594) پر گزر چکی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده معضل
ابوایاس نے کہا: میں عمرو بن نعمان کے پاس مقیم تھا کہ مصعب بن زبیر کا قاصد رمضان میں دو ہزار درہم لے کر ان کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا: امیر (محترم) نے آپ کو سلام کہا ہے اور حکم دیا ہے کہ ہم کسی بھی معزز قاری کو بنا کسی تحفہ تحائف کے نہ چھوڑیں اس لئے یہ دو ہزار اس مہینہ کا خرچ قبول فرمایئے۔ عمرو بن نعمان نے کہا: ان امیر محترم کو میرا سلام کہو، اور ان سے کہدو الله کی قسم ہم نے قرآن (کریم) کو دنیا اور دراہم کی چاہت میں نہیں پڑھا ہے۔
تخریج الحدیث: «محمد بن حميد ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 605]»
اس روایت کی سند میں محمد بن حمید ضعیف ہیں، لیکن [مصنف ابن أبى شيبه 10054] میں جید سند سے یہ روایت موجود ہے۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 598 سے 604) خلوصِ وللّٰہیت کا یہ بہترین نمونہ ہے اور اپنے علم کو مال و دولت کی طمع سے بچا کر محفوظ رکھا جاسکتا ہے، اسی میں عزت ہے، وقار ہے، اور علم کی سربلندی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: محمد بن حميد ضعيف
|