مقدمه مقدمہ 17. باب التَّوَرُّعِ عَنِ الْجَوَابِ فِيمَا لَيْسَ فِيهِ كِتَابٌ وَلاَ سُنَّةٌ: ایسا فتوی دینے سے احتیاط برتنے کا بیان جس کے بارے میں قرآن و حدیث سے دلیل نہ ہو
سیدنا عبدالله بن مسعود اور سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ دونوں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص آیا اور ان سے کسی چیز کے بارے میں سوال کیا، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے کہا: جانتے ہو یہ لوگ اس چیز کے بارے میں مجھ سے کیوں سوال کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا: معلوم کر کے چھوڑ دیتے ہوں گے؟ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: جس چیز کے بارے میں تم نے سوال کیا اور اللہ کی کتاب میں سے ہمیں اس کا علم ہوا تو ہم نے تمہیں اس کی اطلاع دے دی یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں جو چیز ہمیں ملی تمہیں بتا دی اور جو تم نے نئی باتیں ایجاد کر لیں ان کا فتوی دینے کی ہم میں طاقت نہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف خالد بن عبد الله متأخر السماع من عطاء وطريق ابن مسعود منقطعة لأن الشعبي لم يسمع منه، [مكتبه الشامله نمبر: 102]»
اس اثر کو صرف امام دارمی رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے اور اس کی سند میں کئی علتیں ہونے کے سبب ضعیف ہے۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 99 سے 102) گرچہ یہ اثرِ سند ثابت نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ: دین کے ماخذ صرف دو ہیں: کتاب اللہ و سنت رسول اللہ۔ جو چیز قرآن اور حدیث میں نہ ملے اس کا فتویٰ دینے میں احتیاط کرنی چاہیے۔ ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے، اور علمی برتری جتانا نہیں چاہیے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف خالد بن عبد الله متأخر السماع من عطاء وطريق ابن مسعود منقطعة لأن الشعبي لم يسمع منه
نزال بن سبرہ نے کہا: سیدنا عبدالله (ابن مسعود) رضی اللہ عنہ نے کوفہ میں جو بھی خطبہ دیا میں اس میں حاضر رہا، ایک دن میں نے انہیں کہتے سنا، ان سے ایسے آدمی کے بارے میں دریافت کیا گیا جو اپنی بیوی کو آٹھ بار طلاق دیدے۔ انہوں نے جواب دیا جتنی اس نے کہا واقع ہو گئیں، بیشک اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب نازل فرمائی اور اس کی وضاحت فرما دی، اب جو آدمی اس کے مطابق عمل کرے تو الله تعالیٰ نے اسے واضح کر دیا، اور جس نے مخالفت کی اللہ کی قسم ہم تو تمہاری (طرح) مخالفت کی طاقت نہیں رکھتے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف عبد الرحمن بن عبد الله بن عتبة المسعودي، [مكتبه الشامله نمبر: 103]»
اس اثر کی سند عبدالرحمن المسعودی کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن طبرانی میں اس کا شاہد صحیح موجود ہے۔ دیکھئے: [معجم طبراني 9628، 9629] اور یہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے حدیث نہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف عبد الرحمن بن عبد الله بن عتبة المسعودي
نزال بن سبرہ نے کہا: میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوا تو ایک مرد ایک عورت حرمت کا مسئلہ لے کر ان کے پاس آئے (یعنی طلاق کا)، انہوں نے کہا: بیشک اللہ تعالیٰ نے وضاحت فرما دی ہے، جو شخص اس وضاحت کے عین مطابق چلا تو (حکم) واضح ہے، اور جو اس کے خلاف چلا تو تمہارے اس خلاف کے مطابق فتویٰ دینے کی ہمیں طاقت نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 104]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [المعجم الكبير للطبراني 9636] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
اشعث نے کہا: ابن سیرین اپنی رائے سے کچھ نہ کہتے، وہی کہتے جو سنا ہوتا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 105]»
اس اثر کی سند صحیح ہے اور صرف امام دارمی نے اس قول کو روایت کیا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
اعمش نے کہا: میں نے ابراہیم کو کسی بارے میں اپنی رائے سے کبھی کچھ کہتے نہیں سنا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 106]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ ابوخیثمہ نے (العلم 38) میں دوسری سند سے بھی اسے ذکر کیا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
قتاده رحمہ اللہ نے فرمایا: میں نے تیس سال سے اپنی رائے سے کچھ نہیں کہا۔ ابوہلال نے چالیس سال بتایا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 107]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ مزید دیکھئے: [حلية الأولياء 335/2] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
عبدالعزیز بن رفیع سے مروی ہے کہ عطاء رحمہ اللہ سے کسی چیز کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے «لا أدري» ”میں نہیں جانتا“ کہا۔ ان سے کہا گیا اپنی رائے سے بھی کچھ نہ کہیں گے؟ فرمایا: مجھے اللہ عز وجل سے شرم آتی ہے کہ روئے زمین پر میرے قول کی پیروی کی جائے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 108]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [الإبانة لابن بطة 347] وضاحت:
(تشریح احادیث 102 سے 108) یہ تمام آثار سلف صالحین اور کبار علماء کے ہیں، محمد بن سیرین، ابراہیم النخعی، قتادہ بن دعامہ اور عطاء وغیرہ بڑے عظیم فقہا اور محدثین میں شمار ہوتے ہیں، لیکن ان کی تواضع اور احتیاط دیکھئے علم کے سمندر ہونے کے باوجود وہی کہتے تھے جو کتاب و سنّت اور صحابہ و تابعین سے منقول ہے، ورنہ لاعلمی ظاہر کر دیتے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
امام شعبی رحمہ اللہ نے کہا: ایک شخص نے آ کر کسی چیز کے بارے میں دریافت کیا، میں نے کہا سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ (اس بارے میں) ایسا یا اس طرح کہتے ہیں۔ اس نے کہا: آپ کی کیا رائے ہے؟ شعبی رحمہ اللہ نے کہا: تمہیں اس آدمی پرتعجب نہیں ہوتا؟ میں نے اسے کہا کہ سیدنا عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ یہ فرماتے ہیں اور یہ کہتا ہے مجھے اپنی رائے بتایئے، حالانکہ میرا مسلک (یعنی دوسروں کی رائے نقل کرنا) میرے نزدیک زیادہ راجح ہے۔ اللہ کی قسم اپنی رائے کے اظہار سے زیادہ مجھے یہ پسند ہے کہ میں گانے گاتا پھروں۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف وعيسى هو: الحناط متروك الحديث، [مكتبه الشامله نمبر: 109]»
عیسیٰ الحناط کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے۔ اس کو خطیب نے [الفقيه والمتفقه 492] میں ذکر کیا ہے۔ وضاحت:
(تشریح حدیث 108) اس روایت سے بشرطِ صحت ثابت ہوتا ہے کہ اپنی رائے سے فتویٰ دینے سے گانے گانا بہتر ہے۔ حالانکہ گانے گانا فعلِ قبیح ہے، لیکن ان کے نزدیک فتویٰ سازی سے بہتر ہے، اس سے امام شعبی کی فضیلت اور دوسروں کی رائے کا احترام ثابت ہوتا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف وعيسى هو: الحناط متروك الحديث
امام شعبی رحمہ اللہ نے کہا: قیاس آرائی سے بچو، قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم نے قیاس آرائی کی تو یقیناً حرام کو حلال اور حلال کو حرام کر ڈالو گے، اس لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے محفوظات سے تم تک جو پہنچا ہے اسی پر عمل کرو۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 110]»
اس روایت کی سند بھی ضعیف ہے کیونکہ عیسیٰ ضعیف ہیں اور خطیب نے [الفقيه 497] میں ضرار بن صرد کے طریق سے اسے بیان کیا ہے، لیکن ضرار بھی ضعیف راوی ہیں۔ واللہ اعلم وضاحت:
(تشریح حدیث 109) اس روایت کے شعبی کی طرف منسوب ہونے میں کلام ہے، لیکن «عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين» جیسی احادیث کے پیشِ نظر بات صحیح ہے۔ نیز علماءِ اصول نے قیاس کو ادلہ شرعیہ میں شمار کیا ہے۔ لیکن یہ اس وقت صحیح ہے جب اس کی مثال اقوالِ صحابہ میں موجود ہو۔ واللہ اعلم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف
علقمہ نے کہا ایک آدمی سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ اس نے پچھلی شب اپنی بیوی کو آٹھ طلاق دے دیں، پوچھا ایک بار میں؟ کہا: ایک کلمہ میں۔ پوچھا وہ تم سے تمہاری بیوی جدا کرانا چاہتے ہیں، کہا: ہاں۔ راوی نے کہا پھر دوسرا آدمی آیا کہ اس نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں داغ دی ہیں، پوچھا ایک بار میں؟ کہا: ہاں (یعنی یہ کہا میں نے سو طلاق دیں)۔ سیدنا عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: تو لوگ طلاق بائنہ سمجھ کر تمہاری بیوی کو جدا کرانا چاہتے ہیں، عرض کیا جی ہاں، تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: جس نے اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق (ایک ایک کر کے) طلاق دی تو اللہ تعالیٰ نے اسے بیان فرما دیا ہے، اور جس نے خلط ملط کیا ہم نے اسے اسی خلط کے حوالے کر دیا، واللہ گڑبڑ تم کرتے ہو اس کا بوجھ ہم اٹھائیں اب فیصلہ ویسا ہی ہے جیسا تم کر چکے ہو یعنی (طلاق بائن ہوگئی)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 111]»
اس اثر کی سند صحیح ہے اور معجم الكبير [9628] و سنن البيهقي [335/7] میں یہ روایت موجود ہے۔ نیز دیکھئے: [مصنف عبدالرزاق 11343] وضاحت:
(تشریح حدیث 110) یہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا فتویٰ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے اصل «الطلاق مرتان» ہے، باری باری ایک ایک طلاق دینا، لیکن جب لوگوں نے نص قرآنی سے کھلواڑ شروع کر دی اور ان گنت طلاق دینے لگے تو انہوں نے کہا: اگر ایک ساتھ تین یا تین سے زیادہ طلاق دی گئی تو طلاق بائن ہو جائے گی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اس طرح طلاقِ ثلاثہ کو رائج کیا تھا۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
قاسم نے کہا: اللہ تعالیٰ کے حق کو اپنے اوپر جاننے کے بعد آدمی اگر جاہل بن کر جیئے تو یہ اس کے لئے اس سے بہتر ہے کہ جو جانتا نہیں ہے اس کے متعلق کچھ کہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 112]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [حلية الأولياء 184/2]، [العلم لأبي خيثمة 90]، [المعرفة والتاريخ ليعقوب الفسوي 548/1] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
ایوب نے کہا: میں نے قاسم کو سنا، ان سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا: والله ہم کو ان تمام چیزوں کا علم نہیں ہے جو تم ہم سے پوچھتے ہو، اور اگر ہمیں علم ہوتا تو ہم نہ تم سے چھپاتے اور نہ ہی ہمارے لئے چھپانا جائز ہوتا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 113]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: مذکورہ بالا مصادر، و [الفقيه 173/2] و [جامع بيان العلم 1410] و [العلم لأبي خيثمة 141] وضاحت:
(تشریح احادیث 111 سے 113) اس قول میں قاسم بن محمد رحمۃ الله علیہ کی تواضع عجز و انکساری اور اس آیت کی طرف اشارہ ہے: « ﴿وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا﴾ [اسراء: 85] » ”تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔ “ نیز اس سے ان کے بغیر علم کچھ کہنے میں شدتِ احتیاط کا بھی اظہار ہے اور یہ قاسم رحمہ اللہ ابن محمد بن ابی بکر الصدیق ہیں جنہوں نے اپنی پھوپھی اُم المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی گود میں پرورش پائی، اور ان سے علم حاصل کیا، اور مدینہ کے کبار فقہاء میں شمار ہوئے، ابن سعد نے ان کے بارے میں کہا: «كان إماما فقيها، ثقة رفيعا و رعًا كثير الحديث»، اور ایوب السختیانی رحمہ اللہ نے کہا: میں نے قاسم سے افضل کسی شخص کو نہ دیکھا۔ [تذکره الحفاظ: 96/1] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
عبدالله بن عون نے کہا: قاسم (بن محمد الفقیہ) سے کسی چیز کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا: نہ مجھے مشورے کی ضرورت ہے اور نہ میں اس کے لائق ہوں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 114]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [طبقات ابن سعد 139/5] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
یحییٰ نے کہا میں نے قاسم سے کہا: میرے اوپر بڑا شاق گزرتا ہے آپ سے کوئی سوال کیا جائے اور آپ اس سے لاعلمی کا اظہار کریں حالانکہ آپ کے والد امام وقت تھے۔ انہوں نے جواب دیا: اللہ تعالیٰ کے اور اس کے نزدیک جسے اللہ تعالیٰ کے بارے میں عقل و سمجھ ہے اس سے بھی زیادہ شاق اور شدید (سخت امر) یہ ہے کہ میں بنا علم فتویٰ دوں یا غیر ثقہ راوی سے کچھ روایت کروں۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 115]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ محمد بن کثیر کی وجہ سے، لیکن معنی صحیح ہے۔ دیکھئے: [مقدمة صحيح مسلم 16/1]، [معرفة السنن والآثار 141/1] وضاحت:
(تشریح احادیث 113 سے 115) اس سے معلوم ہوا کہ: انہیں کسی سوال کے جواب میں «لا ادري» یا «لا اعلم» یعنی ”مجھے اس کا علم نہیں“ کہنے میں کوئی عار نہ تھا، حالانکہ وہ بھی اپنے وقت کے بہت بڑے عالم اورفقیہ تھے، اس سے ان کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے۔ نیز غیر ثقہ راوی سے حدیث روایت کرنے کی کراہت بھی معلوم ہوتی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف
مسیّب بن رافع نے کہا کہ جب لوگوں کو کوئی ایسا مسئلہ پیش آتا جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی اثر منقول نہیں ہوتا تو اس کے لئے سب جمع ہوتے اور اجماع قائم ہوتا اور حق وہی ہے جو ان کی رائے ہوتی، حق وہی ہے جس پر انہوں نے اجماع کیا۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 116]»
اس قول کی نسبت مسیّب بن رافع کی طرف صحیح نہیں ہے، کیونکہ ہشیم مدلس ہیں اور «عن» سے روایت کیا ہے۔ اس قول کو ابن عبدالبر نے [جامع بيان العلم 1824] میں ذکر کیا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
دوسری سند سے عوام بن حوشب نے بھی ایسا ہی ذکر کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف هشيم مدلس وقد عنعن وباقي رجاله ثقات، [مكتبه الشامله نمبر: 117]»
0 قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف هشيم مدلس وقد عنعن وباقي رجاله ثقات
وہب بن عمرو جمحی نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مصیبت کے نزول سے پہلے جلد بازی نہ کرو، اگر تم اس کے نزول سے پہلے جلدی نہ کرو گے تو مسلمان اس سے اس وقت تک چھٹکارہ نہ پائیں گے جب ان میں ایسا شخص موجود رہے گا جو کہے تو باتوفیق و درست و سچا ہو، اور اگر تم نے اس میں جلد بازی کی تو تمہاری آراء مختلف ہو جائیں گی اور تم اس طرح پکڑ لو گے“، اپنے ہاتھوں سے آپ نے دائیں بائیں اشارہ کیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف وهب بن عمرو ما عرفته وهو مرسل، [مكتبه الشامله نمبر: 118]»
اس حدیث کی سند ضعیف ہے اور مرسل روایت ہے۔ دیکھئے: [فتح الباري 226/13] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف وهب بن عمرو ما عرفته وهو مرسل
یحییٰ بن حمزہ نے کہا کہ سیدنا ابوسلمہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے امر کے بارے میں دریافت کیا گیا جو قرآن و حدیث میں نہ ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس میں عبادت گزار مؤمنین غور کریں گے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو مرسل، [مكتبه الشامله نمبر: 119]»
اگرچہ یہ مرسل روایت ہے لیکن سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مراسيل أبى داؤد 457-458]، [المعجم الكبير 353]، [جامع بيان العلم 1810]، [إبانه 293]، [فتح الباري 266/13] وضاحت:
(تشریح احادیث 115 سے 119) یہ روایت اجماع کی دلیل ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو مرسل
عبداللہ بن عون سے مروی ہے، قاسم بن محمد نے کہا: تم لوگ ایسی باتوں کے بارے میں سوال کرتے ہو جن کے بارے میں ہم سوال نہیں کرتے تھے۔ اور تم لوگ ایسی چیزوں کے بارے میں بحث کرتے ہو جن کے بارے میں ہم بحث نہیں کرتے تھے۔ تم ایسی باتیں دریافت کرتے ہو جنہیں میں نہیں جانتا کہ وہ کیا ہیں اور اگر معلوم ہوتیں تو ہمارے لئے ان کا تم سے چھپانا جائز نہیں تھا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 120]»
اس قول کو صرف امام دارمی نے روایت کیا ہے اور سند صحیح ہے۔ وضاحت:
(تشریح حدیث 119) اس روایت سے واضح ہوا کہ فرضی باتیں گڑھنا اور ان کے بارے میں فتویٰ دریافت کرنا درست نہیں، اگر کسی کو مسئلہ معلوم نہ ہو تو لاعلمی ظاہر کر دینی چاہیے، خواہ مخواہ اٹکل پچو باتیں کرنا درست نہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ معلوم ہوتے ہوئے علم کو چھپانا درست نہیں، قرآن پاک میں ایسے لوگوں کی مذمت آئی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے علم کو چھپایا الله تعالیٰ اسے آگ کی لگام لگائے گا۔ “ « [الأحاديث الصحيحة: 1393] (نعوذ بالله من ذلك)» ۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عنقریب ایسے لوگ آئیں گے جو قرآن کی (آیات) متشابہات کے بارے میں تم سے جھگڑا کریں گے، تو تم ان کی احادیث سے گرفت کرنا، اس لئے کہ اہل السنن کتاب اللہ کا بہت اچھی طرح علم رکھتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح وباقي رجاله ثقات، [مكتبه الشامله نمبر: 121]»
سند اس روایت کی ضعیف لیکن شاہد موجود ہے۔ دیکھئے: [الشريعة للآجري 55، 58]، [اصول اعتقاد أهل السنة للألكائي 202]، [جامع بيان العلم 1-17] وغیرہم۔ وضاحت:
(تشریح حدیث 120) اس روایت سے اہل الحدیث کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، نیز یہ کہ قرآن پاک سمجھنے کیلئے حدیث کا علم ضروری ہے، محکم و متشابہ کا علم حدیث شریف ہی سے حاصل ہوگا کیونکہ قرآن پاک کی تشریح و توضیح بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن تھا۔ « ﴿لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ﴾ [النحل: 44] »، نیز فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم: «إني أوتيت القرآن ومثله معه» علماء کا اتفاق ہے کہ «ومثله معه» سے مراد حدیثِ رسول ہے۔ «(على صاحبه أزكى التحيات)» ۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح وباقي رجاله ثقات
عروہ بن زبیر نے کہا: بنی اسرائیل میں اعتدال قائم تھا اور کوئی خلاف شرع بات ان میں نہ تھی، پھر جب نئی نسل اور دیگر اقوام کے قیدی اور لونڈیوں کی پود آئی تو انہوں نے (دین میں) اپنی رائے داخل کر دی اور انہیں گمراہ کر دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 122]»
اس روایت کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [جامع بيان العلم 1774]، [المعرفة والتاريخ للفسوي 93/3] وضاحت:
(تشریح حدیث 121) اس روایت سے رائے اور قیاس کی مذمت ظاہر ہوتی ہے جو یقیناً گمراہی کی طرف لے جاتی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
|