مقدمه مقدمہ 15. باب مَا أَكْرَمَ اللَّهُ تَعَالَى نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ مَوْتِهِ: وفات کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تکریم کا بیان
ابوالجوزاء اوس بن عبداللہ نے بیان کیا: اہل مدینہ بہت سخت قحط سالی کے شکار ہوئے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس شکایت لے کر آئے، انہوں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر میں آسمان کی طرف ایسا روشندان بناؤ کہ آسمان اور قبر کے درمیان چھت حائل نہ ہو۔ راوی نے کہا: لوگوں کا ایسا کرنا تھا کہ اتنی بارش ہوئی کہ گھاس اگ آئی، اونٹ فربہ ہو کر چربی سے پھٹنے لگے اور اس سال کا نام ہی پھٹنے والا سال پڑ گیا۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات وهو موقوف على عائشة، [مكتبه الشامله نمبر: 93]»
اس روایت کو امام دارمی کے علاوہ کسی محدث نے روایت نہیں کیا۔ اس کے رواة ثقات ہیں لیکن موقوف ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات وهو موقوف على عائشة
سعید بن عبدالعزیز نے کہا: معرکہ حرة میں تین دن تک مسجد نبوی میں اذان و اقامت نہیں ہوئی، اور سعید بن المسيب مسجد نبوی میں بیٹھے رہے، ان کو نماز کا وقت اس بھاری آواز سے پتہ چلتا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ سے (بوقت نماز) سنائی دیتی تھی۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات ولكن سعيد بن عبد العزيز أصغر من أن يدرك هذه الحادثة أو يسمع من سعيد بن المسيب، [مكتبه الشامله نمبر: 94]»
اس روایت کو امام دارمی کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کیا اور سعید بن عبدالعزیز کا لقاء سعيد بن المسیب سے محل نظر ہے، اول الذکر ثانی الذکر سے بہت چھوٹے تھے۔ بقیہ رجال اس سند کے ثقات ہیں۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 92 سے 94) واقعہ حرہ 63ھ میں پیش آیا سند کے اعتبار سے یہ روایت ثابت نہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات ولكن سعيد بن عبد العزيز أصغر من أن يدرك هذه الحادثة أو يسمع من سعيد بن المسيب
نبیہ بن وھب سے مروی ہے کہ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس حاضر ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر چل نکلا تو سیدنا کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: ہر دن ستر ہزار فرشتے اترتے ہیں اور اپنے پروں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو ڈھانپ لیتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام پڑھتے رہتے ہیں، پھر جب شام ہو جاتی ہے تو وہ (آسمان پر) چڑھ جاتے ہیں اور انہیں کی طرح دوسرے فرشتے آتے ہیں اور درود پڑھتے ہیں حتی کہ زمین شق ہو گی اور آپ ستر ہزار فرشتوں کو ہٹاتے ہوئے قبر سے نمودار ہوں گے۔
تخریج الحدیث: «في إسناده علتان: الأولى ضعف عبد الله بن صالح فهو سيئ الحفظ جدا وكانت فيه غفلة والانقطاع أيضا فإن نبيه بن وهب لم يدرك كعبا، [مكتبه الشامله نمبر: 95]»
اس کی سند میں دو علتیں ہیں، ایک تو راوی عبداللہ بن صالح ضعیف ہے، دوسرے اس کی سند میں انقطاع ہے۔ اس کو سخاوی نے [القول البديع ص: 48] میں ذکر کیا ہے۔ وضاحت:
(تشریح حدیث 94) یہ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ کا قول ہے، جو نہ مرفوع ہے اور نہ صحیح، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت کے لئے احادیثِ صحیحہ کا ذخیرہ موجود ہے، مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سید الانبیاء والمرسلین ہونا، تمام نبیوں کی امامت کرنا، وغیرہ وغیرہ۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: في إسناده علتان: الأولى ضعف عبد الله بن صالح فهو سيئ الحفظ جدا وكانت فيه غفلة والانقطاع أيضا فإن نبيه بن وهب لم يدرك كعبا
|