(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن عمر بن ابان، حدثنا عبد الرحمن بن محمد المحاربي، عن عبد الواحد بن ايمن المكي، عن ابيه، قال: قلت لجابر بن عبد الله رضي الله عنه حدثني بحديث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم سمعته منه ارويه عنك، فقال جابر: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الخندق نحفره، فلبثنا ثلاثة ايام لا نطعم طعاما، ولا نقدر عليه، فعرضت في الخندق كدية فجئت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، هذه كدية قد عرضت، في الخندق فرششنا عليها الماء، فقام النبي صلى الله عليه وسلم وبطنه معصوب بحجر، فاخذ المعول، او المسحاة، ثم سمى ثلاثا، ثم ضرب فعادت كثيبا اهيل، فلما رايت ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم، قلت: يا رسول الله، ائذن لي، قال: فاذن لي، فجئت امراتي، فقلت: ثكلتك امك قد رايت من رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا لا صبر لي عليه، فهل عندك من شيء؟، فقالت: عندي صاع من شعير، وعناق، قال: فطحنا الشعير، وذبحنا العناق، وسلختها، وجعلتها، في البرمة وعجنت الشعير، قال: ثم قال: رجعت إلى النبي صلى الله عليه وسلم فلبثت ساعة، ثم استاذنته الثانية فاذن لي، فجئت، فإذا العجين قد امكن، فامرتها بالخبز وجعلت القدر على الاثاثي، قال ابو عبد الرحمن: إنما هي الاثافي ولكن هكذا، قال: ثم جئت النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت: إن عندنا طعيما لنا، فإن رايت ان تقوم معي انت ورجل او رجلان معك، فقال: "وكم هو؟"، قلت: صاع من شعير، وعناق، فقال:"ارجع إلى اهلك وقل لها لا تنزع القدر من الاثافي، ولا تخرج الخبز من التنور حتى آتي"، ثم قال للناس:"قوموا إلى بيت جابر"، قال: فاستحييت حياء لا يعلمه إلا الله، فقلت لامراتي: ثكلتك امك، قد جاءك رسول الله صلى الله عليه وسلم باصحابه اجمعين، فقالت: اكان النبي صلى الله عليه وسلم سالك: كم الطعام؟، فقلت: نعم، فقالت: الله ورسوله اعلم، قد اخبرته بما كان عندنا، قال: فذهب عني بعض ما كنت اجد، وقلت: لقد صدقت، فجاء النبي صلى الله عليه وسلم فدخل، ثم قال لاصحابه:"لا تضاغطوا"،"ثم برك على التنور وعلى البرمة"، قال: فجعلنا ناخذ من التنور الخبز، وناخذ اللحم من البرمة، فنثرد ونغرف لهم، وقال النبي صلى الله عليه وسلم:"ليجلس على الصحفة سبعة او ثمانية"، فإذا اكلوا كشفنا عن التنور، وكشفنا عن البرمة، فإذا هما املا مما كانا، فلم نزل نفعل ذلك كلما فتحنا التنور وكشفنا عن البرمة، وجدناهما املا ما كانا حتى شبع المسلمون كلهم، وبقي طائفة من الطعام، فقال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم:"إن الناس قد اصابتهم مخمصة، فكلوا واطعموا"، فلم نزل يومنا ذلك ناكل ونطعم، قال: واخبرني انهم كانوا ثمان مئة، او قال: ثلاث مئة، قال ايمن: لا ادري ايهما قال.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ أَبَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُحَارِبِيُّ، عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ أَيْمَنَ الْمَكِّيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قُلْتُ لِجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ حَدِّثْنِي بِحَدِيثٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعْتَهُ مِنْهُ أَرْوِيهِ عَنْكَ، فَقَالَ جَابِرٌ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْخَنْدَقِ نَحْفُرُهُ، فَلَبِثْنَا ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ لَا نَطْعَمُ طَعَامًا، وَلَا نَقْدِرُ عَلَيْهِ، فَعَرَضَتْ فِي الْخَنْدَقِ كُدْيَةٌ فَجِئْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذِهِ كُدْيَةٌ قَدْ عَرَضَتْ، فِي الْخَنْدَقِ فَرَشَشْنَا عَلَيْهَا الْمَاءَ، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَطْنُهُ مَعْصُوبٌ بِحَجَرٍ، فَأَخَذَ الْمِعْوَلَ، أَوْ الْمِسْحَاةَ، ثُمَّ سَمَّى ثَلَاثًا، ثُمَّ ضَرَبَ فَعَادَتْ كَثِيبًا أَهْيَلَ، فَلَمَّا رَأَيْتُ ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ائْذَنْ لِي، قَالَ: فَأَذِنَ لِي، فَجِئْتُ امْرَأَتِي، فَقُلْتُ: ثَكِلَتْكِ أُمُّكِ قَدْ رَأَيْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا لَا صَبْرَ لِي عَلَيْهِ، فَهَلْ عِنْدَكِ مِنْ شَيْءٍ؟، فَقَالَتْ: عِنْدِي صَاعٌ مِنْ شَعِيرٍ، وَعَنَاقٌ، قَالَ: فَطَحَنَّا الشَّعِيرَ، وَذَبَحْنَا الْعَنَاقَ، وَسَلَخْتُهَا، وَجَعَلْتُهَا، فِي الْبُرْمَةِ وَعَجَنْتُ الشَّعِيرَ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: رَجَعْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَبِثْتُ سَاعَةً، ثُمَّ اسْتَأْذَنْتُهُ الثَّانِيَةَ فَأَذِنَ لِي، فَجِئْتُ، فَإِذَا الْعَجِينُ قَدْ أَمْكَنَ، فَأَمَرْتُهَا بِالْخَبْزِ وَجَعَلْتُ الْقِدْرَ عَلَى الْأَثَاثِي، قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ: إِنَّمَا هِيَ الْأَثَافِيُّ وَلَكِنْ هَكَذَا، قَالَ: ثُمَّ جِئْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: إِنَّ عِنْدَنَا طُعَيِّمًا لَنَا، فَإِنْ رَأَيْتَ أَنْ تَقُومَ مَعِي أَنْتَ وَرَجُلٌ أَوْ رَجُلَانِ مَعَكَ، فَقَالَ: "وَكَمْ هُوَ؟"، قُلْتُ: صَاعٌ مِنْ شَعِيرٍ، وَعَنَاقٌ، فَقَالَ:"ارْجِعْ إِلَى أَهْلِكَ وَقُلْ لَهَا لَا تَنْزِعْ الْقِدْرَ مِنْ الْأَثَافِيِّ، وَلَا تُخْرِجْ الْخُبْزَ مِنْ التَّنُّورِ حَتَّى آتِيَ"، ثُمَّ قَالَ لِلنَّاسِ:"قُومُوا إِلَى بَيْتِ جَابِرٍ"، قَالَ: فَاسْتَحْيَيْتُ حَيَاءً لَا يَعْلَمُهُ إِلَّا اللَّهُ، فَقُلْتُ لِامْرَأَتِي: ثَكِلَتْكِ أُمُّكِ، قَدْ جَاءَكِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَصْحَابِهِ أَجْمَعِينَ، فَقَالَتْ: أَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلَكَ: كَمْ الطَّعَامُ؟، فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَتْ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَدْ أَخْبَرْتَهُ بِمَا كَانَ عِنْدَنَا، قَالَ: فَذَهَبَ عَنِّي بَعْضُ مَا كُنْتُ أَجِدُ، وَقُلْتُ: لَقَدْ صَدَقْتِ، فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ، ثُمَّ قَالَ لِأَصْحَابِهِ:"لَا تَضَاغَطُوا"،"ثُمَّ بَرَّكَ عَلَى التَّنُّورِ وَعَلَى الْبُرْمَةِ"، قَالَ: فَجَعَلْنَا نَأْخُذُ مِنْ التَّنُّورِ الْخُبْزَ، وَنَأْخُذُ اللَّحْمَ مِنْ الْبُرْمَةِ، فَنُثَرِّدُ وَنَغْرِفُ لَهُمْ، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"لِيَجْلِسْ عَلَى الصَّحْفَةِ سَبْعَةٌ أَوْ ثَمَانِيَةٌ"، فَإِذَا أَكَلُوا كَشَفْنَا عَنْ التَّنُّورِ، وَكَشَفْنَا عَنْ الْبُرْمَةِ، فَإِذَا هُمَا أَمْلَأُ مِمَّا كَانَا، فَلَمْ نَزَلْ نَفْعَلُ ذَلِكَ كُلَّمَا فَتَحْنَا التَّنُّورَ وَكَشَفْنَا عَنْ الْبُرْمَةِ، وَجَدْنَاهُمَا أَمْلَأَ مَا كَانَا حَتَّى شَبِعَ الْمُسْلِمُونَ كُلُّهُمْ، وَبَقِيَ طَائِفَةٌ مِنْ الطَّعَامِ، فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"إِنَّ النَّاسَ قَدْ أَصَابَتْهُمْ مَخْمَصَةٌ، فَكُلُوا وَأَطْعِمُوا"، فَلَمْ نَزَلْ يَوْمَنَا ذَلِكَ نَأْكُلُ وَنُطْعِمُ، قَالَ: وَأَخْبَرَنِي أَنَّهُمْ كَانُوا ثَمَانَ مِئَةٍ، أَوْ قَالَ: ثَلَاثَ مِئَةٍ، قَالَ أَيْمَنُ: لَا أَدْرِي أَيُّهُمَا قَالَ.
عبدالواحد بن ايمن مکی نے اپنے والد سے روایت کیا کہ میں نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی حدیث بیان کیجئے جو آپ نے ان سے سنی ہو تاکہ میں اسے روایت کر سکوں، سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم غزوہ خندق کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گڈھا کھود رہے تھے، تین دن سے ہم نے کچھ نہیں کھایا تھا اور نہ ہمارے پاس کچھ تھا ہی، اس خندق میں ایک چٹان نما ٹکڑا حائل ہو گیا، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! خندق میں یہ چٹان حائل ہو گئی ہے، ہم نے اس پر پانی چھڑک دیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اس حال میں کہ آپ کے پیٹ سے پتھر بندھا ہوا تھا، آپ نے کدال یا پھاوڑا اٹھایا، تین بار بسم اللہ پڑھی اور ضرب لگائی تو وہ چٹان نما ٹکڑا بھربھرے تودے میں تبدیل ہو گیا، میں نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حال دیکھا تو عرض کیا: اے اللہ کے پیغمبر! مجھے چھٹی دے دیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت مرحمت فرما دی، چنانچہ میں اپنی بیوی کے پاس آیا اور میں نے کہا تمہاری ماں تمہیں گم پائے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی حالت دیکھی ہے کہ صبر نہیں کر پا رہا ہوں، تمہارے پاس (کھانے کے لئے) کچھ ہے؟ بیوی نے جواب دیا میرے پاس ایک صاع (تقریبا ڈھائی کیلو) جو کے دانے ہیں اور ایک یہ بھیڑ کا بچہ ہے۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر ہم نے جو پیسی اور بھیڑ کا بچہ ذبح کیا اور میں نے اس کی کھال اتاری اور ہانڈی چڑھا دی، آٹا گوندھ دیا پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوٹ آیا اور کچھ دیر انتظار کر کے پھر آپ سے اجازت چاہی اور آپ نے مجھے اجازت دے دی، میں (گھر) آیا آٹا تیار ہو چکا تھا، میں نے بیوی کو روٹی لگانے کے لئے کہا اور میں نے ہانڈی چولہے پر چڑھا دی، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا کہ ہمارے پاس تھوڑا سا کھانا ہے، اگر آپ مناسب سمجھیں تو آپ خود چلیں اور دو ایک آدمی بھی اپنے ساتھ لے چلیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”آخر کتنا کھانا ہے؟“ عرض کیا ایک صاع جو اور ایک بھیڑ کا بچہ ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اپنی بیوی کے پاس جاؤ اور کہدو کہ ہانڈی چولہے سے نہ اتارے اور تندور سے میرے آنے تک روٹی بھی نہ نکالے“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام لوگوں سے کہا: ”چلو جابر کے گھر چلو“، سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں مجھے اتنی شرم آئی کہ اللہ ہی جانتا ہے، میں نے بیوی سے کہا: تمہاری ماں تمہیں گم پائے، رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تمام ساتھیوں کے ساتھ تشریف لا رہے ہیں، انہوں نے کہا: کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے پوچھا تھا کتنا کھانا ہے؟ میں نے کہا ہاں پوچھا تو تھا، کہنے لگیں اللہ اور اس کے رسول زیادہ علم رکھتے ہیں، تم نے تو جو کچھ اپنے پاس ہے بتا دیا تھا، سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: بیوی کے یہ کہنے سے میرا ڈر خوف رفع ہو گیا اور میں نے کہا: تم سچ کہتی ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور داخل ہو گئے، اپنے صحابہ سے کہا: ”بھیٹر نہ لگانا“، پھر آپ تندور اور بانڈری پر بیٹھ گئے اور برکت کی دعا کی سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم تندور سے روٹیاں اور ہانڈی سے سالن لینے اور اس کا ثرید بنا کر پروسنے لگے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(ایک) تھالی پر سات یا آٹھ افراد بیٹھ جائیں“، جب وہ کھانا کھا لیتے تو ہم تندور اور ہانڈی کو کھول کر دیکھتے تو وہ پہلے سے بھی زیادہ بھرے ہوئے نظر آتے، ہم اسی طرح کھلاتے رہے اور جب تندور و ہانڈی کو دیکھتے تو پہلے سے زیادہ بھرے نظر آتے یہاں تک کہ سب کے سب مسلمان شکم سیر ہو گئے اور اچھا خاصا کھانا بچا رہ گیا، رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں کو بھوک کی مصیبت آ پڑی ہے کھاؤ اور کھلاؤ“، لہذا ہم پورے دن کھاتے اور کھلاتے رہے۔ راوی نے کہا کہ مجھے انہوں نے بتایا کہ ان کی تعداد آٹھ سو تھی یا تین سو پتا نہیں انہوں نے کون سا عدد بتایا تھا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف عبد الرحمن بن محمد المحاربي موصوف بالتدليس وقد عنعن، [مكتبه الشامله نمبر: 43]» اس واقعے کی یہ سند ضعیف ہے، اسے [ابن ابي شيبة 11755] اور بیہقی نے [دلائل النبوة 422/3] میں ذکر کیا ہے لیکن اس کی اصل [صحيح بخاري 2142، 4011] و [صحيح مسلم 2039] میں موجود ہے اس لئے واقعہ صحیح ہے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 43) اس حدیث سے معلوم ہوا: ❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ کے ساتھ کام کرنا اور مشقتیں برداشت کرنا۔ ❀ نبوت و رسالت کی نشانی چٹان کا تودہ بن جانا۔ ❀ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے لوث محبت۔ ❀ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی کی فضیلت تھوڑے سے کھانے پر بھی کہتی ہیں: جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہے کھانا کتنا ہے تو ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ ❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خیر و برکت اور ایک اور معجزہ تھوڑا سا کھانا آٹھ سو یا تین سو آدمی کے لئے کافی ہونا اور دن بھر کھاتے پیتے رہنا۔ ❀ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایثار و محبت کہ صرف اکیلے نہیں بلکہ اللہ کے بھروسے پر سب کو ساتھ لے چلے اور کھانا کھلایا، کسی صحابی کو کسی پر ترجیح نہ دی بلکہ سب کو مدعو کر لیا۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف عبد الرحمن بن محمد المحاربي موصوف بالتدليس وقد عنعن
(حديث مرفوع) اخبرنا زكريا بن عدي، حدثنا عبيد الله هو ابن عمرو، عن عبد الملك بن عمير، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى، عن انس بن مالك رضي الله عنه، قال: امر ابو طلحة ام سليم رضي الله عنها، ان تجعل لرسول الله صلى الله عليه وسلم طعاما ياكل منه، قال: ثم بعثني ابو طلحة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فاتيته، فقلت: بعثني إليك ابو طلحة، فقال للقوم: "قوموا"، فانطلق وانطلق القوم معه، فقال ابو طلحة: يا رسول الله، إنما صنعت طعاما لنفسك خاصة؟، فقال:"لا عليك انطلق"، قال: فانطلق وانطلق القوم، قال: فجيء بالطعام،"فوضع رسول الله صلى الله عليه وسلم يده وسمى عليه"، ثم قال:"ائذن لعشرة"، قال: فاذن لهم، فقال:"كلوا باسم الله"، فاكلوا حتى شبعوا، ثم قاموا،"ثم وضع يده كما صنع في المرة الاولى وسمى عليه"، ثم قال:"ائذن لعشرة"، فاذن لهم، فقال:"كلوا، باسم الله"فاكلوا حتى شبعوا، ثم قاموا حتى فعل ذلك بثمانين رجلا، قال:"واكل رسول الله صلى الله عليه وسلم واهل البيت وتركوا سؤرا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ هُوَ ابْنُ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: أَمَرَ أَبُو طَلْحَةَ أُمَّ سُلَيْمٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، أَنْ تَجْعَلَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَعَامًا يَأْكُلُ مِنْهُ، قَالَ: ثُمَّ بَعَثَنِي أَبُو طَلْحَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَيْتُهُ، فَقُلْتُ: بَعَثَنِي إِلَيْكَ أَبُو طَلْحَةَ، فَقَالَ لِلْقَوْمِ: "قُومُوا"، فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقَ الْقَوْمُ مَعَهُ، فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّمَا صَنَعْتُ طَعَامًا لِنَفْسِكَ خَاصَّةً؟، فَقَالَ:"لَا عَلَيْكَ انْطَلِقْ"، قَالَ: فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقَ الْقَوْمُ، قَالَ: فَجِيءَ بِالطَّعَامِ،"فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ وَسَمَّى عَلَيْهِ"، ثُمَّ قَالَ:"ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ"، قَالَ: فَأَذِنَ لَهُمْ، فَقَالَ:"كُلُوا بِاسْمِ اللَّهِ"، فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا، ثُمَّ قَامُوا،"ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ كَمَا صَنَعَ فِي الْمَرَّةِ الْأُولَى وَسَمَّى عَلَيْهِ"، ثُمَّ قَالَ:"ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ"، فَأَذِنَ لَهُمْ، فَقَالَ:"كُلُوا، بِاسْمِ اللَّهِ"فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا، ثُمَّ قَامُوا حَتَّى فَعَلَ ذَلِكَ بِثَمَانِينَ رَجُلًا، قَالَ:"وَأَكَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَهْلُ الْبَيْتِ وَتَرَكُوا سُؤْرًا".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے (اپنی بیوی) سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کھانا بناؤ، سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر ابوطلحہ نے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا، میں آپ کے پاس پہنچا اور عرض کیا کہ مجھے ابوطلحہ نے آپ کے پاس بھیجا ہے، آپ نے تمام حاضرین سے کہا: ”چلو اٹھو“، چنانچہ آپ اور وہ تمام حاضرین چل پڑے، سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے صرف آپ کے لئے کھانا تیار کرایا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نے فرمایا: ”فکر نہ کرو چلو“، چنانچہ آپ بھی چلے اور وہ تمام لوگ بھی نکل پڑے، کھانا لایا گیا، رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک کھانے پر رکھا اور بسم اللہ پڑھی (برکت کی دعا کی) پھر کہا: ”اب دس دس آدمی کھانے کے لئے بلاؤ“، اس طرح دس آدمی آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”الله کا نام لےکر کھانا شروع کرو“، کھانا شروع ہوا اور دسوں آدمی شکم سیر ہوئے اور باہر چلے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پہلے ہی کی طرح کھانے پر ہاتھ رکھا اور اللہ کا نام لیا اور دس آدمیوں کو کھانے پر بٹھایا اور کہا: ”بسم اللہ کہہ کر کھانا شروع کرو“، چنانچہ انہوں نے شکم سیر ہو کر کھانا کھایا اور باہر چلے گئے، اس طرح اسّی آدمیوں نے کھانا کھایا اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور گھر والوں نے کھانا کھایا اور کھانا بچ بھی گیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 44]» اس واقعے کی سند صحیح ہے، اسے [امام مالك 19]، [امام بخاري 3578]، [امام مسلم 2040]، [ترمذي 3634]، [ابويعلى 2830]، [ابن حبان 5285] وغیرہم نے ذکر کیا ہے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا ابان هو العطار، حدثنا قتادة، عن شهر بن حوشب، عن ابي عبيد رضي الله عنه، انه طبخ للنبي صلى الله عليه وسلم قدرا، فقال له: "ناولني الذراع"، وكان يعجبه الذراع، فناوله الذراع، ثم قال:"ناولني الذراع"، فناوله ذراعا، ثم قال:"ناولني الذراع"، فقلت: يا نبي الله، وكم للشاة من ذراع؟ فقال:"والذي نفسي بيده ان لو سكت لاعطيت اذرعا ما دعوت به".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبَانُ هُوَ الْعَطَّارُ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ طَبَخَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِدْرًا، فَقَالَ لَهُ: "نَاوِلْنِي الْذِّرَاعَ"، وَكَانَ يُعْجِبُهُ الذِّرَاعُ، فَنَاوَلَهُ الذِّرَاعَ، ثُمَّ قَالَ:"نَاوِلْنِي الذِّرَاعَ"، فَنَاوَلَهُ ذِرَاعًا، ثُمَّ قَالَ:"نَاوِلْنِي الذِّرَاعَ"، فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، وَكَمْ لِلشَّاةِ مِنْ ذِرَاعٍ؟ فَقَالَ:"وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ أَنْ لَوْ سَكَتَّ لَأُعْطَيْتَ أَذْرُعًا مَا دَعَوْتُ بِهِ".
سیدنا ابوعبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہانڈی پکائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”مجھے دستانہ (اگلے بازو کا گوشت) دینا“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم دستانہ پسند فرماتے تھے، لہذا سیدنا ابوعبید رضی اللہ عنہ نے آپ کے لئے دستانہ پیش کیا، پھر دوبارہ آپ نے طلب فرمایا تو دوبارہ حاضر خدمت کر دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طلب فرمایا تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! بکری کے کتنے دستانے ہوتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگرتم چپ رہتے تو جتنی بار میں طلب کرتا تم دستانے (بازو) لاتے اور پیش کرتے رہتے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل شهر بن حوشب، [مكتبه الشامله نمبر: 45]» اس حدیث کی سند حسن ہے اور اسے [طبراني 842]، [أحمد 484/6]، [ابن حبان 6484] نے روایت کیا ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 44 سے 45) ان احادیث سے معلوم ہوا: ❀ مہمان نوازی اور اس کی فضیلت۔ ❀ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی محبت۔ ❀ بکری کے گوشت کو خصوصاً بازو اور دستانے کو پسند فرمانا۔ ❀ جلد بازی کا نقصان۔ ❀ کسی بات کی تاکید کے لئے قسم کھانے کا جواز، جیسا کہ «وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ» سے ظاہر ہوتا ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل شهر بن حوشب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو النعمان، حدثنا ابو عوانة، عن الاسود، عن نبيح العنزي، عن جابر بن عبد الله، قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى المشركين ليقاتلهم، فقال ابي عبد الله: يا جابر، لا عليك ان تكون، في نظاري اهل المدينة حتى تعلم إلى ما يصير امرنا، فإني والله لولا اني اترك بنات لي بعدي، لاحببت ان تقتل بين يدي، قال: فبينما انا في النظارين إذ جاءت عمتي بابي وخالي لتدفنهما في مقابرنا، فلحق رجل ينادي، إن النبي صلى الله عليه وسلم يامركم ان تردوا القتلى فتدفنوها في مضاجعها حيث قتلت، فرددناهما، فدفناهما في مضجعهما حيث قتلا: فبينا انا في خلافة معاوية بن ابي سفيان رضي الله عنه، إذ جاءني رجل، فقال: يا جابر بن عبد الله، لقد اثار اباك عمال معاوية، فبدا، فخرج طائفة منهم، فانطلقت إليه فوجدته على النحو الذي دفنته لم يتغير إلا ما لم يدع القتيل، قال: فواريته، وترك ابي عليه دينا من التمر فاشتد علي بعض غرمائه، في التقاضي، فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، إن ابي اصيب يوم كذا وكذا، وإنه ترك عليه دينا من التمر، وإنه قد اشتد علي بعض غرمائه في الطلب، فاحب ان تعينني عليه لعله ان ينظرني طائفة من تمره إلى هذا الصرام المقبل، قال: "نعم آتيك إن شاء الله قريبا من وسط النهار"، قال: فجاء ومعه حواريوه، قال: فجلسوا في الظل وسلم رسول الله صلى الله عليه وسلم واستاذن ثم دخل علينا، قال: وقد قلت لامراتي: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم جاءني اليوم وسط النهار، فلا يرينك ولا تؤذي رسول الله صلى الله عليه وسلم في بيتي بشيء ولا تكلميه، ففرشت فراشا ووسادة فوضع راسه، فنام، فقلت لمولى لي: اذبح هذه العناق، وهي داجن سمينة، فالوحا والعجل افرغ منها قبل ان يستيقظ رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا معك، فلم نزل فيها حتى فرغنا منها , وهو نائم، فقلت: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم حين يستيقظ يدعو بطهور، وانا اخاف إذا فرغ ان يقوم , فلا يفرغ من طهوره حتى يوضع العناق بين يديه، فلما استيقظ، قال:"يا جابر ائتني بطهور"، قال: نعم، فلم يفرغ من وضوئه حتى وضعت العناق بين يديه، قال: فنظر إلي، فقال:"كانك قد علمت حبنا اللحم، ادع ابا بكر"، ثم دعا حوارييه، قال: فجيء بالطعام فوضع، قال: فوضع يده، وقال:"بسم الله كلوا"، فاكلوا حتى شبعوا وفضل منها لحم كثير، وقال: والله إن مجلس بني سلمة لينظرون إليهم، هو احب إليهم من اعينهم، ما يقربونه مخافة ان يؤذوه، ثم قام، وقام اصحابه، فخرجوا بين يديه، وكان يقول:"خلوا ظهري للملائكة"، قال: فاتبعتهم حتى بلغت سقفة الباب، فاخرجت امراتي صدرها وكانت ستيرة، فقالت: يا رسول الله، صل علي وعلى زوجي، قال:"صلى الله عليك وعلى زوجك"، ثم قال:"ادعوا لي فلانا للغريم الذي اشتد علي في الطلب، فقال:"انس جابرا طائفة من دينك الذي على ابيه إلى هذا الصرام المقبل"، قال: ما انا بفاعل، قال: واعتل وقال: إنما هو مال يتامى، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"اين جابر؟"قال: قلت: انا ذا يا رسول الله، قال:"كل له، فإن الله تعالى سوف يوفيه"، فرفع راسه إلى السماء، فإذا الشمس قد دلكت، قال:"الصلاة يا ابا بكر"، فاندفعوا إلى المسجد، فقلت لغريمي: قرب اوعيتك، فكلت له من العجوة فوفاه الله وفضل لنا من التمر كذا وكذا، قال: فجئت اسعى إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم في مسجده كاني شرارة، فوجدت رسول الله صلى الله عليه وسلم قد صلى، فقلت: يا رسول الله إني قد كلت لغريمي تمره فوفاه الله وفضل لنا من التمر كذا وكذا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"اين عمر بن الخطاب؟"، قال: فجاء يهرول، قال:"سل جابر بن عبد الله عن غريمه وتمره"، قال: ما انا بسائله، قد علمت ان الله سوف يوفيه إذ اخبرت ان الله سوف يوفيه فردد عليه، وردد عليه هذه الكلمة ثلاث مرات، كل ذلك يقول: ما انا بسائله، وكان لا يراجع بعد المرة الثالثة، فقال: ما فعل غريمك وتمرك؟، قال: قلت: وفاه الله وفضل لنا من التمر كذا وكذا، قال: فرجعت إلى امراتي، فقلت: الم اكن نهيتك ان تكلمي رسول الله صلى الله عليه وسلم في بيتي؟، فقالت: تظن ان الله تعالى يورد نبيه في بيتي ثم يخرج ولا اساله الصلاة علي وعلى زوجي.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَان، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ نُبَيْحٍ الْعَنَزِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمُشْرِكِينَ لِيُقَاتِلَهُمْ، فَقَالَ أَبِي عَبْدُ اللَّهِ: يَا جَابِرُ، لَا عَلَيْكَ أَنْ تَكُونَ، فِي نَظَّارِي أَهْلِ الْمَدِينَةِ حَتَّى تَعْلَمَ إِلَى مَا يَصِيرُ أَمْرُنَا، فَإِنِّي وَاللَّهِ لَوْلَا أَنِّي أَتْرُكُ بَنَاتٍ لِي بَعْدِي، لَأَحْبَبْتُ أَنْ تُقْتَلَ بَيْنَ يَدَيَّ، قَالَ: فَبَيْنَمَا أَنَا فِي النَّظَّارِينَ إِذْ جَاءَتْ عَمَّتِي بِأَبِي وَخَالِي لِتَدْفُنَهُمَا فِي مَقَابِرِنَا، فَلَحِقَ رَجُلٌ يُنَادِي، إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَرُدُّوا الْقَتْلَى فَتَدْفُنُوهَا فِي مَضَاجِعَهَا حَيْثُ قُتِلَتْ، فَرَدَدْنَاهُمَا، فَدَفَنَّاهُمَا فِي مَضْجَعِهِمَا حَيْثُ قُتِلَا: فَبَيْنَا أَنَا فِي خِلَافَةِ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، إِذْ جَاءَنِي رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، لَقَدْ أَثَارَ أَبَاكَ عُمَّالُ مُعَاوِيَةَ، فَبَدَا، فَخَرَجَ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ، فَانْطَلَقْتُ إِلَيْهِ فَوَجَدْتُهُ عَلَى النَّحْوِ الَّذِي دَفَنْتُهُ لَمْ يَتَغَيَّرْ إِلَّا مَا لَمْ يَدَعِ الْقَتِيلَ، قَالَ: فَوَارَيْتُهُ، وَتَرَكَ أَبِي عَلَيْهِ دَيْنًا مِنْ التَّمْرِ فَاشْتَدَّ عَلَيَّ بَعْضُ غُرَمَائِهِ، فِي التَّقَاضِي، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبِي أُصِيبَ يَوْمَ كَذَا وَكَذَا، وَإِنَّهُ تَرَكَ عَلَيْهِ دَيْنًا مِنَ التَّمْرِ، وَإِنَّهُ قَدْ اشْتَدَّ عَلَيَّ بَعْضُ غُرَمَائِهِ فِي الطَّلَبِ، فَأُحِبُّ أَنْ تُعِينَنِي عَلَيْهِ لَعَلَّهُ أَنْ يُنْظِرَنِي طَائِفَةً مِنْ تَمْرِهِ إِلَى هَذَا الصِّرَامِ الْمُقْبِلِ، قَالَ: "نَعَمْ آتِيكَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ قَرِيبًا مِنْ وَسَطِ النَّهَارِ"، قَالَ: فَجَاءَ وَمَعَهُ حَوَارِيُّوهُ، قَالَ: فَجَلَسُوا فِي الظِّلِّ وَسَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاسْتَأْذَنَ ثُمَّ دَخَلَ عَلَيْنَا، قَالَ: وَقَدْ قُلْتُ لِامْرَأَتِي: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَنِي الْيَوْمَ وَسَطَ النَّهَارِ، فَلَا يَرَيَنَّكِ وَلَا تُؤْذِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِي بِشَيْءٍ وَلَا تُكَلِّمِيهِ، فَفَرَشَتْ فِرَاشًا وَوِسَادَةً فَوَضَعَ رَأْسَهُ، فَنَامَ، فَقُلْتُ لِمَوْلًى لِي: اذْبَحْ هَذِهِ الْعَنَاقَ، وَهِيَ دَاجِنٌ سَمِينَة، فَالْوَحَا وَالْعَجْلَ افْرَغْ مِنْهَا قَبْلَ أَنْ يَسْتَيْقِظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مَعَكَ، فَلَمْ نَزَلْ فِيهَا حَتَّى فَرَغْنَا مِنْهَا , وَهُوَ نَائِمٌ، فَقُلْتُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ يَسْتَيْقِظُ يَدْعُو بِطَهُورِ، وَأَنَا أَخَافُ إِذَا فَرَغَ أَنْ يَقُومَ , فَلَا يَفْرَغْ مِنْ طُهُورِهِ حَتَّى يُوضَعَ الْعَنَاقُ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ، قَالَ:"يَا جَابِرُ ائْتِنِي بِطَهُورٍ"، قَالَ: نَعَمْ، فَلَمْ يَفْرَغْ مِنْ وُضُوئِهِ حَتَّى وُضِعَتِ الْعَنَاقُ بَيْنَ يَدَيْهِ، قَالَ: فَنَظَرَ إِلَيَّ، فَقَالَ:"كَأَنَّكَ قَدْ عَلِمْتَ حُبَّنَا اللَّحْمَ، ادْعُ أَبَا بَكْر"، ثُمَّ دَعَا حَوَارِيِّيهِ، قَالَ: فَجِيءَ بِالطَّعَامِ فَوُضِعَ، قَالَ: فَوَضَعَ يَدَهُ، وَقَالَ:"بِسْمِ اللَّهِ كُلُوا"، فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا وَفَضَلَ مِنْهَا لَحْمٌ كَثِيرٌ، وَقَالَ: وَاللَّهِ إِنَّ مَجْلِسَ بَنِي سَلِمَةَ لَيَنْظُرُونَ إِلَيْهِمْ، هُوَ أَحَبُّ إِلَيْهِمْ مِنْ أَعْيُنِهِمْ، مَا يَقْرَبُونَهُ مَخَافَةَ أَنْ يُؤْذُوهُ، ثُمَّ قَامَ، وَقَامَ أَصْحَابُهُ، فَخَرَجُوا بَيْنَ يَدَيْهِ، وَكَانَ يَقُولُ:"خَلُّوا ظَهْرِي لِلْمَلَائِكَةِ"، قَالَ: فَاتَّبَعْتُهُمْ حَتَّى بَلَغْتُ سَقُفَّةَ الْبَابِ، فَأَخْرَجَتِ امْرَأَتِي صَدْرَهَا وَكَانَتْ سَتِّيرَةً، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، صَلِّ عَلَيَّ وَعَلَى زَوْجِي، قَالَ:"صَلَّى اللَّهُ عَلَيْكِ وَعَلَى زَوْجِكِ"، ثُمَّ قَالَ:"ادْعُوا لِي فُلَانًا لِلْغَرِيمِ الَّذِي اشْتَدَّ عَلَيَّ فِي الطَّلَبِ، فَقَالَ:"أَنْسِ جَابِرًا طَائِفَةً مِنْ دَيْنِكَ الَّذِي عَلَى أَبِيهِ إِلَى هَذَا الصِّرَامِ الْمُقْبِلِ"، قَالَ: مَا أَنَا بِفَاعِلٍ، قَالَ: وَاعْتَلَّ وَقَالَ: إِنَّمَا هُوَ مَالُ يَتَامَى، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"أَيْنَ جَابِرٌ؟"قَالَ: قُلْتُ: أَنَا ذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:"كِلْ لَهُ، فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى سَوْفَ يُوَفِّيهِ"، فَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ، فَإِذَا الشَّمْسُ قَدْ دَلَكَتْ، قَالَ:"الصَّلَاةُ يَا أَبَا بَكْرٍ"، فَانْدَفَعُوا إِلَى الْمَسْجِدِ، فَقُلْتُ لِغَرِيمِي: قَرِّبْ أَوْعِيَتَكَ، فَكِلْتُ لَهُ مِنْ الْعَجْوَةِ فَوَفَّاهُ اللَّهُ وَفَضُلَ لَنَا مِنْ التَّمْرِ كَذَا وَكَذَا، قَالَ: فَجِئْتُ أَسْعَى إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَسْجِدِهِ كَأَنِّي شَرَارَةٌ، فَوَجَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ صَلَّى، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي قَدْ كِلْتُ لِغَرِيمِي تَمْرَهُ فَوَفَّاهُ اللَّهُ وَفَضُلَ لَنَا مِنْ التَّمْرِ كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"أَيْنَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ؟"، قَالَ: فَجَاءَ يُهَرْوِلُ، قَالَ:"سَلْ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ غَرِيمِهِ وَتَمْرِهِ"، قَالَ: مَا أَنَا بِسَائِلِهِ، قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ اللَّهَ سَوْفَ يُوَفِّيهِ إِذْ أَخْبَرْتَ أَنَّ اللَّهَ سَوْفَ يُوَفِّيهِ فَرَدَّدَ عَلَيْهِ، وَرَدَّدَ عَلَيْهِ هَذِهِ الْكَلِمَةَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، كُلُّ ذَلِكَ يَقُولُ: مَا أَنَا بِسَائِلِهِ، وَكَانَ لَا يُرَاجَعُ بَعْدَ الْمَرَّةِ الثَّالِثَةِ، فَقَالَ: مَا فَعَلَ غَرِيمُكَ وَتَمْرُكَ؟، قَالَ: قُلْتُ: وَفَّاهُ اللَّهُ وَفَضُلَ لَنَا مِنْ التَّمْرِ كَذَا وَكَذَا، قالَ: فَرَجَعْتُ إِلَى امْرَأَتِي، فَقُلْتُ: أَلَمْ أَكُنْ نَهَيْتُكِ أَنْ تُكَلِّمِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِي؟، فَقَالَتْ: تَظُنُّ أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى يُورِدُ نَبِيَّهُ فِي بَيْتِي ثُمَّ يَخْرُجُ وَلَا أَسْأَلُهُ الصَّلَاةَ عَلَيَّ وَعَلَى زَوْجِي.
سیدنا جابر بن عبدالله رضی اللہ عنہما نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین سے جہاد کے لئے نکلے تو میرے والد نے (مجھ سے) کہا کہ تم دیگر مدینہ والوں کی طرح دیکھ بھال کرنے والوں میں رہو تو کوئی مضائقہ نہیں یہاں تک کہ تمہیں پتہ چل جائے کہ ہمارا معاملہ کہاں تک پہنچتا ہے، اللہ کی قسم اگر مجھے اپنے بعد اپنی بیٹیوں کی فکر نہ ہوتی تو میں پسند کرتا کہ تم میرے سامنے شہید کر دیئے جاؤ، اسی اثناء میں کہ میں اہل خانہ کی دیکھ بھال کرنے والوں میں سے تھا کہ میری پھوپھی میرے والد اور ماموں کو لے کر آئیں تاکہ ان دونوں کو ہمارے قبرستان میں دفن کر دیں کہ ایک شخص ندا دیتا آیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ ”شہیدوں کو واپس لاؤ اور جہاں وہ شہید ہوئے ہیں وہیں انہیں دفن کیا جائے“، لہذا ہم نے انہیں وہیں لوٹا دیا اور جہاں وہ شہید ہوئے تھے وہیں انہیں دفن کر دیا، (وقت گزرتا گیا) جب معاویہ بن ابی سفیان کا دور خلافت آیا تو میرے پاس ایک شخص آیا اور کہا: اے عبداللہ کے بیٹے جابر! تمہارے والد پر سے معاویہ کے کارندوں نے مٹی ہٹائی اور وہ ظاہر ہو گئے اور ان میں سے ایک حصہ ظاہر ہو گیا ہے، میں اس کی طرف گیا تو انہیں بالکل ویسا ہی پایا جیسے انہیں دفن کیا تھا، کوئی تبدیلی نہیں ہوئی تھی۔ میں نے پھر انہیں مٹی میں چھپا دیا۔ اور میرے باپ نے اپنے اوپر کھجور کا قرض چھوڑا تھا اور کچھ قرض دینے والوں نے مجھ پر تقاضے میں بڑی سختی کی لہٰذا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے والد فلاں دن شہید ہو گئے اور انہوں نے کچھ کھجوروں کا قرض چھوڑا ہے اور کچھ قرض دینے والوں نے قرض واپس لینے کے لیے سختی کی ہے لہذا میں چاہتا ہوں کہ آپ میری مدد فرمائیں تاکہ وہ مجھے کچھ کھجور کے لئے آئندہ کٹائی تک کے لئے مہلت دے دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ٹھیک ہے میں ان شاء اللہ دوپہر تک تمہارے پاس آؤں گا۔“ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم مع اپنے حواریین کے تشریف لائے اور سائے میں بیٹھ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کیا اور اندر آنے کی اجازت چاہی، میں نے اپنی بیوی کو بتا دیا تھا کہ دوپہر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں گے، لہٰذا پردے میں رہنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے گھر میں کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچنے دینا، اور نہ تم ان سے کوئی بات کرنا، چنانچہ اس نے بستر اور تکیہ لگا دیا، آپ سر رکھ کر سو گئے تو میں نے اپنے غلام سے کہا بکری کا یہ بچہ ذبح کر دو جو پالتو، بہت تندرست، تیز رو، پھرتیلا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیدار ہونے سے پہلے اس سے فارغ ہو جاؤ، لہٰذا ہم دونوں اس میں لگ گئے اور فارغ بھی ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوئے ہوئے تھے، میں نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیدار ہوتے ہیں تو پانی طلب کرتے ہیں، مجھے ڈر ہے کہ جب منہ ہاتھ دھو لیں تو چلے نہ جائیں، اس لئے جب تک آپ منہ دھوئیں وہ بکری کا بچہ آپ کے سامنے پیش کر دیا جائے، اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو فرمایا: ”جابر پانی لاؤ“، کہا: حاضر ہے اور آپ وضو سے فارغ بھی نہیں ہوئے تھے کہ آپ کے سامنے وہ مسلم بکری کا بچہ پیش کر دیا گیا۔ آپ نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھا اور فرمایا: ”شاید تمہیں معلوم ہے کہ گوشت ہمیں پسند ہے؟ جاؤ ابوبکر کو بھی بلا لاؤ“ اور آپ کے ساتھ جو آپ کے صحابہ آئے تھے انہیں بھی بلا لیا اور کھانا منگا کر رکھا گیا، آپ نے اپنا دست مبارک اس پر رکھا اور فرمایا: ”الله کا نام لے کر کھانا شروع کرو“ چنانچہ ان سب نے خوب شکم سیر ہو کر کھانا تناول کیا اور اس میں سے بہت سارا گوشت بچ بھی گیا اور الله کی قسم بنوسلمہ کی بیٹھک کے لوگ ان کو دیکھ رہے تھے، یہ ان کی نظر میں زیادہ اچھا تھا وہ اس لئے قریب نہیں آۓ کہ مبادا آپ کو تکلیف نہ ہو۔ پھر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کھڑے ہوئے اور ان کے پاس سے ہٹ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے جاتے تھے: ”میری پشت فرشتوں کے لئے چھوڑ دو“، میں دروازے کی چوکھٹ تک ان کے پیچھے گیا کہ میری بیوی نے باپردہ سر نکالا اور کہا: اے اللہ کے رسول! میرے اور میرے شوہر کے لئے دعا فرما دیجئے، آپ نے دعا کی ”اللہ تمہارے لئے اور تمہارے شوہر کے لئے رحمت و برکت نازل فرمائے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فلاں شخص کو بلاؤ“، وہی جس نے مجھ سے اپنا قرض مانگنے میں سختی کی تھی اور اس سے کہا: جابر کو کچھ مہلت دے دو اس کے باپ کے اوپر جو قرض تھا اس میں سے کچھ آئندہ کٹائی کے وقت لے لینا، اس نے جواب دیا نہیں یہ مجھ سے نہیں ہو سکتا، عذر یہ پیش کیا کہ یہ یتیموں کا مال ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جابر کہاں ہے؟“ عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں یہاں موجود ہوں، آپ نے فرمایا: ”(جو کچھ تمہارے پاس ہے) ان کو تول کر دے دو، اللہ تعالی پورا کرائے گا،“ آپ نے آسمان کی طرف سر اٹھایا تو سورج ڈھل رہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوبکر چلو نماز کے لئے“ چنانچہ سب لوگ نماز کے لئے روانہ ہو گئے، میں نے اپنے قرض خواہ سے کہا: لاؤ اپنا برتن قریب لاؤ اور میں نے عجوہ کھجور تولنی شروع کی تو اللہ نے پوری بھی کرا دی اور قرض کے بعد کافی ساری بچ بھی گئی۔ میں دوڑتا ہوا گویا کہ میں آگ سے اڑنے والا شرارہ تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسجد آیا، دیکھا کہ آپ نماز سے فارغ ہو چکے ہیں، میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں نے اپنے قرض خواہ کے لئے عجوہ کھجوریں تولیں تو وہ نہ صرف پوری ہو گئیں بلکہ کافی ساری بچ بھی گئیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عمر بن الخطاب کدھر ہیں؟“، چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ دوڑتے ہوئے تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”جابر سے ان کے قرض خواہ اور کھجوروں کے بارے میں دریافت کرو“، انہوں نے جواب دیا جب مجھے معلوم ہے کہ آپ نے ان کے لئے دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ اسے پورا فرما دے تو پھر پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں (یعنی یقیناً اللہ نے اس سے قرض پورا ادا کروا دیا ہو گا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار ان سے یہی کہا اور تینوں بار انہوں نے یہی جواب دیا کہ مجھے یہ پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ عادت مبارکہ تھی کہ تین بار سے زیادہ کسی بات کو لوٹاتے نہیں تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تمہارے قرض مانگنے والے نے کیا کیا اور تمر کھجور کا کیا بنا؟“ عرض کیا: الله تعالی نے قرض کی مقدار پوری فرما دی اور بہت سی کھجوریں بچی رہ گئیں۔ پھر میں اپنے گھر واپس آیا اور بیوی سے کہا: میں نے تم سے منع نہیں کیا تھا کہ میرے گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات نہ کرنا؟ تو اس (نیک بخت) نے جواب دیا: آپ کا کیا خیال ہے الله تعالی میرے گھر میں اپنے نبی کو بھیجے اور آپ واپس تشریف لے جائیں اور میں اپنے اور آپ کے لئے دعا کی بھی درخواست نہ کروں؟
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 46]» اس حدیث کی سند صحیح ہے اور اس کو [امام أحمد 397/3] و امام حاکم نے [مستدرك 110/4] میں اور ابویعلی نے [مسند 2077] میں اور ابن حبان نے [صحيح 916] میں روایت کیا ہے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 46) اس حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا رسول اور اللہ کے برگزیدہ بندہ ہونا ثابت ہوا، ادھر دعا کی ادھر شرف قبولیت۔ ❀ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور ایمان و یقین، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کیسے فرماتے ہیں کہ جب مجھے معلوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول اور مستجاب الدعوة ہیں تو مجھے یقین ہے کھجوروں میں برکت ہوئی ہو گی، اور یہ معجزہ ضرور ظہور پذیر ہوا ہو گا۔ ❀ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی بیوی کا منع کئے جانے کے باوجود دعا کے لئے درخواست کرنا شوہر کی نافرمانی نہیں تھی، اس طرح جب اس نیک کام کے لئے شوہر کے حکم کی پیروی نہ کرے تو اس سے مواخذہ نہ ہو گا۔ ❀ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شہید کے جسم کو مٹی گلاتی نہیں، وہ ایسا ہی قیامت تک رہے گا، اور یہ اللہ کے راستے میں شہید ہونے والے مومن بندے کی توقیر و عظمت ہے۔ ❀ «وَكَانَتْ سَتِيرَةً» سے واضح ہوا کہ صحابیات پردہ کرتی اور چہرہ چھپاتی تھیں۔ ❀ اس حدیث میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی غیرت و حمیت دیکھئے کہ اشرف الکائنات سید ولد آدم کے سامنے آنے سے اپنی بیوی کو روکتے ہیں، اور وہ باپردہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آتی ہیں، آج کے مسلمانوں کی بے غیرتی دیکھئے کہ بلاحجاب، بے پردہ اپنی بہن، بیٹی اور بیوی کو پیروں، فقیروں اور شیطانوں کے حجرے میں تنہا داخل کر دیتے ہیں۔ (العیاذ باللہ)