مقدمه مقدمہ 18. باب كَرَاهِيَةِ الْفُتْيَا: فتویٰ دینے سے کراہت کا بیان
حماد بن یزید نے اپنے والد سے بیان کیا کہ ایک دن ایک آدمی سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آیا اور آپ سے کسی چیز کے بارے میں پوچھا جس کا مجھے علم نہیں، تو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: جو چیز وقوع پذیر نہیں ہوئی اس کے بارے میں نہ پوچھو، میں نے سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کو ایسے شخص پر لعنت کرتے سنا ہے جو ایسی چیزوں کے بارے میں سوال کرے جو (ظہور پذیر) نہیں ہوئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 123]»
اس روایت کی سند جید ہے۔ اس کو ابن عبدالبر نے [جامع بيان العلم 1820] اور ابوخیثمہ نے [العلم 144] میں ذکر کیا ہے۔ وضاحت:
(تشریح حدیث 122) فرضی مسائل پوچھنے کی مذمت اس سے معلوم ہوتی ہے۔ اور جو شخص من گھڑت مسائل و فتاوے پوچھے اس پر لعنت ہے، اور یہ لعنت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے الفاظ میں ہے جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ» (دیکھئے حدیث رقم 96)۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
امام زہری نے کہا کہ ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے جب کسی چیز کے بارے میں پوچھا جاتا تو وہ پوچھتے تھے: کیا یہ واقعہ رونما ہو چکا ہے؟ اگر ان کا جواب ہاں میں ہوتا تو ان سے حدیث بیان کر دیتے یا پھر اپنی رائے ظاہر کر دیتے تھے اور اگر لوگوں کا جواب ”نہیں“ میں ہوتا تو کہہ دیتے تھے کہ جانے دو جب وقوع پذیر ہو تو پوچھنا۔
تخریج الحدیث: «لم يحكم عليه المحقق، [مكتبه الشامله نمبر: 124]»
یہ اثر امام زہری کے بلاغیات میں سے ہے۔ امام دارمی کے علاوہ خطیب بغدادی نے [الفقيه والمتفقه 8/2] میں، ابن عبدالبر نے [جامع بيان العلم 1813] اور ابن بطہ نے [الإبانة 318] میں ذکر کیا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: لم يحكم عليه المحقق
عامر نے کہا کہ سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے کوئی مسئلہ پوچھا گیا تو انہوں نے پوچھا یہ رونما ہو چکا ہے؟ لوگوں نے کہا: نہیں تو عمار نے کہا: جب تک واقع نہ ہو ہمیں چھوڑ دو اور اگر وہ واقعہ وقوع پذیر ہو چکے تو ہم تمہارے لئے مسئلہ کے چھان بین کی مشقت برداشت کریں گے۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أنه منقطع عامر الشعبي لم يسمع من عمار، [مكتبه الشامله نمبر: 125]»
اس روایت میں انقطاع ہے، اور اسے خطیب نے [الفقيه والمتفقه 8/2] میں ذکر کیا ہے اور اس کا شاہد صحیح بھی موجود ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أنه منقطع عامر الشعبي لم يسمع من عمار
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے منبر پر فرمایا: میں اس شخص کو گنہگار سمجھتا ہوں جو فرضی مسئلہ پوچھے کیونکہ جو چیز ظہور پذیر ہونے والی ہے اسے الله تعالیٰ نے بیان فرما دیا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 126]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [جامع بيان العلم 1807]، [الفقيه والمتفقه 7/2]، [فتح الباري 266/13] وضاحت:
(تشریح احادیث 123 سے 126) سابقہ آثار جلیل القدر صحابہ کرام کے ہیں اور ان سے فرضی مسائل پوچھنے کی مذمت ظاہر ہوتی ہے۔ اس اثر سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا یقین و اعتماد اور فہم و فراست ظاہر ہوتا ہے، جو چیز ظہور پذیر ہونے والی ہے اس کو الله تعالیٰ نے وضاحت سے بیان فرما دیا ہے، اور جس سے خاموشی اختیار کی، وضاحت نہیں کی اس کے بارے میں پوچھا بھی نہ جائے، یہی بات « ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ﴾ [المائده: 101] » اور حدیث شریف: «دَعُونِيْ مَا تَرَكْتُكُمْ عَلَيْهِ.» سے واضح ہوتی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا عبداللہ عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے بہتر لوگ نہیں دیکھے، اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی میں صرف ۱۳ مسئلے آپ سے پوچھے تھے، جو سب کے سب قرآن پاک میں مذکور ہیں، جیسے: «﴿يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ ...﴾» (البقرة: ۲۱۷/۲) ”لوگ آپ سے شہر حرام کے بارے میں پوچھتے ہیں“، «﴿وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ ...﴾» (البقرة: ۲۲۲/۲) ”لوگ آپ سے حیض کے مسائل دریافت کرتے ہیں۔“ نیز انہوں نے بتایا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم صرف وہی سوال اور مسئلہ پوچھتے تھے جو انہیں سودمند ہوتا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 127]»
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ اثر ضعیف ہے۔ 13 مسائل کی تحدید بھی صحيح نہیں معلوم ہوتی «(والله أعلم)» اس کو ابن عبدالبر نے [جامع بيان العلم 1809] اور ابن بطہ نے [الإبانة 396] میں اسی سند سے ذکر کیا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف
عمر بن اسحاق نے کہا: اپنے سے پہلے لوگوں میں سب سے زیادہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو پایا، میں نے ان سے زیادہ آسان سیرت اور سب سے کم سختی کرنے والا کسی کو نہیں دیکھا۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 128]»
اس قول کی سند جید ہے اور اسے [ابن أبي شيبة 18409] اور ابن سعد نے [طبقات 160/1/7] میں ذکر کیا ہے۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 126 سے 128) اس اثر میں صحابہ کرام کی سیرت، طرزِ عمل اور ان کی تشدید و تکلف سے اجتناب کا بیان ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
رجاء بن حیوہ نے کہا: میں نے عبادہ بن نسی الکندی سے سنا ان سے ایسی عورت کے بارے میں پوچھا گیا جو کچھ لوگوں کے ساتھ فوت ہو گئی اور اس کا کوئی ولی موجود نہیں تھا تو انہوں نے کہا: میں نے ایسی جماعت کو پایا جو نہ تمہاری طرح تشدد کرتے اور نہ تمہارے جیسے مسائل پوچھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 129]»
اس قول کی سند صحیح ہے اور اسے ابن عساکر نے [تاريخ ص: 47] میں ذکر کیا ہے۔ وضاحت:
(تشریح حدیث 128) اس میں صحابہ کرام کی فضیلت اور عدم تشدید کا بیان ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
ہشام بن مسلم قرشی نے کہا کہ میں ابن محیریز کے ساتھ وادی مرج الدیباج میں تھا، انہیں تنہا پا کر میں نے ان سے ایک مسئلہ دریافت کیا، تو انہوں نے کہا: تم مسائل پوچھ کر کیا کرو گے؟ میں نے کہا: اگر مسائل نہ ہوتے تو علم مٹ جاتا، کہنے لگے یہ نہ کہو کہ علم مٹ جاتا، جب تک قرآن کریم پڑھا جاتا رہے گا، علم نہیں مٹے گا، ہاں تم یہ کہہ سکتے ہو کہ سمجھ بوجھ اٹھ جائے گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 130]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [حلية الأولياء 141/5]، [تاريخ ابن عساكر 406/38]۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف
امام شعبی سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگو! ہم نہیں جانتے، ہو سکتا ہے ہم تمہیں ایسے امور کا حکم دیں جو تمہارے لئے جائز نہ ہوں، ہو سکتا ہے ہم تمہارے لئے ایسی چیزیں حرام قرار دے دیں جو اصل میں تمہارے لئے حلال ہوں، قرآن کریم میں آخری آیت سود والی نازل ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے اس کی اچھی طرح وضاحت بھی نہ کی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انتقال فرما گئے، اس لئے جس چیز میں تمہیں شبہ ہو اسے چھوڑ دو اور جس میں شبہ نہیں اس سے اپنا لو (اس پر عمل کرو)۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لانقطاعه الشعبي لم يدرك عمر بن الخطاب، [مكتبه الشامله نمبر: 131]»
اس روایت کی سند میں ضعف ہے کیونکہ شعبی نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو پایا ہی نہیں، امام طبرانی رحمہ اللہ نے [تفسير 114/3] میں اسے نقل کیا ہے۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 129 سے 131) اس روایت کی سند ضعیف ہے اور معنی بھی محل نظر ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انتقال کے وقت فرمایا تھا: «لَقَدْ تَرَكْتُكُمْ عَلَى الْبَيْضَاء لَيْلُهَا كَنَهَارِهَا لَا يَزِيْغُ عَنْهَا إِلَّا هَالِكٌ.» ترجمہ: میں نے تم کو ایسی صاف و سفید شریعت پر چھوڑا ہے جس کی رات بھی دن (کی طرح روشن) ہے، اس سے ہلاکت میں پڑنے والا ہی منہ موڑے گا۔ [طبراني: 247/18] نیز یہ « ﴿بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ﴾ [المائدة: 67] » ”جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر اتارا گیا ہے اس کی تبلیغ کیجئے۔ “ اور « ﴿لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ﴾ [النحل: 44] » کے منافی ہے۔ یا اس سے مقصود یہ ہو سکتا ہے کہ اس آیت کے نزول کے فوراً بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا۔ واللہ اعلم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لانقطاعه الشعبي لم يدرك عمر بن الخطاب
|