مقدمه مقدمہ 53. باب في الْعَرْضِ: عرض کا بیان
عاصم الاحول نے بیان کیا کہ میں نے امام شعبی رحمہ اللہ پر احادیث احکام پیش کیں اور انہوں نے مجھے ان کی روایت کرنے کی اجازت دی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 656]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [المعرفة والتاريخ 826/2]، [الكفاية ص: 264]، [المحدث الفاصل 466، 485] وضاحت:
(تشریح حدیث 653) «عرض» طرق تحمل کے آٹھ طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے جس میں شاگرد استاذ کے سامنے احادیث و روایات پیش کرے اور استاذ ان کی روایت کرنے کی اجازت دیں، اور اس طریق میں عموماً یہ کہا جاتا ہے «عرضت على فلان فأجازني» ۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سفیان بن عیینہ نے بیان کیا کہ میں نے عمرو بن دینار سے عرض کیا: کیا آپ نے سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے یہ حدیث سنی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے فرمایا جو کہ مسجد میں تیر لے کر گزر رہا تھا: ”اس کی نوک (کی طرف سے) پکڑو۔“ عمرو بن دینار نے کہا: ہاں میں نے انہیں یہ کہتے سنا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 657]»
اس روایت کی سند صحیح ہے، اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 451]، [مسلم 2614]، لیکن اس میں ”نعم“ کا اضافہ نہیں ہے، اس کے لئے دیکھئے: [مسند أبى يعلی 1827] و [صحيح ابن حبان 1647] و [مسند الحميدي 1289] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، میں نے عبدالرحمٰن بن القاسم سے کہا: کیا تم نے اپنے والد کو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں ان کا بوسہ لیتے تھے؟ انہوں نے کہا: ہاں، میں نے انہیں یہ کہتے سنا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 658]»
اس روایت کی سند صحیح ہے، اور حدیث التقبیل متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1927]، [مسلم 1106 بهذا اللفظ]۔ نیز دیکھئے: [مسند أبى يعلي 4428]، [صحيح ابن حبان 537] و [مسند الحميدي 198] وضاحت:
(تشریح احادیث 654 سے 656) ان روایات میں سماع حدیث تصدیق طلب کرنا ہی ”اجازه“ ہے جو روایتِ حدیث کی ایک قسم ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
شعبہ نے بیان کیا کہ منصور نے میرے پاس ایک حدیث لکھ کر بھیجی، میں (جب) ان سے ملا تو میں نے کہا: اس حدیث کو آپ کے واسطے سے میں روایت کر سکتا ہوں؟ انہوں نے کہا: جب میں تمہیں کوئی بات لکھوں تو وہ بیان اور روایت کرنے ہی کے مرادف ہے۔ (یعنی گویا کہ میں نے تم سے دو بدو بیان کیا)۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 659]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [المعرفة 825/2 -827]، [الكفاية ص: 306، 343]، [المحدث الفاصل 463] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
شعبہ (بن الحجاج) نے کہا: میں نے ایوب السختیانی سے پوچھا، انہوں نے بھی یہی جواب دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 660]»
اس اثر کو بھی فسوی نے [المعرفة 825/2] میں اور خطیب نے [الكفاية ص: 343] میں ذکر کیا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
معمر سے مروی ہے، انہوں نے (امام) زہری رحمہ اللہ کو کتاب پیش کی اور کہا: کیا میں اسے آپ سے روایت کر سکتا ہوں؟ فرمایا: میرے علاوہ کسی اور نے اسے تمہارے لئے روایت کیا؟
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 661]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [المعرفة 827/2]، [الكفاية ص: 266، 283]، [المحدث الفاصل 477] و [جامع بيان العلم 2271، 2280] وضاحت:
(تشریح احادیث 656 سے 659) یعنی میں نے بیان کیا ہے اس لئے مجھ سے روایت کر سکتے ہو۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
ہشام بن عروہ سے مروی ہے ان کے باپ (عروة) نے کہا: کتاب اور حدیث کا استاذ پر پیش کرنا ایک جیسا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف داود بن عطاء، [مكتبه الشامله نمبر: 662]»
اس روایت کی سند داؤد بن عطاء کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن قواعد حدیث کے مطابق یہ بات صحیح ہے۔ وضاحت:
(تشریح حدیث 659) یعنی کتاب لے جا کر دکھائے یا حدیث پڑھ کر سنائے اور روایت کرنے کی اجازت طلب کرے، تو یہ ایک ہی بات ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف داود بن عطاء
جعفر بن محمد سے مروی ہے، ان کے والد نے کہا: کتاب یا حدیث کا عرض (پیش کرنا) ایک ہی بات ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 663]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [المعرفة 826/2]، [الكفاية ص: 264] لیکن قول صحیح ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف
داؤد بن عطاء (مولی المزنیین) نے کہا: زید بن اسلم کتاب یا حدیث پیش کرنا برابر سمجھتے تھے، اور ابن ابی ذئب کا بھی یہی خیال تھا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف داود بن عطاء، [مكتبه الشامله نمبر: 664]»
اس روایت کی سند داؤد کی وجہ سے ضعیف ہے، اور کہیں یہ روایت نہیں ملی۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف داود بن عطاء
مطرف (بن عبدالله بن مطرف) نے کہا: امام مالک رحمہ اللہ کتاب پیش کرنا یا حدیث پڑھ کر سنانا برابر سمجھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 665]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [الكفاية ص: 270]، اس اثر کی سند میں ابراہیم: ابن المنذر ہیں اور مطرف: ابن عبد اللہ ہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|