مقدمه مقدمہ 44. باب مَنْ سَنَّ سُنَّةً حَسَنَةً أَوْ سَيِّئَةً: اچھا یا برا طریقہ رائج کرنے کا بیان
سیدنا جریر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اچھی بات (کتاب و سنت کی بات) رائج کرے اور لوگ اس کے بعد اس پر عمل کریں تو اس کے لئے اتنا ثواب ہو گا جتنا اس پر عمل کرنے والے کو ثواب ہو گا، اور عمل کرنے والے کے ثواب میں کوئی کمی نہ ہو گی۔ اور جو بری بات جاری کرے اور لوگ اس کے بعد اس پر عمل کریں تو تمام عمل کرنے والوں کے برابر اس پر گناہ ہو گا، اور عمل کرنے والوں کا گناہ کچھ کم نہ ہو گا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل عاصم ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 529]»
اس حدیث کی سند حسن ہے، لیکن دوسری سند سے حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [صحيح مسلم 1017]، [صحيح ابن حبان 3308]، [مسند الحميدي 825] و [صحيح ابن خزيمه 2477] وضاحت:
(تشریح حدیث 528) مطلب یہ ہے کہ شرع میں جس چیز کی خوبی ثابت ہے اس کو جو کوئی رواج دے گا تو اس کو نہایت ثواب ہوگا، جیسے صدقہ و خیرات وغیرہ، اور جو بری چیز رائج کرے بدعت و گمراہی وغیرہ تو اس کا گناه رائج کرنے والے پر زیادہ ہوگا۔ واضح رہے کہ «مَنْ سَنَّ سُنَّةً حَسَنَةً» سے یہ مراد قطعاً نہیں کہ کوئی نئی بات ایجاد کرے، جیسا کہ بعض افراد کا خیال ہے اور وہ اس سے بدعتِ حسنہ کی دلیل پکڑتے ہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل عاصم ولكن الحديث صحيح
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص ہدایت کی طرف بلائے اس کو ہدایت پر چلنے والے کا بھی ثواب ملے گا اور چلنے والوں کا ثواب کچھ کم نہ ہو گا، اور جو شخص اپنی گمراہی کی طرف بلائے گا تو اس کے اوپر اس کی اتباع و عمل کرنے والے کا بھی گناہ ہو گا اور اتباع کرنے والوں کے گناہ سے کچھ کم نہ ہو گا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 530]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [صحيح مسلم 2674]، [صحيح ابن حبان 112]، [مسند أبى يعلی 6489] و [السنة لابن أبى عاصم 112] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا جریر بن عبدالله رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو خطبہ دیا اور لوگوں کو صدقے کی ترغیب دی، لیکن لوگوں نے تاخیر کی حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر غصے کے آثار نمایاں ہو گئے، بعدہ انصار کا ایک آدمی ایک تھیلی لے کر آیا، پھر لوگوں کا تانتا لگ گیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر خوشی کے آثار دیکھے گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اچھی بات جاری کرے تو اس کے لئے اپنا اجر بھی ہے اور عمل کرنے والے کا بھی اجر ہے، اور عمل کرنے والوں کے اجر میں کچھ کمی نہ ہو گی، اور جو بری بات رائج کرے تو اس پر اپنے کئے کا بوجھ ہو گا، اور جو اس پر عمل کرے گا اس کا بھی بوجھ ہو گا، عمل کرنے والوں کے بوجھ و گناہ میں کوئی کمی نہ ہو گی۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 531]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ لالکائی نے [شرح أصول اعتقاد أهل السنة 5] میں اسے ذکر کیا ہے۔ نیز دیکھئے: تخريج رقم (529)۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حسان بن عطیہ نے بیان کیا: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن تم سب سے زیادہ میرا اجر ہو گا، ایک تو میرا اپنا اجر دوسرے مجھے میری اتباع کرنے والے کا بھی اجر ملے گا۔“
تخریج الحدیث: «مرسل وإسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 532]»
یہ مرسل روایت ہے، لیکن سند صحیح ہے۔ «وانفرد به الدارمي» ، لیکن اس کی تائید حدیث «من سن سنة حسنة» سے ہوتی ہے جو اس باب کے شروع میں مذکور ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: مرسل وإسناده صحيح
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی چیز کی طرف بلائے چاہے ایک آدمی ایک آدمی ہی کو دعوت دے تو وہ قیامت کے دن اس دعوت کی بنا پر روک دیا جائے گا، اس کی دعوت کا وبال اسے چمٹا ہو گا“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی: «﴿وَقِفُوهُمْ إِنَّهُمْ مَسْئُولُونَ﴾» ”انہیں روک لو، کیونکہ ان سے سوال کئے جائیں گے۔“ [الصافات: 24/37]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف ليث بن أبي سليم، [مكتبه الشامله نمبر: 533]»
لیث بن ابی سلیم کی وجہ سے اس کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 3226]، [التاريخ الكبير للبخاري 86/2]، [المستدرك 430/2]، [تفسير طبري 48/23]، [الدر المنثور 273/5]، امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن غریب کہا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف ليث بن أبي سليم
امام شعبی رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ سیدنا عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: چار چیزیں ہیں جو آدمی کو قیامت کے دن عطا کی جائیں گی: اس کے مال کا تہائی حصہ، اگر اس میں موت سے قبل الله تعالیٰ کا مطیع و فرماں بردار تھا، دوسرے نیک صالح اولاد جو اس کی وفات کے بعد اس کے لئے دعا کرتی رہے، تیسرے وہ اچھا طریقہ جو انسان رائج کرے اور اس کی موت کے بعد اس پر عمل کیا جاتا رہے۔ چوتھے سو آدمی جو اس شخص کے لئے سفارش کریں ان کی سفارش اس کے حق میں قبول کی جائے گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى عبد الله ولكن مثله لا يقال بالرأي، [مكتبه الشامله نمبر: 534]»
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تک اس روایت کی سند صحیح ہے۔ نیز اس طرح کی باتیں اپنی طرف سے یا رائے اور قیاس سے نہیں کہی جاسکتی ہیں، اس روایت کو امام دارمی کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کیا، نیز صدقۂ جاریہ، الولد الصالح، والسنۃ الحسنۃ کے شواہد صحیحہ موجود ہیں۔ حدیث میں ہے: ”جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ بھی منقطع ہو جاتا ہے سوائے تین قسم کے اعمال کے: صدقۂ جاریہ، وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے، اور نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرے۔“ یہ حدیث آگے (578) نمبر پر آ رہی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى عبد الله ولكن مثله لا يقال بالرأي
|