مقدمه مقدمہ 38. باب الْحَدِيثِ عَنِ الثِّقَاتِ: صرف ثقہ راویوں سے حدیث روایت کرنے کا بیان
سلیمان بن موسیٰ نے کہا: میں نے امام طاؤوس رحمہ اللہ سے کہا: فلاں آدمی نے اس اس طرح مجھے حدیث بیان کی، فرمایا: تمہارے یہ حدیث بیان کرنے والے (حدیث کے) غنی ہیں تو ان کی روایت لے لو۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل سليمان بن موسى الأموي، [مكتبه الشامله نمبر: 428]»
اس قول کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [الضعفاء للعقيلي 12/1]، [التاريخ لأبي زرعة 601]، [المحدث الفاصل 426]، [الكفاية ص: 34] و [أسد الغابة 284/6] وضاحت:
(تشریح حدیث 427) یعنی وہ احادیث شریفہ کا علم رکھتے ہیں اور اس سے مالا مال ہیں تو ان سے حدیث لے سکتے ہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل سليمان بن موسى الأموي
سعد بن ابراہیم نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثقات راوی ہی حدیث روایت کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 429]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ امام مسلم نے اپنی صحیح کے مقدمہ میں اسے ذکر کیا ہے۔ دیکھئے: [مقدمة صحيح مسلم 15/1]، [الكفاية ص: 32] و [تاريخ أبى زرعة 1484] وضاحت:
(تشریح حدیث 428) مذکورہ بالا اثر میں اس بات کی ترغیب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت اور حدیث بیان کرنے والا ثقہ ہونا چاہیے، جس طرح حدیث میں ہے: «لَا يَحْمِلْ هٰذَا الْعِلْمَ إِلَّا عُدُوُ لَهُ (أو كما قال عليه السلام)» ۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے فرمایا: لوگ پہلے اسناد کے بارے میں سوال نہیں کرتے تھے، پھر سوال کرنے لگے (یعنی پوچھنے لگے کہ راوی کون اور کیسا ہے)، جو صاحب سنت ہوتا اس سے حدیث لے لیتے، اور جو صاحب سنت نہ ہوتا اس سے حدیث نہیں لیتے تھے۔ امام دارمی نے فرمایا: میں نہیں سمجھتا کہ جریر نے عاصم سے اسے سنا ہو گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف من أجل محمد بن حميد. وفيه شبهة انقطاع بين جرير وبين عاصم، [مكتبه الشامله نمبر: 430]»
اس روایت کی سند میں محمد بن حمید ضعیف اور جریر: ابن عبدالحميد و عاصم: ابن سلمان ہیں۔ نیز ان میں انقطاع کا احتمال ہے۔ اس کو خطیب نے [الكفاية ص: 122]، اور ابونعیم نے [حلية الأولياء 278/2] میں روایت کیا ہے جس کی سند صحیح ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف من أجل محمد بن حميد. وفيه شبهة انقطاع بين جرير وبين عاصم
امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے فرمایا: جو حدیث تم نے مجھ سے بیان کی، اب ان دو آدمیوں کے طریق سے بیان نہ کرنا کیونکہ یہ دونوں اس کی پرواہ نہیں کرتے کہ حدیث کس سے لے رہے ہیں۔ امام دارمی نے فرمایا: مجھے یقین نہیں کہ جریر نے عاصم سے یہ سنا ہو۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 431]»
اس قول کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: تخریج مذکورہ بالا (430)۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف
ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نے فرمایا: جب تم مجھ سے حدیث بیان کرو تو ابوزرعۃ رحمہ اللہ کے طریق سے بیان کرو، اس لئے کہ انہوں نے مجھ سے ایک حدیث بیان کی، پھر میں نے ایک سال کے بعد ان سے اسی حدیث کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے اس میں ایک حرف کی بھی کمی نہیں کی۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف من أجل محمد بن حميد، [مكتبه الشامله نمبر: 432]»
اس روایت کی سند محمد بن حمید کی وجہ سے ضعیف ہے۔ دیکھئے: [سنن الترمذي 51/5] وضاحت:
(تشریح احادیث 429 سے 432) یعنی من وعن ویسی ہی بیان کر دی، اس سے ابوزرعہ رحمہ اللہ کے حفظ و اتقان کا پتہ چلتا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف من أجل محمد بن حميد
امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے فرمایا: یہ علم (حدیث) دین ہے، آدمی کو خیال رکھنا چاہیے کہ وہ اپنا دین کیسے آدمی سے لے رہا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 433]»
اس قول کی سند صحیح ہے، اور تخریج اثر رقم (398) میں گذرچکی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نے فرمایا: (سلف صالحین) جب کسی کے پاس علم حدیث لینے جاتے تو اس کی نماز، طور طریقہ اور ہیئت کو غور سے دیکھتے تھے۔ پھر اس سے حدیث لیتے تھے۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 434]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [حلية الأولياء 225/4] و [الجامع لأخلاق الراوي 136] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نے فرمایا: جب وہ (یعنی سلف صالحین) کسی ایسے آدمی کے پاس آتے جس سے علم لینا ہوتا تو اس کی نماز، چال چلن، صورت شکل دیکھتے، پھر اس سے علم اخذ کرتے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 435]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [الجرح والتعديل 16/2] و [الكفاية 157] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حسن بصری رحمہ اللہ نے بھی ابراہیم رحمہ اللہ کی طرح بیان کیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى الحسن، [مكتبه الشامله نمبر: 436]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: مذکورہ بالا تخریج، اس روایت میں روح سے مراد ابن عبادہ اور ہشام سے مراد ہشام بن حسان ہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى الحسن
ابوالعالیہ نے فرمایا کہ: ہم آدمی کے پاس جاتے تھے کہ اس سے روایت لیں، تو جب وہ نماز پڑھتا ہم دیکھتے تھے، اگر ٹھیک طرح سے نماز پڑھی ہے تو بیٹھ جاتے اور کہتے وہ نماز کے علاوہ (اعمال) میں بھی اچھا ہو گا، اور اگر اچھی طرح نماز نہیں پڑھتا تو اس کے پاس سے اٹھ آتے اور کہتے وہ نماز کے علاوہ میں اور زیادہ خراب ہو گا۔ ابومعمر نے کہا: اس کے لفظ اسی طرح ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 437]»
اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [المحدث الفاصل 430]، [حلية الأولياء 220/2] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے فرمایا: یہ علم (علم اسناد الحديث) دین ہے، تو تم دیکھو کیسے آدمی سے اپنا دین حاصل کر رہے ہو۔
تخریج الحدیث: «أثر صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 438]»
یہ اثر صحیح ہے۔ اس کی تخریج بھی اثر رقم (399، 433) میں گذر چکی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: أثر صحيح
سلیمان بن موسیٰ نے کہا: میں نے امام طاؤوس رحمہ اللہ سے کہا کہ فلاں آدمی نے اس طرح سے حدیث بیان کی، انہوں نے فرمایا: اگر تمہارا یہ حدیث بیان کرنے والا غنی ہے تو اس سے روایت لے لو۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 439]»
اس اثر کی سند صحیح ہے، اور پیچھے گزر چکی ہے۔ دیکھے رقم (428)۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
امام طاؤوس رحمہ اللہ نے کہا: بشیر بن کعب سیدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آئے اور حدیث بیان کرنے لگے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: پہلی حدیث مجھے دوبارہ سناؤ، بشیر نے ان سے کہا: پتہ نہیں آپ نے میری تمام احادیث کو صحیح جانا اور پہلی حدیث پر انکار کیا، یا اس پہلی حدیث کو صحیح سمجھا اور باقی کو صحیح نہیں جانا؟ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس وقت حدیث بیان کرتے تھے جس وقت آپ پر جھوٹ نہیں بولا جاتا تھا، پھر جب لوگ نرم و گرم میں پڑ گئے (یعنی جھوٹ سچ میں) تو ہم نے آپ سے روایت حدیث ترک کر دی۔ (یعنی جب لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھوٹ منسوب کرنا شروع کر دیا تو ہم احتیاط کرنے لگے اور کہنے والے کے بارے میں چھان بین ہونے لگی)۔
تخریج الحدیث: «إسناده قوي، [مكتبه الشامله نمبر: 440]»
اس روایت کی سند قوی ہے۔ دیکھئے: مقدمہ [صحيح مسلم 12/1]، [تاريخ أبى زرعة 1486]، [الكامل لابن عدي 61/1] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده قوي
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ہم حدیث یاد کرتے تھے تا آنکہ تم نے اس میں ملاوٹ کر دی، اور حدیث تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یاد کی جاتی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 441]»
اس کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: مقدمہ [مسلم 13/1] و [الكامل لابن عدي 62/1] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: قریب ہے کہ شیاطین ظہور پذیر ہوں، جنہیں سلیمان علیہ السلام نے باندھ رکھا تھا، جو لوگوں کو دین کی سمجھ اور فقہ سکھائیں گے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف ليث بن أبي سليم. وهو موقوف، [مكتبه الشامله نمبر: 442]»
اس اثر کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: مقدمہ [صحيح مسلم 7/1]، [الكامل لابن عدي 59/1]، [اللآلي المصنوعة 250/1]، [الفقيه 153/2]، [مصنف عبدالرزاق 20807] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف ليث بن أبي سليم. وهو موقوف
امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے فرمایا: خیال رکھو کہ تم یہ حدیث کس سے یا کیسے آدمی سے لے رہے ہو، کیونکہ یہی تمہارا دین ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 443]»
اس قول کی سند صحیح ہے، جیسا کہ گزر چکا ہے۔ دیکھئے اثر رقم (398، 433)۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 432 سے 443) ان تمام آثار سے معلوم ہوا کہ علم الحدیث والاسانید اصل دین ہے جس کا اہتمام ضروری ہے۔ اور محدّثین کرام رحمہم اللہ روایتِ حدیث میں بہت باریک بینی اور احتیاط سے کام لیتے ہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|