مقدمه مقدمہ 45. باب مَنْ كَرِهَ الشُّهْرَةَ وَالْمَعْرِفَةَ: جس نے شہرت اور خاص پہچان کو ناپسند کیا اس کا بیان
اعمش (سلیمان بن مہران) نے کہا: ہم نے امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کو مجبور کیا کہ انہیں ستون کے پاس بٹھا دیں، لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 535]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [تاريخ أبى زرعه 1997] و [مصنف ابن أبى شيبه 6680] وضاحت:
(تشریح احادیث 529 سے 535) یعنی انہیں کسی خاص جگہ بیٹھنے سے انکار تھا کہ یہ نہ کہا جائے کہ ابراہیم فلاں جگہ بیٹھتے تھے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
مغیرہ بن مقسم سے مروی ہے کہ امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ ساریہ سے لگ کر بیٹھنا ناپسند کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 536]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [طبقات ابن سعد 190/6] اس میں عفان: ابن مسلم ہیں اور ابوعوانہ کا نام وضاح بن عبداللہ ہے اور مغیرہ: ابن مقسم ہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
مغیرہ بن مقسم نے کہا: امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کسی کے طلب کئے بنا حدیث بیان نہیں کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 537]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [جامع بيان العلم و فضله 362]، [طبقات ابن سعد 192/6] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
خیثمہ نے کہا: حارث بن قیس الجعفی جو سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگردوں میں سے تھے، اور لوگ ان پر فخر کیا کرتے تھے، ان کے پاس ایک یا دو آدمی بیٹھتے تو انہیں کوئی حدیث بیان کرنے لگتے تھے، پھر جب ان کی تعداد بڑھ جاتی تو کھڑے ہو کر چلے جاتے اور انہیں چھوڑ دیتے۔ (یعنی زیادہ لوگوں میں شہرت پانا انہیں پسند نہ تھا)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 538]»
اس روایت کی سند صحیح ہے، اور خیثمہ: ابن عبدالرحمٰن ہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
ابراہیم سے مروی ہے جب سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو علقمہ (بن قیس) سے کہا گیا: کاش آپ (ابن مسعود کی جگہ) بیٹھیں اور لوگوں کو (ان کی طرح) سنت کی تعلیم دیں، کہا: کیا تم چاہتے ہو کہ میری ایڑی کچل دی جائے؟ (یعنی اپنے پیچھے آنے والوں سے میں فتنے میں پڑ جاؤں)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 539]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [طبقات ابن سعد 60/6] و [حلية الأولياء 100/2] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سلیم بن حنظلہ نے کہا کہ ہم سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تاکہ بات چیت کریں، جب وہ کھڑے ہوئے تو ہم بھی کھڑے ہو گئے اور ان کے پیچھے چلنے لگے، پس سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ہم سے قریب ہوئے اور ابی رضی اللہ عنہ کے پیچھے جا کر انہیں درے سے ضرب لگائی۔ راوی نے کہا: جسے انہوں نے اپنی کلائی سے روکا، اور کہا: اے امیر المؤمنین! کیا کرتے ہو؟ فرمایا: دیکھتے نہیں (یہ لوگوں کا پیچھے چلنا) متبوع کے لئے فتنہ اور پیچھے چلنے والے کے لئے ذلت و رسوائی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 540]»
اس روایت کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 6366]، [الزهد الكبير للبيهقي 303]، [الجامع لأخلاق الراوي 931] و [حلية الأولياء 12/9] وضاحت:
(تشریح احادیث 535 سے 540) یعنی متبوع جس کے پیچھے چلا جا رہا ہے اس کے فتنے میں پڑنے کا اندیشہ ہے کہ دل میں بڑا پن اور ریاء نہ آ جائے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
منصور (بن المعتمر) سے مروی ہے کہ ابراہیم نے کہا: پیچھے پیچھے چلنے کو (اسلاف کرام) ناپسند کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 541]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [العلم 158]، [مصنف ابن أبى شيبه 5864] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
بسطام بن مسلم نے کہا: امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ کے پیچھے جب کوئی آدمی چلتا تو وہ کھڑے ہو جاتے اور فرماتے: تمہاری کوئی ضرورت ہے؟ اگر اس کی کوئی حاجت ہوتی تو پوری فرماتے، پھر بھی اگر وہ آپ کے پیچھے چلتا تو پوچھتے: کوئی اور حاجت ہے؟
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 542]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [حلية الأولياء 267/2] وضاحت:
(تشریح احادیث 540 سے 542) یعنی وہ اپنے پیچھے کسی کا چلنا پسند نہ کرتے تھے، یہ ان لوگوں کے لئے باعثِ نصیحت ہے جو چاہتے ہیں کہ لوگ ان کے آگے پیچھے حاشیہ برداری کریں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
ابوحمزہ سے مروی ہے ابراہیم نے کہا: اس سے ہوشیار رہو کہ تمہارے پیچھے چلا جائے۔ (یعنی اس سے بچنا کہ تمہارے نقشِ پا پر چلا جائے)۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف أبي حمزة ميمون الأعور، [مكتبه الشامله نمبر: 543]»
اس روایت کی سند میں ابوحمزة میمون الاعور ضعیف ہیں، اور اسے صرف امام دارمی نے ذکر کیا ہے۔ ابونعیم: فضل بن دکین ہیں، (541) پر یہ روایت گذر چکی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف أبي حمزة ميمون الأعور
عاصم بن ضمرہ سے مروی ہے کہ انہوں نے دیکھا کچھ لوگ سعید بن جبیر کے پیچھے چل رہے ہیں، راوی نے کہا: میرا خیال ہے عاصم نے کہا: انہوں نے انہیں اپنے پیچھے چلنے سے روکا اور فرمایا: تمہارا یہ فعل، یا کہا: تمہارا یہ میرے پیچھے چلنا متابعت کرنے والے کے لئے خواری ہے اور (متبوع) جس کے پیچھے چلا جا رہا ہے اس کے لئے فتنہ ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل عاصم بن ضمرة والهيثم بن حبيب الصيرفي، [مكتبه الشامله نمبر: 544]»
اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [الجامع لأخلاق الراوي 932]، [العلم 123]، [مصنف ابن أبى شيبه 6364]، [الزهد للبيهقي 304] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل عاصم بن ضمرة والهيثم بن حبيب الصيرفي
عبداللہ بن عون نے کہا: میں نے محمد (ابن سیرین رحمہ اللہ) سے کھیت میں گھر بنانے کے بارے میں مشورہ کیا، انہوں نے جواب دیتے ہوئے فرمایا: جب تمہارا بنیاد رکھنے کا ارادہ ہو تو مجھے خبر کرنا، لہٰذا جب میں ان کے پاس آیا اور ہم دونوں چلنے لگے کہ اچانک ایک آدمی آیا اور ان کے پیچھے چلنے لگا، محمد رحمہ اللہ کھڑے ہو گئے اور فرمایا: تمہاری کوئی ضرورت ہے؟ اس نے کہا: نہیں، فرمایا: جب کوئی حاجت نہیں ہے تو جاؤ، پھر میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: جاؤ تم بھی جاؤ، لہٰذا میں بھی (انہیں چھوڑ کر) دوسرے راستے سے روانہ ہو گیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 545]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [حلية الأولياء 267/2] وضاحت:
(تشریح احادیث 542 سے 545) ان آثار سے معلوم ہوتا ہے اسلاف کرام شہرت سے اور اپنے پیچھے کسی کے چلنے سے احتیاط برتتے تھے کیوں کہ اپنے پیچھے شاگردوں یا متبعین کی بھیڑ دیکھ کر کبر و غرور کے فتنہ میں پڑنے کا اندیشہ بہت ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
نسیر (ابن ذعلوق) سے مروی ہے ربیع رحمہ اللہ کے پاس جب لوگ (ان کے شاگرد) آتے تو وہ کہتے تھے: میں تمہارے شر سے الله کی پناہ چاہتا ہوں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 546]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [العلم 129]، [زوائد نعيم بن حماد على زهد ابن المبارك 55] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
عبدالرحمٰن بن بشر نے کہا: ہم سیدنا خباب بن الارت رضی اللہ عنہ کے پاس تھے، ان کے شاگرد ان کے پاس آئے اور وہ چپ بیٹھے رہے، کہا گیا: کیا آپ اپنے شاگردوں کو حدیث بیان نہیں کریں گے؟ فرمایا: مجھے ڈر ہے کہ ایسی چیز ان سے بیان کر دوں جس پر خود عمل نہیں کرتا۔
تخریج الحدیث: «في إسناده رجاء الأنصاري وهذا إسناد ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 547]»
اس روایت کی سند حسن کے درجہ کو پہنچتی ہے۔ ابوخیثمہ نے [العلم 16] میں اسے روایت کیا ہے، لیکن ان کی سند ضعیف ہے۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 545 سے 547) قول و عمل میں مطابقت ضروری ہے، اسی کے پیشِ نظر سیدنا خباب رضی اللہ عنہ نے احتیاط کیا کہ قول عمل کے خلاف نہ ہو۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: في إسناده رجاء الأنصاري وهذا إسناد ضعيف
صالح (بن صالح بن حي) نے کہا: میں نے امام شعبی رحمہ اللہ کو کہتے سنا: میری آرزو ہے کاش میں اپنے علم میں برابر سرابر ہی چھوٹ جاؤں، نہ مجھے کچھ ملے (نہ مؤاخذہ ہو) نا گناہ کا مجھ پر بوجھ ہو۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 548]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [المعرفة للفسوي 592/2] وضاحت:
(تشریح حدیث 547) ایسا شدتِ مؤاخذہ کے ڈر سے انہوں نے کہا: « ﴿إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ﴾ [البروج: 12] » ترجمہ: ”بے شک تیرے رب کی پکڑ یقینا بہت سخت ہے۔ “ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
امام حسن بصری رحمہ اللہ سے مروی ہے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ جا رہے تھے کہ لوگ ان کے پیچھے چلنے لگے، انہوں نے فرمایا: میرے پیچھے نہ چلو، قسم الله کی اگر تم جان لو کہ میں کس وجہ سے اپنا دروازہ بند کر لیتا ہوں تو تم میں سے کوئی آدمی میرے پیچھے نہ آئے۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أنه منقطع الحسن لم يدرك ابن مسعود. وابن عون هو: عبد الله، [مكتبه الشامله نمبر: 549]»
اس روایت کے رجال ثقات ہیں، لیکن اس میں انقطاع ہے۔ امام حسن بصری رحمہ اللہ نے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو پایا ہی نہیں۔ حوالہ کے لئے دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 6365]، [المستدرك 316/3] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أنه منقطع الحسن لم يدرك ابن مسعود. وابن عون هو: عبد الله
سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے فرمایا: جس کے پیچھے چلا جا رہا ہے اس کے لئے فتنہ اور پیچھے چلنے والے کے لئے ذلت و خواری ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف محمد بن حميد، [مكتبه الشامله نمبر: 550]»
اس روایت کی سند محمد بن حمید کی وجہ سے ضعیف ہے، اور تخریج رقم (544) پر گذر چکی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف محمد بن حميد
اُمی (بن ربیعہ) نے کہا: لوگ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پیچھے چل رہے تھے، انہوں نے کہا: مجھ سے اپنے جوتوں کی چراہٹ دور رکھو، کیونکہ یہ بے وقوف و عاجز لوگوں کے دلوں کو خراب کر دینے والی (چیز) ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 551]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [جامع بيان العلم 899]، لیکن ابن عبدالبر نے اسے تعلیقاً روایت کیا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
یزید بن حازم سے مروی ہے کہ میں نے امام حسن بصری رحمہ اللہ کو سنا، وہ فرماتے تھے: لوگوں کے پیچھے جوتے چرانا بے وقوفوں کو علم میں اضافے سے باز رکھتا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 552]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [الجامع لأخلاق الراوي 934]، [طبقات ابن سعد 122/1/7]، [زيادات نعيم بن حماد على زهد بن المبارك 50] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
لیث نے بیان کیا کہ امام طاؤوس رحمہ اللہ کے پاس جب ایک یا دو آدمی آ بیٹھتے تو وہ کھڑے ہو کر وہاں سے پرے ہٹ جاتے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف ليث وهو: ابن أبي سليم، [مكتبه الشامله نمبر: 553]»
اس روایت کی سند میں لیث بن ابی سلیم ضعیف ہیں، اور امام دارمی کے علاوہ اسے کسی نے روایت نہیں کیا۔ نیز اسی طرح کی روایت (538) میں گذر چکی ہے۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 548 سے 553) ان تمام روایات سے سلف صالحین کی تواضع اور خاکساری ظاہر ہوتی ہے، انہیں شہرت قطعاً پسند نہ تھی اسی لئے اپنے آگے پیچھے بھیڑ لگانا وہ پسند نہیں کرتے تھے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف ليث وهو: ابن أبي سليم
سیدنا ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی بھی بندے کے قدم (قیامت) کے دن نہ ہٹیں گے یہاں تک کہ اس سے پوچھ نہ لیا جاوے کہ اپنی عمر کس میں گزاری؟ اپنے علم پر کتنا عمل کیا؟ مال کہاں سے کمایا اور کس میں خرچ کیا؟ اور جسم کو کس (کام) میں لگایا؟“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل أبي بكر بن عياش والحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 554]»
اس روایت کی یہ سند حسن ہے، لیکن حدیث کا متن صحیح ہے۔ دیکھئے: [سنن الترمذي 2417]، [المعجم الأوسط 2212]، [مسند أبى يعلی 7434]، [مجمع البحرين 4783] و [مجمع الزوائد 346/10] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل أبي بكر بن عياش والحديث صحيح
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے کہا: قیامت کے دن جب کہ لوگ رب العالمین کے حضور کھڑے ہوں گے، اللہ تعالیٰ بندوں کو چار چیزیں پوچھنے سے پہلے نہیں چھوڑے گا۔ اپنی عمر کیسے گزاری؟ اپنے جسم کس کام میں استعال کئے؟ مال کیسے کمایا اور کس میں خرچ کیا؟ اور جو علم حاصل کیا اس پر عمل کتنا کیا؟
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف فيه جهالة، [مكتبه الشامله نمبر: 555]»
اس روایت کی سند میں فلاں العرنی مجہول ہیں، اور سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ پر موقوف ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف فيه جهالة
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے فرمایا: قیامت کے دن کسی بھی بندے کے قدم نہیں ہٹیں گے یہاں تک کہ اس سے چار چیزوں کے بارے میں پوچھ نہ لیا جائے، اپنی عمر کس میں گنوائی؟ اپنے جسم کو کس میں لگایا؟ اپنا مال کیسے کمایا اور کہاں اس کو خرچ کیا؟ اور اپنے علم پر عمل کتنا کیا؟۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف وهوموقوف، [مكتبه الشامله نمبر: 556]»
اس قول کی سند ضعیف ہے اور موقوف بھی۔ یہ روایت [كشف الاستار 3438]، [الاقتضاء 3] میں موجود ہے، لیکن سند ضعیف ہے، لیکن [الاقتضاء 2]، [تاريخ بغداد 441/11]، [شعب الايمان 1785] میں صحیح سند سے مروی ہے۔ نیز سیدنا ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کی ہم معنی روایت صحیح سند سے گزر چکی ہے، اس لئے معنی کے اعتبار سے یہ روایت صحیح اور موصول ہے۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 553 سے 556) ان روایات سے قیامت کے دن حساب کتاب اور پوچھ گچھ ثابت ہوتی ہے، نیز یہ کہ علم، عمر، جسم اور مال کے بارے میں حساب ہوگا، اس لئے ہر بندے کو ان چیزوں کا خیال رکھنا چاہئے، زندگی اچھے کاموں میں گزر رہی ہے یا نہیں؟ جسم و صحت کو اچھے کام میں لگایا یا نہیں؟ اور مال کہاں سے حاصل کیا، کہاں خرچ کیا؟ اچھے کاموں میں یا لہو و لعب اور منکرات و خواہش میں؟ الله تعالیٰ سب کو سمجھ اور عمل کی توفیق بخشے۔ آمین۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف وهوموقوف
لیث بن ابی سلیم سے مروی ہے امام طاؤوس رحمہ اللہ نے مجھ سے کہا: تم نے جو علم سیکھا اسے اپنے لئے سیکھو کیونکہ لوگوں سے امانت اٹھ گئی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف ليث بن أبي سليم، [مكتبه الشامله نمبر: 557]»
لیث کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے۔ دیکھئے: [المصنف 17086]، [المحدث الفاصل 704]، [حلية الأولياء 11/4]، [جامع بيان العلم وفضله 884-1155] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف ليث بن أبي سليم
عمارة بن مہران سے مروی ہے امام حسن رحمہ اللہ نے فرمایا: میں نے ایسی جماعت کو پایا کہ ان میں کوئی عبادت گزار جب عبادت کرتا تو اس کی گفتگو سے اس کا پتہ نہیں لگ پاتا تھا، لیکن اپنے عمل سے وہ پہچان لئے جاتے، نفع بخش علم یہی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 558]»
اس قول کی سند صحیح ہے، اور اسے صرف امام دارمی نے روایت کیا ہے۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 556 سے 558) یعنی جس علم کے ساتھ عمل ہو وہی فائدے مند ہے، نیز دکھاوا اور ریا و نمود عمل کو ضائع کر دیتے ہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|