مقدمه مقدمہ 46. باب الْبَلاَغِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَعْلِيمِ السُّنَنِ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر تبلیغ اور سنتوں کی تعلیم کا بیان
ابوکبشہ سلولی نے سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرا پیغام لوگوں کو پہنچاؤ گرچہ ایک ہی آیت ہو، اور بنی اسرائیل کے واقعات تم بیان کر سکتے ہو، اس میں کوئی حرج نہیں، اور جس نے مجھ پر قصداً جھوٹ باندھا، اسے اپنے جہنم کے ٹھکانے کے لئے تیار رہنا چاہیے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 559]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسند أحمد 214/2، 159، 202]، [صحيح البخاري 3461]، [ترمذي 2671]، [مصنف عبدالرزاق 10157]، [شرح معاني الآثار 128/4] و [مشكل الآثار 40/1، 169] اس سند میں ابوالمغيرة: عبدالقدوس بن حجاج اور حسان: ابن عطیہ ہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو حکم دیا کہ ”لوگ ہم پر تین چیزوں میں غالب نہ آ جائیں، یہ کہ ہم معروف کا حکم دیں اور منکر سے روکیں اور لوگوں کو سنت کی تعلیم دیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لانقطاعه القاسم بن عوف لم يدرك أبا ذر، [مكتبه الشامله نمبر: 560]»
قاسم بن عوف کا لقاء سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں، اس لئے اس روایت کی سند میں انقطاع ہے۔ دیکھئے: [مسند أحمد 165/5]، [الاعتقاد للبيهقي ص: 154]، لیکن اس کی سند میں بھی ایک راوی مجہول ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لانقطاعه القاسم بن عوف لم يدرك أبا ذر
سلیم بن عامر نے بیان کیا کہ جب ہم سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھتے تھے تو وہ ہمیں بہت بڑی چیز کے بارے میں حدیث سناتے اور فرماتے تھے: سنو اور سمجھو! اور جو ہم سے سنو دوسروں تک پہنچا دو۔ سلیم نے کہا: جیسے کہ انہوں نے جو علم حاصل کیا اس پر گواہ بنا رہے ہوں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 561]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [المعجم الكبير: 187/8، 7673]، [مجمع الزوائد 140/1] و [جامع بيان العلم 726] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
ابوکثیر نے بیان کیا کہ میرے والد نے کہا: میں سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا جب کہ وہ جمرہ وسطی کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، اور لوگ ان کے پاس جمع ہو کر فتوے پوچھ رہے تھے، ایک شخص آ کر ان کے پاس کھڑے ہوئے اور کہا: کیا تم فتویٰ دینے سے باز نہ آؤ گے؟ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے اپنی نظریں اوپر اٹھائیں اور کہا: کیا تم میرے اوپر نگراں ہو؟ اگر تم میری گردن پر تلوار بھی رکھ دو اور مجھے ایک کلمہ کہنے کی بھی مہلت محسوس ہو جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے تو گردن کٹنے سے پہلے میں اس کو ضرور سنا دوں گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 562]»
اس روایت میں ابوکثیر کا نام مختلف فیہ ہے، اور ان کے والد مجہول ہیں۔ دیکھئے: [حلية الأولياء 160/1] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف
ابوالعالیہ نے کہا: میں نے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کسی چیز کے بارے میں سوال کیا، تو انہوں نے فرمایا: اے ابوالعالیہ! کیا تم مفتی بننا چاہتے ہو؟ میں نے عرض کیا: نہیں، لیکن اس سے مامون بھی نہیں ہوں کہ آپ لوگ رخصت ہو جائیں، اور ہم باقی رہ جائیں، فرمایا: ابوالعالیہ صحیح کہتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 563]»
اس روایت کی سند صحیح ہے، لیکن اسے امام دارمی کے علاوہ کسی نے ذکر نہیں کیا۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
ابراہیم سے مروی ہے کہ عبیدہ (بن عمر السلمانی) سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس ہر جمعرات کو حاضر ہوا کرتے تھے اور جو بات سمجھ میں نہ آتی اس کے بارے میں پوچھا کرتے تھے، اس لئے عمومی طور پر ابراہیم کے پاس سیدنا عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ سے جو کچھ تھا وہ وہی مسائل تھے جو عبیدہ ان سے پوچھا کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 564]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 6469] و [طبقات ابن سعد 124/6] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سعید بن یزید نے کہا: میں نے عکرمہ سے سنا، وہ کہتے تھے: کیا بات ہے تم مجھ سے سوال نہیں کرتے ہو؟ کیا تم تھک گئے ہو؟ (اُکتا گئے ہو)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 565]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 1070] و [جامع بيان العلم 744] واضح ہو کہ ایک نسخہ میں «أفشلتم» کے بجائے «أفلستم» آیا ہے یعنی کیا تم کنگال ہو گئے ہو۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
یونس بن یزید سے مروی ہے ابن شہاب زہری نے فرمایا: علم خزانے ہیں اور یہ پوچھنے سے کھلتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «عامر بن صالح هو ابن عبد الله بن عروة متروك الحديث، [مكتبه الشامله نمبر: 566]»
اس روایت کی سند میں عامر بن صالح بن عبداللہ بن عروہ متروک ہیں، باقی رجال ثقات ہیں۔ دیکھئے: [المعرفة للفسوي 634/1]، [حلية الأولياء 362/3]، [جامع بيان العلم 534] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: عامر بن صالح هو ابن عبد الله بن عروة متروك الحديث
جریر (بن عبدالحمید) سے مروی ہے: امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نے کہا: جس نے شرم و حیا کی اس کا علم رقیق ہوا۔
تخریج الحدیث: «إسناد الحديث الأول صحيح واسناد أثر الشعبي صحيح أما اسناد حديث عمر فهو اسناد ضعيف حفص ابن عمر الشامي مجهول، [مكتبه الشامله نمبر: 567]»
اس قول کی سند صحیح ہے، اور اس سند سے یہ روایت کہیں نہیں ملی۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناد الحديث الأول صحيح واسناد أثر الشعبي صحيح أما اسناد حديث عمر فهو اسناد ضعيف حفص ابن عمر الشامي مجهول
امام شعبی رحمہ اللہ نے فرمایا: جس نے شرم و حیا کی اس کا علم رقیق ہوا۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 568]»
اس اثر کی سند صحیح ہے، لیکن کہیں اور یہ روایت نہیں مل سکی، نیز اگلی اور پچھلی روایات بھی اس کی شاہد ہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
حفص بن عمر سے مروی ہے سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جس نے حیا کی اس کا علم رقیق ہوا (کمزور ہوا)۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 569]»
اس روایت میں حفص بن عمر الشامی مجہول ہیں، باقی رجال ثقات ہیں۔ «و انفرد به الدارمي» ۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
مجاہد رحمہ اللہ نے کہا: جو شرم اور تکبر کرے، علم حاصل نہیں کر سکتا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف فيه جهالة، [مكتبه الشامله نمبر: 570]»
اس قول کی سند ضعیف ہے، امام بخاری نے [كتاب العلم، باب الحياء فى العلم] میں تعلیقاً روایت کیا ہے اور ابونعیم نے [الحلية 287/3]، خطیب نے [الفقيه 1008]، سخاوی نے [المقاصد الحسنة 1318] میں ذکر کیا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف فيه جهالة
ہشام بن عروہ نے کہا: ان کے والد اپنے بیٹوں کو جمع کر کے فرماتے تھے: بیٹو! علم حاصل کرو، اگر جماعت میں تم سب سے چھوٹے ہو تو آخر میں تم ہی کبھی دوسروں کے بڑے ہو گے، اور کتنا قبیح ہے وہ شیخ جس سے سوال کیا جائے اور اس کے پاس علم نہ ہو۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 571]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [المحدث الفاصل 68]، [المعرفة 551/1]، [المقاصد الحسنة ص: 261] و [جامع بيان العلم 487] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
عکرمہ (مولی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما) نے کہا: سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما میرے پیر میں بیڑی لگا دیتے اور مجھے قرآن و سنت کی تعلیم دیتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 572]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [المعرفة والتاريخ للفسوي 5/2] و [الفقيه 172] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
یحییٰ بن ضریس نے بیان کیا، میں نے سفیان کو سنا، فرماتے تھے: جو جلدی رئیس ہو گیا وہ بہت سے علم سے محروم رہ گیا، اور جو رئیس نہ ہوا تو وہ علم کی طلب میں رہا یہاں تک کہ بلند مقام کو پہنچا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف محمد بن حميد، [مكتبه الشامله نمبر: 573]»
اس روایت کی سند میں محمد بن حمید ضعیف ہے۔ دیکھئے: [شعب الايمان 1670] میں اس کے ہم معنی روایت موجود ہے، لیکن وہ بھی ضعیف ہے۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 558 سے 573) غالباً اس سے مراد یہ ہے کہ تھوڑا علم حاصل کر کے جو شخص مسندِ درس لگائے وہ بہت سا علم حاصل کرنے سے محروم ہو جائے گا، اس لیے پہلے خوب علم حاصل کرنا چاہیے اور پھر مسندِ درس پر بیٹھے۔ واللہ اعلم قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف محمد بن حميد
حصین بن عقبہ سے مروی ہے، سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جس علم کو پھیلایا نہ جائے وہ اس خزانے کی طرح ہے جسے خرچ نہ کیا جائے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 574]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 16514] و [العلم 12] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس علم کی مثال جس سے فائدہ نہ اٹھایا جائے ایسے خزانے کی ہے جس سے اللہ کے راستے میں خرچ نہ کیا جائے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف إبراهيم بن مسلم الهجري، [مكتبه الشامله نمبر: 575]»
ابراہیم بن مسلم ہجری کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے۔ دیکھئے: [مسند أحمد 449/2]، [مسند البزار 176]، [العلم 162]، [المعجم الأوسط 693]، [مجمع البحرين 229] ان روایات میں بعض سے بعض کو تقویت ملتی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف إبراهيم بن مسلم الهجري
محمد بن اسحاق نے اپنے چچا موسیٰ بن یسار سے بیان کیا: مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ کو لکھا: علم چشموں کی طرح ہے جس پر لوگ وارد ہوتے ہیں، اور وہ سب اس کو کھنگالتے ہیں، اور کئی آدمی اس سے مستفید ہوتے ہیں، اور وہ حدیث حکمت جس کی تبلیغ نہ کی جائے اس جسم کے مانند ہے جس میں روح نہ ہو، اور وہ علم جو پھیلایا نہ جائے اس خزانے کے مانند ہے جس سے خرچ نہ کیا جائے، عالم کی مثال اس آدمی کی سی ہے جس نے اندھیرے راستے میں چراغ رکھ دیا، جس سے ہر گزرنے والے کو روشنی ملتی ہے، اور ہر آدمی اس کے لئے دعائے خیر کرتا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف ابن إسحاق قد عنعن وهو مدلس، [مكتبه الشامله نمبر: 576]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ ابن اسحاق مدلس اور موسیٰ و سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبي شيبه 16515] وضاحت:
(تشریح احادیث 573 سے 576) «اختلج يختلج» کسی چیز کو کھینچ کر نکالنا۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف ابن إسحاق قد عنعن وهو مدلس
ابراہیم نے فرمایا: آدمی اپنی موت کے بعد تین چیزیں چھوڑ جاتا ہے، صدقہ جاریہ، اولاد کی اس کے لئے دعا اور علم جس کو پھیلایا اس کے بعد اس پر عمل کیا جائے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 577]»
اس قول کی سند صحیح ہے، اور ابراہیم پر موقوف ہے، کہیں اور یہ روایت ان سے نہ مل سکی، لیکن یہ الفاظ صحیح حدیث کے ہم معنی ہیں جو آگے آرہی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے سوائے تین چیزوں کے، وہ علم جس سے انتفاع کیا جائے، یا وہ صدقہ جو اس کے لئے جاری رہے، یا وہ صالح اولاد جو اس کے لئے دعا کرتی رہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 578]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [صحيح مسلم 1631]، [مسند أبى يعلی 6457]، [صحيح ابن حبان 3016]، [الكنى للدولابي 190/1]، [شرح السنة للبغوي 139] و [معرفة السنن والآثار للبيهقي 12865] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حسن سے مروی ہے سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ جب بصرہ تشریف لائے تو فرمایا: سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے کہ تم کو تمہارے رب کی کتاب اور تمہاری سنت کی تعلیم دوں، اور تمہارے راستے کو صاف کر دوں۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لعنعنة الحسن البصري، [مكتبه الشامله نمبر: 579]»
حسن بصری کے عنعنہ اور صالح بن رستم کی وجہ سے اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے [مصنف ابن أبي شيبه 5974]، لیکن اس کی سند میں بھی انقطاع ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لعنعنة الحسن البصري
سیدنا سخبرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے علم کو طلب کیا تو جو کچھ گزر گیا اس کے لئے کفارہ ہے۔“
تخریج الحدیث: «هذا إسناد فيه محمد بن حميد وهو ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 580]»
اس حدیث کی سند محمد بن حمید اور ابوداؤد نفیع بن الحارث کی وجہ سے ضعیف ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 2650] وضاحت:
(تشریح احادیث 576 سے 580) ان تمام احادیث و آثار میں علم حاصل کرنے، علم کو پھیلانے اور عام کرنے کی ترغیب ہے، جو الباقيات الصالحات میں سے ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: هذا إسناد فيه محمد بن حميد وهو ضعيف
|