مقدمه مقدمہ 12. باب في سَخَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت کا بیان
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی چیز مانگی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے دینے سے انکار کیا ہو۔ امام دارمی ابومحمد نے کہا: ابن عیینہ نے بیان کیا اگر وہ چیز آپ کے پاس موجود نہ ہوتی تو دینے کا وعدہ فرما لیتے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 71]»
یہ روایت صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [صحيح بخاري 6034] و [صحيح مسلم 2311] و [مصنف ابن ابي شيبة 11859]، [ابويعلى 2001]، [ابن حبان 6386] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے شرم والے تھے، کوئی بھی چیز آپ سے مانگی جاتی آپ اسے عنایت فرما دیتے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف زمعه، [مكتبه الشامله نمبر: 72]»
یہ حدیث اس سند سے زمعۃ کی وجہ سے ضعیف ہے اور ابوالشیخ نے [اخلاق النبى ص: 40] میں اور طبرانی نے [كبير 5920 - 78/6] میں اسی سند سے ذکر کیا ہے لیکن اس حدیث کا معنی و مطلب درست وصحیح ہے جیسا کہ گزر چکا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف زمعه
عبداللہ بن ابی بکر نے عرب کے ایک آدمی سے روایت کیا (غزوہ) حنین کے دن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پریشانی میں مبتلا کر دیا، میرے پیروں میں بھاری جوتے تھے جن سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قدم مبارک دبا دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ میں موجود کوڑے سے سرزنش کی اور فرمایا: ”بسم اللہ، تم نے مجھے تکلیف دیدی۔“ راوی نے کہا میں پوری رات اپنے آپ کو ملامت کرتا رہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھ پہنچایا، الله ہی بہتر جانتا ہے کیسے میری رات کٹی، جب صبح ہوئی تو ایک آدمی پکارتا ہے فلاں آدمی کہاں ہے؟ میں نے سوچا یہ کل کی گستاخی کی وجہ سے پکار ہو رہی ہے۔ میں ڈرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے کل اپنے جوتے سے میرا قدم کچل کر مجھے تکلیف دی تو میں نے کوڑے سے تمہیں سرزنش کی تھی اس لئے لو یہ اسّی بھیڑیں انہیں اس سرزنش کے بدلے لے جاؤ۔“
تخریج الحدیث: «في إسناده مدلسان: عبد الرحمن بن محمد المحاربي ومحمد بن إسحاق ولكن محمد بن إسحاق قد صرح بالتحديث فانتفت شهبة التدليس وأما المحاربي فقد عنعن وإبهام الصحابي لا يضر الحديث فكلهم عدول، [مكتبه الشامله نمبر: 73]»
اس حدیث کی سند میں تدلیس کے علاوہ قابل ردّ اور کوئی علت نہیں، صرف صحابی مجہول ہیں لیکن صحابی کی جہالت بھی ایسی علت نہیں جس سے حدیث کو ضعیف کہا جائے کیونکہ تمام صحابہ عدول ہیں، کہیں اور یہ روایت نہیں ملی۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: في إسناده مدلسان: عبد الرحمن بن محمد المحاربي ومحمد بن إسحاق ولكن محمد بن إسحاق قد صرح بالتحديث فانتفت شهبة التدليس وأما المحاربي فقد عنعن وإبهام الصحابي لا يضر الحديث فكلهم عدول
امام زہری رحمہ اللہ نے کہا کہ جبریل علیہ السلام نے فرمایا: روئے زمین پر کوئی دس گھر ایسے نہیں جن کو میں نے دیکھا نہ ہو لیکن کسی کو بھی میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اس مال کو خرچ کرنے والا نہیں پایا۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أنه مرسل، [مكتبه الشامله نمبر: 74]»
یہ روایت کہیں اور نہ مل سکی اور اس کے تمام رواۃ ثقہ ہیں، اس کو امام زہری رحمہ اللہ نے مرسلاً روایت کیا ہے۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 71 سے 74) ان تمام روایات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت اور جود وکرم کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، صحیحین کی روایت ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ سخی تھے۔ دیکھئے: بخاری (3220)، مسلم (2308)۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أنه مرسل
|